اسلامیات

نبیرہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم

نواسہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جگرگوشہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ البتول کے پھول جنتی نوجوانوں کے سردار علی بن ابی طالب کے نور نظر ،
نام حسین رضی اللہ عنہ ،کنیت ابو عبداللہ،لقب ریحانت النبی صلی اللہ علیہ وسلم،
سن 4ھجری میں ولادت باسعادت ہوئی،حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت کے بعد آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم)فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے ،اذان دی،پھر پوچھا کیا نام تجویز کیا ہے،تو حضرت علی رض نے جواب دیا،حرب۔
تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسین نام رکھو ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتویں دن عقیقہ کرنے ،اور بال منڈھوا کر بالوں کے برابر چاندی صدقہ کرنے کا حکم دیا،
(حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے متعلق نانا جان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین۔)
حضرت حسین رض کے تعلق سے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وقتا فوقتاً زبان نبوت سے بشارتیں سنایا کرتے تھے،
ایک مرتبہ فرمایا: کہ سیدا شباب اھل االجنہ ،،حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں،
توکبھی فرمایا:الحسن والحسین ریحانتی من الدنیا،،کہ حسن اور حسین رض میرے دو دنیا کے پھول ہیں،
اور ایک دفعہ تنہا حضرت حسین رض کے تعلق سے فرمایا کہ :حسین منی انا من حسین احب اللہ  من احب الحسین ،حسین سبط من الاسباط،،کہ حسین میرے ہیں میں حسین کا ہوں اور اللہ اس شخص کو محبوب رکھتے ہیں ،جو حسین کو محبوب رکھے،اس کے علاوہ بے شمار فضائل موجود ہیں،جو لسان رسالت سے آپ کے حق میں فرمائے گئے ہیں،
حضرت حسین رض بڑے متقی تھے،کثرت سے روزہ رکھنے کا معمول تھا،اور اسی کے بقدر نماز ،حج،صدقات،نیک کاموں کے کرنے میں پیش پیش اور ثابت قدم رہتے تھے۔
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم آپ رض سے بہت محبت کرتے تھے، اپنے اس نواسہ کو دل وجان سے زیادہ عزیز رکھتے تھے،اور ان سے بہت زیادہ لاڈ وپیار کرتے تھے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہونے کے وقت آپ رض کی عمر ساتھ سال تھی،
(حضرت حسین رض کے سراپا کے متعلق ،حضرت علی رض کا ارشاد)
حضرت علی رض نے فرمایا: والحسین اشبہ برسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ماکان اسفل من ذلک،،کہ حسین ناف سے نیچے تک ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سراپا کے مشابہ تھے۔
(حضرات خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عہد ،اور حسین رضی اللہ عنہ)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا زمانہ خلافت مختصر تھا،پھر حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا دور آیا ،
حضرت عمر رض ان سے بہت محبت فرمایا کرتے تھے،حضرات حسنین کو اپنی اولاد پر ترجیح دیتے تھے،جب اپنے دور خلافت میں اہل بدر کے لڑکوں کا وظیفہ مقرر کیا تھا،سب کا ڈھائی ہزار درہم طئے کیا تھا،تو وہیں حضرات حسنین کا محض قرابت رسول کی بناء پر،5ہزار درھم وظیفہ مقرر کیا تھا،حضرت عمر رض حضرات حسنین کو بہت چاہتے تھے،
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں دونوں جوان ہوگئے تھے،اب عملی طور پر جنگوں میں شرکت کرنے لگے،جب بلوائیوں نے حضرت عثمان رض کا محاصرہ کیا تو،حضرت علی رض نے ان دونوں کو حضرت عثمان رض کے دروازے پر پہرا داری کیلئے کھڑا کر رکھاتھا؛تاکہ کوئی دشمن اندر نہ گھس جائے ؛لیکن دشمنوں نے پیچھے سے گھس کر حضرت عثمان رض پر حملہ آور ہوئے،بعد میں حضرت علی رض دونوں پر سخت برہم ہوئے،
