اسلامیات

فتنہ گوہرشاہی اپنے عقائد و نظریات کی روشنی میں

اس فتنے کا بانی ریاض احمد گوہر شاہی ہے۔ گوہر شاہی نے اس فتنے کا آغاز اپنی انجمن سرفروشان اسلام کے نام سے کیا۔ فتنہ گوہریہ دین کے خادموں کا کوئی گروہ نہیں بلکہ ایمان کے رہزنوں کا سفید پوش دستہ ہے جو عشق و عرفان کی متاع عزیز پر شب خون مارنے اٹھا ہے۔ ان کے مصنوعی تصوف اور بناوٹی روحانیت کے پیچھے خوفناک درندوں کا ارادہ چھپا ہوا ہے۔انجمن سرفروشانِ اسلام کے بانی ریاض احمد گوہر شاہی دین اسلام کے خلاف دشمنانِ اسلام کی جد وجہد کے سلسلے کی ایک ایسی ہی کڑی ہے جس طرح کہ مسیلمہ کذاب یا اس راہِ ضلالت میں اس کے دیگر ہمسفر تھے۔ اس لئے آج کہنے والا اپنے کہنے میں حق بجانب ہے اور عین حقیقت ہے کہ گوہر شاہی کی جد وجہد بھی غلام احمد قادیانی کی جد وجہد کا تسلسل ہے۔ گوہر شاہی نے تصوف وسلوک کا لبادہ اوڑھ کر سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی‘ اس نے اپنی ناپاک زہریلی تعلیمات کے ذریعے اپنے آپ کو نبوت اور الوہیت کے درمیان ثابت کرنے کی کوشش کی‘ دنیا میں ظہور پذیر ہونے والے خود ساختہ جھوٹے نبیوں میں سے ہرایک نے اپنے مشن کو کرہٴ ارض تک ہی محدود رکھا‘ لیکن گوہرشاہی کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس نے اپنی تعلیمات کو فروغ دینے کے لئے صرف زمین پر ہی نہیں‘ بلکہ فضاء میں بھی حقائق ساختگی کی جھوٹی اور ناکام کوشش کی‘ اس نے اس سلسلے میں چاند کو بھی معاف نہیں کیا اور بے دریغ سیاہی استعمال کرتے ہوئے در ودیواروں پر بھی کھلے عام یہ لکھوانے سے نہ شرمایا کہ:” چاند میں جس کی صورت آئی‘ گوہر شاہی ‘ گوہر شاہی“ گوہرشاہی بالکل اسلام کے شجرہ طیبہ کی جڑوں کے لئے کسی زہریلے کیڑے سے کم نہیں تھا‘ اس نے مغربی سرمایہ اور سپوٹ کے ذریعے اپنے باطل عقائد کو امت مسلمہ کے درمیان پھیلانے شروع کردئے‘ اللہ جزائے خیر دے علمائے دین کو‘ جنہوں نے بروقت ہی اس ناسور اورفتنے کا تعاقب کیا۔
ذیل میں گوہرشاہی کے عقائد میں سے چند عقائد پیش کئے جاتے ہیں جن کو معمولی عقل کا مالک بھی پڑھ کر اور پھر گوہرشاہی کو اس ترازو پہ رکھ کر اس کے کفر اور اسلام کے بارے میں فیصلہ کرسکتا ہے‘ چنانچہ ملاحظہ ہو:
۱:․․․گوہرشاہی کے نزدیک اللہ تعالیٰ شہ رگ کے پاس ہوتے ہوئے بھی (نعوذ باللہ) انسانوں کے اعمال سے لاعلم ہیں‘ چنانچہ گوہر شاہی اس عقیدے کا اظہار اپنے ملحدانہ کلام میں کچھ یوں کرتاہے:
قریب ہے شہ رگ کے اسے کچھ پتہ نہیں
بے راز ہوئے محمد کاش تونے پایا وہ راستہ نہیں
(بحوالہ تریاق قلب ص:۱۸)
۲:․․․جب گوہرشاہی خدا کو لاعلم کہہ سکتا ہے تو ایسے ملعون کے لئے اللہ تعالیٰ کی کتاب قرآن مجید میں تحریف کرنا بھی کوئی مشکل نہ ہوگا چنانچہ وہ کہتا ہے کہ:
”قرآن مجید میں بار بار آیا ہے کہ ”دع نفسک وتعال“ ترجمہ: ”نفس کو چھوڑ اور چلا آ“ (بحوالہ مینارہ نور طبع اول ۱۴۰۲ھ) حالانکہ قرآن کریم میں کہیں یہ الفاظ موجود نہیں “۔
