اسلامیات

ہماری نظر اور فکر اللہ کی مرضی کے مطابق ہو

اسلامی شعار میں ایک اہم شعارعالم کے اہل اسلام کے لئے قربانی ہے اسی نسبت سے مسلمانوں کی عیدثانی عید قرباں کے نام سے معروف ہے ہماری جان بھی اللہ کی دی ہوئی ہمارا مال بھی اللہ کا عطیہ  اللہ تعالی نے جو کام کرنے کو کہا اس پر ہماری جان اور مال قربان مسلمان روزہ رکھتا ہے ، ہمارے ملک میں ابھی قریب میں اپریل مئی کے سب سے گرم مہینے میں رمضان کے ایک مہینے کا روزہ گزرا چودہ گھنٹے سے بھی زائد بڑے دن میں مگر مسلمان ہمت نہ ہارا نہ کھانا نہ پینا نہ بیوی سے ہمبستر ہونا اللہ نے اپنی پابندی لگا دی ھم نے بسر و چشم قبول کیا روزہ کا حکم دیا ، بدل و جان تیار ہوگئے عمل کے واسطے کود پڑے ہمارا روزہ صرف اَن چھوڑنے کا نام نہیں یہاں تو ” انا ” (میں ہونا)چھڑایا جاتا ہے اللہ کے حکموں پر قربان ہونا ہمارا شیوہ ہے چنانچہ مال تجارت سونے چاندی اور نقد روپیو ں میں زکوۃ کا حکم دے دیا تو ہم نے اپنے مالوں کی زکوٰۃ نکالنا شروع کر دیا حساب لگا کر چالیس فیصد اللہ کے حکم کے مطابق رسول اللہ ﷺ کے بتانے کے حساب سے اپنی دانست پر کمی نہیں کیا بلکہ مختلف طریقوں سے غرباء مساکین کی زکوۃ و فطرہ کے علاوہ غمخواری اور مدد کا شیوہ اختیار کیا گیا ہم نے یقین کیاکہ مال ہمارا نہیں ہے اللہ کا ہے من مانی نہیں اللہ کی مرضی کے مطابق رسول اللہ ﷺ کی شریعت کے مطابق اس کو خرچ کرنا ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم ، فنوں اور صنعت سکھانے پر ہم نے خرچ کیا غریبوں یتیموں کی تعلیم فنکاری اور صناعی پر خرچ کرنے میں دریغ نہیں کیاتعلیم کے واسطے مساجد مدارس قائم کیا اور اصلاح نفس کے لیے خانقاہیں بنوائیں اس میں بخل نہیں کیا عبادت کے واسطے مدارس مساجد کی تعمیر میں اپنی گاڑھی کمائی خرچ کیا اللہ کے مکان کی صفائی ستھرائی کا پورا نظام قائم کیا مساجد کا عملہ الگ ہے مدارس کے واسطے مستقل افراد ہیں خانقاہوں میں مستقل نظام  ہے نبی کریم ﷺ کی بعثت کے ایک آیت میں تین مقاصد بیان کئے گئے ہیں (1)تعلیم کتاب وہ ہمارے مکاتب کر رہے ہیں (2) تعلیم حکمۃ وہ کام ہمارے دارالعلوم کر رہے ہیں (3) تزکیہ نفوس وہ کام ہماری خانقاہوں سے ہو رہا ہے ہم ان تمام امور کو اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے ادا کرنے کی سعی اور کوشش کرتے ہیں مگر بندے ہیں ، ہم اللہ تعالی کے  حقوق کما حقہ ادا نہیں کرسکتے اس لئے کوتاھی ضروری ہے اس پر استغفارکا اہتمام کرتے رہیں اللہ تعالی نے معافی کا وعدہ فرمایا ہے
اللہ تعالی نے قرآن کریم میں حج کا حکم دیا رسول اللہ صلی علیہ وسلم ، ازواج مطہرات ، صحابہ کرام ، تابعین ، تبع تابعین ، ائمہ ، محدثین اور افراد امت نے مال کے ہونے پر حج کا فریضہ ادا کیا اور کر رہے ہیں آج بھی مسلمان حج اور عمرے کا شیدائی ہے کہ لاکھ لگے گا اس کی پرواہ نہیں بلکہ حج اور زکوۃ صدقات خیرات کر کے خوش ہوتا ہے بار اوربوجھ محسوس نہیں کرتا بلکہ نفلی صدقات کے لیے بھی ہاتھ کو کشادہ رکھتا ہے کہ تجارت کو انبیاء کی سنت سمجھ کر  کرتا ہےاپنے بال بچوں پر خدا و رسول کا حکم سمجھ کر خرچ کرتاہے یہ سب مالی عبادت ہے نماز جانی عبادت ہے فرائض پنجگانہ جمعہ عیدین اشراق چاشت ، اوابین ، تہجد ، نماززوال ، تحیۃ الوضو ،تحیۃ المسجد ، صلوۃ التسبیح ، نماز توبہ ، نماز استخارہ ، نماز سفر ، نماز کسوف (سورج گرہن) ، نماز خسوف (چاند گرہن) کے موقع پر ذکر و تلاوت سب جانی عبادت ہے اسی طرح مسلمان  اپنے مال اور جان کو اللہ کی عبادت میں لگا کر ہمہ وقت اللہ کی بندگی کرتا رہتا ہے