سیاسی و سماجی

غلام ہندوستان سے آزاد ہندوستان تک

 یوں تو تاریخ انسانی میں بہت سے ایسے دن ہیں جو انتہائی اہمیت کے حامل ہیں انہیں تاریخ میں سے ایک *15 اگست* ہے جو ہر ہندوستانی شہری کے لئے ایک متبرک دن ہے  جس دن ہر ہندوستانی اپنی خوشی کا اظہار اپنے اپنے انداز میں کرتا ہے  یہی وہ تاریخ ہے  جو *1947* میں ہر ہندوستانی شہری کے لئے ایک امید کی کرن لایا تھا اور اسی تاریخ کو ظلم و جبر کے کالے بادل چھٹ گئے تھے اور ہندوستان ناپاک انگریزوں کے پنجوں سے آزاد ہوا تھاطوق سلاسل کا سلسلہ ختم ہوا تھا  مسلمانوں اور بطورِ خاص علماء کرام کی قربانیوں جاںفشانیوں کے بعد ہمیں یہ دن دیکھنے کو نصیب ہوا تھا بقول *مہاتما گاندھی*  اگر اس ملک کی آزادی میں *مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا محمودحسن دیوبندی* نہ ہوتے تو یہ ملک کبھی آزاد نہ ہوتا یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اس ملک کو آزاد کرانے میں مسلمانوں نے جتنا اپنا خون بہایا ہے دیگر مذاہب کے لوگ اتنا پسینہ بھی پیش نہیں کر سکتے جس کی مختصر سی تاریخ یہ ہے کہ ہندوستان مغلیہ حکومت کے زیر نگیں ترقی کے منازل طے کر رہا تھا اور دنیا کو اپنی طاقت اپنے مال و دولت کا احساس کرارہا تھا لیکن تن کے  گورے من کے کالے انگریزوں کو یہ بات ناگوار گزری اور ہندوستان پر اپنی حریص نگاہ گاڑ دی اسی کے پیش نظر 1599 میں لندن میں تجار آپسی گٹھ جوڑ سے بغرض تجارت ہندوستان آنے کا مشورہ کرتے ہیں اور سترہویں صدی کے اوائل میں اس مقصد کو حاصل کرلیتے ہیں اور بنگال کی سرزمین سے ایسٹ انڈیا کمپنی کے تحت اپنی تجارت شروع کرتے ہیں ان تاجروں پر ہندوستانی حکمرانوں نے ایسی کرم فرمائیاں کی اور ایسی ایسی مراعات میسر کیں جو بعد میں خود انہیں کے لئے وبال جان بن گئیں اور دوسرے کے حق میں خیر اندیشی اپنے حق میں سخت ناعاقبت اندیشی ثابت ہوئی جسکے نتیجے میں انگریزوں نے  اپنے پنجے گاڑ نے  شروع کئے لیکن *اورنگزیب عالمگیر* کی وفات( 1707 )تک انگریز کامیاب نہیں ہوسکے اورنگ زیب کی وفات کے بعد انہوں نے اپنی پکڑ اور مضبوط کی جسکو بہت جلد مرشد آباد کے غیور *نواب سراج الدولہ* نے بھانپ لیا اور آبروئے ہند کی حفاظت کی خاطر انگریزوں سے چھوٹی چھوٹی لڑائیاں کیں بالآخر 1757 میں پلاسی کا میدان مسلمانوں کی حب الوطنی کا پہلا گواہ بن گیا مگر عین فتح کے وقت *میر جعفر* کی غداری سے *نواب سراج الدولہ* جام شہادت نوش کرتاہے اور شکست سے دوچار ہو جاتا ہے  یہی سے مجاہدین آزادی کا دوسرا گروہ سر پر کفن باندھ کر انگریز کے خلاف کمر بستہ ہو جاتا ہے اور سراج الدولہ کے بعد *شیر میسور غیرت اسلامی