۳:․․․․ جب وہ ایسی جھوٹی آیات اپنی طرف سے گھڑے گا تو اس سے کوئی حوالہ بھی طلب کرے گا‘ چنانچہ اس نے پہلے سے ہی اس کا بندو بست کردیا اور کہہ دیا کہ:
قرآن کے صرف ۳۰ پارے نہیں‘ بلکہ کل ۴۰ پارے ہیں چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ:
”یہ موجودہ قرآن پاک عوام الناس کے لئے ہے جس طرح ایک علم عوام کے لئے ہے جبکہ دوسرا علم خواص کے لئے ہے جو سینہ بسینہ عطاء ہوا اسی طرح قرآن پاک کے دس پارے اور ہیں․․․ الخ (بحوالہ حق کی آواز ص:۵۲)
۴:․․․ گوہرشاہی مخلوق کو خدا کے ذکر سے پھیر کر اپنے ذکر میں لگانے کے لئے کہتا ہے کہ:
” یہ قرآن مجید فرماتا ہے کہ اٹھتے بیٹھتے لیٹتے میرا ذکر کرو وہ پارے (یعنی وہ مزید دس پارے جو موجودہ قرآن کے علاوہ ہیں گوہرشاہی کے ہاں) کہتے ہیں کہ اپنا وقت ضائع نہ کرو‘ اسی کو دیکھ لینا اس کی یاد آئے تو․․․ (بحوالہ آڈیوکسیٹ خصوصی خطاب نشتر پارک کراچی)“۔
۵:․․․ موجودہ قرآن مجید نے شراب کو حرام قرار دیا ‘ لیکن شاید کہ گوہرشاہی کو اپنے خصوصی ان دس پاروں میں جو صرف اس پر (شیطان کی طرف سے) نازل ہوئے ہیں۔ شراب کو حلال قرار دیا گیاہے‘ چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ کے اس قول کی کہ مجھے حضور ا سے دو علم عطاء ہوئے ایک تم کو بتا دیا‘ دوسرا بتادوں تو تم مجھے قتل کردو‘ اس کی تشریح میں گوہر شاہی لکھتا ہے کہ:
” وہ دوسرا علم یہ ہے کہ شراب پیو‘ جہنم میں نہیں جاؤگے اور بغیر کلمہ پڑھے اللہ تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے“۔ (بحوالہ یاد گار لمحات ص:۹-۱۰)
۶:․․․ گوہرشاہی کو زمین پرتو آرام آیا نہیں‘ اس لئے اس کے نفس نے فضاء میں بھی پرواز کی وہ چاند ‘ سورج اور حجر اسود پر اپنی شبیہ کے متعلق لکھتاہے کہ:
” چاند سورج اور حجر اسود پر شبیہ اللہ کی نشانیاں ہیں‘ یہ من جانب اللہ ہے اور ان کو جھٹلانا گویا کہ اللہ کی بات سے نفی ہے“۔ (بحوالہ حق کی آواز ص:۲۶)
۷:․․․ دنیا کا اصول ہے کہ اپنے محسن کی مدح اور تعریف کی جاتی ہے‘ چونکہ گوہرشاہی بھی اس اصول سے مجبور ہوکر شیطان کی مدح سرائی کرتا ہے تاکہ اس کی طرف سے شیطان کے حق میں کمال ناسپاسی نہ ہو‘ چنانچہ وہ کہتاہے کہ:
” شیطان کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ لوگوں کو گناہ میں لگاتاہے‘ لیکن خود کبھی شامل نہیں ہوتا۔ (بحوالہ یادگار لمحات)
اس فرقے کا طریقہ واردات اس لحاظ سے بہت پراسرار اور خطرناک ہے کہ نہ صرف اہلسنت ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ احمد رضا خان صاحب علیہ الرحمہ کی اتباع اور عقیدت کا بھی دم بھرتے ہیں۔ فتنہ گوہریہ کے پیرو اہلسنت کو بدنام کرنے اور نوجوانوں کو راہ حق سے بہکانے کے لئے اہلسنت کا لیبل لگا کر مسلمانوں کو گمراہ کرتے ہیں۔
گوہر شاہی نے اپنی گمراہی ان تینوں کتابوں میں تحریر کی ہیں جن کے نام ’’روحانی سفر‘ روشناس اور مینارہ نور‘‘ وغیرہ ہیں۔ اب آپ کے سامنے ان کتب کی عبارات ثبوت کے ساتھ پیش کی جارہی ہے۔
گوہر شاہی اور اس کے معتقدین کے عقائد و نظریات
