اسلامیات

سراپا روزہ دار بن جائیے!

انسان صرف جسمانی وجود کا نام نہیں ہے ،بلکہ جسم وروح کا مجموعہ ہے ،روح کے بغیر جسم کی کوئی حقیقت اور حیثیت نہیں ہوتی ۔اسی طرح اسلام میںجتنی عبادات ہیں ،وہ صرف ظاہر ی طور وطریقوں کا نا م نہیں ہے بلکہ ان عبادات کا ایک مقصد ہے جو عبادات کے لئے روح کا درجہ رکھتا ہے ،ایک مسلمان جب اللہ کے حکم اور رسول اللہ ﷺ کے طریقے کے مطابق اسلامی عبادات کو بجالاتا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ان عبادات کے ظاہری احکام وآداب کی بھر پور رعایت وپابندی کرتے ہوئے عبادت کی روح کو سمجھنے اور اس کو اپنے ذہن ودماغ میں بٹھانے اور بسانے کی پوری کوشش کرے، صر ف ظاہری آداب واحکام کی رعایت سے عبادات کو ادا کر نے سے فرض تو ادا ہو جاتا ہے لیکن ان کے مقصد اور روح کا شعور نہ ہو تو زندگی میں کوئی تبدیلی اور انقلاب نہیں آئے گا ،گویا پھول ہے ،خشبو نہیں ،پھل ہے مٹھاس نہیں ،چھلکا تو ہے لیکن مغز نہیں ،جو مسلمان عبادات کی روح اور اس کے مقصد کو سمجھ کر عبادت کر ے گا اس کو نہ صرف عبادت کی حقیقت نصیب ہوگی بلکہ ایمان کی حلاوت اور لذت بھی نصیب ہوگی ۔
رمضان کا مبارک مہینہ اپنی تمام رحمتوں، برکتوں، سعادتوں اور نعمتوں کے ساتھ ہم پر سایہ فگن ہے اس مہینہ کی شان وپہچان اسلام کے بنیادی رکن فریضۂ صوم سے ہے ،دنیا بھر کے مسلمان اس مبارک ماہ میں روزے رکھتے ہیں اور قرآن مجید میں روزہ کی فرضیت کے ساتھ اس کے مقصد کو بھی بیان کیا گیاہے ، فرمایا گیا : روزہ تم پر اس لئے فرض کیا گیا تاکہ تم تقوی اختیار کر نے والے ،اللہ سے ڈر نے والے بن جاؤ،تقویٰ کہنے کو ایک لفظ ہے ،لیکن اس کے پیچھے ایک بنیادی حقیقت اور بڑی گہرائی ہے وہ یہ کہ آدمی ہمیشہ ہر جگہ اور ہر حال میں اللہ کی ذات کا دھیان رکھے ،اُس کا سراپا وجود اللہ تعالیٰ کی غیر مشروط اطاعت وتابعداری کا نمونہ ومثال بنے ،بندہ اپنی ہر حرکت وعمل سے ثبوت دے کہ اللہ تعالیٰ حاکم ہیں اور وہ محکوم ہے ، اللہ خالق ہیںاوروہ مخلوق ہے ،اللہ تعالیٰ مالک ہیں اور وہ مملوک ،اللہ تعالیٰ آقا اور وہ بے دام غلام ہے ،روزہ میں یہی تو ہے ،جب اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے کا حکم دیا تو بندہ نے کھایا پیا اور جب اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے سے منع فرمایا تو بندہ نے کھانا پینا چھوڑ دیا ،یہاں یہ بات بھی ا چھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر حلا ل غذا وں اور جائز خواہشات کو پورا کر نے سے رک جاتا ہے تو غیر رمضان میں حرام غذاؤں اور ناجائز خواہشوں سے اپنے آپ کو روکے رکھنا اس کے لئے کتنا زیادہ اہم اور ضروری ہوگا ۔
بہر حال محکوم ہو نے کی وجہ سے بندہ کےتمام جسم پر اور جسم کے ہر ہر عضو وحصہ پر اللہ تعالیٰ ہی کی حکومت ہو گی بندہ اپنی مرضی وچاہت کے مطابق اپنے بدن کے کسی حصہ کو استعمال نہیں کرسکتا یہی عام طورپر دنیا کا ضابطہ اور مشاہدہ بھی ہے ،جب کوئی شخص اپنے آپ کو مکمل طور پر کسی کے حوالہ کر دیتا ہے تو یہ نہیں کہہ سکتاکہ میں صرف اپنے ہاتھوں سے تمہاری تابعداری کروں گا اپنے پیروں سے میں تمہارے حکموں کی پابندی نہیں کر سکتا ،روزہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کا پورا وجود روزہ دار ہے، صرف کھانے پینے سے روکے رہنا یہ تو صرف پیٹ کا روزہ ہے ،
