اسلامیات

توکل کی حقیقت واہمیت

توکل ایک عظیم الشان خصلت ہے، انبیاء واصفیاء کا بہترین اسوہ ہے ،مؤمنین صادقین کا طرۂ امتیاز ہے ، قرآن وحدیث میں جابجا اس کے فضائل وارد ہوئے ہیں، اور متوکلین کے عظمت مقام کو بیان کیا گیا ہے، چنانچہ ایک جگہ خدائے ذوالجلال نے متوکلین کو تمغۂ محبوبیت سے نوازتے ہوئے ارشاد فرمایا : ان اللہ یحب المتوکلین۔(آل عمران: ۱۵۹)اللہ یقینا توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے، دوسری جگہ اللہ نے توکل کی صفت سے آراستہ شخص کے ساتھ اپنی خاص مدد کی یقین دہانی کرائی ہے ، ارشاد باری ہے : ومن یتوکل علی اللہ فہو حسبہ۔(الطلاق: ۳)اور جوکوئی اللہ پر بھروسہ کرے تو اللہ اس(کا کام بنانے)کے لئے کافی ہے ،نیز حدیث نبوی میں متوکل کو دنیوی جھمیلوں سے نجات کی ضمانت دی گئی ہے ،فرمان رسول ہے :ومن توکل علی اللہ کفاہ الشعب۔ (ابن ماجہ ،حدیث نمبر: ۴۱۶۶)اور جو شخص اللہ پر توکل کرتا ہے اللہ اس کی پریشانیوں (کو ختم کرنے )کے لئے کافی ہے ۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ تو کل کسے کہتے ہیں ؟اس بارے میں دو فرقوں کااختلاف ہے،ایک فرقہ توکل اور اسباب کے درمیان تعارض سمجھتا ہے اور دوسرا فرقہ عدم منافاۃ کا قائل ہے ،علامہ طبریؒ نے اس اختلاف کو ذکرکرنے کے بعد یہ قول فیصل بیان کیا ہے:
توکل تمام امور میں اللہ تعالی کی ذات پر اعتماد اور بھروسہ کرنے کا نام ہے ، ہر مسئلہ میں خواہ دینی ہو یادنیوی ،اپنی تمام تر کوششیں مبذول کردینے کے بعد انجام اللہ کے سپرد کردینا توکل ہے، بعض لوگوں کا جو خیال ہے کہ دشمنوں سے بچاؤ کے لئے کسی تدبیر کا اختیار نہ کرنا، اسباب معاش کو بروئے کار نہ لانا اور امراض کا علاج نہ کرانا حقیقی توکل ہے تو یہ جہالت ،حکم خداورسول کے خلاف اور ائمہ راشدین کے اسوہ سے مختلف ہے ۔(شرح صحیح البخاری لابن بطال:۹/۴۰۸)
ابن عقیل ؒ فرماتے ہیں :
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ احتیاط واحتراز توکل کے منافی ہے ،اور توکل دراصل انجام سے غفلت اور عدم احتیاط کا نام ہے ؛لیکن یہ خیال علماء کے نزدیک عاجزی کے مترادف ہے اور بے اعتدالی پر مبنی ہے ، اس خیال کے حامل افراد اہل عقل سے محض زجر وتوبیخ ہی کی توقع رکھ سکتے ہیں ، اللہ تبارک وتعالی نے تو بچاؤ کے تدابیر حتی الامکان اپنانے کے بعد توکل کا حکم دیا ہے ، چنانچہ فرمایا : وشاورہم فی الامر فاذا عزمت فتوکل علی اللہ ۔(آل عمران :۱۵۹)اور ان سے (اہم)معاملات میں مشورہ لیتے رہو ،پھر جب تم رائے پختہ کرکے کسی بات کا عزم کرلو تو اللہ پر بھر وسہ کرو،اگر اسباب کا اختیار کرنا توکل کم ہونے کی بنا پر ہوتا تو اللہ اپنے حبیب کو مشورہ کا حکم نہ دیتا ۔(تلبیس ابلیس:۲۴۸)
امام احمدؒ سے اس شخص کا حکم دریافت کیا گیا جو اپنے گھر یا مسجد میں گوشہ نشین ہوجائے اور یہ کہے کہ کسب معاش کئے بغیر میرے پاس میرا رزق از خود آئے گا ، تو آپ نے یہ جواب دیا :
یہ شخص شریعت سے ناواقف ہے ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تبارک وتعالی نے میرارزق میرے نیزے کے سایہ کے نیچے رکھا ہے ، نیز یہ بھی فرمایا :اگر تم کماحقہ اللہ پر توکل کرتے ، تو اللہ تم کو اسی طرح رزق دیتا جیساکہ پرندوں کو دیتا ہے ،وہ صبح میں خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو شکم سیر ہوکر لوٹتے ہیں ، حدیث سے معلوم ہوا کہ پرندے بھی رزق کی طلب میں نکلتے ہیں ، امام احمد نے مزید یہ فرمایا : صحابہ بھی تجارت کرتے تھے ، اور یہی جماعت قابل نمونہ ہے ۔(فتح الباری:۱۱/۳۰۵)