عقیدہ: نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘ حج کو اسلام کے وقتی رکن کہا گیا ہے کہ روزانہ پانچ ہزار مرتبہ عوام‘ پچیس ہزار مرتبہ امام اور بہتر ہزار مرتبہ اولیاء کرام کو ذکر کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے کہ ہر درجہ کے ذکر کے بغیر نماز بے فائدہ ہے۔ اگرچہ سجدوں سے کمر کیوں نہ ٹیڑھی ہوجائے (بحوالہ: کتاب‘ روشناس صفحہ نمبر 3)
عقیدہ: پیرومرشد ہونے کے لئے عجیب وغریب شرط قائم کی ہے اگر زیادہ سے زیادہ سات دن میں ذاکر قلبی نہ بنادے تو وہ مرشد ناقص ہے اور اس کی صحبت اپنی عمر عزیز برباد کرنا ہے (بحوالہ کتاب: روشناس صفحہ نمبر 6)
عقیدہ: حضرت آدم علیہ السلام نفس کی شرارت سے اپنی وراثت یعنی جنت سے نکال کر عالم ناسوت میں جو جنات کا عالم تھا‘ پھینکے گئے (معاذ اﷲ) (بحوالہ کتاب: روشناس صفحہ 8)
عقیدہ: حضرت آدم علیہ السلام پر یوں بہتان باندھا ہے کہ آپ نے جب اسم محمدصلی اللہ علیہ وسلم اﷲ تعالیٰ کے نام کے ساتھ لکھا دیکھا تو خیال ہوا کہ یہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کون ہیں۔ جواب آیا کہ تمہاری اولاد میں سے ہوں گے۔ نفس نے اکسایا کہ یہ تیری اولاد میں ہوکر تجھ سے بڑھ جائیں گے۔ یہ ’’بے انصافی‘ٍ ہے۔ اس خیال کے بعد آپ کو دوبارہ سزا دی گئی (معاذ اﷲ) (بحوالہ کتاب: روشناس صفحہ نمبر 9)
عقیدہ: قادیانیوں اور مرزائیوں کو مسلمان کہا ہے۔ البتہ جھوٹے نبی کو مان کر اصلی نبی کی شفاعت سے محروم کہا ہے (بحوالہ کتاب: روشناس صفحہ نمبر 10)
عقیدہ: اﷲ تعالیٰ کا خیال ثابت کرکے اس کے علم کی نفی کی ہے۔ ایک دن اﷲ تعالیٰ کے دل میں خیال آیا کہ میں خود کو دیکھوں‘ سامنے عکس پڑا تو ایک روح بن گئی۔ اﷲ اس پر عاشق اور وہ اﷲ پر عاشق ہوگئی (معاذ اﷲ) (بحوالہ کتاب: روشناس صفحہ نمبر 20)
عقیدہ: حضرت آدم علیہ السلام کی شدید ترین گستاخی اور اخیر میں ان پر شیطانی خور ہونے کا الزام لگایا ہے (معاذ اﷲ) (بحوالہ کتاب: مینارہ نور صفحہ نمبر8)
عقیدہ: ذکر کو نماز پر فضیلت دی۔ ذکر کا نیا طریقہ نکالا اور قرآنی آیات کے مفہوم کو بگاڑ کر اپنے باطل نظریہ پر استدلال کیا ہے (بحوالہ کتاب: مینارہ نور صفحہ نمبر 17)
عقیدہ: جب تک حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کسی کو نصیب نہ ہو اس کا امتی ہونا ثابت نہیں (بحوالہ کتاب: مینارہ نور صفحہ نمبر 24)
عقیدہ: قرآن مجید کی آیت کا جھوٹا حوالہ دیا گیا ہے کہ قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے بار بار ’’دع نفسک و تعالیٰ‘‘ فرمایا ہے حالانکہ پورے قرآن مجید میں کہیں بھی اﷲ تعالیٰ کا یہ فرمان وارد نہیں ہوا (معاذ اﷲ) بحوالہ کتاب: مینارہ نور صفحہ نمبر 29)
عقیدہ:
علماء کی شان میں شدید ترین گستاخیاں کی گئی ہیں ایک آیت جوکہ یہود سے متعلق ہے‘ اسے علماء و مشائخ پر چسپاں کیا ہے (معاذ اﷲ) (بحوالہ کتاب: مینارہ نور صفحہ نمبر 30,31)
عقیدہ: حضرت خضر علیہ السلام اور ان کے علم کی توہین کی گئی ہے (بحوالہ کتاب: مینارہ نور صفحہ نمبر 35)
