اسلامیات

ماہِ محرم: اسلامی سال کا پہلا مہینہ

عرب والوں کے یہاں سالوں کو جاننے کا کوئی قاعدہ ونظام نہیں تھا۔ بعض لوگ سالوں کی گنتی کا حساب کسی حادثہ یا جنگ کے پیش آنے سے کرتے تھے۔ لوگ کسی قبیلہ کے سردار کی موت کو بنیاد بتاتے تھے۔ لیکن ظاہر ہیکہ ساری چیزیں ایسی نہیں جس پر سب لوگوں کا اتفاق ہوسکے۔ اسکے علاوہ ان واقعات وحادثات کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس لئے ان جیسی چیزوں سے حساب کرنے کا سلسلہ زیادہ دنوں تک نہیں چل سکا اور لوگوں کے درمیان تاریخوں کو جاننے میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ سب سے پہلے حضرت عمر فاروق ؓ کے زمانہ خلافت میں ہجرت کے سولہویں یا سترویں سال یعنی نبیﷺ کی وفات کے چھٹویں یا ساتویں سال یہ معاملہ کھل کر سامنے آیا۔ اس کا سبب یہ بنا کہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو حضرت عمرؓ نے ایک علاقے کا گورنر وحاکم بناکر بھیجا۔ایک مرتبہ حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ نے حضرت عمرؓ کو یہ خط لکھا کہ ائے امیر المؤمنین ہمارے پاس آپکے خطوط آتے ہیں لیکن ان پہ کوئی تاریخ نہیں ہوتی جسکی وجہ سے ہم الجھن میں رہتے ہیں۔ یہ بات سنکر حضرت عمرؓ نے صحابہ کو مشورے کے لئے اسی وقت جمع فرمایاجب صحابہ ؓ نے مشورے دیا تو اس وقت یہ بات طئے ہوئی کہ تاریخ میں مہینہ اور سن دونوں کا ذکر ہونا چاہئے۔ لیکن اختلاف اس میں ہواکہ سالوں کا حساب کہاں سے لگایا جائے۔بعض نے کہا کہ اللہ کے رسولﷺ کی بعثت اور بعضوں نے کہا کہ اللہ کے رسول ﷺ کی وفات سے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے یہ رائے دی کہ ہجرت سے سالوں کا حساب لگایا جائے۔ کیوں کہ ہجرت ایک ایسا عمل ہے جس کے ذریعہ اللہ کے رسول ﷺ سرزمین مکہ کو خیر باد کہا ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس رائے کی بھرپور تائیدکی فرمایا کہ ہاں!اسکی وجہ سے حق اور باطل میں امتیاز ہوا ہے۔ یہ واقعہ ہیکہ ہجرت سے اسلامی تاریخ کا آغاز ایک بہت بڑی قربانی ہے۔ یہ کون نہیں جانتا کہ ہر شخص کو اپنے وطن اور اپنی پیدائش کی جگہ اور اپنے والدین اور اپنے عزیزواقارب سے محبت ہوتی ہے۔ بے وجہ کوئی آدمی اپنے گھروالوں کو اور اپنے وطن کو نہیں چھوڑتا۔
مکہ مکرمہ اللہ کے رسولﷺ کا مولد رہا ہے۔ آپ ؐ کے آباواجداد وہاں پر آباد تھے پھر وہ تو توحیدکا اولین مرکز تھا۔ اس لئے طبعی طور پر اللہ کے رسولﷺ کو مکہ سے جدائی نہایت شاق معلوم ہوئی۔حد یہ ہوئی کہ وطن سے بہت دور نکلنے کے بعد جب تعاقب کرنے والوں کی طرف سے کچھ اطمینان سا نصیب ہوا تو حضورﷺ عین اس شاہراہ پر آگئے جو مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع تھی وہاں دیر تک بڑی بیقراری سے اپنے اور اپنے والد کی جائے پیدائش کو یاد کرتے رہے۔ محبوب خداﷺ کی اس بیقراری پر آسمان سے فوری طور پر یہ آیت نازل ہوئی جسکا ترجمہ یہ ہے(جس خدا نے آپ پر قرآن کے احکام پر عمل اور اسکی تبلیغ کو فرض کیا ہے وہ آپ کو آپکے اصلی وطن مکہ پھر پہونچادے گا:سورہ قصص۔۵۸)تاہم ان سارے خدمات وتعلقات کے باوجود اللہ کے رسولﷺ نے محض اللہ کی رضا حاصل کرنے، ایک خدا کی عبادت کرنے اور بندگان خداکو راہِ راست پر لانے کے لئے، اپنے وطن کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہدیا اور اس سرزمین کو الوداع کہہ دیا جہاں آپؐ نے اپنی زندگی کے پچاس سے زائد بہاریں گذاریں تھی۔ یہ ایک ایسا کارنامہ ہے جسے بجا طور پر اسلامی تاریخ وتقویم کے نقطہ آغاز بننے کا اعزاز وشرف ملنا چاہئے جنانچہ متفقہ طور پر واقعہ ہجرت سے اسلامی تقویم کا آغاز کو تسلیم کرلیا گیا۔ جب یہ معاملہ طئے ہوگیا کہ اسلامی کیلنڈر کا آغاز کہاں سے ہو۔ تو دوسرے نمبر پر یہ بحث ہوئی کہ سال کی شروعات کس مہینہ کے مانی جائے؟بعض لوگوں نے یہ رائے دی کہ رمضان سے ہو،لیکن حضرت عثمان غنیؓ کی یہ رائے ہوئی کہ محرم سے سال کی شروعات ہو کیونکہ یہ مہینہ مناسک حج سے فراغت کے بعد حجاج کرام کا اپنے اپنے ملکوں کو لوٹنے کا ہے پھر یہ مہینہ شروع ہی سے قابل احترام سمجھاجاتا تھا۔ اہل عرب باوجود لڑائی اور جنگوں کے دلدادہ ہونے کے اس مہینہ میں قتل اور غارت گری سے بالکلیہ اجتناب کیا کرتے تھے۔ واقعہ یہ ہیکہ دونوں چیزیں جو ماہ محرم سے وابستہ ہیں بڑی ہی انقلابی اور عبرت انگیز ہیں۔ فریضہ حج ادا کرکے انسان گناہوں سے دھلایا جاتا ہے اپنے وطن واپس ہوتا ہے یہاں سے اسکی زندگی کی نئی شروعات ہوتی ہے فکروعمل کی پاکیزگی اور روح میں بالیدگی کی نئی بنیاد پڑتی ہے۔ یہ نہایت خوش آئند موقع ہے کہ اس ماہ سے اسلامی سال کی شروعات بھی ہو۔ الغرض اسلامی تقویم کے سن ہجری سے آغاز کا اور ماہ محرم سے سال شروع کرنے کا اللہ ہماری عملی زندگی میں یہ اسباق پیدا فرمائے ہیں۔
اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہیکہ ماہ محرم کی ایک تاریخی حقیقت ہے۔ لیکن اس مہینے کی دس تاریخ کو چند ایسے عالمگیر قسم کے واقعات پیش آئے ہیں جنہوں نے ماہ محرم کی تاریخی حقیقت کو اور بھی دوچند کردیا صحیح روایات سے ثابت ہیکہ حضرت موسی ؑ اور بنی اسرائیل کو عاشورہ کے دن ہی فرعونیوں سے نجات ملی اور فرعون اپنے لشکر سمیت دریا میں غرق ہوا۔
عاشورہ جس میں اللہ نے حضرت آدمؑ اور یونسؑ کی توبہ قبول فرمائی۔حضرت وہب کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیؑ کی جانب وحی فرمائی کہ اپنی قوم کو حکم کروکہ وہ محرم کے مہینہ میں میری طرف توبہ کریں۔ اور جب دسویں تاریخ آجائے تو میری باگاہ کی جانب نکل پڑیں۔ میں انکو بخش دوں گا۔ علامہ رجب فرماتے ہیں کہ یہ روایت یومِ عاشورہ میں توبہ کرنے پر ابھارتی ہے اور یہ ثابت کرتی ہے کہ اس دن توبہ کی قبولت کی زیادہ امید ہے (فیض القدیر ۳/۴۲ حدیث نمبر ۵۷۶۲)
یہاں اس بات کی وضاحت رہے کہ عاشورہ کے موقع پر وقوع پذیر واقعات کی طول فہرستیں بھی بعض روایات میں آئی مثلاً یہ کہ اس دن اللہ نے حضرت ابراہیم ؑ کو اپنا خلیل بنایا اس دن حضرت یونسؑ کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی، اسی دن حضرت سلیمانؑ کو سلطنت ملی، اسی دن اللہ کے رسولﷺ مدینہ داخل ہوئے اور آسمان وزمین ولوح وقلم کی پیدائش ہوئی، اسی دن قیامت قائم ہوگی، اسی دن حضرت موسیؑ کو تورات ملی وغیرہ…..لیکن یہ ساری روایات غیر معتبر ہیں۔ ایسے بھی عاشورہ کے روزہ کی غیر معمولی فضیلت سے متعلق روایات آئی ہیں۔مثلاً یہ کہ جو شخص اس دن روزہ رکھے گا اسکے چالیس سالہ گناہ معاف ہوتے ہیں، اسکے لئے ساٹھ سالہ عبادت کا ثواب لکھاجا تاہے۔ ایک ہزار حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کا ثواب لکھاجاتا ہے۔ دس ہزار شہیدوں کا اجردیا جاتا ہے۔ ساتوں آسمانوں کا اجروثواب اسکے نامہ اعمال میں لکھاجاتا ہے۔ یہ تمام روایات غیر قابل اعتبار ہے۔ اس قسم کی روایات کو اللہ کے رسولﷺ کی احادیث کی حیثیت سے بیان کرنا جائز نہیں ہے۔ بعض لوگ اپنی بات میں رنگ بھرنے ان بے اصل باتوں کو بیان کرتے ہیں ایسے لوگوں کو اللہ کے حبیبﷺ کی اس وعید سے ڈرنا چاہئے کہ جو شخص جان بوچھ کر مجھ پر جھوٹ کہے گا تو اسے چاہئے وہ اپنا ٹھکانہ جہنم کو بنالیں (مشکوۃ شریف۔کتاب العلم)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہیکہ آپﷺ رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے عاشورہ کا روزہ رکھاکرتے تھے پھر جب رمضان کے روزے کی فرضیت ہوئی تو آپﷺ نے فرمایا لوگو! عاشورہ اللہ خاص ایام میں سے ایک خاص دن ہے تو جس کا جی چاہے اس دن روزہ رکھے اور جو نہ رکھنا چاہے وہ نہ رکھے (مسلم:۶۲۱۱)
حضرت ابوقتادہؓ سے روایت ہیکہ اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا عاشورہ کا روزہ گذشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا اور عرفہ کا روزہ گذشتہ سال اور آئندہ سال کے گناہوں کے لئے کفارہ ہوجاتا ہے(نسائی شریف:۹۰۸۲)
لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم عاشورہ کے روزے کی فضیلت کو جان کر اس دن روزہ رکھیں ۔۔۔۔ اور عاشورہ کے دن ہونے والے رسومات سے بچیں ۔۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×