مذکورہ بالا اقوال سے یہ بات واضح ہوگئی کہ توکل اور اسباب کے اختیار کے مابین کوئی تعارض نہیں ہے ؛بلکہ جو شخص اسباب سے صرف نظر کرتا ہے وہ شریعت کی تعلیمات سے روگردانی کرتا ہے ، احادیث نبویہ سے بھی ہمیں اس کی دلیل ملتی ہے ،حدیث نبوی ہے :ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ میں اپنی اونٹنی کو کھلا رکھ دوں اور توکل کروں یا اسے باندھ دوں پھر توکل کروں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : باندھ دو پھر توکل کرو ۔(مسند ابن الجعد ،حدیث نمبر: ۲۳۸۶)
ایک اور جگہ ارشاد رسول ہے:
تم مجذوم سے اس طرح بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو ۔(بخاری،حدیث نمبر: ۵۷۰۷)
ان دو حدیثوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں توکل کی تعلیم دی ہے ،وہیں اسباب کو اختیار کرنے کا حکم بھی دیا ہے ، علامہ ابن الجوزیؒ نے اس موضوع پر اپنی کتاب ’’تلبیس ابلیس‘‘ میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ،اور باقاعدہ فصل قائم کرکے توکل کے معاملہ میں گمراہ لوگوں کی پرزور انداز میں مدلل تردید کی ہے ، میں اسی کی روشنی میں ذیل میں مزید دلائل سپر د قرطاس کرنا چاہتا ہوں :
اللہ تبارک وتعالی نے ہر شعبہ میں اسباب کو اختیار کرنے اور توکل دونوں کی جانب توجہ دلائی ہے ، چنانچہ جہاں فقل حسبی اللہ لا الہ الا ہو علیہ توکلت۔ (التوبۃ: ۱۲۹)تو( اے رسول ان سے )کہہ دو کہ میرے لئے اللہ کافی ہے ،اس کے سوا کوئی معبود نہیں ، اسی پر میں نے بھروسہ کیا ہے کا حکم ہے ،وہیں دشمنوں سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے کی بھی تعلیم ہے ،چنانچہ فرمایا : خذواحذرکم۔(النساء:۷۱)(دشمن سے مقابلہ کے وقت)اپنے بچاؤ کا سامان ساتھ رکھو،اسی طرح فرمایا :واعدوالہم مااستطعتم من قوۃومن رباط الخیل۔(الانفال :۶۰)اور(مسلمانو)جس قدر طاقت اور گھوڑوں کی جتنی چھاؤنیاں تم سے بن پڑیں ان سے مقابلہ کے لئے تیار کرو۔
اسی طرح باری تعالی نے مخلوقات کے رزق کی فراہمی اپنے ذمہ لی، اور اس بات کا یقین دلایا کہ ہر شخص تک اس کا متعینہ رزق پہونچ کررہے گا ، ارشاد خداوندی ہے :
ومامن دابۃ فی الارض الا علی اللہ رزقہا۔ (ہود:۶) اور زمین پر چلنے والا کوئی جان دار ایسا نہیں ہے جس کا رزق اللہ نے اپنے ذمہ نہ لے رکھا ہو؛لیکن بندوں کو کسب معاش کا بھی مکلف بنایا ،فرمان خدا ہے :وابتغوا من فضل اللہ۔(الجمعۃ:۱۰)اور اللہ کا فضل تلاش کروانفقوامن طیبت ماکسبتم۔ (البقرۃ :۲۶۷)جوکچھ تم نے کمایا ہو اس کی اچھی چیزوں کا ا یک حصہ (اللہ کے راستہ میں)خرچ کیا کرو۔
اسی طرح اللہ ہی صحت عطاکرنے والے ہیں ، شفا وعدم شفا کا فیصلہ مشیت الہی کے تحت ہی ہوا کرتا ہے ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا تھا : واذامرضت فہو یشفین۔ (الشعراء:۸۰)اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو مجھے شفا دیتا ہے ؛لیکن بندوں کو علاج ومعالجہ کی بھی ترغیب دی گئی ،اور بیماری کے موقعہ پر دواؤں کے استعمال کی جانب توجہ دلائی گئی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : لکل داء دواء۔ (ابن ماجہ ،حدیث نمبر:۲۲۰۴)ہر بیماری کی دوا ہے ،اور خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا علاج کرانا ثابت ہے ۔
واقعۂ ہجرت میں بھی ہمیں جابجا اسباب کو اپنا نے کا اسوہ نظر آتا ہے ، چنانچہ جب کفار مکہ نے مکہ کی زمین آپ پر تنگ کردی ،حتی کہ (نعوذباللہ)آپ کے قتل کی منصوبہ سازی کی ،تومن جانب اللہ آپ کو ہجرت کا حکم دیا گیا ،پھر جب سفر ہجرت کے لئے روانگی کا وقت آیا تو آپ نے زاد سفر بھی ساتھ لیا ، اس کے بعد جب غار ثور تشریف آوری ہوئی ،تو حضرت ابوبکر صدیق ؓ غار میں داخل ہوئے اور سوراخوں کو بند کردیا ؛تاکہ کوئی مضر شئ آپ کو گزند نہ پہونچاسکے ۔
