اسلامیات

صنفی جرائم کاسدِ باب ۔۔۔موانع وتدابیر

ابھی حال ہی میں ہمارے گنگاجمنی تہذیب کامظہرہندوستان کے اندراناؤمیںیہ سننے کوملاکہ ایک جواں سال لڑکی کے ساتھ بھارتیہ جنتاپارٹی کے رکن اسمبلی نے عصمت ریزی کی،متاثرہ نے اعلی افسران سے اس کی شکایت کی؛لیکن اس پرکوئی توجہ نہیں دی گئی،اس سے دل برداشتہ ہوکرمتاثرہ لڑکی نے یوپی کے وزیراعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی قیامگاہ کے سامنے خودسوزی کی کوشش کی،موقع پرموجودلوگ اس کوبچالیتے ہیں،پھرتحقیقاتی ایجنسی حرکت میںآتی ہے،اورمتاثرہ لڑکی کے والدگرفتارکرلیاجاتاہے،اوراسے جیل میں محروس کرکے اتنی اذیتیں دی جاتی ہیں کہ وہ اس کی تاب نہ لاکراس کارگاہِ ظلم وجورسے رخصت ہوجاتاہے،اوروہ مسافرجوعدل وانصاف کی تلاش کے لئے اورمجرمین کوکیفرِ کردارتک پہونچانے کے لئے رختِ سفرباندھتاہے عدل وانصاف ملنے سے پہلے ہی اس کی زندگی کے سفر کوختم کردیاجاتاہے،دوسری طرف کشمیرکے ضلع کٹھوعہ میں ایک ننھی سی آٹھ سال لڑکی آصفہ بانوکودرندہ صفت لوگ اغواکرتے ہیں،اورایک مندرمیں لے جاکرچارلوگ مسلسل چھ دن تک اس کی اجتماعی عصمت دری کرتے ہیں،جن میں مندرکاایک پجاری بھی شامل ہوتاہے،تین دن تک اس لڑکی کوبھوکارکھاجاتاہے،ہوش میں نہ آنے کے لئے بے ہوشی کے کئی انجکشن دئیے جاتے ہیں،ان شیطان نماانسانوں کی جنسی زیادتی کی متحمل نہ ہوکرجب وہ دم توڑدیتی ہے توان میں سے ایک شیطان صفت دوبارہ اس لاشۂ بے جان کے ساتھ جنسی عمل کرتاہے،اس معصوم سی لڑکی کی موت کے بعدبھی ان شیطانوں کی درندگی ختم نہیں ہوتی ہے؛بلکہ اس کوجنگل میں لے جاکرپتھرسے مارمارکراس کاسرپھوڑدیاجاتاہے۔
یہ دودلخراش واقعات جن کومیڈیانے منظرعام پرلایاہے۔۔۔ورنہ بلامبالغہ ملک بھرمیں روزانہ دسیوں اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں،اخباروں کی زینت بنتے رہتے ہیں اورمجرم دندناتے پھررہے ہیں۔۔۔