اسلامیات

اپنے اور امت کے ساتھ خیر خواہی کریں

اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو عالم گیر انسانی خدمت واصلاح عالم کے لئے برپا کیا ہےاور اس ذمہ داری کے ساتھ خیر امت کے شرف سے مشرف فرمایا ہے, چنانچہ جس نے اپنی اور امت مسلمہ کی اصلاح کا بیڑہ اٹھایا وہ خیر امت کے زمرہ میں شامل ہوگیا, جو اس فریضہ سے غفلت برتا وہ خیر امت کے عظیم شرف سے محروم ہوگیا, حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ارشاد مبارک ہے جو شخص خیر امت کی فضیلت کا مستحق بننا چاہتا ہے اس کو چاہئیے کہ وہ دو باتوں پر عمل کرلے ایک امر بالمعروف اور دوسرا نھی عن المنکر معلوم یہ ہواکہ خیر امت میں شمولیت کے لئے یہی دوشرطیں ہیں –
یہ حقیقت ہے کہ اس امت میں خیر اس وقت تک باقی رہے گی  جب تک امتی بھلائی کا حکم اور برائی سے منع کرتی رہے گی, جب امت اس فریضہ سے تساھل برتے گی خیر کے بجائے شروفساد, آلام ومصائب اس کا مقدر بن جائیں گی ,قرآن مجید کی وہ آیتیں جس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تاکیدی حکم ملا ہے اگر ہم اس میں غور کریں گے تو یہ نکتہ ہمارے ذہنوں پر عیاں ہوگا کہ یہ صرف ہمارا فرض منصبی ہی نہی بلکہ مقصد تخلیق بھی ہے, آگے بڑھ کر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس امت کے وجود وبقا اور اس کے قیام کا انحصار بھی انہی دوچیزوں پر ہے جب تک امت اپنا فرض منصبی پورا کرتی رہے گی اپنا تشخص وشناخت برقرار رکھ پائے گی, جب عیش کوشی میں پڑکر اپنا فرض منصبی بھلا بیٹھے گی وجود تو کیا شناخت بھی کھو بیٹھے گی –
نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم  نے حدیث مبارکہ میں بڑی تاکید  کے ساتھ ہم پر اس بات کو لازم کیا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہا کرو بلکہ اس کو اپنے اوپر لازم کرلو اگر تم اس سے کوتاہی کروگے اللہ تعالیٰ تم پر کوئی عذاب بیھج دے گا پھر تم اپنے رب سے فریاد کروگے تمھاری فریاد نہیں سنی جائے گی, تم دعائیں مانگو گے تمھاری دعائیں قبول نہیں کی جائے گی –
قرآن و سنت میں اس عنوان کو لیکر تین کام امت مسلمہ کے ذمہ کئے گئے ہیں: ایک اپنی ذات کی اصلاح دوسرا اپنے اھل وعیال کی اصلاح تیسرا امت کی اصلاح, امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں ابتدا اپنی ذات سے کرنا ہے پھر اپنے اھل وعیال کی فکر کرنا ہے اس کے بعد یعنی اپنی ذات اور اھل وعیال کو اچھے کردار کا حامل بناکر امت کے سامنے بطور نمونہ کے پیش کرنا ہے
آج بے شمار تنظیمیں, ادارے, رسائل وجرائد امت کی اصلاح کے لئے کوشاں ہیں مگر "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی "کے مصداق ہے حالانکہ قرآن پاک کا وعدہ ہے جو دین کی خاطر سعی خالص کریگا اللہ کے یہاں اس کی سعی کی ناقدری نہیں ہوگی اللہ تعالیٰ تو عمل قلیل کی بھی قدر کرکے اس کے لئے کامیابی وکامرانی کے راستے نکال دیتے ہیں باوجود اس کے ہمیں کوئی راستہ نکلتا ہوا نظر نہیں آتا آخر وجہ کیا ہے ؟قرآن مجید میں غور کرنے سے معلوم ہوگا امت کے طریقہ اصلاح میں نمایاں کردار حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کارہاہے اور ان کا طریقہ کار ہی اصلاح معاشرہ کا اصل الاصول ہے اور وہ یہ ہے کہ اصلاح کی ابتدا اپنے اھل وعیال سے ہو اور یہی طریقہ کار حضرات اولیاء کرام کا بھی رہاہے پہلے اپنی ذات پھر اھل وعیال اس کے بعد امت کی اصلاح ,اس مبارک کار نبوت کو اپنانے میں بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ امت کے سامنے داعی اور اس کے اھل وعیال کی ذوات کا کردار  آئینہ ہوتا ہے دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہیکہ داعی کے قوت عمل سے زبان میں قوت تاثیر پیدا ہوتی ہے اور یہی تاثیر امت کے لیے جذبہ عمل کا ذریعہ بنتی ہے –
آج ہم معاشرہ کا جائزہ لیں گے تو ہر شخص دوسرے کی اصلاح کا متمنی نظر آئے گا یہ اس وقت کا سب سے بڑا المیہ ہے یا یہ کہ اپنی ذات کی فکر تو ہے لیکن اھل وعیال اور امت کی اصلاح کی کوئی فکر نہیں ہے یہ بھی ایک بہت بڑے خسارہ کی بات ہے, ایسے لوگوں کا مزاج اپنے کو بدی سے دور رکھنا اور اپنی بھلائی پر قناعت کرکے مطمئن ہوکر بیٹھ جانا ہوتا ہے یہ خود غرضی ہی نہی بلکہ خود کشی بھی ہے, اگر اپنے کو خیر امت میں شامل کرنا چاہتے ہیں تو ان تینوں ذمہ داریوں کو اپنی اپنی بساط کے مطابق پورا کرنا پڑیگا –
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کا دل امت کی اصلاح کے لئے بےقرار رہتا ہے لیکن ان کے سامنے نہج نہیں ہوتا ہے, اس سلسلہ میں قرآن وحدیث کی تعلیمات موجود ہیں اگر امر بالمعروف میں حکمت ,حسن تدبیر, موقع شناسی, وقت شناسی, مزاج شناسی کا لحاظ رکھ لیا جائے اور نھی عن المنکر میں ان تین درجات کو پیش نظر رکھا جائے جو حدیث میں بیان کئے گئے ہیں تو اومر ونواھی کی یہ ذمہ داری بحسن و خوبی اپنے انجام تک پہنچ سکتی ہے اور امت میں اس کے اچھے نتائج برآمد ہوسکتے ہیں –
لیکن افسوس کی بات ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جو ذمہ داری امت مسلمہ کے کاندھوں پر ڈالی گئی ہے امت کا ایک بڑا طبقہ اس سے ناواقف ہے اورجو واقف ہیں ان میں اکثر لوگ اس فرض منصبی سے اپنے آپ کو کنارہ کش رکھتے ہیں اس جرم کی پاداش میں امت پر جو بھی حالات آئیں حدیث کی رو سے وہ حق بجانب ہیں۔

