اسلامیات

علم کی طلب پیدا کریں

علمِ دین کو حاصل کرنے کی بہت بڑی فضیلت ہے۔ علم خدا کا نُور ہے۔  علم سے خدا کی پہچان نصیب ہوتی ہے۔  علم سے حلال حرام کی تمیز ہوتی ہے۔ علم سے خدا کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ علم عبادت سے ہزار درجہ افضل ہے۔ علم تمام خوبیوں کا مجموعہ ہے۔ علم کی لذّت مل جانے کے بعد دنیا کی ہر دولت سے انسان بےنیاز ہوجاتا ہے۔ علم کے لئے اُٹھنے والے قدم جنت کی طرف لے جاتے ہیں ۔  علم حاصل کرنے کے لئے گھر سے نکلنے پر "جِہَاد” کا ثواب ہے۔ اس راستے میں مرنے  والے کو "شہادت” کا مقام ہے۔  علم حاصل کرنے میں کامیابی پر "غازی” کا درجہ ہے۔ علم کےلئے بھوک پیاس برداشت کرنے پر "روزہ” کا اَجَر ہے۔   طالبِ علم کے پیروں کے نیچے فرشتے اپنے پاکیزہ پَر بچھاتے ہیں۔  حضور ﷺ نے فرمایا: عُلماء انبیاء کے وارث ہیں۔یہ بھی فرمایا کہ علمِ دین حاصل کرنے کےلئے آنے والوں کے ساتھ "حُسنِ سُلوک” کرنے کی میری وصیت قبول کرو۔  قرآن و حدیث کا علم حاصل کرنے پر بیشمار فضیلتیں آئی ہیں۔  لیکن قیامت سے پہلے علم اُٹھ جائے گا۔ جس کے آثار اب ہم کو نظر آرہے ہیں۔  علماء کرام دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں۔مگر  نئ نَسَل کی اکثریت کو علم حاصل کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔  تھوڑی بہت امتحان دینے کے لئے محنت ہوتی تھی، اب اس کی بھی فکر نہیں رہی۔   اس لئے علماء کے ساتھ علم بھی رخصت ہو رہاہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ لاک ڈاؤن کے عرصے میں تین چار مہینے سے دینی مدرسے مکمل طور پر بند ہیں۔ ہر جگہ معلمین خالی ہیں۔ علماء فارغ ہیں۔ طلبہ کو کوئی کام نہیں ہے۔ لیکن کوئی ایک طالبِ علم بھی ایسا نہیں معلوم ہوا، جو اپنے قریب کے کسی عالم،حافظ سے یہ درخواست کیا ہو کہ آپ میرا قرآن سُنیئے، یا مُجھ اکیلے کو چُھٹّیوں میں کوئی کتاب پڑھایئے،(اِلّاماشاءاللہ) ایسا کوئی ہوگا بھی۔۔۔جیساکہ فلسطین میں دو بچّے رمضان کے صرف ایک مہینے میں قرآنِ مجید حفظ کرلیے۔   پہلے زمانے میں علم حاصل کرنے کا بےانتہا شوق تھا۔ غیر معمولی قُربانیوں سے پہلے کے لوگ علم حاصل کئے۔ امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ کو جیل میں ڈالنے پر اُن کے شاگرد نے بادشاہ کے سامنے اس شرط پر رونا بند کیا کہ میرے سبق کا نقصان ہورہاہے۔لھذا یا تو میرے استاد کو رہا کرو،یاپھر مجھے بھی استاد کے ساتھ جیل میں ڈال دو۔۔  امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ گھر پر نظر بند تھے، لیکن اندلس سے بغداد صرف ان کے خاطر سفر کرکے آنے والے طالبِ علم نے دو سال تک بِھکاری کے لباس میں جاکر اُن سے علمِ حدیث حاصل کرکے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کا سب سے بڑا شاگرد بنا۔    شیخُ الائمہ سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کنویں میں "قید” کردیے گئے۔پھر بھی اُن کے باذوق شاگردوں کی جماعت نے التجاء کی کہ ہم کو کچھ پڑھائیں، کُنویں میں بیٹھ کر شاگردوں کو جو کچھ "مُنہ زُبانی ” پڑھایا، وہ آج اَسّی جلدوں کی کتاب "اَلمَبسُوط” بن گئ۔ امام شعبہ ؒ نے چار سو تابعین سے علمِ حدیث حاصل کیا۔  امام ذھبی ؒ نے علم سیکھنے کے لئے سات سال تک مسلسل سفر کیا۔ حافظ عبداللہ اصفھانی ؒ نے ایک سو بیس شہروں کو جاکر علم حاصل کیا، امام ابوحاتم رازی نے علم حاصل کرنے کے لئے تقریباً پندرہ ہزار کلومیٹر کا پیدل سفر کیا۔ امام ابوالقاسم طبرانی ؒ نے تینتیس سال تک ایک ہزار اُستادوں سے علمِ حدیث حاصل کیا۔    امام احمد بن حنبل ؒ پڑھنے کے زمانے میں ناڑے ہاتھ سے سیکر بیچتے اور اپنی ضروریات پوری کرتے تھے، طلبِ علم کے اَیّام میں انھوں نے جیب خرچ کےلئے اُونٹوں پر سامان چڑھانے اُتارنے کی بھی مزدوری کی،   امام طبرانی ؒ کے پاس بستر خریدنے کی استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے تیس سال تک صرف چٹائی پر سو کر علمِ حدیث حاصل کیے۔