ہمارے لئے ؛بلکہ ہرہندوستانی کے لئے قابلِ افسوس ہے،اورشرم کے مارے ہماراسرجھک جاتاہے؛بلکہ حالیہ ان دوواقعات کے بعدہندوستانی سماج کاحصہ ہونے پرہمیں ندامت ہورہی ہے،اوریہ کوئی نیاواقعہ نہیں ہے؛بلکہ اس طرح کے گھناؤنے واقعات پہلے بھی پیش آچکے ہیں،اوربارہامجرموں کوکیفرِ کردارتک پہونچانے کے لئے صدائیں بھی بلندہوچکی ہیں،اورجبری طورجنسی تعلق قائم کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت قوانین تشکیل دینے کے مطالبے ہوچکے ہیں،لیکن ہم سالہاسال سے یہ دیکھتے آرہے ہیں کہ ملک گیراحتجاج اورمظاہروں کے باوجودجنسی جرائم کی شرح میں کمی آنے کے بجائے روزبہ روزاس میں اضافہ ہی ہوتاجارہاہے،جرائم پسندعناصرکے حوصلے بلندہوتے جارہے ہیں،دوشیزائیں بلکہ معصوم کلیاں بھی درندہ صفت لوگوں کی ہوس کاشکارہورہی ہیں،بیشترلڑکیاں جواس تلخ تجربہ سے گزرچکی ہیں وہ شرم کے مارے اورخاندان میں ذلت ورسوائی کے خوف سے زبان پرمہرسکوت لگائے بیٹھی ہیں،اورجن متاثرہ لڑکیوں نے زبان کھولنے کی جرات کی ہے،اورجرائم پسندعناصرکوقدغن لگانے کامطالبہ کیاہے توان کی آوازپوری شدت کے ساتھ دبادی گئی،اورفولادی ہاتھوں نے عدل وانصاف کاگلاگھونٹ دیا،صنفی جرائم بڑھنے کے اسباب وعوامل کیاہیں؟اوران پرقابوپانے کاطریقۂ کارکیاہے؟ذیل میں ان پرمختصرسی روشنی ڈالی جاتی ہے۔
متضادرجحانات کافروغ:جنسی جرائم بڑھنے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایک طرف آپ ملک میں مغربی تہذیب وتمدن کوفروغ دے رہے ہیں،صنف نازک کوتنگ،چست اورنیم عریاں لباس پہناکرمیدانِ عمل میں کھینچ رہے ہیں،روشن خیالی کے نام پرمخلوط تعلیم کوفروغ دے رہے ہیں،مساوات کاپرکشش نعرہ لگاکرمردوعورت کے مابین قربت کوعام کررہے ہیں،یک زوجگی پرقانون بنانے کے لئے مستعدی دکھارہے ہیں،حیاسوزسائٹس کوفروغ دینے والے عناصرکی آپ پشت پناہی کررہے ہیں،کلچراورتہذیب کے نام پرعریاں مناظرکی حامل فلموں کودیکھنے اوردکھانے کی قانونی اجازت دے رہے ہیں،دوسری طرف جنسی جرائم کی روک تھام کے لئے قانون بنارہے ہیں،اورمجرموں کوکیفرِ کر دارتک پہونچانے کا آپ ڈھنڈوراپیٹ رہے ہیں،ذراآپ ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ ان دومتضادرجحانات کے ساتھ صنفی آوارگی کاجواربھاٹا رک جائے گا؟کیاآپ قانون کی تشکیل اورضابطہ آرائیوں سے اس سیلِ بلاخیزپربندباندھ سکتے ہیں؟ہرگزنہیں!اگرآپ اس خوش فہمی میں مبتلاہیں تودرحقیقت آپ شوریدہ زمین سے یاسمین وسنبل اگاناچاہتے ہیں!!عقل وحکمت کے منھ پرطمانچہ ماررہے ہیں!!اورریتوں پرارمانوں کے نقوش بنارہے ہیں!!
