سیاسی و سماجی
پَب گیم کی ایک خاص صورت
پَب گیم کی ایک خاص صورت کے سلسلہ میں پڑوسی ملک میں اہل علم کے درمیان بحث کا سلسلہ جاری ہے، اس پس منظر میں وہاں کے کچھ اصحاب افتاء نے ایک سوال راقم کے پاس بھیجا، جس کا جواب دیا گیا، پھر بعض احباب نے بتایا کہ ہندوستان میں بھی یہ وباء عام ہو گئی ہے اور اس طرح کے کھیل میں شریک ہونے والوں کے لئے یہ ایسی لَت بن جاتی ہے، جیسے شراب پینے والوں کے لئے شراب؛ اس لئے مناسب سمجھا گیا کہ جمعہ کے کالم میں اس سوال وجواب کو شامل کر لیا جائے، وباللہ التوفیق(رحمانی)
سوال: ایک مسلمان شخص موبائل یا کمپیوٹر گیم کھیلتا ہے، اس گیم میں ہر شخص کو ایک پلئیر یا کھلاڑی (اسکرین پر نظر آنے والا ایک علامتی خاکہ یا کارٹون) منتخب کرنا پڑتا ہے، یہ بندہ خود موبائل یا کمپیوٹر کے بٹن، کی بورڈ، ماؤس وغیرہ سے اپنے گیم کے اس کھلاڑی (اسکرین پر نظر آنے والا ایک علامتی خاکہ یا کارٹون) سے مختلف ہوتا ہے، اس گیم میں ایک خاص موڈ میں ایک خاص مشین میں مختلف مورتیاں یا بُت نصب ہوتے ہیں، جن کے آگے اس شخص کو اپنے گیم کے اس کھلاڑی (اسکرین پر نظر آنے والے ایک علامتی خاکہ یا کارٹون) کو جھکانے سے اس کو کچھ اسلحے یا پاور وغیرہ ملتے ہیں۔
اس سلسلے میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات درکار ہیں:
۱۔ اب اگر کسی مسلمان شخص نے یہ گیم کھیلتے ہوئے گیم میں اپنے اس کھلاڑی (اسکرین پر نظر آنے والا ایک علامتی خاکہ یا کارٹون) کو ان بتوں یا مورتیوں کے سامنے جھکایا تو آیا اس مسلمان شخص نے شرک کا ارتکاب کیا؟ اور اس پر تجدید ایمان اور اگر نکاح کیا ہو تو تجدید نکاح لازم ہوگا؟
الف: اگر اس مسلمان گیم کھیلنے والے شخص کو پتہ ہو کہ یہ گیم میں نظر آنے والی چیزیں مورتیاں یا بُت ہیں، پھر بھی وہ مسلمان شخص گیم میں اپنے اس کھلاڑی کو عمداََ ان بتوں یا مورتیوں کے سامنے جھکائے؟
ب: اگر اس مسلمان گیم کھیلنے والے شخص کو پتہ نہ ہو کہ یہ گیم میں نظر آنے والی چیزیں مورتیاں یا بُت ہیں، اور وہ مسلمان شخص ویسے ہی تفریحاََ گیم میں اپنے اس کھلاڑی کو ان بتوں یا مورتیوں کے سامنے جھکائے؟
۲۔ اگر کسی مسلمان شخص نے یہ گیم کھیلتے ہوئے گیم میں اپنے کھلاڑی (اسکرین پر نظر آنے والا ایک علامتی خاکہ یا کارٹون) کو ان بتوں یا مورتیوں کے سامنے جھکایا تو آیا یہ بُت کے آگے جھکنے کا فعل اس شخص کا شمار ہوگا یا نہیں؛ کیوں کہ اس نے تو خود اپنے ارادے سے گیم کے اس کھلاڑی کو بُت کے آگے جھکایا؟مطلب یہ ہے کہ کیا گیم کا کھلاڑی از روئے حقیقت کھیلنے والے مسلمان شخص کا ترجمان ہے یا نہیں؟ گیم کھیلنے والا مسلمان شخص جو بٹن دبا کر ایک تصویر کو دوسری تصویر(بُت اور مورتیاں) کے سامنے ہاتھ جوڑے جھکا کر کھڑا کرتا ہے، کیا اس کا حکم وہی ہے جو کسی حقیقی انسان کو بُت کے سامنے لے جا کر اس کے آگے جھکانے کا ہے؟
۳۔ اگر نعوذ باللہ کسی گیم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام مبارک لکھا ہوا ہو، یا قرآن پاک کی آیات کا صفحہ دکھائی دے یا اسم جلالہ لکھا ہو، یا خانۂ کعبہ دکھایا گیا ہو، اور گیم کھیلنے والا شخص اپنے کھلاڑی (اسکرین پر نظر آنے والا ایک علامتی خاکہ یا کارٹون) کے واسطہ سے ان مقدس چیزوں کو (نعوذ باللہ) گولیوں سے نشانہ لگائے یا کوئی اور گستاخی کرے تو کیا ان بے ادبی والے کاموں کا ذمہ دار یہ گیم کھیلنے والا شخص ہوگا یا نہیں؟ کیوں کہ اس شخص نے اپنے ارادے سے اپنے کھلاڑی سے بٹن، کی بورڈ یا ماؤس وغیرہ کے واسطہ سے اسکرین پر یہ کام کروائے ہیں؟
