تکثیری سماج اور اسلام
تکثیری سماج کا مفہوم یہ ہے کہ ایک ایسا سماج جس میں ہر طرح کے لوگ رہتے ہوں ، مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ زندگی گزارتے ہوں یا مختلف رنگ و نسل وتہذیب کے لوگ آپس میں ایک ساتھ گھل مل کر رہتے ہوں ، تکثیری سماج کے لیے مذہبی اختلاف ضروری نہیں ہے ؛بلکہ ایک ہی مذہب کے ماننے والے مختلف نظریات اور مختلف زبان اور تہذیب پر مشتمل معاشرہ بھی تکثیری سماج کہلاتا ہے ۔مذہبی بنیادوں پر اگر تقسیم کی جائے تو تکثیری سماج کی دو صورتیں ہوتی ہیں ، ایک وہ معاشرہ جس میں مسلمان اقلیت میں ہوں اور دوسرے مذہب کے ماننے والے اکثریت میں ہوں ۔دوسری صورت یہ کہ مسلمان اکثریت میں ہوں اور دوسری قومیں اقلیت میںہوں، غور کیا جائے تو ہمیں دونوںکی نظیریں عہد نبوی میں مل جاتی ہیں ، جب مسلمان حبشہ کی طرف ہجرت کرکے گیے تو مسلمان اقلیت میں تھے اور عیسائی اکثریت میں تھے اور مکہ میں مسلمانوں کے لیے جب اپنے مذہب اور عقیدے پر عمل مشکل ہوگیا تو آپ نے حبشہ ہجرت کرنے کی ہدایت کی تھی اور حبشہ کے بادشاہ نے مسلمانوں کا استقبال کیا اورا ن کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی دی اس طرح پہلا تکثیری معاشرہ ووجود میںآیا جہاں مسلمان اقلیت میں تھے اور عیسائی اکثریت میں تھے اور مسلمان ملکی قوانین کی پاسداری کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل پیرا تھے ۔ پھر جب آپ ﷺ نے مدینہ ہجرت کی اور مدینہ ایک اسلامی اسٹیٹ کی حیثیت سے وجود میں آیا تو آپ نے مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ معاہدے کیے جو میثاق مدینہ کے نام سے مشہور ہے ، مدینہ ایک ایسا اسٹیٹ بنا جہاں مسلمان اکثریت میں تھے اور یہودی اقلیت میں تھے اس طرح اقلیت اور اکثریت دونو ں مثالیں ہمیں عہد نبوی سے مل جاتی ہیں اور یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام تکثیری سماج کا روادار ہے۔
تکثیری سماج کے تعلق سے دو نظریے پایے جاتے ہیں ایک نظریہ جسے پگھلنے کے برتن (melting pot) کا نظریہ کہا جاتاہے ، اس میں سماج کو شربت کے ایک جار سے تشبیہ دی جاتی ہے، شربت کے جار میں مختلف چیزیں پگھل کر ایک بن جاتی ہیں ،ہر شئی کا جدا گانہ رنگ مزہ ختم ہوجاتاہے ، جس چیز کا غلبہ کا ہو اس کا رنگ اور مزہ غالب ہوتا ہے اور مغلوب چیزیں اپنی حقیقت کھو دیتی ہیں ۔ دوسرا نظریہ وہ ہے جسے سلاد کے برتن (salad bowl) کا نظریہ کہا جاتاہے، اس میں سماج کو سلاد کی ایسی پلیٹ سے تشبیہ دی جاتی ہے جس میں مختلف اشیاء شامل ہوں لیکن ہر ایک کا اپنا جداگانہ رنگ مزہ بر قرار رہے سلاد کا حصے بننے کے نتیجہ میں کسی کی بھی شناخت اور اس کا منفرد رنگ بو مزہ ختم نہ ہو ۔
اسلام اس دوسری قسم کے نظریہ کوپسند کرتاہے ، قرآن میںہے: جعلنا شعوبا و قبائل لتعارفوا کہ خاندانی نظام رنگ و نسل کا یہ فرق صرف تعارف کے لیے ، اسلام رنگ و نسل اور تہذیب کی بنیاد پر کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کرتاہے،اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتاتاہے کہ اسلام اس سلسلے میں توسع کا قائل ہے ، زبان اور رنگ کی بنیاد پر اسلام میں کسی قسم کا امتیاز نہیں ہے ، اسلام کے ابتدائی زمانے میںحضرت بلال حبشی اورحضرت سلمان فارسی رنگ و زبان کے اختلاف کے باوجود اسلام میں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔تکثیری سماج کا پہلا نظریہ کہ ایک اقلیت اکثریت میں ضم ہوجائیں ، رنگ و نسل کا تفاوت ختم کردیا جائے ، تہذیب کی رنگارنگی کو ایک ایک رنگی میں بدل دیا جائے یہ فطرت کے ساتھ بغاوت کے ساتھ مستحکم معاشرے کا ضامن نہیں ہوسکتاہے۔
