’ایل آئی سی‘ کے آئی پی او سے حکومت کو ہوگا 50 ہزار کروڑ روپے کا نقصان
لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا (ایل آئی سی) کے آئی پی او کے ذریعہ اس سرکاری بیمہ کمپنی میں شراکت داری فروخت کرنے سے حکومت کو 50 ہزار کروڑ روپے تک کا خسارہ ہو سکتا ہے۔ پیپلز کمیشن کے اندازہ کے مطابق اس کی وجہ آئی پی او لانے میں اختیار کیا گیا مشتبہ عمل اور ایل آئی سی کا ویلویشن یعنی قدر کم کیا جانا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پیپلز کمیشن میں ماہر معیشت، ماہر سماجیات اور سماجی کارکن شامل ہیں۔
ایل آئی سی سے متعلق آئی پی او کا تجزیہ کرنے کے بعد پیپلز کمیشن نے کہا ہے کہ سرمایہ کاروں کے دباؤ کے سبب مودی حکومت نے ایل آئی سی کے شیئروں کی قیمت کا اندازہ کم لگایا ہے۔ کمیشن سے جڑے جے این یو کے سابق پروفیسر پربھات پٹنایک نے 2 مئی کو ہی وزیر مالیات نرملا سیتارمن سے آئی پی او کو ٹالنے کی گزارش کی تھی۔ لیکن ان کی بات نہیں سنی گئی۔ اب کمیشن نے کہا ہے کہ ایل آئی سی کے شیئروں کی جو قیمت حکومت نے طے کیے ہیں وہ کسی اسکینڈل سے کم نہیں ہے۔ غالباً یہ نجکاری کی دوڑ میں اٹھایا گیا اب تک کا سب سے بڑا مشتبہ قدم ثابت ہو سکتا ہے۔
کمیشن نے کہا کہ شیئروں کی قیمت طے کرنے میں ملٹی پلیکیشن فیکٹر کو نظرانداز کیا گیا جب کہ یہ معمول کا عمل ہے۔ کمیشن کے مطابق ’’ملٹی پلیکیشن فیکٹر اپنایا جاتا تو ایل آئی سی سے متعلق آئی پی او میں شیئر کی قیمت کم از کم 3.379 روپے ہوتی۔ اس طرح حکومت کو 22.1375 کروڑ شیئر بیچنے پر 74803 کروڑ روپے کی کمائی ہوتی۔ لیکن ایسا نہیں کای گیا۔ نتیجتاً حکومت کو 53795 کروڑ روپے کا نقصان ہوگا۔‘‘
آل انڈیا بینک ایمپلائز ایسو سی ایشن (اے آئی ای بی اے) کے جنرل سکریٹری سی وینکٹ چلم نے ’نیشنل ہیرالڈ‘ سے بات چیت میں کہا کہ ’’حکومت نے ایل آئی سی کے 3.5 فیصد شیئر فروخت کیے ہیں۔ یہ سننے میں چھوٹا سا حصہ لگ سکتا ہے لیکن دھیان اس بات پر دینے کی ہے کہ یہ ملک کے ایک بڑے مالیاتی ادارے کی فروخت کی طرف اٹھایا گیا پہلا قدم ہے۔ یہ صرف موجودہ قلیل مدت کی مالیاتی ضرورتوں کے لیے گھر کے برتن فروخت کرنے جیسی حالت ہے۔ حکومت کے پاس کوئی شرم نہیں بچی ہے اور وہ سب کچھ فروخت کرنے پر آمادہ ہے۔‘‘