اسلامیاتسیاسی و سماجی

طوفانی بارش اورہماری ذمہ داریاں

۱۔حالات کے ہم خود ذمہ دارہیں ،کائنات میں ہونے والاہرجرم جن کاعقلاونقلاًجرم ہونا مسلم ہے ان سب کا مرتکب انسان ہی ہے ،درندوں،پرندوں ،چرندوں سے ان سب کا امکان بھی نہیں،ظاہری اسباب سے نہ بچنے پر ظاہری بیماریاں آتی ہیں ،معصیت سے نہ بچنےپر  مشکلات وحادثات طے ہیں،محمدبن سیرین ؒکاقرضہ بڑھ گیا فرمانے لگے میرےگناہوں کانتیجہ ہے‘‘(تفسیرقرطبی ۱۶:؍۳۱)گناہ مسلمان کریں تو پکڑجلدی ہوجاتی ہے،کفارکریں تو مکمل عذاب آخرت میں دیا جاتاہے۔’’ولنذیقنھم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر لعلھم یرجعون ‘‘جلدی پکڑاس لیےکہ آخرت کے دائمی عذاب سےمحفوظ رہیں،چرواہابکریوںکوشام گھرواپس لانے کے لیے میدان میں بکھری بکریوں کے پیچھےکتادوڑاتاہے،کہیں بھیڑیےکالقمہ نہ بن جائے۔
۲۔ملک میں سیلاب کی تباہی نےکتنےجانداروںکو گھر سے بے گھر کردیا ،ملک کاایک بڑا حصہ مسلسل بارش و سیلاب کی وجہ سے ناگفتہ بہ حالات سے دوچارہے ،ہندوستان کی متعددندیاں خطرے کے نشان کے اوپر بہہ رہی ہیں، بڑی آبادی سیلاب کی زد میں ہے ،رہنے ، سونے کے لئے جگہ میسر نہیں،کتنے خوشحال لوگ آنافانا لاچار و بے بس ہوگئے ، جوکل تک دوسروں کی ضرورتیں پوری کرتے تھے،آج خود دوسروں کی امداد کے محتاج ہیں۔
۳۔خدمتِ خلق اسلام کا لازمی جز مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں، جسم کے ایک حصے میں تکلیف ہو تو تمام جسم درد محسوس کرے، بلاتفریق مذہب و ملت خیرخواہی و ہمدردی کریں ، ناگہانی حالات میں ذمہ داری بڑھ جاتی ہے،انفرادی و اجتماعی سطح پر جہاں تک ہوسکے راحت رسانی کا انتظام کریں، اپنے اندر دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ پیدا کریں ، اپنی وسعت کے مطابق پریشانی سے نکالنے کی کوشش کریں، نماز عبادت ہے، بندوں کی خدمت اور زخمی دلوں پر مرہم رکھنا بھی بڑے اجرو ثواب کا باعث ہے ،اپنے بھائی کی ضرورت میں لگنا ۱۰سال کے اعتکاف سے بہتر اور افضل ہے ۔ (سنن بیہقی) کچھ نہ دے سکیں تو حوصلہ افزائی کریں،ساتھ کھڑے ہوں ،حوصلہ شکنی سے بچائیں۔
خدا ترس شخص ؒ نےنفل حج ترک کرکے بڑھیا کو اپنے حج کا تمام سرمایہ سپرد کردیا، شریف زادی کو فاقہ کی مصیبت سے نجات دلانے پرحج کے اجر سے نوازدیاگیا ، ہم عبادات کی نہیںبلکہ اپنے فضولیات کی رقم خرچ کردیں ، توکافی ہے، حضرت ابوبکرؓ نے ہزارہا اشرفیاں ان معمر اور کمزور افراد کو رہا کرانے میں صرف کردیں جن سے انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔
یہ رب کوپانے کاوقت ہے،اللہ فرمائیگا اے ابن آدم! میرا فلاں بندہ بیمارتھا،فلاںنے کھانامانگاتھا، میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی طلب کیا تھا ،اگر تونے اس کی عیادت ،بھوک وپیاس مٹائی ہوتی تو آج اس کا ثواب پاتا‘‘۔(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ)