موثرسزاکافقدان:ہمارے ملک ہندوستان میں جنسی جرائم کاجورجحان روزافزوں ہے اس کاایک سبب یہ بھی ہے کہ جوشخص زنابالجبرکاارتکاب کرتاہے ،اس کے لئے کوئی ایسی سزانہیں ہے ؛جودوسروں کے لئے باعثِ عبرت ہو ،اوراس طرح کی حرکت کرناتودرکناراس کاخیال بھی دل میں لانے سے مانع ہو،کیوں کہ یہ ایک ناقابل انکارحقیقت ہے کہ اگرملک میں امن وسکون کی فضاکویقینی بناناہے ،اورملک زندگی بسرکرنے والے ہرشہری کے جان ،مال اورعزت وآبروکوتحفظ فراہم کرناہے توجرائم پسندعناصرکے لئے عبرت خیزسزائیں مقررکرنابے حدضروری ہے،مجرمین سے ہمدردی اوران کوتحفظ فراہم کرنے کاجذبہ ایساناسورہے جس سے ملک میں بدامنی پھیلتی ہے،اضطراب اوربے چینی کی کیفیت عام ہوتی ہے،اسی وجہ سے مذہب اسلام کے قوانین اوراس کے اصول کاجائزہ لیاجاتے تویہ معلوم ہوگاکہ اس نے مجرمین کوتحفظ فراہم کرنے پرکوئی سمجھوتہ نہیں کیا؛بلکہ انہیں اپنے انجام تک پہونچانے کویقینی بنایاہے،یہی وجہ ہے کہ آج بھی جن مسلم ممالک میں اسلامی حدودوقصاص نافذہے وہاں جرائم کی شرح بہت ہی کم ہیں؛بلکہ اگرمیں یہ کہوں کہ وہاں اس نوع کے جرائم بالکل ہی نہیں ہوتے توشایداس میں مبالغہ نہیں ہوگا۔
مقدمات کے فیصل ہونے میں تاخیر:جرائم پرقابوپانے میں حکومت کے ناکام ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مقدمات کے فیصل ہونے میں سالہاسال لگ جاتے ہیں،وہ شخص جواپنی جوانی میں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوتاہے،اوراس کاکیس عدالت میں پہونچتاہے تووہاں سے فیصلہ آنے تک اس شخص کی جوانی کی بہاریں رخصت ہوجاتی ہیں،اوربوڑھاپے کی آمدآمدہوتی ہے،بلکہ ہمارے ہندوستان میں ایسابھی سننے میںآیاکہ عدالت سے جب سزاکافیصلہ ہوتاہے،اورمجرم کوگرفتارکرنے کے لئے پولیس پہونچتی ہے تومعلوم ہوتاہے کہ مجرم توآٹھ دس سال پہلے فوت ہوگیا،مقدمات کے فیصل ہونے میں غیرمعمولی تاخیروہ بنیادی عامل ہے جوملک میں جرائم کوفروغ دینے میں ممدومعاون ثابت ہورہاہے،اورحکومت جرائم پسندعناصرکومجرمانہ سرگرمیوں سے بازرکھنے میں ناکام نظرآرہی ہے۔اسلام ایک دین فطرت ہے،اس کے اصول وقوانین ایک طرف انسانی مزاج سے ہم آہنگ ہیں تودوسری طرف ان میں عدل وانصاف کابھرپورلحاظ رکھاگیاہے،اسلام کامزاج یہ ہے کہ قاضی ثبوت وشواہددستیاب ہونے کے بعدبہ عجلت ممکنہ مقدمات کوفیصل کرے،اگروہ بلاکسی سببِ شرعی کے مقدمات کے تصفیہ میں تاخیرسے کام لیتاہے شرعااسے اس کی اجازت نہیں ہے،ہاں اگردوبھائیوں کے مابین نزاع ہواورقاضی کوباہمی مصالحت کی امیدہویامدعی نے گواہ پیش کرنے کے لئے قاضی سے مہلت طلب کی ہوتواس صورت میں وہ کچھ دنوں تک فیصلہ موخرکرسکتاہے؛تاہم عام حالات میں اس کے لئے فیصلہ میں تاخیرکی گنجائش نہیں ہے،آج ہمارے ملک میں یہ ہوتاہے کہ وہ شخص جس کے مجرم ہونے پرپوراہندوستان گواہ ہوتاہے اس پربھی مقدمات برسہابرس چلائے جاتے ہیں،اورمظلوم انصاف کی خاطردردرکی ٹھوکریں کھاتے رہتے ہیں،واقعہ یہ ہے کہ چودہ صدیاں گزرنے کے باوجوداسلامی قوانین کی معنویت آج بھی قائم ودائم ہے،اوراس کی ضرورت قیامت تک محسوس کی جاتی رہے گی۔