کا پیکر ہندوستان کا محافظ سلطان ٹیپو*  میدان میں آتا ہےجس سے غاصب انگریز کی روحیں کانپ جاتی ہیں لیکن یہاں بھی *میر صادق* کی غداری کے سبب  سرنگاپٹنم میں 1799 میں سلطان ٹیپو شہید ہوجاتے ہیں اور سلطان ٹیپو کی لاش کو ایک انگریز *جنرل ہارس* ٹھوکر مار کر کہتا ہے کہ یہ ملک ہمارا ہے اس کے بعد انگریز 1803 میں دہلی کا رخ کرتے ہیں اور دہلی پر بھی قابض ہو جاتے ہیں ہیں اور موجودہ بادشاہ کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے تمام اختیارات قبول کراکر تخت پر بٹھائے رکھا اور کہا *خلق خدا کی ملک بادشاہ سلامت کا اور حکم کمپنی بہادر کا* یہ حکم سن کر مجاہدین کا ایک اور گروہ میدان میں نکلتا ہے اس بار کوئی نواب زادہ نہیں بلکہ مدارس کے علماء قلم و قرطاس کے حاملین میدان میں نکلتے ہیں اور  *شاہ ولی اللہ کے فرزند شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی 1803 میں یہ فتوی  دیتے ہیں کہ ملک غلام ہو چکا ہے ہم مسلمانوں کے پاس دو آپشن ہیں جہاد یا ہجرت چنانچہ تھوڑے ہی دنوں میں اس فتوے کے اثرات ظاہر ہونے لگے اور ہر طرف انگریزوں کے خلاف غصہ پایا جانے لگا اور پورے ملک میں آزادی کی فضا دکھائی دینے لگی بالآخر *حضرت سید احمد شہید* کی سربراہی میں 1818سے لے کر1831 تک ہزاروں مسلمان جام شہادت نوش کرگئے اس کے بعد بھی یکے بعد دیگرے چھوٹی چھوٹی جنگ ہوتی رہتی ہیں اور دور آتا ہے 1857 کا 1857 میں  شاملی کے میدان میں *حاجی امداد اللہ مہاجر مکی مولانا قاسم نانوتوی اور رشید احمد گنگوہی رحمھم اللہ* کی قیادت میں ایک خونریز معرکہ ہوتا ہے لیکن یہاں بھی بدقسمتی سے ناکامی ہی ہاتھ لگتی ہے انگریز یہیں سے مسلمانوں کو نشانے پر لے لیتے ہیں ہزاروں علماء کو کھولتے تیل میں ڈال دیا جاتا ہے داڑھی ٹوپی والے پورے ملک میں گرفتار کئے جانے لگے چالیس چالیس علماء کو ننگا کر کے تیل میں ڈالا جاتا اور کہا جاتا صرف اتنا کہ دو کہ ہم انگریز کے خلاف آزادی کے متمنی نہیں علماء تیل میں پک کر انگریزی ہندسہ کا 8 بن جاتے لیکن انگریز سے سمجھوتہ نہیں کرتے 1857 میں علماء کو جن مراحل سے گزرنا پڑا اس کے ذکر سے کلیجہ منہ کو آتا ہے *الغرض*  اسی درمیان 1866  میں دارالعلوم دیوبند کی بنیاد پڑتی ہے اور بقول *شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی* دارالعلوم دیوبند صرف مدرسہ نہیں تھا بلکہ انگریز کے خلاف مجاہدین تیار کرنے کی فیکٹری تھی اور اسی درمیان تحریک ریشمی رومال اور ہندوستان چھوڑو تحریک وجود پذیر ہوئیں اور انگریز ان تحریکوں کو کچلتے رہے مگر ان تحریکوں کے سپہ سالار باحمیت جرات مند عزم و استقلال کے کوہ گراں مایہ ناز علماء کرام تھے پھر انہیں علماء کی قیادت میں 1919 میں جمعیت علمائے ہند کا قیام عمل میں آتا ہے اور *مفتی کفایت اللہ علی جوہر عطاء اللہ شاہ بخاری حسین احمد مدنی مولانا ابوالکلام آزاد حکیم اجمل خان* کی قیادت میں تحریک آزادی چلتی رہتی ہے اور دوسری طرف برادران وطن بھی  بیدار ہوچکے ہوتے ہیں بالآخر اور 14/15 اگست کی درمیانی رات 27 رمضان المبارک کو انگریز ہمیشہ ہمیش کے لئے ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں
 *قارئین کرام!*
کہنے کو تو  ہندوستان 15 اگست 1947 کو آزاد ہوا غلامی کی زنجیریں ٹوٹیں انگریز ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ آزادی آج بھی طلبگار ہے آزادی کی آج آزاد ہندوستان اپنی تاریخ کے کس بھیانک دور سے گزر رہا ہے بتانے کی ضرورت نہیں ہے ملک کا کیا حال ہے سنانے کی حاجت نہیں ہے اور فرقہ پرستوں نے ملک کو کس جگہ لاکر کھڑا کردیا ہے آپ بخوبی واقف ہیں آج ہم اور آپ جشن یوم آزادی منا رہے ہیں اور لاکھوں گھروں میں چولہا تک نہیں جل رہا ہے ہزاروں بے قصور نوجوان جیلوں میں بند ہیں ہزاروں مائیں اپنے سپوتوں کے لیے آنسو بہا رہی ہیں جس کی بنا پر  آج 73 سال بعد بھی یوم آزادی ہم سب سے فریاد کرتا ہے مجاہدین آزادی کی روحیں ہمیں صدا دے رہی ہیں شیخ الہند کا کلیجہ ہمیں آواز دے رہا ہے سلطان ٹیپو کی جانفشانی ہمیں غیرت دلا رہی ہے سید احمد شہید کا جذبہ جہاد ہمیں للکار رہا ہے شیخ الاسلام کی صعوبتیں ہم سے یہ فریاد کر رہی ہیں کہ اے
 *ہندوستانی مسلمانوں!*
تم نے ملک کو کس کے ہاتھوں میں سونپ دیا ہے کن لٹیروں کو ملک کا پاسبان بنا دیا ہے کیا تم مجرم نہیں ہو کیا تم نے ہماری قربانیوں کو فراموش کردیا کیا ہم نے یہی دن دیکھنے کے لئے ملک کو آزاد کرایا تھا افسوس صد افسوس کہ جو قوم اس ملک کی آزادی میں پیش پیش رہی جس قوم نے ملک کو سونے کی چڑیا بنادیا تھا جس قوم نے 800 سال ملک پر منصفانہ طریقے پر حکومت کی آج اسی قوم کی حب الوطنی پر لگا ہے سوالیہ نشان وہی قوم آج اپنے ہی ملک میں بے یار و مددگار وہی قوم آج اپنے ہی ملک میں اپنے ماتھے پر دہشت گردی کا کلنک لئے پھرتی ہے وہی قوم ہاتھوں میں ڈگریاں لئے سرکاری نوکریوں کی بھیک مانگ رہی ہے آج بھی فیکٹریوں کارخانوں میں ہمارے ہی محنت کش نوجوان ملک کی ترقی کے لئے خون پسینہ ایک کر رہے ہیں پہاڑوں کو کاٹ کر راستہ بناتے ہیں سمندر کا سینہ چیر کر پل تعمیر کررہے ہیں سرحدوں پر بھی ملک کی نگرانی کررہے ہیں قطب مینار لال قلعہ تاج محل بھی ہمارے ہی بزرگوں کی یادگار ہیں ان پر منقش عربی تحریرات ہماری حب الوطنی کی گواہی دے رہی ہیں تحریکِ خلافت تحریک ریشمی