ہاتھ ، پیر ، آنکھ ، زبان ، کان وغیرہ کو اللہ کی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے گناہ کے کاموں میں نہ اعضاء وجوارح کو استعمال کرتا ہے نہ مال اور خزانے کو ، اگر غلط استعمال کرتا ہے تو اس کو خدا کا نافرمان کہا جاتا ہے اور اس کو توبہ و استغفار کی تلقین کی جاتی ہے اور کلمہ ، ذکر و عبادت میں تاحیات لگے رہنے کی تاکید حمکت و موعظت کے ساتھ ہوجاتی ہے  قربانی بھی اسلام کا ایک شعار اور مالی عبادت ہے کہ جانور خریدنے میں مال لگانا ہوتا ہے اور جانور بھی تو ہمارا مال ہی ہے قربانی  تمام انسانوں کے باپ آدم علیہ السلام کے زمانہ سے چلی آ رہی ھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام سے تو بیٹے کی قربانی کا مطالبہ ہوا عجیب امتحان تھا مگر وہ اس امتحان میں اول نمبر سے بھی آگے کامیاب ہوئے اور ان کے تو کئی امتحان ہوئے قر آن کہتا ہے کہ اس میں وہ مکمل طور پر کامیاب ہوئے اور پورے اترے تمام مذاہب کے پیروکار ابراہیم علیہ السلام کو اپنا بڑا مانتے ہیں ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے بھی اسی دل گردہ کے تھے دونوں حکم ربانی پر راضی ہوگئے یہ کوئی آسان کام نہ تھا مگر ان دونوں حضرات کے لئے بہت آسان ہوا امتحان پورا ہوا انجام سب کو معلوم ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کے صاحبزادے عرب کے باپ یہ کوئی معمولی نہ تھے ان کو دماغ کی خرابی کا جنون نہیں تھا یہ تو محبت و عشق الہی کے مجنون اور شیدا تھے ؂
خلیل مست ئے جنون تھے مگر یہ ان سے کوئی تو پوچھے رضاۓ حق کی چھری کے نیچے
حیات آئی کہ موت آئی
ان کا جوکام تھاانہوں نے کیا اور اللہ کا جو کام تھا اللہ نے کیا انہوں نے تو اپنی سب تیاری کر کے کام پورا کیا مگر اللہ نے امتحان لے کر فدیہ اسماعیل میں مینڈھا ذبح کروادیا یہی سنت آج تک جاری ہے  اسی لیے نبی کریم ﷺ نے قربانی کو سنۃ ابیکم ابراھیم فرمایا یہ بابا ابراہیم کی سنت ہے نبی اکرم ﷺ نے حج کے موقع پر سواونٹوں کی قربانی کیا نبی اکرم ﷺ نے اپنی ازواج کو حق مہر خاصی مقدار میں دیا یہ بھی عبادت ہے اس لئے آج ہماری زبانوں پرمہنگائی کے تذ کرہ کے بجاۓ سنت رسول اللہ کی شیدائیت کا تذکرہ اور اس کے مطابق عمل ہونا چاہئےالبتہ مذہبی کام کرتے ہوئے اس کا بھی خیال ر ہے کہ صفائی ستھرائی کی خلاف ورزی نہ ہو بلاوجہ اذیت رسانی نہ ہو انسانیت کی حدوں کو پار نہ کیا جائے پہلے زمانہ میں بلکہ زمانہ قریب میں  تمام بچے اور کھائے ہوئے اجزاء کے دفن کا معمول رہا ہے اس سنت  ابراہیمی کے ادا کرنے میں سب سے پہلے واجب کی ادائیگی کی فکر ہو اور علماء سے پوچھ پوچھ کر جس  جس پر واجب ہو اس کو خود انجام دے یا کسی کو وکیل بنائے اگر وکیل نہیں بنایا یا کسی نے قربانی کر دیا تو واجب ادا نہ ہوگا بلکہ وہ قربانی نفلی ہو جائے گی یہی صحیح  مسئلہ ہے  البتہ بیوی اور بعض خاص لوگوں کی توکیل کے بعد جب عادت ہوجاتی ہے تو اذن حالی معتبر ہوجاتا ہے واجب کی ادائیگی کے بعد نفلی قربانیوں کا اپنی ہمت و سعت کے لحاظ سے اہتمام کریں نفلی قربانی بھی عبادت ہے اور قربانی کے ایام میں قربانی سب سے اہم عبادت ہے ذی الحجہ کے شروع کے نودنوں کے روزے بالخصوص نویں تاریخ کے روزہ کا اہتمام بہت فضیلت کا حامل ہے اسی طرح عشرہ ذی الحجہ کی راتوں میں عبادت لیلۃ القدر کی سی عبادت کا ثواب رکھتی ہےالبتہ لیلۃ القدر کچھ اور ہی شئی ہے بس اب اللہ تعالیٰ سے توفیق عمل بآسانی اور اس کی رضا اور اخلاص کے طالب  ہیں اللہ تعالی ہم سب کو عطا فرمائیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×