سیاسی و سماجی

این پی آر بنام ایل آر ایس کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے!

تلنگانہ حکومت کے حالیہ اسمبلی اجلاس کواگر جی ایچ ایم سی انتخابات کی تیاریوں کا عملاً آغاز کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ عالمی وباء کورونا وائرس اور مسلسل لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں عام آدمی سے لیکر ریاستی و مرکزی حکومتیں آمدنی میں گراوٹ کی وجہ سے پریشان ہیں تو وہیں مہربانیوں اور عوامی ہمدردیوں کو دونوں ہاتھوں سے سمیٹنے والے اور غیر معمولی اخراجات کے متقاضی کئی تجاویز پیش کیے گئے اور باتفاقِ آرا انہیں منظور بھی کرلیا گیا۔ اس اعتبار سے اسمبلی اجلاس کافی اہمیت کا حامل بن گیا ہے۔ انتخابات کا بگل بجنے سے پہلے ہی ٹی آر ایس پارٹی اپنی سرگرمیوں میں تیزی لاچکی ہے ۔ کورونا کی غیر معمولی صورتحال کا بہانہ بناکر اسمبلی اجلاس قبل از وقت ختم کردیا گیا ۔ اجلاس کے ختم کے بعد سے ٹی آر ایس سربراہان مسلسل مصروف نظر آرہے ہیں۔ اور ہر دن مختلف شعبہ جات سے متعلقہ عہدیداروں کے ساتھ جائزہ اجلاس منعقد کیے جارہے ہیں۔ جس کو انتخابی سرگرمیوں کے حصے کے طور پر مانا جارہا ہے۔
تلنگانہ اسمبلی کے مانسون اجلاس میں جہاں عوام کو لُبھانے والی اسکیموں کو متعارف کیا گیا وہیں بے چین کرنے والے ایل آر ایس لینڈ ریگولیزیشن اسکیم کا بھی باضابطہ اعلان کردیا گیا اور زرعی و غیر رزعی تمام زمینوں کو اس اسکیم کے تحت جوڑ نے کی ہدایت دی گئی۔ ایل آر ایس پر عمل آوری کا آغاز ہوتے ہی عوام میں ایک طرح کی اُلجھن پیدا ہوگئی ؛کیونکہ ایل آر ایس کے عنوان سے سروے کے لیے گھر گھر پہنچنے والے جو تفصیلات حاصل کررہے ہیں اور جس فارم کی خانہ پُری کی جارہی ہےاس میں ایل آر ایس سے متعلقہ سوالات سے زیادہ ایسے سوالات ہیں جن کا تعلق این پی آر سے بھی ہے۔ چونکہ لاک ڈاؤن کے نفاذ اور جنتا کرفیوکے اعلان سے ایک دن پہلے تک بھی پورا ملک شہریت قانون اور این پی آر کے خلاف سراپا احتجاج بنا ہوا تھا۔ این پی آر پر آج بھی عوام کا وہی موقف ہے جو لاک ڈاؤن کے نفاذ سے ایک دن پہلے تک تھا۔
ایل آر ایس پر جہاں مسلسل سوالات اٹھ رہے ہیں تو وہیں شہر حیدرآباد کے بعض علماء کرام کی جانب سے اس کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل منظر عام پر آگئی ۔ اس حوالے سے چند اہم نکات کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔
وزیر اعلی کے سی آر این آر سی اور این پی آر پر اپنی طویل خاموشی کے بعد جب 25؍جنوری کو تلنگانہ میونسپل الیکشن کے نتائج اور ٹی آر ایس کی شاندار جیت کے اعلان کے موقع پر اپنا پہلا بیان جاری کیا کہ تلنگانہ اسمبلی میں این آر سی کے خلاف قرار داد منظور کی جائے گی اور مارچ میں منعقد ہونے والے اسمبلی اجلاس کے آخری دن 16؍مارچ کو ایک قرار داد ریاستی اسمبلی کے ذریعہ منظور کرلی گئی کہ ریاست میں این آر سی نافذ نہیں ہوگا۔ اس قرار داد میں جہاں واضح طور پر این آر سی کے نفاذ پر روک لگانے کی بات کی گئی وہیں پر این پی آر کے مضرات کو تفصیلی طور پر بیان کیا گیا لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ ریاست میں این پی آر لاگو ہوگا یا نہیں۔ اس قرار داد کی منظوری کے بعد ریاست کی مؤقر شخصیات اور ملی تنظیموں کی جانب سے انہیں خوب سراہا گیا اور سب لوگ اس قرار داد کو این آر سی اور این پی آر پر روک لگانے والی قرار داد سمجھ رہے تھے۔ حالانکہ قرارداد کے آخری صفحہ پر ایک پیراگراف میں مرکزی حکومت سے این پی آر پر روک لگانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ایک طرف قرارداد کی منظوری ہورہی تھی تو دوسری جانب این پی آر کی تیاری کے لیے تربیتی ورکشاپس کا انعقاد بھی عمل میں لایا جارہا تھا اور متعدد اضلاع کو نوٹیفیکیشن بھی ارسال کردیا گیا تھا۔ این پی آر کی تیاری شباب پر تھی کہ اچانک لا ک ڈاؤن نافذ کردیا گیا اور پوری دنیا تھم گئی۔ مرکزی وزراتِ داخلہ کی طرف سے یہ اعلان بھی آگیا کہ اب این پی آر کا کوئی ارادہ نہیں ہے اس کو فی الحال کے لیے ملتوی کیا جاتا ہے۔ اب ریاستی حکومت کی جانب ایل آر ایس کی منظوری کے بعد سے مسئلہ ایک مرتبہ پھر این پی آر کے خدشات ظاہر ہونے شروع ہوگئے ہیں۔
وزیر اعلی کے بیان کے مطابق ایل آر ایس سے متعلق جملہ 52؍سوالات کے جوابات دینے ہوں گے۔ ہماری یہ کوشش محض زمینوں کے ریکارڈ میں شفافیت پیدا کرنے اور مستقبل میں کسی طرح کی کوئی دشواری سے بچانے کو یقینی بنانے کے لیے ہے۔ اگر اس اسکیم کے تحت اپنی اراضیات کا ریکارڈ صحیح درج نہیں کروائیں گے تو مستقبل میں اس کے نتائج کے خود ہی ذمہ دار ہوں گے۔ وزیر اعلی کی ان باتوں کو مان بھی لیا جائے تو غیر متعلقہ سوالات کی وجہ سے عوام میں تشویش پائی جارہی ہے۔
اگر ریاستی حکومت ایل آر ایس کو بہانہ بناکر این پی آر کا عمل کروارہی ہے تو ایسے میں صرف ایک طبقہ کی طرف سے یہ اپیل کافی نہیں ہے کہ اس کام کو موقوف کردیا جائے اور اس کا بائیکاٹ کیا جائے ۔ کیونکہ ایل آر ایس کاعمل مسلمانوں کے بالمقابل غیر مسلموں کے ساتھ زیادہ جڑا ہوا ہے۔ کیونکہ بیشتر اراضیات انہی کے نام رجسٹرڈ ہیں۔ انہیں اپنی تفصیلات درج کروانے میں کوئی تأمل بھی نہیں ہے اور نہ وہ این پی آر اور این آر سی کے بارے میں کسی بھی قسم کی تشویش میں مبتلا ہیں۔
ملی و سماجی قائدین کی پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ حکمرانوں سے اس بات کی وضاحت ضرور طلب کریں اور واضح احکامات جاری ہونے تک سعی مسلسل کرتے رہیں۔
چونکہ بلدی انتخابات کا عنقریب اعلان ہونے والا ہے اس موقع پر تمام پارٹیاں اپنی ممکنہ طاقت استعمال کرتے ہوئے ساری توانائیاں اس میں جھونک دیتی ہیں ایسے میں حکمران جماعت سے واضح طور پر این پی آر کے نفاذ پر تفصیلات طلب کرلیں۔ تاکہ بلدی انتخابات میں کھل کر فیصلہ کیا جاسکے۔
اگر واقعی یہ این پی آر ہی ہے اور ایل آر ایس اس کی بدلی ہوئی شکل ہے تو پھر بائیکاٹ کے اعلان سے پہلے سابقہ موقف پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