شریعت میں جس روزہ کا حکم دیا گیاہے اور جو روزہ مطلوب ومقصود ہے وہ صرف بھوکا پیاسا رہنا نہیں ہے بلکہ بدن کے ہر عضو کو روزہ کی حالت اور کیفیت میں رکھنا ہے ،مثلاً
زبان کا روزہ یہ ہے کہ وہ غیبت ،جھوٹ ،گالی گلوج ،فضول اور بے ہودہ باتوں سے محفوظ رہے ،غیبت کو قرآن مجید میں اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے کے برابر بتایا گیا ،جھوٹ بولنا آدمی کو ہلاکت میں ڈال دیتا ہے ،گالی گلوج کرنا سخت ترین بد اخلاقی اور بد تہذیبی ہے فضول کاموں اور باتوں سے حدیث میں خاص طور پر منع کیا گیا :من حسن اسلام المرءترکہ مالا یعنیہ۔
آنکھ کا روزہ یہ ہے کہ حالت روزہ میں نا محرم عورتوں ،حرم اور ناجائز تصویر کو نہ دیکھے ،بد نگاہی کے بارے میں فرمایا گیا وہ شیطان کے تیروں میں سے ایک تیر ہے، ہاتھ میں موبائیل ہو اور تنہائی ہوتو تب آنکھ کا روزہ معلو م ہوگا کہ وہ ناجائز اور غلط چیز دیکھنے سے کس حد تک محفوظ ہے؟
دل ودماغ کا روزہ یہ ہے کہ روزہ کی حالت میں غلط خیالات اور برے جذبات سے دل ودماغ کو محفوظ رکھے ،برائی اور بد کاری کے منصوبے نہ بنائے اور نہ شرارت وشر انگیزی کے تدبیریں سونچے ،قرآن مجید بارہا فرمایا گیا :’’واللہ علیم بذات الصدور‘‘اللہ تعالیٰ دلوں کا حال خوب جانتے ہیں ،
کان کا روزہ یہ ہے کہ روزہ کی حالت میں غیبتوں ،جھوٹی اور لغو باتوں ،گانے اور میوزک سننے سے مکمل طور پر اجتناب کرے ،قرآن مجید میں نیک لوگوں کی صفت یہ بیان کی گئی کہ وہ لغو باتوں سے احتراز کر تے ہیں :’’واذا سمعوا اللغواعرضوا عنہ ‘‘
ہاتھ کا روزہ یہ ہے کہ روزہ کی حالت میں یہ ہاتھ کسی پر ظلم کر نے کے لئے نہ اٹھے، ناجائز اور حرام کاموں میں اس کا استعمال نہ ہو ،جیسے جوا کھیلنا ،برے ارادوں اور غلط مقاصد کے تحت لوگوں کی طرف اشارہ کرنا وغیرہ ،رسول اللہﷺ کا فرمان ہے : المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہمسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ کی ایذا سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔
پاؤں کا روزہ یہ ہے کہ روزہ کی حالت میں گناہ ا ور فسق وفجور کی جگہوں پر نہ جائیں جیسے ناچ گانے اور موسیقی کی محفلیں ،لہو ولعب کی جگہوں پر جانے سے اپنے آپ کو روکے رکھے ،کسی غلط کام کو کر نے یا کسی حرام منصوبہ (قتل ،چوری ،دھوکہ ، ظلم ڈھانے) کو روبۂ عمل لانے کے لئے کوئی قدم نہ اٹھائے ۔
غرض یہ کہ اپنے تمام اعضاء وجوارح کو گناہ اور حرام سے محفوظ رکھنا ،اعضاء وجوارح کا روزہ ہے، اعضاء و جوارح کو روزہ دار یعنی خدا کا عبادت گذار بنانا اس لئے ضروری ہے کہ کل قیامت کے دن ان اعضاء و جوارح سے پوچھ ہو گی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی مختلف آیتوں میں خبردی ہے،
ان السمع والبصر والفؤاد کل اولئک کان عنہ مسؤلاً (سورۃ بنی اسرائیل:۳۶)