مذکورہ بالا دلائل سے توکل کی حقیقت واضح ہوگئی ،اور یہ بات واشگاف ہوگئی کہ اسباب کو اختیار کرنے سے توکل میں کچھ نقص پیدا نہیں ہوتا؛البتہ شریعت کے اندر جو ممنوع ہے وہ اسباب کو ہی موثر حقیقی سمجھ لینا ہے ، اور یہ خیال کرلینا ہے کہ جب اسباب وتدابیر اختیار کرلئے جائیں تو پھر کوئی چیز ہمیں ضرر نہیں پہونچاسکتی ؛ کیوں کہ یہ اللہ تبارک وتعالی کی قدرت کاملہ کے منافی ہے اور گویا اسباب کو اللہ تعالی کے قائم مقام تصور کرنا ہے ، یہی ان احادیث کا محمل ہوگا جس میں اختیار اسباب کو توکل کے متعارض قرار دیا گیا ہے ، جو اسباب کے اندر تاثیر حقیقی ہونے کا قائل ہے خود حدیث میں اس کے کفر کی صراحت کی گئی ہے ،حدیث نبوی ہے : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حدیبیہ میں فجر کی نماز پڑھائی ، اسی رات کو بارش بھی ہوئی تھی ، نماز سے فارغ ہونے کے بعد لوگوں کی جانب متوجہ ہوکر فرمایا: کیاتم جانتے ہو تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا؟صحابہ نے کہا :اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں ،آپ نے فرمایا کہ اللہ نے فرمایا: میرے بندوں میں سے کچھ نے ایمان کی حالت نے اور کچھ نے کفر کی حالت میں صبح کی ، چنانچہ جنہوں نے کہا : ہم پر اللہ کے فضل ورحمت کی وجہ سے بارش ہوئی ،تو یہ لوگ مجھ پر ایمان رکھنے والے اور ستاروں کے منکر ہیں ، اورجوکہتے ہیں :فلاں فلاں نچھتر کی وجہ سے بارش ہوئی تو وہ کافر ہیں اور ستاروں پر ایمان رکھنے والے ہیں ۔(مسلم،حدیث نمبر:۱۲۵)
ابھی چند ماہ قبل ہم کورونا وائرس نامی وبائی مرض سے آشنا ہوئے ، جب کہ اس کی تلاطم خیز موجوں نے چین کے ایک شہر کے کئی افراد کو اپنی لپیٹ میں لے کر انہیں موت کے آغوش میں ڈھکیل دیا تھا ، ہر فرد کا یہی خیال تھا کہ یہ وبا صرف چین تک ہی محدود رہے گی ،اور وہ پر اطمینان زندگی میں مگن تھا؛لیکن کچھ ہی عرصوں میں اس کی موجوں میں تلاطم برپا ہوا،پوری دنیا اس کی زد میں آگئی ،اور اس نے ایک عالمی وبائی مرض کی شکل اختیار کرلی، کئی لوگ اس کا شکار ہوکر لقمۂ اجل بن چکے ہیں اور کئی اس سے متاثر ہوکر گھروں میں محصور ہیں ،میڈیا کی جانب سے جو اعداد وشمار منظر عام پر لائے جارہے ہیں ، ہوسکتا ہے کہ وہ فرضی اور غیرواقعی ہوں اور کسی منصوبہ بند سازش کا حصہ ہوں؛پھر بھی لوگوں پر خوف ودہشت کا ماحول طاری ہے ،اور وہ بے چین اور غیرمطمئن فضا میں زندگی کی سانسیں لے رہے ہیں ،توکل کی مندرجہ بالا حقیقت کے تناظر میں ہم ان شکیب رباحالات کو دیکھیں ،تو کئی افراد ایسے ہیں جنہوں نے احتیاط برتنے کے بجائے محض توکل علی اللہ کا دعوی کیا ،اور وبا سے بچنے کے اسباب بروئے کار نہیں لائے، اسی طرح بعض لوگوں نے اس وبائی مرض سے حفاظت کے لئے اپنی پوری کوششیں صرف کردیں ،اور جو بھی تدبیر ان کی استطاعت میں تھی اس کو اختیار کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھارکھی ؛لیکن انہوں نے ان ہی اسباب پر مکمل تکیہ کرلیا ،اور اس خام خیالی میں رہے کہ ان کے ہوتے ہوئے یہ وبا انہیں چھونہیں سکتی ، حالانکہ یہ دونوں نظریے غلط ہیںاور شریعت کے مزاج سے ہم آہنگ نہیںہیں ، سطور بالا میں اس کی مکمل وضاحت کی جاچکی ہے ؛لہذاہم پر لازم ہے کہ ہم افراط وتفریط سے بچتے ہوئے اعتدال پر قائم رہیں ، اور جو شرعی حکم ہے کہ اسباب کو اختیار کرنے کے بعد اللہ پر توکل کیا جائے اس کو اپنی زندگی میں لانے کی کوشش کریں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×