قحط سالی کے وقت ملک شام سے تجارتی سامان سے لدے اونٹ دامادِرسولﷺ حضرت عثمان کے مدینہ پہنچنے پردوگنےتگنے فائدےسے خریدنے دوڑےتجارکوآپؓکا جواب تھاکہ میں نےایسے تاجرکوفروخت کردیا جودس گنا بڑھاکرنفع دیرہاہے ۔’’فقال لهم عثمان -رضي الله عنه-: لقد زادني غيركم الدرهم بعشرة. فقالوا له: فمن الذي زادك، وليس في المدينة تجار غيرنا؟ فقال لهم عثمان -رضي الله عنه-: لقد بعتها لله ولرسوله، فهي لفقراء المسلمين‘‘
یہ وہ انفاق ہےجواللہ رب العزت کےذمہ قرض حسنہ ہے جوبہترطورپرحفاظت و اضافہ کےساتھ عین ضرورت کےوقت لوٹادےگا۔’’من ذالذی یقرض اللہ قرضاًحسنا فیضاعفہ لہ اضعافاکثیراً‘‘
۳۔جو سیلاب سے متاثر نہ ہوئےہیں وہ اپنے رب کا شکر ادا کرنے اور متاثرین کی امداد کے ذریعے اپنے رب کو خوش کرنے  کی کوشش کریں،اپنے دل میں خوف الہی پیدا کریں دشمن گھرسے بےگھرکرنے کا منصوبہ بنایا توکس قدر خائف ہوگئے تھے،آج رب نے اپناخوف وقدرت کااحساس پیداکرنے سیلاب کا ریلا بھیجاہے، اپنے روزمرہ کے اعمال، کردار و اخلاق کا جائزہ لیاجائے ۔
۴۔سیاست کی کرسی چمکانے سے زیادہ انسانیت کوچمکانے کی فکرکریں،خدارااس موقع پر تو انسانیت کا ثبوت دیتےہوئے صوبائی و مرکزی حکومتیں اپنے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے لئے مثبت اور مؤثراقدامات کریں، لوگوں کےجسموں پرنہیں بلکہ دلوں پر حکمرانی کاوقت ہاتھ آیاہے اسے سیاست کے حوالے نہ کیجئے ۔
۵۔اپنے انفاق کی قبولیت کی فکرکریں ،انفاق کی قبولیت کےلیے حضرت مفتی شفیع صاحب ؒ نے چھے شرائط تحریرفرمائےہیں:
۱۔حلال مال کا اہتمام کریں۔(موجودہ حالات میں اگرکسی کے پاس سودی رقم رکھی ہوئی ہوتو وبھی خرچ کی جاسکتی ہے،کیونکہ یہ مصیبت زدہ محتاج وغریب کے حق میں حلال ہے)
۲۔سنت کے مطابق خرچ کریں۔
۳۔صحیح مصرف میں خرچ کریں۔
۴۔خرچ کرنے کےبعد احسان نہ کریں۔
۵۔جس پرخرچ کیاہےاس کی تحقیروتذلیل کا کوئی کام نہ کریں۔
۶۔خالص رضائےالہی کےلیےخرچ کریں،نام ونمود ،شہرت وریاءسےبچیں۔
سنت کےمطابق خرچ کرنے کامطلب آپؒیہ تحریرفرماتےہیں’’مصرف کی اہمیت وضرورت کی شدت کالحاظ کرکے مصرف کاانتخاب کیاجائے،عام طورپرخرچ کرنے والے اس کی رعایت نہیںکرتے‘‘(معارف القرآن ،سورہ بقرہ۶۳۵:)
دوسری شرط کی روسے صاحب ثروت حضرات کا مختلف ممالک اپنی فیملی کےساتھ سیروتفریح ،آزادپنچیوں کی ہوٹل بازی ،کھیل وکرکٹ پرجواوسٹہ بازی ،پرندوں کا شوق ،فینش ہالوں کا فضول خرچ ،عین سیلاب کے ایام میں باجے ،بارات ،ویڈیوگرافی ،گھوڑے،جوڑے کی رسم ، ناتربیت یافتہ متدین احباب کاغیرآبادعلاقوں میں مہنگی مساجدکی تعمیر،مساجدکی ضرورت سےزائدتزئین کاری ، مہنگی گاڑی اورموبائیل کاشوق خلاف سنت خرچ نہیںہے؟بلکہ بعض خرچ حرام وگناہ نہیںہیں؟کیا خرچ ہو یہ مقصود نہیں بکہ کہاں خرچ ہویہ مقصود ہے، بےمصرف کا خرچ ثواب کےبجائے عتاب کاذریعہ بن جاتاہے۔’’یسئلونک ماذا ینفقون قل ماانفقتم من خیر فللوالدین الآیہ‘‘ آفات و مصائب کا شکار، گھر سے بے گھر، مویشی سیلاب میں بہہ گئے، کھیت اور گھر طوفانی پانی کی نذر ہوگئے ، ان سے زیادہ امداد کا مستحق کون ہوسکتا ہے!
