سیاسی و سماجی

غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ

مدارس اسلامیہ اپنے روز قیام ہی سے دو قسم کی ذہنیتوں کا نشانہ رہے ہیں: ایک تو وہ جس نے مدارس کے وجود کو کبھی قبول ہی نہیں کیا اور ان کو اپنے مذموم مقاصد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھا، یہ استعماری یا کفریہ طاقتوں کی نمائندگی کرنے والی ذہنیت تھی۔ اس کو چوںکہ مغلیہ سلطنت کے بعد مسلسل اقتدار کی علانیہ یا خفیہ سرپرستی حاصل رہی یہاں تک کہ آزادی کے بعد بدلے ہوئے اقتدار میں بھی کم وبیش وہی صورت حال رہی اس لیے مدارس کے خلاف اس کی سرگرمیاں زیادہ راست طور پر اور کھلی مخالفت کے انداز میں سامنے آتی رہیں، اور اُن سے اگرچہ مدارس کونقصان بھی پہنچتا رہا؛ لیکن اس نقصان کی نوعیت ایسی ہی تھی جیسی کھلے دشمن سے پہنچنے والے نقصان کی ہوتی ہے، کہ اس سے متاثر ہونے والا، خواہ کتنا ہی نقصان اٹھا رہا ہو، ہمدردی سے محروم نہیں ہوتا اور اس کے وجود پر سوالیہ نشان کھڑا نہیں ہوتا؛ بلکہ بسا اوقات ہمدردی میں اضافہ ہی ہوجاتا ہے۔
لیکن مدارس کے خلاف کام کرنے والی دوسری ذہنیت اگرچہ دوسروں کی نمانئدہ نہ ہو اور اس کو اُن کو آلۂ کار بھی نہ کہا جاسکتا ہو؛ لیکن وہ کام اُن ہی کا کرتی ہے اور اس کی محنت سے پہنچنے والا نقصان بھی مدارس کو کمزور کرکے بالواسطہ غیروں ہی کی خدمت انجام دیتا ہے اور چوںکہ وہ اپنوں کی جانب سے ہوتی ہے، اس لیے وہ بہت سے اپنے لوگوں کو متاثر کردیتی ہے، اس لیے اس کی سنگینی نتائج کے اعتبار سے زیادہ ہوجاتی ہے۔
سردست اسی دوسری ذہنیت کے اٹھائے ہوئے چند نکات پر اختصار کے ساتھ کچھ عرض کرنا ہے۔
اس ذہنیت کے حاملین جو عام طور پر اپنے ہی لوگوں میں سے ہوتے ہیں، اُن کی نیت کے بارے میں تو کچھ کہنا مناسب نہیں، اگرچہ اُن میں سے بعض کا جارحانہ انداز اُن کی نیت کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کرتا ہے؛ لیکن اس کونظر انداز کرکے نفس مضمون پر ہی بات کرتے ہیں، اس لیے اُن میں کسی کی تعیین بھی نہیں کی جارہی ہے، اگرچہ اُن کو تلاش کرنا اور پہچاننا مشکل نہیں ہے۔ ایسے لوگ کسی بھی عصری تعلیم کے ادارے میں یا کسی بھی اخبار کے کالموں میں آسانی کے ساتھ مل سکتے ہیں۔
اس قسم کے حضرات کی تحریروں، کتابوں اور مقالات ومضامین میں یوں تو طرح طرح کی باتیں مختلف انداز سے کہی جاتی ہیں؛ لیکن بنیادی طور پر اُن کو چند مرکزی نکات میں سمیٹا جاسکتا ہے۔
(۱) نصاب تعلیم : مدارس کے بارے میں خامہ فرسائی کرنے والے اکثر حضرات کی گفتگو اکثر وبیشتر یا زیادہ شدت کے ساتھ نصاب تعلیم کے مسئلے پر ہوتی ہے، اُن کے خیال میں مدارس کا نصاب تعلیم فرسودہ، ازکار رفتہ اور جمود کا شکار ہے، جس کو مدارس نے تقدس کا درجہ دے کر ہاتھ نہ لگانے کی قسم کھارکھی ہے اور وہ تین سو سال پرانے اس نصاب کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔
اس سلسلے میں نہایت اختصار کے ساتھ صرف دو باتیں عرض کی جاتی ہیں: پہلی بات تو یہ کہ نصاب میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہ کرنے کا الزام، درحقیقت ناواقفیت پر مبنی ہے، اگریہ حضرات صرف ڈیڑھ سو برس پہلے کے نصاب اور آج کے نصاب کا موازنہ کرلیں تو بے شمار تبدیلیاں نظر آجائیںگی اور جہاں تبدیلی نظر نہیں آتی اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ توجہ نہیں ہوئی؛ بلکہ وہاں تبدیلی کو مدارس کے مقاصد سے ہم آہنگ نہیں سمجھا گیا؛ اس لیے تبدیلی نہیں کی گئی۔