گواہوں کاعدم تحفظ:ایک چیزجوجرائم کے سدباب میں رکاوٹ ثابت ہورہی ہے وہ گواہوں کاعدم تحفظ ہے،واقعہ کے چشم دیدگواہ کورٹ میں جاکرگواہی دینے سے ایک اس لئے ہچکچاتے ہیں کہ عدالت میں مقدمات کوبلاوجہ طول دیاجاتاہے،جس کی وجہ سے باربارعدالت کے چکرکاٹنے پڑتے ہیں،اورکافی وقت ضائع ہوتاہے،تودوسری طرف جب معاملہ حساس نوعیت کاہواورمدعی علیہ اثرورسوخ کاحامل ہوتوپھراس کی طرف سے گواہوں کوڈرایاجاتاہے،ان کواوران کے اہل خانہ کوجان سے ماردینے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں،اس کے پیش نظرواقعہ کے چشم دیدگواہ عدالت میں اپنابیان دینے میں پس وپیش کرتے ہیں،دھمکی دینے اورجان سے ماردینے کامعاملہ گواہوں تک ہی کیاموقوف ہے؛بلکہ وکلاء تک کوبھی دھمکی دی جاتی ہے،جس کی وجہ سیث عدل وانصاف کاحصول مشکل سے مشکل ترہوجاتاہے۔
عدلیہ کی بالادستی کافقدان:معاشرے میں امن وامان کوفروغ دینے اورعدل وانصاف کویقینی بنانے کے لئے عدلیہ کی بالادستی بے حدضروری ہے،اسلام نے عدلیہ کی بالادستی کوجوتصویرپیش کی ہے اس کی مثال دینے سے پوری دنیاقاصرہے،حضرت عمرؓنے ایک مرتبہ کسی سے گھوڑاخریدااوراس پرسوارہوئے توگھوڑاٹھوکرکھاکرگرپڑااورزخمی ہوگیا،آپ نے گھوڑاواپس کرناچاہاتومالک اس پرراضی نہ ہوا،معاملہ قاضی شریح کی عدالت میں پہونچاتوانہوں نے فیصلہ گھوڑے کے مالک کے حق میں دیا،اورحضرت عمرسے کہااے امیرالمومنین !جوچیزآپ خریدچکے ہیں وہ آپ کی ہے ،اگروآپس کرناچاہتے ہیں تواسی حالت میں واپس کر نی ہوگی جس حالت میںآپ نے خریدی تھی،حضرت عمراپنے خلاف فیصلہ سن کرذرہ برابربھی ملول اورکبیدہ خاطرنہین ہوئے۔سن ۲۱ہجری میں مسلمان لشکروں میں سے ایک لشکری نے حضرت عیسی علیہ السلام کی تصویر کی ایک آنکھ ضائع کردی ،عیسائی لوگ حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور کہا کہ آپ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویربناکر ہمارے حوالہ کیجئے، تاکہ ہم بھی آنکھ ضائع کرکے بدلہ لیں، تو حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تصویر دینے کی کیا ضرورت ہے؟ ہم موجود ہیں ہماری آنکھ پھوڑ کر بدل لے لو ،یہ کہہ کر حضرت عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنا خنجر اس کے حوالہ کیا،اور اپنی آنکھ پیش کردی، یہ دیکھ کر عیسائیوں نے کہا کہ جس قوم کے لوگ اتنے بہادر وجری ہوں پھر بھی عدل وانصاف کا اس قدر لحاظ ہو اس سے بدلہ لینا بڑی ناانصافی ہوگی۔ عدلیہ کی بالادستی کے دعوی یوں توساری ہی حکومتیں ہی کرتی ہیں؛لیکن جب اس عدل کی زدحکومت کے کسی اعلی عہدیدارپرپڑتی ہے توقوانین بدل دئیے جاتے ہیں،ججوں کویاتومعطل کردیاجاتاہے یاان کاکسی اورجگہ تبادلہ کردیاجاتاہے،اورقانون کے نفاذمیں طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی جاتی ہیں،ہماراہندوستان بھی اسی لعنت کاشکارہے،کئی مثالیں اس کی پیش کی جاسکتی ہیں ۔
