سیاسی و سماجی
سال 2020 کی درد بھری روداد
سال 2020 بھی اپنے آخری ایام گزار رہا ہے اسکے بعد یہ سال بھی ماضی کی تاریخ بن کر رہ جائے گا سال 2020 پورے عالم بطور خاص ہندورستان کے لئے سیاسی،سماجی،معاشی،طبی امراضی،ہر اعتبار سے انتہائی اہمیت کا حامل رہا ،لیکن افسوس کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے کہ 2020 کی ابتداء میں ہمارا ملک جہاں کھڑا تھا شاید 2020 کے اختتام پر بھی وہیں کھڑا ہے جس سے حکمرانوں کی تاناشاہی بھی خوب خوب عیاں ہو جاتی ہے دنیا کی چمک دمک میں مصروف افراد نے سال 2020 کی ابتدا بڑے ہی شان و شوکت پارٹی اور پٹاخے کے ساتھ کی تھی یہ امید لگاتے ہوئے کہ شاید 2020 کا سال ہمارے لئے کافی اچھا ثابت ہو لیکن ہوا کچھ یوں کہ یہ سال تاریخ کا ایک اہم باب بن گیا اور آئندہ نسلوں کے لئے توجہ کا مرکز رہے گا ہندوستانی عوام کے لئے یہ سال کچھ زیادہ اچھا نہیں رہا سال کی ابتداء کچھ یوں ہوئی کہ کڑاکے کی ٹھنڈ میں سیکڑوں مسلمان مرد عورتیں بچے بوڑھے جوان اقلیتوں کے خلاف لائے گئے کالے قانون سی اے اے ،این آر سی کے خلاف سراپا احتجاج تھے تو وہیں سال کے اختتام میں حکومت کے ذریعے لائے گئے کسان مخالف بل کے خلاف پورے ملک کے کسان بلا تفریق مذہب و ملت سراپا احتجاج ہیں سال کی ابتداء میں جہاں انقلاب زندہ آباد کے نعرے گونج رہے تھے اور نوجوانوں کے عزم و حوصلے دیکھنے کے قابل تھے تو وہیں سال کے آخر میں” چوکیدار چور ہے” کے نعرے اور بوڑھے کسانوں کی جدو جہد بھی قابل دید ہے، سال کی ابتداء میں دہلی کا شاہین باغ پورا ہندوستان کیا پورے عالم کے لئے توجہ کا مرکز تھا تو وہیں سال کے آخر میں سندھو بارڈر موضوع گفتگو ہے الغرض سال 2020 کی ابتداء اور انتہاء میں ہندوستان میں کچھ بھی نہیں بدلا ، وہی عوام ،وہی مزدور،وہی نوجوان،وہی بچے ،وہی بوڑھے ،وہی عزم و حوصلے وہی جرات وہمت، وہی روڈ ، وہی پولیس ،وہی پولیس کے ڈنڈے ،وہی سیاستدانوں کا مظلوموں کو دیکھ اپنی سیاست چمکانا، بدلا ہے تو صرف اتنا کہ ایک طرف جنوری تھا تو دوسری طرف دسمبر ہے ،بدلے ہیں تو ہندوستانی ریل ،ہوائی اڈوں کے مالکان ، بدلے ہیں تو حکومت کے کاریالیں،بدلے ہیں تو پارٹیوں کے صدور،الغرض سال 2020 میں پورے ملک میں ایک ہنگامی صورتحال رہی ، سال 2020 میں سب سے زیادہ جو چیز موضوع گفتگو رہی ،وہ ہے کورونا وائرس، جی ہاں جنوری میں جب چین کے علاقوں سے کورونا وائرس نے پوری دنیا میں دستک دینا شروع کردیا تھا تب اس وقت ہمارے ملک میں دہلی الیکشن کا پرچار ہورہا تھا، دہلی الیکشن میں ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشیاں،بہتان بازیاں ہورہی تھیں، وائرس کو روکنے کے بجائے ظالموں کے خلاف آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرنے والے شاہین باغ کو ختم کرنے کی حکمت عملی تیار کی جارہی تھی ،جی ہاں یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا بلکہ دہلی الیکشن کے فوراً بعد دہلی فسادات کرواکر ہندوستانی مسلمانوں کے خون سے ہولیاں بھی کھیلی گئیں،مسجدوں خانقاہوں،مزراوں کو نذرِ آتش بھی کیا گیا ، اسکے بعد مزید ستم بالائے ستم یہ کہ بے گناہ مسلمانوں کو ہی گرفتار بھی کیا گیا ،اور پولیس کی موجودگی میں بھڑکاو بیانات دینے والے کپل مشرا جیسے فرقہ پرستوں پر ابھی تک کوئی آنچ تک نہیں آئی ، کورونا وائرس لگ بھگ پوری دنیا میں اپنے پاؤں پھیلا رہا تھا ،لیکن دہلی فسادات کے ٹھیک بعد حکومت اور سیاستدان نمستے ٹرمپ میں مصروف ہوگئے بالآخر کورونا وائرس نے ہندوستان میں بھی اپنے پاؤں پسار لئے اور حکومت بے خوابی کی نیند سوتی رہی ، بیداری تب آئی جب مارچ میں ہنگامی طور پر ، یونیورسٹیز اور مدارس کے ہاسٹلوں کو بند کرنے کا اعلان کیا گیا ،لیکن اب تک جو ہونا تھا ہوگیا تھا