مذکورہ بالاشرائط کی روشنی میں غورکریںسیلاب زدگان کی مددکے وقت فوٹولینا ،ویڈیوبنانا ،پانچویں وچھٹی شرط کےخلاف نہیںہے؟غریباءکی غربت کامذاق اڑانانہیںہے؟ عزت دارشخص تصویر کے خوف سےبھوک وفاقہ گوارکر نے پرمجبورہے ،اخلاص کی خاصیت ہےکہ آتا دیرسے اورجاتاجلدی ہے،عمل کےاول ،وسط،وآخرمیں کڑی نگرانی کرنی پڑتی ہے،کیا اپنی نسبی مصبیت زدہ بہن ،بھائی کی مددکے وقت بھی تصویرکشی کی جاتی ہے؟
کتنی دلہنوں کا سہاگ اجڑگیا،بلکہ دلہن کی ڈولی سے پہلے اس کا ڈولا(جنازہ )گھرسے نکلا، گھروں میں کام کرکے شادی کےلیے جمع کیاگیا ساراسامان سیلاب کے حوالے ہوگیا ، کتنے والدین کی گودخالی ہوگئی ،کتنے لوگ بے سہاراہوگئے ،آٹو رکشاچلانے والوںکی زندگیاں، ان کے قرضے،چھوٹے معصوم بچوں کی چیخ وپکار،گھروں کا ڈوب جانا ،بہہ جانا ،ہمیں دعوت عبرت نہیں دیتا کہ ہم توبہ کریں ،تصویرکشی سے بازآئیں،اگراب بھی گناہ سے بازآنے کا خیال پیدانہ ہواتویہ سیلاب سےبڑاعذاب ہے۔’’فلولااذجاءھم باسنا ولکن قست قلوبھم وزین لھم الشیطان ماکانوایعملون‘‘(انعام ۴۳:) کسی کے بچے روٹی کو ترستےہوںوہ پانی میں رہ کر بھی پیاسے ہوں اور ہماری اولاد فاسٹ فوڈ آدھا کھاکرپھیک رہی ہو،رسومات سے بھری بارات شورشرابے کےساتھ اس غریب کے گھر سے گذرےجس کا گھر،سامان عروسی سب تباہ ہوچکاہو،اس کے دل کی آہ سے ایک نیا طوف برپاہوسکتاہے،زخم جودکھتےنہیں وہ دکھتےبہت ہیں۔
۶۔ آفات و مصائب میں گرفتار افراد امداد طلب کریں گے ،کچھ افراد ایسے بھی ہوں گے جو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے ،اپنا دُکھ درد بیان کرنے سے گریزاں ہوں گے،ایسے خوددار، غیرت مند، قناعت کرنے افراد کو نظرانداز کرنا،ضرورت مند نہ سمجھنا قرآنی دعوت کے منافی ہے۔ (البقرہ ۲:۲۷۳)

سیلاب زدگاںسے کچھ باتیں
صبروصلاۃ کا اہتمام :مشکل حالات میں صبر کا دامن مضبوطی سے تھاماجائے،مصائب میں صبرکشادگی کی چابی ہوتی ہے’’ الصبر مفتاح الفرج‘‘زندگی کےشدائدمیں صبروصلاۃ سے استعانت کا خاص حکم دیاگیا ہے،حالات میں گھرکرصبرکی چادراوڑھ لینا معیت الہی کے سایہ میں آنے کی طرح ہے۔ {يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ} (البقرة:153)مصیبت ،مصیبت بھیجنے والے رب سے بڑی ہوئی نہیں ہے،حضرت موسی ؑکوولادت کےبعد سمندری لہروںکےحوالے کیاگیا تھا، بظاہر پرخطرلمحہ تھا ، درحقیقت جس فرعون سے خوف تھا اسی کے محل میں پرورش کا نظام بنایاگیاتھا،بنی اسرائیل کے سہارےکافیصلہ آپؑکےذریعہ کیاگیاتھا، حضرت یوسف ؑکی حیاتِ طیبہ کاہرپہلو ایک نیا سبق دیتاہے ،بھائیوںکے حسدسے مصرکی کرسی تک ایک سبق آموززندگی ہے،یہ سب صبروتقوی کا نتیجہ ہے۔{إِنَّهُ مَنْ يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ} (يوسف:90)
