اسلامیات

قربانی … تذکیروموعظت کے چندنقوش

قربانی ایک عظیم الشان عبادت ہے ،ہمارے جد امجد سیدناابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی یادگارہے ،عشق وسرمستی کا بہترین مظہر ہے، جانثاری ووفاشعاری کا جلی عنوان ہے ،قربانی عشق خداوندی کی دبی ہوئی چنگاری کو شعلہ زن کرتی ہے ،عقل ناتمام کی کثافتوں کو دورکرتی ہے ،جودوسخااورغرباء پروری جیسی عظیم صفت سے آراستہ کرتی ہے ،خودغرضی ،نفس پرستی ، حرص وبخل جیسے اخلاق رذیلہ کے لئے تریاق مہیا کرتی ہے،خدائے ذوالجلال کے مختار کل اورقادر مطلق ہونے کاعقیدہ ذہن ودماغ میں نقش کرتی ہے ،عبادت وبندگی اوراطاعت شعاری کا سبق سکھاتی ہے ، قبول وطاعت اورحکم خداوندی کے سامنے بلاچون وچرا سرتسلیم خم کرنے کاجذبہ مضبوط ومستحکم کرتی ہے ۔
قربانی اوراس کی معنویت
قربانی وہ جلیل القدرعبادت ہے جواپنے جلومیں پوری امت مسلمہ کے لئے تذکیروموعظت کاسامان رکھتی ہے،ایک مادہ پرست اورظاہربیں انسان کی نگاہ صرف اس پرجاکرٹھہرجاتی ہے کہ عیدقرباں کے موقع پرصاحب حیثیت اورمالدارلوگ مخصوص جانور:بکرے،مینڈھے،اونٹ،بیل،گائے اوربھینس کی قربانی دیتے ہیں،اوراس کے گوشت کواپنے استعمال میں لاتے ہیںاوربس؛لیکن جن لوگوں کواللہ تبارک وتعالی نے چشم بصیرت اورفراست ایمانی عطاکی ہے ان کی طائرفکرصرف اسی حدتک محدودنہیں ہوتی ؛بلکہ قربانی میں چھپے ہوئے اسرارورموزاوراس میں مضمرتذکیروموعظت کے بیش بہاخزینہ تک اس کی پروازہوتی ہے،چنانچہ ان کے اندراطاعت وفرماں برداری اورایثاروقربانی کاصالح جذبہ پیداہوتاہے،ایمان ویقین کی کھیتی ان کے دلوں میں سرسبزوشاداب ہوتی ہے،اوران کی زندگیوں میں صالح اورخوش گوارانقلاب آتاہے،ذیل میں قربانی میں مضمرعبرت وموعظت کے چندنقوش کاتذکرہ کرنامقصودہے:
اطاعت وفرماں برداری
عیدقرباں کے موقع پرایک مسلمان کواپنے دل میں قربانی کی تاریخ اوراس کاپس منظرذہن نشیں کرنابے حدضروری ہے،حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام …جن کی طاقت وقوت کی فصل بہاررخصت ہوچکی تھی اورزندگی کی شمع فروزاں جھلملارہی تھی ،دوسری طرف ان کی اہلیہ حضرت ہاجرہ سن رسیدہ اوربانجھ تھیں…کوظاہری اسباب کے دائرے میں اولادہونے کی کوئی امیدنہیں تھی،اللہ جل شانہ نے اپنی قدرت سے ان کوایک لڑکاعطاکیا،جب وہ لڑکاسن شعورکوپہونچا،اوروہ وقت آگیاکہ یہ اپنے بوڑھے ماں باپ کابازواورسہارابنے،ناموافق حالات میں وہ ان کامعین ومددگاربنے،اللہ تبارک وتعالی نے حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کواپنے لائق فرزندکوقربان کردینے کاحکم دیا،لیکن کیاان کا پایۂ استقلال متزلزل ہوگیا؟کیاان کی ہمت وحوصلہ نے جواب دے دیا؟کیاان کی اطاعت وفرماں بردای کاجذبہ سردپڑگیا؟