سیاسی و سماجی

ووٹ : شرعی فریضہ،اور ملی ضرورت

اس وقت ملک کے بعض ریاستوں میں انتخابی کروائی ہوئی ہے، اور ہونے والی بھی ہے، ایسے موقعوں پر ملک کے ہر باشندے کو بحیثیت شہری رائے دہی کاحق حاصل ہے ،اگر مسلمان ہوتو اسکی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے ،اس سلسلہ میں کسل پسندی ، لاپرواہی یاووٹ کانہ استعمال کرنا ملک وقوم کے حق میںناانصافی ہے ،اورشرعیت کی نگاہ میںجرم عظیم ہے ،نہ صرف یہ کہ ووٹ کا صحیح استعمال بھی از حد ضروری ہے،ہم سب کو بالخصوص امت مسلمہ کوووٹ ڈالنااور صحیح فرد کو ڈالنا بہر صورت واجب الامرہے ،چونکہ ووٹ کا صحیح استعمال صحیح امیدوار کے انتخاب میں کلیدی اور بنیادی کردار ادا کرتا ہے،ووٹ کے غلط اور صحیح استعمال کی صورت میں نتائج بھی مثبت ومنفی آتے ہیں ، جسکا سامنا ہرفرد کو کرنا پڑتا ہے ، لہذا اس بات کو یقینی بنانے کیلئے ایسے امیدوار کا انتخاب ہو جو ملک وقوم کے حق میںمفید رساں ہواور یہ ممکن ہے ووٹ کے صحیح استعمال پر،سب سے اول امیدوار میں دیانتداری اور کام کی اہلیت کا ہونا ضروری ہے ، اور یہی وہ دو چیزیں ہیں جسکو حضرت یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر کے سامنے ملک وقوم کی سلامتی غرض سے رکھی ہے ، قال اجعلنی علی خزائن الارض انی حفیظ علیم (یوسف)اور پنے آپ کو پیش کیا ،انہیں دو خوبیاں کاہر امیدوار میں ہونا ضروری ہے ،اور اسی اساس پر ہمارا انتخاب بھی ہو ، بصورت دیگر کام کی نااہلی اور قومی خزانے میں بدیانتی شروفساد اور قتل وقتال کا ماحول پیدا کرتا ہے، جو نااہل کو ووٹ ڈالنے کی صورت میں ہوتا ہے ،اس لحاظ سے ووٹ ڈالنا ایک شرعی فریضہ اور ملی ضرورت ہے۔ علماء نے ووٹ کی مختلف حیثیتیں لکھی ہیں ۔
شہادت: سب سے پہلی چیزگواہی ہے ،ووٹ دہندہ امیدوار کے حق میں گواہی دے رہا ہے کہ وہ اس کام کے لائق ہے، اور گواہی اسی سے لی جاتی ہے جو عاقل بالغ ہو ، نیز گواہی دینے میں یہ بات ضروری ہے کہ گواہی صحیح صورت ِ حال سے واقفیت کی بنیاد پر ہو، جھوٹ کا سہارا نہ لے ،نبی ﷺنے جھوٹی گواہی کو اکبر الکبائرفرمایا ان من اکبر الکبائر ۔۔۔۔الخ وشہادۃ الزور، اور ایک موقع پر جھوٹی گواہی کو شرک کے ہم پلہ بتلایا ہے ، اور یہ آیت تلاوت فرمائی فاجتنبواالرجس من الاوثان وجتنبوا قول الزور، اس رَو سے ہر ووٹ کا درست استعمال کرنا معلوم ہوتا ہے ۔
شفاعت:دوسری چیز امیدوار کی حیثیت سفارشی کی سی ہے ،جو پوری قوم کیطرف سے قوم کے مسائل کی ایوان بالا میں سفارش کرتا ہے، اب جو آدمی بھی اپنے مقام سے اس کو منتخب کرکے بھیجتا ہے گویا وہ بھی اس کے ہر کام میںمعناًشریک کار ہے،اور اچھی سفارش کرے گااسکا ثواب ووٹر کو بھی ملے گا، قرآن مجید میں ارشاد باری ہے من یشفع شفاعۃ حسنۃ یکن لہ نصیب منھااور اگر کوئی بری سفارش کرے تو اسکا وبال بھی اسی ووٹر کے بھی سر آئیگا ومن یشفع شفاعۃ سیئۃ یکن لہ کفل منھا ،مفتی شفیع صاحب ؒ نے لکھا ہے کہ اچھی سفارش کا مطلب یہ ہے کہاپنے ووٹ کے ذریعہ قابل اور کام کی اہلیت والے امیدوار کا انتخاب کرے ، اور بری سفارش کا معنی یہ کہ نا اہل ،نالائق ،ظالم کی سفارش اپنے ووٹ کوذریعہ سے کرے (معارف القرآن ۴۹۸/۲)لہذا معلوم ہوا جو آدمی ملک وقوم کے حق میں خیر خواہ ہو اسی کو چنے ۔