یہ وہ اسباب وعوامل ہیں جن کی وجہ سے جرائم کی شرح میں روزبہ روزاضافہ ہوتاجارہاہے،اورآئندہ اگریہی صورت حال رہی تونتائج اوربھی ناخوش گوا رہوسکتے ہیں،جرائم کے سدباب کے لئے اسلام نے جوتصورپیش کیاہے اس کی ہلکی سی جھلک آپ کے سامنے پیش کی جاچکی ہے،اب آئیے صنفی آوارگی کے سدباب کے لئے اسلام نے کیااقدامات کئے ہیں اس کامختصرجائزہ لیتے ہیں:
* اسلام سب سے پہلے صنفِ نازک کو گھر کی چہاردیواری میں رہنے کا پابند بناتاہے ،اوربلاضرورتِ شرعی عورت کے گھر سے باہرنکلنے کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتاہے ،یہی وجہ ہے کہ مدنی معاشرہ جس میں دزدیدہ نگاہی اورخیانتِ نظر کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتاتھاایسے صالح ،پاکیزہ ،مثالی اوراسلامی معاشرہ میں آپ ﷺ نے عورتوں کی گھر میں پڑھی جانے والی نمازکو مسجد میں حاضر ہوکر جماعت سے پڑھنے کے بالمقابل زیادہ باعثِ ثواب اورموجبِ اجر قراردیا ،(معرفۃ السنن والاثار،حدیث نمبر:۵۹۸۷)اگر کسی ضرورتِ شدیدہ کی بناء پر عورت گھر سے نکلنے پر مجبور ہوجائے تو اسلامی حجاب میں ملبوس ہوکر باہر نکلنے کی اجازت دی گئی ہے ۔
* حجاب کے متعلق اسلام یہ تعلیم دیتاہے کہ وہ ڈھیلا ڈھالاہو ،ایسا چست اورتنگ نہ ہو کہ جسم کے نشیب وفراز اس میں ظاہر ہوتے ہوں، نیز وہ غیر ضروری نقش ونگار اوردلکش بیل بوٹوں سے مرصع نہ ہوکہ نگاہوں کے لئے فتنہ انگیز ثابت ہو۔
* اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ باہر نکلنے سے قبل عورت اپنے جسم یا لباس کو خوشبو اورعطریا ت میں نہ بسائے ؛کیوں کہ عطریات فضا میں پھیل کر ہیجانی جذبات کی تحریک کاسبب بنتے ہیں ۔
* صنفِ نازک کی آواز بھی بسااوقات سامعہ نواز اورفتنہ دل ثابت ہوتی ہے ،اسلامی حیاء کی طبعِ نازک پر یہ لطیف تحریک بھی گراں ہوئی،چنانچہ اسلام نے عورت کو غیر محر م سے ضرورت سے زائد گفتگوکرنے سے منع کیاہے ،اورغیر محرم سے گفتگو کے وقت آواز میں حلاوت وشیرینی اورلہجہ میں لگاوٹ پیداکرنے کے بجائے آواز میں سختی اورلہجہ میں درشتی پیداکرنے کا حکم دیا ہے ،نیز راہ چلتے وقت عورتوں کو یہ تاکید کی گئی ہے کہ وہ اپنے پیر زمین پر مارتے ہوئے نہ چلیں ؛کیوں کہ اس سے پازیب اوردیگر زیورات کی جھنکار پیداہوتی ہے ،اوربیمار دلوں میں ارتعاش پیداکرتی ہے ۔