نہیں اورہرگزنہیں!بلکہ حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام …جوصبرورضاکے پیکراوراطاعت وانقیادکی مجسم تصویرتھے …بلاکسی جھجک اورترددکے اپنے لائق مندبیٹے کوقربان کرنے کے لئے آمادہ ہوگئے،اس پیکرصدق وصفاکونہ نفسانی خواہشات نے اپنے محبوب اورلائق مندبیٹے کوراہ خدامیں قربان کرنے سے روکا،نہ عقلی تاویلیں اورپرفریب حیلے ان کے لئے سدراہ ثابت ہوئے،نہ پدرانہ جذبات ان پرغالب آئے،نہ اندیشہ ہائے فرداکاخیال ان کے دل میں پیداہوا،اوراس بیٹے کے گلے پر…جوسالہاسال کی دعائوں کاثمرہ اورآہ سحرگاہی نتیجہ تھا…چھری چلادی،آسمان وزمیں دم بخودہوگئے،کائنات کاذرہ ذرہ بے قرارہوگیا،ملائکۃ مقربین بے چین ہوگئے،آخررحمت الہی جوش میں آئی،چھری حکم خداوندی سے کندہوگئی ،ایک ظاہربیں نگاہ کے سامنے انہوں نے اپنے فرزندارجمندکے گلے پرچھری چلائی؛لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوںنے اپنی تمنائوں اورآرزئوں کے ایک سرسبزوشاداب گلستاں کومحض ایک اشارئہ خداوندی پراجاڑنے کے لئے تیارہوگئے،اپنی خواہشات اورنفسانی تقاضوں کوصرف اللہ کی رضاوخوشنودی کے لئے کچلنے پرآمادہ ہوگئے، اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی اس بے مثال قربانی کاانعام یوں دیاکہ امت مسلمہ کے ہرصاحب استطاعت لوگوں پرعیدقرباں کے موقع پراس سنت ابراہیمی کے اداکرنے کوواجب قراردیا،اورقیامت تک کے لئے اس عمل کوزندہ جاویدبنادیا،آج عیدقرباں کے موقع پرعمل قربانی کے ذریعہ دراصل اسی عہدوفاکی تجدیدہے،اورامت مسلمہ سے اسی جذبہ اطاعت وفرماں برداری اورجاں نثاری ووفاشعاری کے نشہ میں سرشارہونے کے ساتھ جانوروں کی قربانی مطلوب ہے،حضرت ابراہیم علیہ الصلاۃ والسلام کی یہ زندہ جاویدسنت مسلمانوں سے اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ اپنے دلوں میں محبت الہی کی شمع فروزاں کریں،حکم خداوندی پرمرمٹنے اوراللہ جل شانہ کی رضاوخوشنودی کے لئے اپنے خواہشات اورآرزئوں کوقربان کردینے کاصالح جذبہ پیداکریں،عیدقرباں ہمیں یہ درس دیتاہے کہ دنیاکی دلفریب رنگینیاں اوراس کے ہوش ربامناظردائمی اورابدی نہیں ہیں کہ ایک باشعورمسلمان ان کااسیربن جائے،اوران ہی کواپنامقصوداورمطمح نظربنالے؛بلکہ ایک مسلمان ہمیشہ ایک بلنداورعرش پیمامقصدکے لئے زندگی بسرکرتاہے،اللہ کی اطاعت وفرماں برداری اوراس کی رضاجوئی ہی ایک مومن کاسرمایہ حیات ہوتاہے،اسی کی عشق ومحبت میں وہ جیتااورمرتاہے،اس کے ایک اشارہ پراپناعیش وآرام،مال ومتاع،جاہ ومنصب؛بلکہ اپنی جان تک کوقربان کردیناایک سچے مومن کاشیوہ ہوتاہے۔
اخلاص اورحسن نیت
