اسلامیات

کیا آپ کے گھر تلوار ہے؟

عنوان پڑھ کر فیصلہ لینے میں جلدی مت کیجیے!یہ سوال میرا نہیں ہے؛ بلکہ اسکو ل میں پڑھنے والے ایک کم سن غیرمسلم اسٹوڈنٹ کا ہے جو بھوک کی شدت کی وجہ سے (ریفرش منٹ بننے میں تاخیر کے سبب) اسکول کی آفس پہنچااوروہاں موجود ایک مسلم ذمہ دار سے بے ساختہ عرض کیا کہ سر! بہت زور کی بھوک لگی ہے آپ کے پاس کھانےکے لیےکوئی پھل ہے ؟انہوں نے فوری طور پر رکھےہوئےپھلوں میں سے ایک سیب اٹھایااور اس کےٹکڑے بناکر لڑکےکے سامنے پیش کردیئے، جب اس کو بھوک کی شدت سے کچھ راحت ملی تو اس نے مخصوص انداز میں سوال کیاکہ سر! آپ کے گھر میں تلوار ہے ؟ان مسلم ذمہ دار صاحب نےجواب دیا :بیٹا ہمارے پاس ایسی کوئی چیز نہیں رہتی۔ اس پر اس نے برجستگی سے یہ بات کہی کہ سر !ہم نے بہت مرتبہ یہ بات سنی کہ مسلمانوں کے گھرہمیشہ تلوار ہوتی ہے۔
حال ہی میں پیش آمدہ اس واقعہ اورایک کم عمر غیرمسلم لڑکے کے اس سوال نے مجھے جھنجوڑ کر رکھ دیا ۔ ہمارے لئے اس میں عبرت کاسامان بھی ہے اوراپنے مذہب کی تعلیمات کی نشرواشاعت میں کوتاہی کو لیکر ایک سبق بھی۔ جس مذہب نے سمندر کے کنارہ بیٹھ کر اسراف سے منع کیا وہ مذہب ناحق خون بہانے کاحکم کیسے دے سکتا ہے؟جس مذہب نےجانوروں اور پرندوں پر ظلم و زیادتی کو روا نہیں رکھا وہ انسانیت پر ظلم کی کہاں اجازت دے سکتا ہے؟۔امن وشانتی،احترام انسانیت کی تعلیم جتنا مذہب اسلام نے دی ہے کسی اور مذہب میں اس کی نظیر ملنی مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سلامتی کے علم برداراور ان کا لایا ہوا مذہب امن وا مان کا گہوارہ ہے۔ جس نبی نے وطن سے بے وطن کرنے والوں کو،سرتاپاخون سے لہو لہان کر نے والوںکو ، جانی دشمنوں کو،اوجھڑی ڈالنے والوں کو، اپنی دونوں بیٹیوں کو یکلخت طلاق دینے والوں کو اپنے دامن عفو میں جگہ دی‘ کیا ایسا نبی انسانیت پر ظلم و زیادتی اور قتل و غارت گری کا حکم دے سکتا ہے ؟لیکن ہمارے کچھ غیر مسلم بھائی ، کچھ اسلام دشمن عناصر اور متعصب تنظیمیں اسلام اور پیغمبر اسلام کی کشادہ ظرفی اور اسلام کی حقانیت سے آشنا ہونے کے باوجود شپرہ چشمی سے کام لیتے ہوئے اپنی تنظیمی نظریات کی تشہیر پر بلا تکان کام کررہی ہیں یہی وجہ ہے کہ معصوم ذھنوں میں تک اسلام کی غلط تصویر بٹھانے میں کامیاب ہوتے جارہے ہیں،یہ لوگ غیر مسلم معصوم بچوں کو آیات قتال کا حوالہ دےکر او ر اسکا خود ساختہ معنی سمجھا کر، اسلام اور مسلمانوں کے تئیں دہشت زدہ کررہے ہیں۔
دوسری طرف اس واقعہ میں ہمارے لئے یہ سبق ہے کہ وہ مذھب جس کی بنیادجھوٹ پر ہے ، جس کاخمیر تعصب اور اسلام دشمنی سے اٹھاہےاس کے پرستار لوگ اپنے مذھب کے پرچارمیں اوراس کی تنظیمیں اپنےنظریات کو روبہ عمل لانے ہمہ تن مصروف ہیں بلکہ اپنے نظریات کے مطابق ملک کا جمہوری ڈھانچہ بدلنے کی جدوجہد میں لگی ہوئی ہیںاور بڑی حدتک کامیاب بھی ہورہی ہیں (خدا! ملک وملت کی حفاظت فرمائے۔آمین) لیکن ہمارا مذھب جو سچ کی بنیادوں پر قائم ہے، دنیا میں امن و امان کا پیامبر ہے،نہ ہم اس کی تعلیمات غیروں تک پہنچاتے ہیں نہ اپنے حسن کردار سے ان کو متاثر کرتے ہیں نہ اپنے عقائد کی حفاظت کرتے ہوئے ان سے اختلاط رکھتے ، نفرت کی ایک خلیج ہے جو ہمارے اور ان کے مابین پیدا ہوچکی ہے جس کو پاٹنے کی ضرورت ہےجو قوم اپنی نرم دلی وقوت ارادی میں کمزوری کے سبب ہر اچھنبے کو اپنا معبود ومسجود بنانے کے لئے تیار ہوجاتی ہے کیا ہم اس قوم کی رقت قلبی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلام کی آبیاری نہیں کرسکتے ؟