عقیدہ: انبیاء کرام علیہم السلام دیدار الٰہی کو ترستے ہیں اور یہ (اولیاء امت) دیدار میں رہتے ہیں۔ ولی نبی کا نعم البدل ہے (معاذ اﷲ) (بحوالہ کتاب: مینارہ نور صفحہ نمبر 39)
گوہر شاہی اپنی کتاب روحانی سفر کے صفحہ نمبر 49 تا 50 پر رقم طراز ہے۔
عبارت: اتنے میں اس نے سگریٹ سلگایا اور چرس کی بو اطراف میں پھیل گئی اور مجھے اس سے نفرت ہونے لگی۔ رات کو الہامی صورت پیدا ہوئی۔ یہ شخض (یعنی چرسی) ان ہزاروں عابدوں‘ زاہدوں اور عالموں سے بہتر ہے جو ہر نشے سے پرہیز کرکے عبادت میں ہوشیار ہیں لیکن بخل‘ حسد اور تکبر ان کا شعار ہے اور (چرس کا) نشہ اس کی عبادت ہے)
(معاذ اﷲ! بالکل ہی واضح طور پر نشہ کو صرف حلال ہی نہیں بلکہ عبادت ٹھہرایا جارہا ہے)
ریاض احمد گوہر شاہی کے نزدیک نماز اور درود شریف کی کوئی خاص اہمیت معلوم نہیں ہوتی
جیسا کہ روحانی سفر ص3پر اپنے بارے میں لکھتا ہے:
عبارت… اب گولڑہ شریف صاحبزادہ معین الدین صاحب سے بیعت ہوا۔ انہوں نے نماز کے ساتھ ایک تسبیح درود شریف کی بتائی۔ میں نے کہا اس سے کیا ہوتا ہے‘ کوئی ایسی عبادت ہو جو میں ہر وقت کرسکوں (یعنی (معاذ اﷲ) نماز اور درود شریف سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا)
گوہر شاہی نے جو روحانی منازل طے کئے ہیں ان میں عورتوں کا بھی بہت زیادہ دخل ہے۔ نہ شرم‘ نہ حیا۔ اس کے روحانی سفر میں ایک مستانی کا خصوصیت کے ساتھ دخل ہے۔
عبارت… میں دن کو کبھی کبھی اس عورت کے پاس چلا جاتا‘ وہ بھی عجیب و غریب فقر کے قصے سناتی اور کبھی کھانا بھی کھلا دیتی (بحوالہ : روحانی سفر ص 34)
عبارت… کہنے لگی آج رات کیسے آگئے۔ میں نے کہا پتہ نہیں۔ اس نے سمجھا شایدآج کی ادائوں سے مجھ پر قربان ہوگیا ہے اور میرے قریب ہوکر لیٹ گئی اور پھر سینے سے چمٹ گئی (بحوالہ کتاب: روحانی سفر ص 32)
کیا اس سے زیادہ دلیری کے ساتھ کوئی دشمن اسلام دین متین کے چہرے کو مسخ کرسکتا ہے۔ کیا شریعت مطہرہ کی تنقیص کے لئے اس سے بھی زیادہ شرمناک پیرایہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کیا اپنے مذہب‘ اپنے دین‘ اپنے عقائد کا اس طرح سے خون کرنے والا یہ شخص مذہبی رہنما ہوسکتا ہے؟
آج کل گوہر شاہی کے چیلوں نے ’’مہدی فائونڈیشن‘‘ کے نام سے کام کرنا شروع کردیا ہے۔ یہ جماعت دوبارہ سرگرم ہورہی ہے۔ اس کے کارکنان دنیا بھر میں ای میل اور خطوط کے ذریعہ خباثتیں پھیلا رہے ہیں۔ اس طرح گوہر شاہی کی فتنہ انگیز جماعت دوبارہ سرگرم ہوگئی ہے۔ بالخصوص ریاست تلنگانہ کے کچھ اضلاع اور شہر کے بعض علاقوں سے ایسی اطلاعات مل رہی ہیں کہ اس کے کارندے اس گمراہی کو نہ صرف کہ عام کررہے ہیں بلکہ اس کی ترویج و اشاعت میں مصروف ہیں اور نوجوان طبقے کو اپنا شکار بنارہے ہیں ایسے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ اس فتنے کی سرکوبی کے لیے خود بھی کمربستہ ہوجائیں اور اپنی نسل ان کے ایمان کی ان ایمانی لٹیروں سے حفاظت کریں۔۔۔۔اللہ اس گمراہ فرقے کی ہر گمراہی اور اس کے مکر وفریب سے محفوظ رکھے آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×