حضرت علی رض کی خلافت میں جنگ صفین وجمل میں حضرت علی رض کے ساتھ تھے،اس کے بعد سن 40ھجری میں حضرت علی رض کی شہادت کے بعد، اپنے برادر عزیز حضرت حسن رض جب حضرت امیر معاویہ رض کے کے حق میں خلافت سے دستبردار بردار ہوگئے،تو وقتی طور پر ان سے حضرت حسین رض نے اظہارِ ناراضگی فرمایا،:لیکن حضرت حسن رض نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے حضرت حسین رض کا وظیفہ جاری فرمایا ،جو بعد میں بھی جاری رہا،
اس کے بعد سن 49ھجری میں حضرت حسن رض وفات پاگئے،پھر سن 60ھجری امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا،
حضرت امیر معاویہ رض کے بیٹے یزید نے مدینہ کے گورنر ولید بن عتبہ کو حضرت حسن رض اور ان کے رفقاء سے اپنی خلافت پر بیعت لینے کا حکم دیا،حضرت حسین رض اور ان کے رفقاء یزید کی خلافت پر ولید حضرت حسین رض کے تعلق سے نرم گوشہ رکھتے تھے،لیکن مروان سخت مزاج تھا،وہ حضرت حسین رض کے قتل کے درپے تھا،اس وقت محمد بن حنفیہ رحمتہ اللہ علیہ اور حضرت عبداللہ بن مطیع نے حضرت حسین رض کو حرم محترم میں قیام کا مشورہ دیا،پھر آپ جب مکہ چلے گئے تو،یہاں پر قیام کے دوران آپ کو اہل کوفہ کے خطوط موصول ہوئے جن میں آپ کے کوفہ آنے کا اصرار تھا،تو حضرت حسین رض نے بھی جانے کا پختہ ارادہ کرلیا،جب اس کی اطلاع حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو ہوئی تو ان حضرات نے آپ کو وہاں جانے سے روکا،ہزار سمجھانے کے باوجود بھی آپ نے کوفہ کے ارادہ کو ملتوی نہیں کیا،؛بلکہ اپنے چچازاد بھائی حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو کوفہ کے احوال کی خبر گیری کیلئے بھیجا،اولا تو اطمینان بخش اطلاعیں ملی،جس نے آپ کے اردہ کو اور تقویت دی،اور بالآخر سن 60ھجری میں آپ مکہ سے روانہ ہوئے،اسی دن مسلم بن عقیل رض شہید کردئیے گئے،اس صورت حال سے حضرت حسین رض بعد میں واقف یوئے،واپسی کا ارداہ کیا ،لیکن یزید نے ہر چہار طرف اپنے فوجی افسر مقرر کئے تھےکہ وہ حسین رض کو یزید کی بیعت پر آمادہ کریں،اسی سفر میں جب آپ مقام قادسیہ پر پہنچے تھے،کہ عبیداللہ بن زیاد بن حر بن یزید کو ایک ہزار کا لشکر دیکر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو گرفتار کرنے کیلئے بھیجا،حضرت حسین رض نے فرمایا :تم ہی نے تو آنے کے خطوط بھیجے تھے،اور تم ہی گرفتار کررہیے ہو،تو آخر کار 2 محرم الحرام سن 60 ھجری میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا قافلہ میدان کربلا میں پہنچا،ان  چند دنوں میں حضرت حسین رض کو طرح طرح کی آزمائشوں سے گزرنا پڑا،اپ کے اور آپ کے اہل خانہ کے ساتھ بے رحیمانہ سلوک کیا گیا،اور آپ کو اپنے چنگل میں ایسے دبوچ لیا کہ نہ آگے بڑھ نے دیا اور نہ پیچھےاپنے مقام پر لوٹنے دیا،؛بلکہ آپ پر ایسے غالب ہوگئے،کہ آپ مجبور و بے بس ہوگئے،اپ رض پر اور آپ کے اہل خانہ پر پانی بند کردیا گیا،اور جی بھر کر تکلیفیں دیں،اور دل بھر کر ستایا،لیکن خاندان رسالت کے چشم و چراغ نےان کے معاملہ کو مستقل اللہ کے سپرد کردیا،اور حضرت حسین رض موقعہ موقعہ سے اہل بیت اور آل رسول سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وابستگی پر تقریریں کرتے رہیے،لیکن دشمنوں کے قلوب جو پتھروں سے زیادہ سخت ہوگئےتھے،حضرت حسین رض کی تقریروں کا کچھ پاس و لحاظ نہیں کیا،بالاخر میدان کار زار گرم ہوا،اور خون کی ندیاں بہنیں لگیں،بہت ہی بے دردی کے ساتھ اصحابِ حسین رض شہید کئے جاتے رہیے،اپ کی معصوم اولادوں پر آپ کے ہی سامنے تیر و تلوار  برسا کر شہید کردیا،اور بالآخر وہ وقت بھی زمین کے ذرات اور آسمان کے سیاروں نے دیکھا،جو بڑا ہی کربناک تھا،نبیرہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی شہید کردئیے گئے،اور شہادت کا رتبہ حاصل کرکے ،،ولاتقولوا لمن یقتل فی سبیل اللہ اموات بل احیاء ولکن  لا تشعرون کا مثردہ جاں فزا اپنے نام کیا،
اہل بیت اطہار نے اپنے خون سے شجر اسلام کو ہرا بھر ا کیا ،اللہ ان کی قبروں پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور صحیح حسینی مزاج رکھنے والے حسینیوں کو تا قیام قیامت کھڑے ہونے کی توفیق عطاء فرمائے آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×