جانوروں کی قربانی صحیح اورعنداللہ مقبول ومعتبرہونے کے لئے نیت کی درستگی اولین شرط ہے،قربانی کرنے والے شخص کے پیش نظرمحض اللہ کی خوشنودی اوراس کی رضاجوئی ہوتوقربانی اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوتی ہے،اورقربانی کرنے والااجروثواب کامستحق ہوتاہے،اگرقربانی کامقصدریاء ونمائش ہواورلوگوں سے دادتحسین وصول کرنامقصودہویاگوشت کھانے کی نیت سے قربانی کی گئی ہوتواللہ تبارک وتعالی کے نزدیک اس کی قربانی مقبول نہیں ہوتی،اوریہ قربانی بجائے اس کے کہ باعث اجروثواب ہوتی ؛خوداس کے لئے گناہ اوروبال کاذریعہ بن جاتی ہے،اللہ تبارک وتعالی کاارشادہے:ہرگزاللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ میں اس کے گوشت نہیں پہونچتے؛بلکہ اللہ کی بارگاہ میں تمہاراتقوی پہونچتاہے۔(الحج:۳۷)آپﷺکاارشادگرامی ہے:اللہ تعالی تمہاری صورتوں اورتمہارے مال کونہیں دیکھتا؛بلکہ وہ تمہارے دلوں اورتمہارے اعمال کودیکھتاہے۔(مسلم شریف،حدیث نمبر:۲۵۶۴)عیدقرباں میں انسان کوحسن نیت اورخلوص کے ساتھ اس عمل کوکرنے کاپابندبناکردراصل اس کویہ ابدی پیغام دینامقصودہے کہ انسان ہرعمل میں اللہ کی رضاوخوشنودی پیش نظررکھے،چھوٹاسے چھوٹانیک عمل اگراس میں خلوص وللہیت کاعسل مصفی شامل ہے تواللہ تعالی کے یہاں اس عمل کی بڑی قدروقیمت ہے،اوربلندی درجات کاسبب ہے،اوربڑاسے بڑاعمل اگراس میں ریاونمائش کی آمیزش ہوگئی تواللہ کی یہاں اس کی کوئی قیمت نہیں ہے،اوروہ عمل انسان کے لئے بروزمحشرجلوئہ سراب ثابت ہوگا۔
سخاوت وفیاضی
شریعت مطہرہ نے قربانی کے گوشت کوتین حصوں میں تقسیم کرنے کومستحب اوراولی قراردیاہے،جن میں سے ایک حصہ قربانی کرنے والاخودکے لئے رکھے،دوسراحصہ اعزاء واقارب اورتیسراحصہ غرباء ومساکین کودے،قربانی کاساراگوشت اپنے استعمال میں لاناگوجائزاوردرست ہے ؛تاہم اعزاء واقارب اورفقراء کے لئے اس گوشت میں حصہ لگانے کی ترغیب دے کرشریعت ان اخلاقی بیماریوں کاازالہ کرناچاہتی ہے جومال کمانے اوراس کی خاطر دوڑدھوپ کرنے سے عموماانسان کے اندرپیداہوجاتے ہیں،اورسخاوت وفیاضی… جوایک مومن کازیورہے،اوراللہ کی رضاوخوشنودی کامنبع وسرچشمہ ہے…سے اس کوآراستہ کرناچاہتی ہے،عیدقرباں کے موقع پر اس سبق کی بھی ہمیں یاددہانی کرائی جاتی ہے کہ فقراء کاتعاون اوران کی دست گیری کرنامالداراورصاحب حیثیت لوگوں کی شرعی واخلاقی ذمہ داری ہے،جولوگ مالی حیثیت سے کمزورہیںاوراپنی ضرورتوں کوپوراکرنے کے لئے سرمایہ کے محتاج ہیںان سے ہمدردی رکھنااوروقتافوقتاان کاتعاون کرتے رہنامالدارلوگوں کافرض بنتاہے،عیدقرباں کے موقع سے اگرہم اس بھولے ہوئے سبق کوتازہ کرتے ہیںتوپھرسرمایہ داراورمحنت کش طبقوں میں جودوریاں پائی جاتی ہیں،اوراس کی وجہ سے پوراسماج جوایک عجیب قسم کی طبقاتی تفریق میں مبتلاہے اس کاازالہ ہوگا،نیزافلاس اوربھوک مری جوپورے عالم کے لئے دردسربناہواہے اس کے خاتمہ میں یہ بہترین پیش رفت ہوگی۔