تقوےکے موقع پرتقوی اختیارکرنا ہی سہولت وآسانی کی راہیں فراہم کرتاہے۔’’ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا‘‘ مصائب کے وقت عبادت کی اہمت دوبالاہوجاتی ہے،ان حالات میںنگاہ اس پتھراور ڈنڈے پر ہوتی جس سے ضرب لگی ہے،جس نے ضرب لگائی ہےادھر سے غفلت ہوجاتی ہے،جس کے نتیجہ میں فرائض وصبرکا دامن چھوٹ جاتاہے،حضرت علی ؓسے عین جنگ کے موقع پر بھی تسبیح فاطمہ نہ چھوٹی تھی ،مسلم شریف کی روایت ہےکہ مشکل حالات میں اللہ کی عبادت سے غافل نہ ہونا ہجرت الی اللہ کی طرح ہے’’الْعِبَادَةُ فِي الْهَرْجِ كَهِجْرَةٍ إِلَيَّ‘‘
حالات کی وجہ سےناامید نہ ہوں:پست ہمت نہ ہوں ،اپنے کوتنہانہ سمجھیں،سیلاب کی روانی کی طرح اپنے ارادوں کومضبوط اورفولادی کریں،آج وقت آپ کے ساتھ نہیں مگررب الوقت آپ کے ساتھ ہے،رات کےبعد دن کا آنا طےہے،تاریکی بڑھےتویقین رکھیں کہ صبح کا سورج قریب ہے،وبائی امراض کے بعد آبی حادثات کاپیوند نصرت الہی کی اذاںہے، آپ تنہاجی رہےتھے ،مگراس وقت سب آپ کے ساتھ ہیں ،قریبوں کا قرب تومشاہدہے ،غائبین کی دعاؤںمیں آپ سرِ فہرست ہیں، حالات کاہروقت ایک طرح رہنا زمانے کے محالات میں سےہے۔’’ دوام الحال من المحال‘‘۔تاریخ شاہدہےکہ تاریخی شخصیات کی تربیت غم والم کی چہاردیواری میں کی گئی ہے،منعم علیہ شخصیات کی زندگیاں قابل مطالعہ ہیں۔
حالات وحوادث کودوام نہیں:حالات وحوادث سےآزماناسنت اللہ ہے،کبھی افرادتوکبھی اقوام’’ وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً وَإِلَيْنَا تُرْجَعُونَ( [الأنبياء:35) معصیت سے مصیبت بہتر ہے،معصیت جس سے میں اپنے رب سے دوراوروہ مجھ سے ناراض ہوجاتاہے،مصیبت جس میں میں اپنے رب سے قریب اوروہ مجھ سےراضی ہوجاتا ہے،مصیبت سے وہ ہمیں اپنے قریب کرنا چاہتاہے،یہاں جب خوشی وراحت کودوام نہیں تو غم پریشانی کودوام کیونکرہوگا ،ایمان کاامتحان ہے،کھرےوکھوٹے کی تمیز کا وقت ہے ۔(مَا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ) [آل عمران:179] مشکل حالات میں رب کونہ بھولیں:کرب والم میں التجاءالی اللہ نہ بھولیں ،یادرکھیں جس نے  راحت رسانی میں تمھیں نہ بھولامصیبت میں ہرگزنہ بھولےگا،اس وقت آپ کا خالق ومالک ، رحمان ورحیم آپ کے بہت قریب ہے،آپ کی دعائیں صرف آپ کی نہیںبلکہ سارے عالم کے حالات بددیں گے ،اس وقت صرف عارضی پریشانی کا حل نہ مانگیں ،دائمی راحت کا سوال کریں،اسبا ب راحت کےساتھ اسباب رضا بھی طلب کرلیں ۔(أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ) [النمل: 62] کبھی ایسابھی وقت آجاتا ہےکہ دعاہی کارگرہوتی ہے،ایسی تڑپ کے ساتھ جس طرح ڈوبتاشخص دل کی گہرائیوںسے پکارتاہے ’’ليأتين على الناس زمان لا ينجو فيه إلا من دعا بدعاء كدعاء الغريق‘‘
اللہ سےحسن ظن بڑھائیں :اگریہ آزمائش ہےتو اس میں کامیابی کی فکرکریں ،اوراگریہ سزا ہےتو رجوع الی اللہ کی فکرکریں،عرش سے آئی بلاعرش والاہی ٹال سکتاہے،سامان دنیاتو لٹ ہی گیا سامان آخرت لٹنے نہ دیجئے ،اسباب توبہہ گئے اجرکوبہنے نہ دیجئے،اللہ سے حسن ظن کو اور بڑھادیجئے، بھاری چٹان سےنکلی روشنی سےقیصروکسری کے محلات دیکھانے والارب مشکل حالات ہمیں اپنا بہتر مستقبل دکھائےگا۔ (وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا * وَإِذًا لَآتَيْنَاهُمْ مِنْ لَدُنَّا أَجْرًا عَظِيمًا وَلَهَدَيْنَا هُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا‏) [النساء:66-68] موجودپر شکرکریں:ہماری جان ،مال ،دولت ہماری نہیں ہے،ہماری رگ وروح پراسی کا قبضہ ہے،جس نےدیا ہے اسی نے واپس لی ہے، ادنی وکھوٹا لیکراعلی وکھرادینا چاہتاہے، حضرت خضرؑنے کشتی کاپلڑاتوڑدیاتھا تاکہ ساری کشتی محفوظ رہے،بچہ کی گردن موڑکرقتل کریا تاکہ والدین کا دین محفوظ رہے،نعمت دنیوی کےبدلےایک لڑکی ’’حیصور‘‘نوازدی گئی جس کے بطن سےسترانبیائےبنی اسرائیل پیداہوئے،گھرسے چورمال چرالےگیا ،مرشد سے شکایت کی ،فرمایا’’شکرکروچورنےگھرسے مال چرایا ،شیطان نے دل سے ایمان نہیں چرایا‘‘،اللہ نے ایمانی فتنےسے محفوظ رکھا۔
امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ عبد اللہ بن محمد رحمہ اللہ کے حوالے سے فرماتے ہیں : ساحل سمندرپر خیمہ میں ایک شخص کے ہاتھ ،پاؤں دونوں چلے گئے، سماعت و بصارت دونوں بوجھل ہو چکی، جسم کا بس ایک ہی حصہ اس کی سالم زبان سےکہہ رہا تھا [ اللهم أوزعنى أن أحمدك حمداً أكافىء به شكر نعمتك التي أنعمت بها عليَّ وفضلتنى على كثير ممن خلقت تفضيلاً]اے اللہ مجھے اس بات کی توفیق دے کہ میں تیری اس قدر حمد کروں جس قدر مجھ پر تیری نعمتیں ہیں، ان نعمتوں اور جو تونے مجھے اپنی بے شمار مخلوقات پر فضیلت دی ہے ان پر بطور شکرانہ ،پوچھا اللہ تعالیٰ کی وہ کونسی نعمت ہے جس پر آپ اتنی حمد کر رہے ہیں ؟تم دیکھ نہیں رہے ہو میرے رب نے میرے ساتھ کیا کیا انعام کیا ہے؟ واللہ اگر آسمان سے میرے اوپر آگ کی بارش ہو جاتی اور مجھے جلا ڈالتی یا پہاڑوں کو اللہ حکم دے دیتا جو مجھے تباہ کر دیتے یا سمندروں کو حکم کرتا مجھے ڈوبا دیتے یا پھر زمین کو حکم دیتا اور مجھے نگل لیتی جتنا بھی میرے رب کا شکر کروں کم ہے، یہ زبان کیا کسی انعام سے کم ہے ،مجھے تمہاری ضرورت ہے،  میرا ایک بیٹا تھا جو میری خدمت کرتا تھا، وضو کروا تا تھا، کھانا کھلا تا تھا، تین دن سے وہ کہیں گم ہوگیاتلاش کر لاؤ،بچے کو تلاش کرنےپر تھوڑی ہی دور ریتلے ٹیلے پراس بچہ کودرندوں نے  پھاڑ کھالیا ،بڑی ہمت سےخبرسنائی، وہ مصیبت زدہ شخص بولا :تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے جس نے میری نسل میں ایسی مخلوق نہیں پیدا کی جو اس کی نافرمانی کرے اور جہنم میں اس کو سزا دی جائے، انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا، زور کی ایک لمبی سانس لی اور وفات پا گیا، خیال آیا کہ میری مصیبت تو بڑھ گئی ، اگر چھوڑ دوں تو درندے کھا جائیں گے اور اگر بیٹھا رہ گیا تو کسی نفع و نقصان پر قادر نہیں ہوں بعد میں پتہ چلاکہ یہ صحابی رسول حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد خاص ابو قلابہ جِزمی رحمہ اللہ ہیں۔(کتاب الثقات۵:؍۳۵۶۱:، سیراعلام النبلاء۴:؍۴۷۴) نصیب کا لکھا مل کررہےگا ،کب ؟کہاں؟کیسے؟یہ سب میرارب جانتاہے،انسان سے امید کبھی مت لگائیے،پیارےاللہ سے کبھی مت ہٹائیے۔ واللہ المستعان ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×