آج امت جس زبوں حالی کی شکار ہے, زمین اپنی وسعتوں کے باوجود تنگ محسوس ہورہی ہے, امت کا کوئی ہمدرد بہی خواہ نظر نہیں آتا ہے, خون مسلم کی وقعت اغیارکے پالتو جانوروں سے کمتر سمجھی جارہی ہے, اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشین عروج پر ہیں, شعائر اسلام کو مٹانے کی منصوبہ بندیاں چل رہی ہیں,قوم مسلم کے لیے مذبح ومقتل تیار ہورہے ہیں,ان کی شناخت مٹانے کی چالیں چلی جاچکی ہیں یہ ساری مصیبتیں چشم فلک سے مخفی نہیں ہے, کیا کبھی ہم نے غور کیا ہے ان حالات کے کیا اسباب وعلل ہیں, ہمارے مشفق ومہربان نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم نے ڈیڑھ ھزار برس پہلے آگاہی دے دی تھی کہ امت اپنی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری سے پہلو تہی اختیار کرے گی امت پر آفت ومصیبت کے بادل منڈ لائیں گے, امت مختلف قسم کے آزمائشوں سے دوچار کی جائیگی اور جس دن یہ دونوں کام ان کے اصولوں پر کئے جائیں گے وہ دن مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی بحالی کا دن ہوگا پھر ایسا صالح معاشرہ وجود میں آئیگا جس سے خیر القرون کی یاد تازہ ہوجائی گی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×