* نفس شریر کا سب سے بڑاچور نگاہ ہے ،یہ راست اپنا پیغام دل ودماغ تک پہونچاتاہے ،اورنفس کو بدکاری وسیہ مستی پر ابھارتاہے،اسلام نے شیطان کے اس ہتھیار پر بھی قدغن لگایا ،اوراپنے پیروکاروں کو نگاہ نیچی رکھنے کا حکم دیا ،اوردزدیدہ نگاہی اورخیانتِ نظر سے بچنے کی تاکیدکی ۔
* قانون کی نظر میں زناکااطلاق صرف جسمانی اتصال پرہوتاہے ؛لیکن اسلام کی نظر میں کسی قامتِ گلفام کا ارادہ وتصور کرنابھی زناشمار کیا جاتاہے ،کسی مہرِ نیم روز اورسراپاجمال دل فروز کے کوچوں کے لئے قدم کاباربار اٹھنا اورچشمِ تصور میں اس کے محاسن وخوبیوں کوبالقصد لانا بھی شریعت میں گناہ اورجرم گرداناجاتاہے ،اوراسلام اس پربھی اپنے پیروکاروں کی گرفت کرتاہے ۔
* اجنبی عورت کے ساتھ تخلیہ اورتنہائی بھی بدکاری کا ایک عظیم محرک ہے ؛اس لئے اسلام اس سے بھی نہایت سختی سے منع کرتاہے،آپﷺکاارشاد گرامی ہے :لاتلجواعلی المغیبات ؛فإن الشیطان یجری من أحدکم مجری الدم (ترمذی،حدیث نمبر:۱۱۷۲)تم شوہر کی غیر موجودگی میں عورتوں کے پاس مت جاؤ ؛کیوں کہ شیطان تمہارے اندر خون کی طرح گردش کررہاہے
*جولوگ ان احتیاطی تدابیرکے باوجود اس مذموم عمل کا ارتکاب کرتے ہیں ان کے لئے اسلام نے بڑی عبرتناک سز امقرر کی ہے :الزانیۃ والزانی فاجلدواکل واحد منہما مءۃ جلدۃ (النور:۲)زناکارمرد اورزنا کار عورت میں سے ہر ایک کو سوکوڑے مارو ،اگر وہ شادی شدہ ہونے کے باوجود غلط مقام پرتخم ریزی کریں تو اسلام ایسے بدطینت اورسرکش لوگوں کوسنگسار کرنے کا حکم دیتاہے ،اورمجرمین کے ساتھ کسی قسم کی نرمی سے پیش آنے سے منع کرتاہے ،ظاہر ہے کہ یہ سزا سرکش انسان کے لئے کافی مؤثر اورحوصلہ شکن ہے ،اورانسدادِ فواحش کے لئے بڑی حد تک ممداورمعاون ثابت ہوتی ہے ۔
اسلام نے یہ ساری احتیاطی تدابیر اس لئے اختیارکی ہیں ؛تاکہ صنفی تعلقات صرف دائرہ ازدواج میں محدود ہوں ،اوردائرہ ازدواج کے باہر انتشارِعمل ؛بلکہ حتی الامکان انتشارِ خیال کوبھی روکاجائے ،اورنوعِ انسانیت کے لئے ایک ایسے صاف اورخوشگوارماحول کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے جس میں وہ محفوظ اور مجتمع قوتوں کے ساتھ تعمیرِ تمدن میں حصہ لے سکے ،اورکائنات کی تعمیر وترقی میں اہم کرداراداکرسکے ۔
اس وقت جب کہ مغربی تہذیب کا زہر ہلاہل ہمارے مشرقی سماج کے رگ وریشہ میں سرایت کرگیا ہے ،اوراس کے جاں بلب درد سے پوراہندوستانی معاشرہ کراہ رہاہے ایسے زہر ہ گداز اورشکیب رباحالات میں اسلامی تعلیمات وہدایات ہی نسخہ شفاء اوردرد کا درماں ثابت ہوسکتی ہے ،اوراسلامی نظامِ حیات ہی معاشرہ کو ایک صالح اورخوشگوارانقلاب سے ہمکنارکرسکتاہے ،اوراسی کے زیرِ سایہ نوعِ انسانیت کو امن وسکون نصیب ہوسکتاہے ،اللہ تبارک وتعالی سے دعاء ہے کہ امتِ مسلمہ کو حق بات سمجھنے کی اوراس پر عمل پیراہونے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین
mob:8688514639

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×