اسکے بعد فورا 22 مارچ کو جنتا کرفیو کا اعلان کیا گیا ،جوکہ ہندوستانی عوام کے ذہنوں کو مکمل لاک ڈاؤن کے لئے پرکھنا تھا ،اسکے بعد ہی 21 دن کے لئے مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا گیا جو مسلسل 68 دنوں تک چلا ، یہ لاک ڈاؤن اپنے اندر ایک بڑی روداد سموئے ہوئے ہے ، یہ دن تاریخ کے صفحات سے شاید ہی غائب ہوسکیں ، لاک ڈاؤن کے بعد پورے ملک کے مزدور،کسان ،اور ہر طبقے کا آدمی پریشان حال تھا ، وہ سڑکیں جہاں عوام کا ہجوم اور ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوا کرتا تھا ویران اور سنسان تھیں ، ہوٹلز ، ریسٹو رومز ، جہاں لاکھوں انسان اپنے پیٹ کی آگ بجھاتے تھے سب مقفل ہوگئے ،وہ مدارس جہاں طالب علم اپنے تشنگی بھجایا کرتے تھے اچانک سے بند ہوگئے ،وہ یونیورسٹیز جہاں سے ملک کے لئے خدمت کرنے والے افراد تیار ہوتے تھے ان پر تالے پڑگئے ،سنسان اور سناٹا اگر کہیں نہیں تھا تو وہ جگہیں تھیں دہلی کے بس اڈے جہاں کئی کلومیٹر تک مزدوروں کا جم غفیر تھا، کسی جگہ پر اگر انسان نظر آتے تھے تو وہ جگہیں تھیں ملک کی ہائی وے روڈیں جہاں سیکڑوں مزدور اپنوں کی تلاش میں اپنے وطن اصلی کی طرف بھوکے پیاسے کوچ کرنے پر مجبور تھے ،جی ہاں ریل گاڑیاں،ہوائی جہاز ، جم خانے ، مدارس کے امتحانات، رمضان کی رونقیں،افطاری کی دعوتیں، تراویح کی خوشیاں، عید کی خریداری میں بازاروں کی چکاچوند اور عید و بقرہ عید کی نمازیں اور رشتہ داروں سے ملاقاتیں یہ سب اسی لاک ڈاؤن پر قربان ہوگئے ، غرض یہ کہ پورا ہندوستان ٹھپ تھا اور اسی کے بعد مسلسل بعد بے حس حکومت کورونا وائرس کی ویکسین تلاشنے کے بجائے طاقت کے بل بوتے پر ہتھائے گئے بابری مسجد کی زمین پر رام مندر بنانے کی تاریخ تلاش رہی تھی ، اسپتالوں میں بیڈ اور اور ڈاکٹروں کی مزید تعییناتی کے بجائے ہندوستانی عوام سے تالی تھالی بجواکر اور دیا جلواکر حکومت ان کی احمقانہ حرکتوں پر مسکرارہی تھی ، 5 اگست کو جم غفیر کی موجودگی میں رام مندر کی بنیاد رکھ کر ہندوستانی مسلمانوں کے جذبات کو ایک بار پھر مجروح کررہی تھی ، اسکے بعد بہار الیکشن میں بھی خوب چقلش بازیاں ہوئی ،خوب ریلیاں ،پرچار ، سبھاؤں میں عوام کا جم غفیر، تب شاید کورونا چھٹی پر تھا ، اسکے بعد نئے پارلیمنٹ کی بنیاد جس میں کسی اپوزیشن نیتا کی عدم شرکت سے واضح ہے کہ آگے اب اپوزیشن کوئی چیز نہیں رہے گی اور شاید سرکار راج چلے گا ،دوستو اخیر میں چلتے چلتے اگر اس روداد میں علماء کی رحلت نہ ذکر کی جائے تو شاید یہ روداد ناقص ہوگی ،جی ہاں دوستو سال 2020 جہاں کئی اعتبار سے ہندوستانی عوام بطورِ خاص مسلمانوں کے لئے درد بھرا رہا وہیں علماء کی رحلت نے بھی خوب غمگین کیا ، علماء کا سفر آخرت بھی ایک ضرب شدید رہا ، سال 2020 میں انتقال کرنے والے علماء میں ،دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مفتی سعید صاحب پالنپوری،قاضئ کانپور مولانا متین الحق اسامہ علاوہ ڈاکٹر خالد محمود اور پڑوسی ملک کے ممتاز علماء کرام بھی شامل ہیں ، اب 2021 کی آمد ہے جہاں کچھ لوگ پٹاخے اور آتش بازیوں کے ساتھ 2021 کا استقبال کرینگے وہی ہم مسلمان عزم کریں بارگاہِ الٰہی میں گریہ وزاری کرکے دعاء کرینگے کہ اللہ رب العزت اس سال کی رخصتی کے ساتھ عالم اسلام سے تمام مصیبتوں اور اس وبائی مرض کو بھی رخصت کردے آمین