دوسری بات مقاصد ہی سے متعلق ہے اور مدارس کے نصاب پر غور کرنے کے باب میں یہی بنیادی نکتہ ہے اور وہ یہ کہ مدارس کی حیثیت محض ایک تعلیمی ادارہ کی نہیں ہے جو کچھ لوگوں کو پڑھانے لکھانے کے لیے قائم کیاگیا ہو؛ بلکہ اُن مدارس کا مرکزی مقصد علوم اسلامیہ کی حفاظت یا بالفاظ دیگر، نبوت کی علمی میراث کو اس کی حقیقی روح اور مکمل مزاج کے ساتھ محفوظ رکھنا اور اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہے، یہ کوئی سائنس کا نصاب نہیں ہے جس کی حفاظت ہی تبدیلی میں ہے اوراس کی ترقی کا راز ہی اس کا روز بروز نئی شکل اختیار کرنا اور نئے نئے تجربات سے مستفید ہونا ہے۔ اس کے برخلاف علوم نبوت کا تو سارا اعتبار اُن کی قدامت ہی میں ہے، اس لیے اس نصاب کو اسکول کالج کے نصاب پر قیاس کرنا بڑی نادانی کی بات ہے۔
ہاں اپنی ضروریات کی حد تک طالب علم کی معلومات میں اضافہ کرنا ایک ضرورت ہے جس پر عام طور پر مدارس میں توجہ بھی ہے اور اس سے بڑھ کر بلندپایہ دعوتی مقاصد کے لیے ضروری علوم، معلومات اور زبانوں کا معاملہ ہے، اس کے لیے تخصص کے انداز پر کام ہونا چاہئے اور کسی درجہ میں ہوبھی رہا ہے، پھر یہ کام مدارس کے متعینہ نظام سے الگ بھی کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ معتبر علماء کی نگرانی میں ہو تو اس ضرورت کی تکمیل بھی ہوجائے گی۔
(۲) معیار تعلیم کا مسئلہ: بعض لکھنے والوں کی تحریرات میں مدارس کے معیارِ تعلیم پر بھی بات آتی ہے یہ بات اگرچہ وہ زیادہ منصفانہ انداز سے پیش نہیں کرتے؛ لیکن پھر بھی یہ بات قابل توجہ ہے۔ منصفانہ انداز سے مراد یہ کہ یہ صرف مدارس کا مسئلہ نہیں ہے؛ بلکہ ہر شعبۂ تعلیم اس انحطاط کا شکار ہے اور اس کے کچھ ایسے اسباب بھی ہیں جو پہلے اس درجہ میں نہیں تھے، آج کے دور میں انٹرنیٹ کے ذریعہ ہر شعبۂ زندگی میں جو تبدیلی آئی ہے اور اس کی وجہ سے جو ناروا ترغیبات اور خرمن ایمان واخلاق؛ بلکہ خرمن عقل کو خاکستر کردینے والی جو مسموم آگ پھیلی ہوئی ہے وہ صرف معیارِ تعلیم ہی نہیں؛ بلکہ اس سے پہلے اوراس سے بڑھ کر نظام تربیت کے لیے مہلک ثابت ہوئی ہے اور یہ بہت بڑی رکاوٹ ہے؛ لیکن اس کے باوجود معیار تعلیم اور معیار تربیت دونوں کے سلسلے میں سنجیدگی اختیار کرنا اور اس کے لیے عملی صورتیں اختیار کرنا مدارس کے لیے از بس ضروری ہے۔ جس کی طرف دارالعلوم دیوبند کی جانب سے پوری ذمہ داری کے ساتھ رابطۂ مدارس اسلامیہ عربیہ کے پلیٹ فارم سے توجہ دلائی جاتی رہتی ہے اور عملی کوششیں جاری ہیں۔
(۳) مالیات کا مسئلہ: اس سلسلے میں کئی طرح کی باتیں سامنے آتی ہیں، پہلی تو زکوٰۃ سے متعلق ہے، کچھ لوگوں کو مدارس کا زکوٰۃ وصول کرنا ہی ناپسند ہے؛ حالانکہ مدارس میں آکر زکوٰۃ اُس طبقے تک پہنچتی ہے جو مستحق ہونے کے ساتھ ساتھ تعلیم وتعلّم کے افضل ترین عمل میں مشغول ہے، ہاں اس سلسلے میں اصول کی رعایت ضروری ہے اور جہاں اس میں کوتاہی ہو اس کی اصلاح واجب ہے۔