رشتہ داروں کے حقوق کی ادائیگی
شریعت نے قربانی کے گوشت میں رشتہ داروں کابھی حصہ لگانے کی خاص ترغیب دی ہے،اس سے دراصل رشتہ داروں کاخیال رکھنے اوران کے حقوق کی ادائیگی کاخاص احساس دلانامقصودہے،اسلام میں رشتہ داروں کے حقوق کواداکرنے کی جوخاص تاکیدکی گئی ہے،اوران کے ساتھ غلط اورنارواسلوک کرنے پرجووعیدآئی ہے وہ کسی باشعورمسلمان سے مخفی نہیں ہے،لیکن اس حوالہ سے ہمارے معاشرے میںجوغفلت اورکوتاہی پائی جاتی ہے،اوررشتہ داروں کے ساتھ بدسلوکی کرنے اوران کوایذاپہونچانے کاجورجحان ہمارے مسلم سماج میں روزافزوں ہے وہ ایک لمحۂ فکریہ ہے،اورہرباشعوراورصاحب بصیرت انسان کے لئے باعث رنج والم ہے،عیدقرباں کے موقع پرہم یہ عہدکریں کہ رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات کواستوارکریں گے،اوران کے حقوق کواداکرنے کاخاص اہتمام کریں گے۔
دینی اداروں کاتعاون
عیدقرباں کے موقع پرجانوروں کی کھال عموما مدارس میں دینے کامعمول ہے،ان کھالوں کوفروخت کرکے ذمہ داران مدارس مدرسہ کے مصارف اوراس کے اخراجات کی پابجائی کرتے ہیں،مدارس دین کے محفوظ اورمضبوط قلعے ہیں،اسلام کی حفاظت اوراس کی نشرواشاعت کاکام اللہ تبارک وتعالی ان مدارس سے لے رہے ہیں،آج جوہندوستانی مسلمان اپناامتیازی تشخص اورملی وجودباقی رکھے ہوئے ہیں اس کاسہرا یقینامدارس اسلامیہ ہی کوجاتاہے،اس لئے صرف عیدقرباں کے موقع پرہی نہیں ؛بلکہ وقتافوقتامدارس کاتعاون کرنااوراس کے مالیہ کومستحکم اورمضبوط کرناامت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔
اس وقت ہندوستانی مسلمانوں کے جوناگفتہ بہ حالات ہیں،فرقہ پرست طاقتیں اسلام اورمسلمانوں کوزک پہونچانے کے لئے متحدہوگئی ہیں،اورارتدادی مہم کی سرگرمیاں زوروشورسے چل رہی ہیںایسے نازک اورمشکل ترین وقت میں امت مسلمہ کے لئے ضروری ہوجاتاہے کہ وہ قربانی کے بھولے ہوئے سبق کوتازہ کریں،خدائے وحدہ لاشریک لہ سے عہدوفاکی تجدیدکریں،نفسانی خواہشات اورنفسانی تقاضوں کوخیربادکہہ کراطاعت وفرماں برداری کی راہ اختیارکریں،خدائے غفارسے اپناتعلق مضبوط کریں،اوردین کی خاطراپنے مال ومتاع اورجاہ ومنصب کوقربان کرنے جذبہ پیداکریں،حقوق اللہ اورحقوق العبادکی ادائیگی کاخاص اہتمام کریں،اگرمسلمان اس کے لئے تیارہوتے ہیں تویہ سیاسی اورسماجی حالات جومسلمانوںکے فضائے حیات پرسیاہ بادل بن کرچھائے ہوئے ہیںدورہوں گے،اورہرسوچھائی ہوئی ذلت ونکبت ختم ہوگی،اورشبابی سے کلیمی اورغلامی سے آقائی حاصل ہوگی،اوراس طرح سے مسلمان اپنی عظمت رفتہ اورکھوئے ہوئے وقارکوبحال کرسکتے ہیں۔

mob: 8688514639

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×