یقیناً کان، آنکھ اور دل ان سب سے پوچھا جائے گا
یوم تشھد علیھم السنتھم وایدیھم وارجلھم بما کانوا یعملون (سورۃ النور:۲۴)

جس دن ان کی زبانیں ،ان کے ہاتھ، ان کے پیر خود ان کے خلاف ان کے اعمال کی گواہی دیں گے
الیوم نختم علی افواھھم وتکلمنا ایدیھم و تشھد ارجلھم بما کانوا یکسبون (سورۃ یسین:۶۵)

جس دن ان کے منھ بند کردیئے جائیں گے اور ان ک ہاتھ ہم سے گفتگو کریں گے اور پاؤں گواہی دیں گے کہ وہ کیا کیا حرکتیں کرتے تھے
حتی اذا ماجاءوھا شھد علیھم سمعھم و ابصارھم و جلودھم بما کانوا یعملون (سورۃ حم سجدۃ:۲)

یہاں تک کہ جب وہ دوزخ پر پہونچ جائیں گے تو ان کے کان ، ان کی آنکھیں، ان کی کھال ان کے خلاف ان کے اعمال کی گواہی دیں گے
لہٰذا ان اعضاء وجوارح کو اچھے اور نیک کاموں میں مشغول ومصروف رکھے ،زبان ہمیشہ یاد الٰہی ،قرآن خوانی اور درود شریف پڑھنے میں لگی رہے، دل ودماغ اپنی دینی ترقی واصلاح کی تدبیروں اور قوم وملت کی فلاح وبہود ی کے لئے بلند عزائم اور نیک ارادوں سے معمور رہے ،کان قرآن مجید کی تلاوت ،نعتیں ،اصلاحی نظمیں اور مواعظ سننے میں رہیں ،ہاتھ سے اپنے والدین اور گھر کے بڑے بزرگوں کی خدمت ،غریب ، مجبور اور معذور لوگوں کی مدد ہوتی رہے ،اس کے علاوہ مستند دینی کتابوں کے مطالعہ اور دعاء و مناجات میں لگے رہے ،پاوں سے معاشرہ کے پریشان حال اور ضرورت مند لوگوں کی امداد واعانت کے لئے دوڑ ودھوپ ہوتی رہے، یا دینی دعوتی کاموں میں چہل پہل رہے۔
اس طرح جب مسلمان کا پورا وجود روزہ دار ہوگا تو وہ صحیح معنوں میں روزہ کے مقصود ومطلوب کو پانے والا ہوگا اور احادیث میں روزہ سے متعلق زبانِ رسالت سے بیان کر دہ فضائل کا وہ مستحق ہوگا ،اور قیامت کے دن اپنے ہی اعضاء و جوارح کی اپنے خلاف گواہی سے محفوظ رہے گا ورنہ یہی اعضاء و جوارح اپنے خلاف گواہی دینے لگیں گے جیسا کہ قرآن کریم کی آیتوں سے معلوم ہوا ہے، اور یہ کہ حدیث پاک میں ان مسلمانوں کے لئے بڑی عبرت ونصیحت ہے ،جو صرف بھوکے پیاسے رہنے کو روزہ رکھنا سمجھتے ہیں ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :رب ﺻﺎﺋﻢ ﻟﯿﺲ ﻟﮧ ﻣﻦ ﺻﯿﺎﻣﮧ اﻻ اﻟﺠﻮع ورب ﻗﺎﺋﻢ ﻟﯿﺲ ﻟﮧ ﻣﻦ ﻗﯿﺎﻣﮧ اﻻ اﻟﺴﮩﺮ۔(ابن ماجہ) بہت سے روزہ داروں کا روزہ سوائے بھوکے رہنے کے اور کچھ نہیں ہے ،اوربہت سے راتوں میں قیام (عبادت)کر نے والوں کا قیام سوائے جاگنے کے اور کچھ نہیں ۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں حقیقی روزہ دار بنائے ۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×