وکالت :تیسری چیز جو امیدوار میں ہوتی ہے وہ ہے قوم کی وکالت ، اگر کوئی آدمی اپنے ذاتی اور نجی معاملہ میں کسی کو اپنے کام کا وکیل اور نمائندہ بناتا ہے تو دو باتیں دیکھتا ہے اول یہ کہ اسمیں کام کی اہلیت ہے یا نہیں، دوم یہ کہ ہے اس کام سے دلچسپی ہے یا نہیں ،اسی بات کو صاحب ِ ہدایہ وقدوری نے وکالت کی شرط میںلکھی ہے ویشرط ان یکون الوکیل ممن یعقل العقد ویقصدہ ( ہدایہ بحوالہ نفائس الفقہ ) مفتی کفایت اللہ صاحب ؒ فرماتے ہیں جب مسلمانوں کے ووٹ سے کوئی سیاسی مجلس وجود میں آتی ہوتو ایسے امیدوار کو ووٹ ڈالنا چاہئے جو اس کام میں ماہر اور اہل ہو،(کفایت المفتی ج ۹)جب ذاتی معاملہ میں اس قدر چھان بین ہو تو ملک وملت کے کام میں بدرجہ اولی ٰ اسکا لحاظ رکھنا ضروری ہے،ذات کانفع ونقصان محدود اور ملک وملت کا نفع ونقصان لا متناہی ہوتا ہے ، اس لئے جس امیدوار کو بھی منتخب کرے جانچ لے ،آیا وہ ملک وملت کے حق میں کیا ارادے وعزائم رکھتا ہے ۔
امیدوار کی ایک اور حیثیت:ایک چوتھی حیثیت امیدوارکی تعاون وتناصر کی ہے رائے دہندہ اپنے ووٹ کے ذریعہ اپنے بھائی کی ایک بڑے کام میں مدد کررہا ہے ، لہذاووٹ ڈالنے سے قبل اس بات کو دیکھ لے کہ کیسے شخص کی مدد کررہاہے ، اگر کوئی شخص اپنے کسی بھائی کی مدد کسی اچھے کام میںکرتا ہو اور اسمیں کسی درجہ بھی شریک ہو تو اس کا ثواب بھی ہر ایک کے برابر کا ملیگا،اور اس بات کی ترغیب دی گئی ہے ارشاد ربانی ہے وتعاونوا علی البروالتقویاور اگر کوئی برے ارادے اورفسادِنیت کے ساتھ ہمارے ووٹ کے ذریعہ بر سراقتدا رآئے تو ایک معنی میں ہم نے انکو مدد فراہم کی جس سے بچنے کی تاکیدکی گئی ہے ولا تعاونوا علی الاثم والعدوان ، علامہ ذہبی ؒ نے حضرت مکحول ؒ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ قیامت کے دن ندا دی جائیگی کہ ظالم اور ان کے مددگار کہاں ہے ؟ پس جس نے لکھنے سیاہی پیش کی ہوگی یا دوات میں سیاہی ڈالی ہوگی یاقلم چھیل کردیاہوگا یا ایسا کام کیا ہوگا جس سے ظلم پر اعانت ہوتی ہے ان سب کو جمع کیا جائیگا اور آگ کے بنائے ہوئے تابوت میں رکھ کر جہنم میں ڈالدیا جائیگا۔(الکبائر للذھبی /نفائس الفقہ)
ووٹ ڈالنے کا شرعی حکم: سطورِ بالا سے معلوم ہوگیا کہ ووٹ کی ایک حیثیت شہادت کی بھی ہے،چنانچہ گواہی کے متعلق قرآن مجید میں کیا حکم کیا گیا ؟اس سلسلہ میں حکم یہ کہ جس طرح جھوٹی گواہی دینا حرام ہے اس طرح سچی گواہی دینا بھی واجب ہی نہیں بلکہ حکم ربانی ہے واقیموا الشھادۃ للہ اللہ کے واسطے گواہی قائم کرو ایک دوسرے مقام پر یوں ارشاد ہوا کونوا قوامین للہ شھداء بالقسط(المائدہ)کہ اللہ کیلئے انصاف وحق کے ساتھ کھڑے ہوجاؤ،بہت سوں میں یہ خیال گرد کرتا ہے کہ ہم ووٹ نہ ڈالیں گے تو کیا نقصان ہوگا ، رسول اللہ ﷺنے ارشادد فرمایا من اُذیی عندہ مومن فلم ینصرہ وھو یقدر علی ان ینصرہ ذلہ اللہ علی رئووس الخلائق جس شخص کے سامنے کسی مومن کو ذلیل کیا جارہا ہو وہ اسکی مددکرنے پر قادر ہو اور وہ نہ کرے تو اللہ قیامت کے دن اسے رسوا کریگا ،(جمع الفوائد)۔
ووٹ نہ ڈالنا شرعاًجرم ہے :اسی طرح سچی گواہی کو چھپانے کی بھی قرآن میں سخت مذمت کی گئی ہے ولاتکتمواالشھادۃ ومن یکتمھافانہ آثم قلبہ،گواہی کو مت چھپاؤ جو شخص اسکو چھپائے اسکادل گنہگار ہے ،حضرت ابوموسی ٰ اشعری ؓ سے مروی ہیکہ وکتم شھادۃ اذا دُعی الیھا کان کمن شھد بالزور (جمع الوائد ) جس کسی کو گواہی (ووٹ)کیلئے بلایا جائے اور وہ نہ آئے تو گویاجھوٹی گواہی دے رہا ہے ،ان آیات وروایات سے پتہ چلاکہ ووٹ ڈالنا شرعی نقطہ ء نظر سے کتناضروری ہے ، اگرہم ووٹ ڈالنے میں کسی قسم کی بہانہ بازی کریں گے تو آخرت میں جواب دہ ہوں گے ۔اسلام کی نظر میں گواہی (ووٹ) ایک بہترین عمل بتلایا ہے حضور ﷺنے فرمایا الا اخبرکم بخیر الشھداء الذی یاتی بشھادتہ قبل ان یسئلھا(جمع الفوائد )نبی ﷺ نے فرمایا کیا میں تمھیں بہترین گواہ کون ہے نہ بتاوں ؟ وہ شخص ہے جو اپنی گواہی کسی کے مطالبہ کرنے سے پہلے ادا کردے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×