رومال بھی ہمارا میزائل مین ہمارا انقلاب زندہ باد کا نعرہ بھی ہمارا ہمیں نے کارگل کی چوٹیوں پر لہرایا تھا ترنگا ہمیں نے خاک میں ملایا تھا پاکستانی ٹینک ہمارے جسموں میں ناتھو رام گوڈسے کا نہیں سلطان ٹیپو شہید کا خون دوڑ رہا ہے اس ملک کی اکنامی میں مددگار مرادآباد کے برتن ہمارے فیروز آباد کی چوڑیاں ہماری بنارس کی ساڑیاں ہماری علی گڑھ کے تالے ہمارے کانپور کی جوتیاں ہماری مالیگاؤں بھیونڈی کے کپڑے ہمارے پھر بھی ہم 73 سال سے اس ملک میں ننگے اور بھوکے *قائد جمعیت مولانا محمود مدنی* نے کہاتھا ہم بھارتی مسلمان بائی چانس نہیں بائی چوائس ہیں ہمارے اکابرین نے کہا تھا ہم اسی ملک میں پیدا ہوئے اسی ملک کی مٹی میں دفن ہونگے لیکن حکمرانوں نے آزادی سے لیکر آج تک ہمارے ساتھ سوتیلا سلوک کیا تم نے ہمیں تقسیم وطن کے ہنگاموں میں مارا ہم خاموش رہے بھاگل پور مظفر پور میں ہمارے ہی خون کی ندیاں بہیں ہم خاموش رہے گجرات میں ہمارا ہی قتل عام کیا گیا ہم خاموش رہے ہماری ہی مساجد کو بت خانوں میں تبدیل کیا گیا ہم خاموش رہے ہمارے ہی بے قصور نوجوانوں کو جیل میں ٹھونسا گیا ہم خاموش رہے ہماری مسجدوں پر بھگوا لہراکر غنڈہ گردی کی عظیم مثال پیش کی گئی ہم خاموش رہے ہم سے ریزرویشن کا حق چھینا ہم خاموش رہے تم نے ہمارے اسلاف کی تاریخ کو مسخ کیا ہم خاموش رہے کبھی گئو کشی کے نام پر مآب لنچنگ کبھی جے شری رام نہ بولنے پر موت کے گھاٹ اتارا کبھی اذان پر پابندی کا مطالبہ کبھی مسلم پرسنل لا میں ترمیم کی کوشش کبھی مدارس پر شکوک کی نظر کبھی یوگا اور سوریہ نمسکار پر ہنگامہ کبھی این آرسی کے نام پر اقلیت کو پریشان کرنا کبھی سی اے جیسا قانون لاکر دوہرا رویہ برتنا الغرض آج آزادی کے 73 سال بعد بابری سے لیکر دادری تک تم نے سو بار ہماری آزادی چھینی ہے اسی لیے آزادی کے 73 سال بعد بھی ہمارا ملک بھکمری سے آزاد نہیں ہوسکا ہمارا ملک ورلڈ بینک کے قرضوں سے آزاد نہیں ہوسکا ہمارا ملک یوروپ اور امریکہ کی غلامی سے آزاد نہیں ہوسکا ہمارا ملک فرقہ پرستوں سے آزاد نہیں ہو سکا اس لئے میں کہ رہا ہوں آزادی آج بھی طلبگار ہے آزادی کی
 *قارئین!*
         آئیے اس یوم آزادی پر ہم حکمرانوں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اے اقتدار کے غلاموں
ہمیں آزادی دو کلکشن سے ہمیں آزادی دو تعصب سے ہمیں آزادی دو فرقہ پرستی سے ہمیں آزادی دو مآب لنچنگ سے ہمیں آزادی دو جہالت سے ہمیں آزادی دو غربت سے ہمیں ازادی دو یوروپ امریکہ کی غلامی سے ورنہ اسکے بغیر ہر زبان بولے گی آزادی آج بھی طلبگار ہے آزادی کی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×