مدارس کی مالیات کے باب میں سرکاری امداد کا مسئلہ بھی زیربحث آتا ہے۔ اس سلسلے میں سرکاری امداد لینے والے مدارس کی کارکردگی اگر مطلوبہ شرائط اور معیار کے مطابق نہ ہو تو اس پر تنقید بجا ہے؛ لیکن اس کے دائرے میںاُن مرکزی اداروں کو نہیں لایا جاسکتا جو روز اوّل سے اس کے مخالف ہیں؛ حالانکہ یہاں پر یہ بھی عجیب بات ہے کہ بعض لکھنے والوں نے سرکاری امداد نہ لینے کے رجحان کو اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جمہوری دور میں عوامی پیسہ سے ملنے والی امداد قبول ہونی چاہئے؛ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ امداد دے کر اپنی بات منوانے کا جبر کرنے میں جمہوری حکومتیں سلطانی ایوانوں سے پیچھے نہیں ہیں جس کے مفاسد سے شاید ہی کوئی ناواقف ہو۔ اسی لیے دارالعلوم دیوبند اور اس کے ہم خیال تمام مرکزی مدارس، سرکاری امداد لینے یا مدرسہ بورڈ سے الحاق کرنے کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔
مدارس کی مالیات کے موضوع پر بات کرتے ہوئے یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ ملت اسلامیہ کی دینی ضروریات کی تکمیل کرنے والے اداروں کی حیثیت سے مدارس اور اُن کے خدام کی مالی یا معاشی کفالت تو قدرتی طور پر ملت کی ذمہ داری ہے (اور ملت ماشاء اللہ یہ ذمہ داری ادا بھی کررہی ہے) تو اس کوموضوع بحث بنانا کہاں کا انصاف ہے؟
مذکورہ بالا تین نکات پر اختصار کے ساتھ یہ چند سطور لکھی گئی ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ان تین امور پر اور ان کے علاوہ بہت سے موضوعات پر تفصیلی اور منصفانہ گفتگو کی ضرورت ہے؛ مگر محسوس ایسا ہوتا ہے کہ مدارس کے بارے میں بات کرتے ہوئے عام طور پر گہرے غور وفکر یا ضروری سنجیدگی سے کام نہیں لیا جاتا۔ ابھی چند ماہ قبل ایک معروف صاحب قلم نے مدارس کے مستحق زکوٰۃ ہونے پر بحث کرتے ہوئے استحقاق زکوٰۃ کے لیے ایک نیا معیار مقرر فرمایا جس کی رو سے نصاب تعلیم میں انگریزی زبان وعصری علوم کی شمولیت کو استحقاق زکوٰۃ کی شرط قرار دیا اور اپنے اس مزعومہ معیار کے مطابق چند مدارس کی فہرست بھی تحریر فرمائی جو اُن کے خیال میں زکوٰۃ کی رقم کا صحیح مصرف ہیں۔ لطف کی بات یہ کہ اس میں نہ دارالعلوم دیوبند کا نام شامل تھا نہ مظاہر علوم سہارنپور کا، نہ اس مزاج ومذاق کے کسی بھی ادارے کا۔ اس قسم کے اظہارِ خیال سے لوگ کس قسم کی تنگ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہیں اس پر حیرت ہوتی ہے، خصوصاً اس لیے کہ ان صاحب کا شمارمدارس کے ’’کرم فرما‘‘ طبقے میں بھی نہیں ہوتا۔ یہاں پر یہ بات بھی مناسبت کی بنیاد پرآگئی ورنہ اصل مخاطب تو وہی طبقہ ہے جو اپنے خیال میں اصلاح کی بات کرتا ہے؛ لیکن اس کا طرزعمل اس مقصد سے میل نہیں کھاتا۔
ان تمام ہی حضرات سے بڑی دل سوزی کے ساتھ عرض ہے کہ اس وقت اس بے سہارا ملت کی اہم اور مرکزی طاقت یہ مدارس ہی ہیں۔ خدا را ان کو کمزور کرنے کی کوشش کرکے ان طاقتوں کے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ نہ بنیں جو عالمی سطح پر دینی تعلیم کے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے یا اس کا قبلہ بدلنے کے لیے اپنے تمام وسائل کے ساتھ سرگرم ہیں اور جو سیاست ومعیشت کے میدانوں میں اپنے مقاصد کی تکمیل کرنے کے بعد اب مسلمانوں کے خرمن دین وایمان کو خاکستر کرنے کے لیے بگولے اٹھارہی ہیں۔ع
کہ یہ دھبہ بھی کیوں باقی رہے صحرا کے دامن پر

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×