اپنے حسن عمل وحسن اخلاق سے متاثر نہیں کرسکتے ؟ایسا لگتا ہے کہ ہم خود غیروں سے کٹے ہوئےہیں اور وہ ہمیں تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں، ہم اسی تشدد کو لیکر متصادم ہیں۔کیا ہمارے سامنے نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا غیروں کے ساتھ اسوہ حسنہ کی مثالیں نہیں ہیں؟ کیا ہمیں پتہ نہیں ایک اعرابی نے آپ کی چادر مبارک اس زور سے کھینچی گردن مبارک پر نشان پڑگئے؟ اس نے بڑی نازیبا گفتگو بھی کی نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے اس بدوی کی تلخ نوائی کو بھی دامن عفو میں جگہ دی، زید بن سعنہ یہودی قبل از وقت ہی اپنے قرض کا مطالبہ لے کر دراقدس پر آگیا شان نبوت میں گستاخی کرنے لگا دربار میں بیٹھے اصحاب کو بڑا ناگوار گزرا لیکن آپ نے اپنے مکارم اخلاق سے اس کو مقدار سے زیادہ عنایت فرمایا ہوا یہ کہ یہی کردار اس کے ایمان لانے کا ذریعہ بنا۔
حضرت عطاء اللہ شاہ بخاری جالندھر کے اجلاس کے اختتام پر ایک عیسائی کو دیکھا اس سے کہا کھانا کھالو اس نے کہا بھنگی ہوں شاہ صاحب درد بھرے لہجہ میں ارشاد فرمایا انسان تو ہونا بھوک تو لگی ہے نا پھر خود ہی اٹھے اس کا ہاتھ دھلایا لقمہ بناکر اس کے منھ میں رکھا ایک آلو لیا اس کے منھ میں رکھا جب وہ کتر لیا تو بچا آلو خود کھالیا، پانی پلایا بچاہوا پانی خود نوش فرمالیا اس اخلاق کریمانہ نے اس نوجوان عیسائی پر اتنی گہری چھاپ چھوڑی وہ اپنے گھر گیا بیوی بچوں کو ساتھ لایا شاہ صاحب سے کہنے لگا شاہ جی! محبت کی جو آگ لگائی ہے اسے
خود ہی بجھاؤ خدا کا واسطہ کلمہ پڑھاکر مسلمان کرلو ملک کی موجودہ سنگین صورتحال میں یہ ضرورت اشد ہوجاتی ہے کہ ہم غیروں سے اپنے روابط بحال کریں، اپنی تقاریب میں ان کو مدعو کریں، اپنے عقائد کو متاثر کئے بغیر ان کی تقاریب میں شرکت کریں، کبھی پڑوسی غیر مسلموں کو اپنے دستر خوان پر بلا لیا کریں، تحفہ تحائف کا تبادلہ کریں، اس سے محبتوں میں اضافہ ہوگا،دینی مقامات کا معائنہ کروائیں،اپنے دروازوں کو ان کے لئے کھلا رکھیں، مسلمان جس شعبہ میں بھی کام کرتے ہوں اپنے حسن عمل وحسن کردار سے ساتھی غیر مسلموں کو متاثر کرنے کی کوشش کریں، اسلام سے باخبر حضرات بڑی سنجیدگی کے ساتھ اسلام کی پر امن تعلیمات اور نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کا اسوہ حسنہ بتلائیں، ان کاموں سے غیر مسلم برادران وطن کا ذہن کسی حد تک صاف ہوگا ،نفرت کی دیواریں منہدم ہوں گی ،کم ازکم تشدد کا خاتمہ تو ہوگا اور جو لوگ دیدہ ودانستہ ہٹ دھرم، متعصب کفر پر اٹل ہیں ان کے لئے تو پیغام رسانی ہمارا کام ہے باقی ایسے لوگوں کے لئے قرآن کا فیصلہ ہے ختم اللہ علی قلوبھم وعلی سمعھم وعلی ابصارھم غشاوۃ خدا! اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو سلامت رکھے شعائر اسلام اور مسلمانوں کے آبرو اور ان کے تشخص کی حفاظت فرمائے آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×