این پی آر پر ملک بھر میں جو چرچہ چل رہا تھا اور ماہرین کی جانب سے جو یوں کہا جارہا تھا کہ این پی آر کا بائیکاٹ اگر کوئی ایک کمیونٹی کی جانب سے کیا جاتا ہے تو پھر اس کے سنگین نتائج بر آمد ہوسکتے ہیں ۔ عوامی طور پر مکمل بائیکاٹ کیا جائے اورپھر اس سے متعلق حکومتوں پر دباؤ ڈالا جائے۔
جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر مولانا سید ارشد مدنی نے حیدرآباد کے ایک پروگرام میں کہا تھا کہ ہمارا یہ ماننا ہے کہ جن ریاستوں میں حکومتیں خود بائیکاٹ کرنے کا اعلان کررہی ہیں وہ خوش آئند ہیں بائیکاٹ ہونا چاہیے لیکن جن ریاستوں میں حکومتیں اعلان نہیں کرتیں اور مقامی عوام ہندو مسلم سب مل کر بائیکاٹ کرتے ہیں تو مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ ان کے شانہ بشانہ چلیں اور سب مل کر بائیکاٹ کریں لیکن جمعیۃ علماء یہ ہر گز نہیں کہے گی کہ تنہا مسلمان اس کا بائیکاٹ کریں‘ تنہا مسلمانوں کے بائیکاٹ سے کافی نقصان ہوگا۔
امیر شریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی نے بھی کہا تھا کہ احتجاج اور بائیکاٹ مسلمان تنہا ہر گز نہ کریں بلکہ اپنے ساتھ دیگر طبقات کو بھی شامل کریں تنہا مسلمانوں کے اقدام سے شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
امیر شریعت کرناٹک مولانا صغیر احمد صاحب رشادی نے بھی این پی آر کے مسئلہ میں کہا تھا کہ ملک گیر سطح پر کوئی جامع ترتیب بنا ئی جائے تاکہ بائیکاٹ کرنے یا اس میں ترمیم کروانے کو یقینی بنایا جاسکے۔
متحدہ خواتین کمیٹی کی صدر آمنہ روشی نے کہا کہ سی اے اے مذہب کی بنیاد پر لایا گیا قانون ہے جس کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جائیگا۔ سازش کے تحت حکومت این پی آر میں کئی کالم کا اضافہ کرکے اس کو این آر سی میں جوڑنے کی کوشش کررہی ہے۔ موجودہ این پی آر کسی بھی شرط پر قابل قبول نہیں ہے،انہوں نے این پی آر کا بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگر 2011 کی بنیاد پر این پی آر نہ لایا گیا تو اس کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔
شاہین باغ مظاہرین کا بھی مسلسل یہی کہنا تھا کہ این پی آر کے فارمٹ میں تبدیلی کی جائے جب تک باضابطہ ترمیم کے احکام جاری نہیں ہوتے ہم اپنا مظاہرہ جاری رکھیں گے۔
شہر حیدرآباد میں مذہبی وسماجی قائدین کے کئی ایک مشاورتی پروگراموں میں بھی یہ طے نہیں ہوسکاتھا کہ این پی آر کا بائیکاٹ کیا جائے یا فارم کی خانہ پُری کی جائے۔
ان تمام باتوں کے بعد اتنا تو سمجھ لینا چاہیے کہ این پی آر چاہے جو بھی راستے سے آئے صرف مسلمان تنہا اس کا بائیکاٹ نہ کریں اس پر جامع منصوبہ بندی کی جائے۔ مسلمانوں سے اس کا بائیکاٹ کرنے کی اپیل کرنا گویا خطرات کو مول لینا ہے۔ علماء کرام، قائدین و دانشوران کو پہلے لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا پھر عوام کو ہدایت دی جائے تو پیغام بہت واضح ہوگا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×