  مولانا شاہ عبد القادر رائے پوری پڑھنے کے زمانے میں  سخت سردی میں بستر نہ ہونے کی وجہ سے مسجد کی جائے نماز میں لپٹ کر سوتے تھے۔ کئی لوگ بغیر استاد کے اپنے شوق سے حافظِ قرآن بنے، مولانا سلیم اللہ خان صاحب ؒ عالم کورس کے زمانے میں  رمضان کی چُھٹِّیوں میں ستائیس دن میں حِفظِ قرآن مکمل کئے۔کئ ایسے بچّے جَیِّد عالم بنے،جو گھروں سے بھاگ کر مکمل عالمِ دین بننے تک گھر واپس نہیں لوٹے۔ ایسے طلبہ بھی گزرے جو سبق نہیں ملنے سے روتے رہتے تھے اور کچھ نہیں کھاتے تھے۔ بلکہ کسی سے بات بھی نہیں کرتے تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی عالم حافظ بننے والوں کی بھی ایک تعداد ہے۔۔ تعلیم کے لئے عُمر کی کوئی قید نہیں، کوئی عمارت یا جماعت کی بھی ضرورت نہیں ہے، چنانچہ دارالعلوم دیوبند میں ایک استاد اور ایک طالبِ علم سے انار کے درخت کے نیچے تعلیم کا آغاز ہوا، مولانا اسعد اللہ صاحب ؒ ناظم  مظاھرعلوم روزانہ ایک ہزار صفحات کا مطالعہ کرتےتھے۔مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی زندگی کا سب سے  محبوب مشغلہ "مطالعہ "ہے،  مفتی نظام الدین شامزئی ؒ کا یومیہ سترہ گھنٹے مطالعہ کا معمول تھا۔امام محمد ؒکا رات کا اکثر حصہ مطالعہ میں گزرتا تھا،شیخ الحدیث ؒ  مطالعہ کےلئے رات کے کھانے کو قربان کرچکے تھے،  مفتی محمود ؒ سابق وزیرِ اعلیٰ نے فتاوی عالمگیری  کا چالیس مرتبہ مطالعہ کیا ہے۔شیخ الادب مولانا اعزاز علی صاحب کا ملفوظ ہےکہ میری بیماری کا علاج مطالعہ ہے، حضرت مولانا عبدالقوی صاحب نے اپنا دو سو بچوں کا مدرسہ چلاتے ہوئے، شہر کے دوسرے مدرسے میں روزانہ وقت دیکر "دورۂ حدیث ” کو مکمل کیا ہے۔  آج ہمارے اوقات فون میں، کھیل میں، بازاروں میں، گپ شپ میں،غیبت،چغلخوری میں،اور تنقیص و اختلاف میں ضائع ہورہے ہیں۔ اکثر طلبہ وقت کی حفاظت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ نہ انفرادی طور پر بھی کسی کے پاس جاکر کتاب پڑھنے کی طلب ہے۔ اور نہ کوئی کتاب کا مطالعہ کا شوق ہے۔ ہم کو خوب فرصت ملنے کے باجود بھی ہم علم سے محروم رہے رہے ہیں۔ علم کی طلب پیدا کرنے کے لئے اہلِ علم کی خدمت میں بیٹھیں، یا آن لائن عالمیت کی کلاس میں شرکت کریں،   یا پھر درجۂ ذیل کتابوں کا مطالعہ کریں۔ اکابرِ دیوبند کیا تھے؟۔ علماءِ سلف،  متاعِ وقت اور کاروانِ علم،  ظفرالمحصلین، نقوشِ رفتگاں، تبصرے،  تذکرے، تراشے، جہانِ دیدہ،دنیا میرے آگے، سفر در سفر،  ذکرِ رفتگاں،  وَفِیّاتِ ماجدیؔ ، پُرانے چراغ، تاریخِ دعوت و عزیمت، کاروانِ زندگی، کارونِ حیات مظاہری، کاروانِ حیات مبارک پوری، سَوانحِ حیات علماء کرام، علماءِ حق اور ان کے مجاھدانہ کارنامے، بیس بڑے علماء،  سو بڑےعلماء،  آداب المتعلمین۔ تحفۃالطلبہ و العلماء،  وہ کوہ کن کی بات، الجمعیۃ کے خصوصی شمارے برائے تذکرۂ اکابر و بزرگانِ دین،  آپ بیتی (شیخ الحدیث ؒ ) ، آپ بیتی ماجدی، بڑوں کا بچپن، مثالی شاگرد، ان شاء اللہ ان کتابوں کے مطالعہ سے علم حاصل کرنے کا جزبہ پیدا ہوگا۔۔ (نوٹ)اس مضمون کو آپ کے اخبار میں یا رسالے میں شامل فرمائیں۔جزاک اللہ تبارک و تعالی شکریہ, اس کو عربی،انگریزی اور ہندی تیلگو زبان میں لکھ کر عام کریں، اس کا پرنٹ عنایت فرمائیں، یا اس کو پی ڈی ایف میں بناکر دیں۔اس کی لنک کاپی بناکر دیں، نوازش ہو گی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×