اسلام نے بہت واضح لفظوں میں مذہبی آزادی کو بیان کیا ہے، لااکراہ فی الدین کہ دین کے سلسلے میں کسی کے ساتھ زبردستی اوردباؤ نہیں ہے ہر کسی کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہے لکم دینکم و لی دین اس کا واضح اعلان ہے ، اسی طرح زبان اور تہذیب پربھی اسلام نے کسی شب خون نہیں مارا ہے ، مسلمانوں جہاں گیے وہیں کی زبان کو اختیار کرلیا ، ایسا نہیں ہوا کہ ہندوستان میںآنے کے بعد یہاں مسلمانوں نے عربی زبان کو رائج کیا ہو بلکہ صدیوں یہاںپر ہندوستان کی قدیم بولی ہی بولی جاتی تھی ، تہذیب کے اعتبار سے آج بھی ہر ملک کے مسلمان علحدہ تہذیب رکھتے ہیں ، حتی کہ ہندوستان و پاکستان کی تہذیبوں میں بھی فرق پایا جاتا ہے جب کہ یہ دونوں ملک آزادی سے پہلے ایک ہی تھے۔
تکثیری سماج کا بنیادی اصول احترام انسانیت ہے ، اس سے ہی معاشرہ استحکام پذیر ہوتاہے ،اسلام احترام انسانیت کے تعلق سے بہت واضح پیغام رکھتاہے قرآن میں ہے ولقد کرمنا بنی آدم ، ہم نے بنی آدم کو محترم بنایا ہے، ایک انسان کے قتل کو اسلام پوری انسانیت کا قتل مانتاہے،مردہ انسان کے بھی احترام کا حکم دیتاہے، ایک مرتبہ آپ ﷺ جنازہ کو دیکھ کر کھڑے ہو گیے آپ کو بتایا گیا کہ یہ تو کسی یہودی کا جنازہ ہے تو آپ نے فرمایا کیا یہ انسان نہیںہے۔
تکثیری سماج کی دوسری مستحکم بنیاد مذہبی آزادی ہے ، اسلام کسی کو بھی اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کرتاہے، خواہ وہ کسی مسلمان کا بیٹا کیوں نہ ہو ، حضرت عبد اللہ بن عباس سے روایت ہے کہ ابن الحصین انصاری کے دو لڑکے تھے جو ہجرت سے پہلے عیسائی مذہب اختیار کرکے شام چلے گیے پھر وہ مدینہ واپس آئے تو انہوں نے ان دونوں سے مذہب اسلام میں داخل ہونے پر اصرار کیا ان دونوں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا یہ معاملہ حضور ﷺ کے پاس گیا ؛چنانچہ اس موقع پر لا اکراہ فی الدین کی آیت نازل ہوئی جس پر ان کے والد نے ان دونوں کو چھوڑ دیا ۔
تکثیری سماج کے مستحکم بنیاد کے لیے تیسرا اصول شہریوں کے ساتھ مساوات اور عدل و انصاف ، مذہبی بنیاد پر امتیاز نہ کرنا ہے ؛ چنانچہ اسلامی تاریخ میں اس کی بہت واضح مثالیں ملتی ہیں، ہندوستان میں بھی مسلم عہد حکومت میں بڑے بڑے عہدوں پر غیر مسلم فائز تھے، اسلامی حکومتوں میں مذہبی رواداری کا ایک مظہر یہ بھی تھا کہ عقیدے اور مذہب سے قطع نظر صلاحیت کی بنیاد پر عہدے دیے جاتے تھے، یہی وجہ ہے کہ عباسی دور میں عیسائی اطبا کو خلفاء کے یہاں ا اہم مقام حاصل تھا، دمشق کے طبی مدارس کی نگرانی عرصہ دراز تک عیسائی اطباء کرتے رہے، مذہبی رواداری کا ایک نمونہ یہ بھی تھاکہ دیگر مذاہب کے ماننے والے اپنے تہوار پوری آزادی کے ساتھ مناتے تھے ، اموی دور سے ہی عیسائی اپنے عام جلوس سڑکوں پر نکالتے تھے ان کے آگے آگے صلیبیں ہوتی تھیں اور مذہبی پیشوا اپنے مخصوص مذہبی لباس زیب تن کیے ہوتے تھے ( من روائع حضارتنا: ص: ۱۴۴)