۴۔ اگر کوئی پینٹر ایسی تصویر کاغذ پر پرنٹ کرے یا کمپیوٹر (موبائل وغیرہ) پر بٹن، کی بورڈ یا ماؤس وغیرہ کے واسطہ سے کمپیوٹر اسکرین پر کھینچے ، جس میں کسی انسان کو بُت کی پوجا کرتے دکھایا گیا ہو تو کیا اس پینٹر کا یہ عمل شرک ہے یا نہیں؟
۵۔ اگر کوئی پینٹر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا توہین آمیز خاکہ کاغذ پر پرنٹ کرے یا کمپیوٹر بٹن، کی بورڈ، ماؤس وغیرہ کے واسطہ سے کمپیوٹر اسکرین پر بنائے تو کیا اس شخص پر شاتم رسول کا حکم لگے گا یا نہیں؟ یہ کام کب نقلِ شتمِ رسول ہوگا اور کب انشاء فعلِ شتمِ رسول؟
جواب:اس سلسلہ میں پہلے چند تمہیدات عرض کی جاتی ہیں:
۱۔ جو صورت اس گیم کے بارے میں لکھی گئی ہیں، اگر کفر نہ بھی ہو تو اس میں شبہ ء کفر ضرور ہے؛ اس لئے اس کے گناہ کبیرہ اور واجب الاجتناب ہونے میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی؛ اس لئے مسلمانوں پر اس سے بچنا واجب ہے اور علماء کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو اس فعل کی شناعت سے واقف کرائیں۔
۲۔ یہ بات اہل علم کے لئے محتاج ذکر نہیںکہ اگر کسی کے قول یا فعل میں کفر کے مختلف پہلو نکلتے ہوں اور ایک ایسا پہلو بھی ہو جو معنیٰ کفر سے خالی ہو تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگایا جائے گا؛ سوائے اس کے کہ وہ خود اس پہلو کا اقرار کرتا ہو جو موجب کفر ہو:
یجب أن یعلم أنہ إذا کان فی المسألۃ وجوہ توجب التکفیر (ووجہ واحد یمنع التکفیر، فعلیٰ المفتی أن یمیل الیٰ الوجہ الذی یمنع التکفیر) تحسیناََ للظن بالمسلم، ثم إن کانت نیۃ القائل الوجہ الذی یمنع التکفیر فھو مسلم، وان کانت نیۃ الوجہ الذی یوجب التکفیر لا ینفعہ فتوی المفتی، ویؤمر بالتوبۃ والرجوع عن ذلک، وتجدید النکاح بینہ وبین إمرأتہ (المحیط البرہانی، کتاب السیر، فصل مسائل المرتدین واحکامہم: ۷؍۳۹۷)
یہ بات جاننی ضروری ہے کہ جب کسی مسئلے میں کئی جہتیں ایسی ہوں، جو کفر کو واجب کرتی ہوں، اور ایک جہت ایسی ہو، جو کافر قرار دینے کو غلط ٹھہراتی ہو تو مفتی پر یہ بات واجب ہے کہ وہ اس دوسرے پہلو کو اختیار کرے جو اس مسلمان کو کافر نہیں ٹھہراتی؛ چوں کہ مسلمانوں کے ساتھ حسن ظن سے کام لینا چاہئے، پھر اگر کہنے والے کی نیت اسی پہلو کی ہو جو باعث کفر نہیں ہے ، تب تو وہ مسلمان ہے ہی، اور اگر اس نے اس پہلو کو مراد لیتے ہوئے کہا ہو، جو باعث کفر ہے تو اس کو مفتی کا فتویٰ فائدہ نہیں پہنچا سکتا اور اس کو توبہ کرنے اور اپنی بات سے رجوع کرنے کا حکم دیا جائے گا، نیز اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان تجدید نکاح کا بھی حکم دیا جائے گا۔
اس سے واضح ہوا کہ اگر کسی قول یا فعل کا ایسا معنیٰ یا محل بھی ہو سکتا ہو جو کفر کو مستلزم نہیں ہو تو اس پر اس وقت تک کفر کا حکم نہیں لگے گا ، جب تک کہ اس قول کا قائل یا اس فعل کا مرتکب نیت کفر کا اقرار نہیں کرتا ہو۔
۳۔ اگر کوئی شخص اپنے فعل کفر پر راضی ہو تب تو یہ بالاتفاق کفر ہے، اور اگر دوسرے کے کفر پر راضی ہو تو اس کی وجہ سے وہ کافر ہوگا یا نہیں؟ اس سلسلہ میں اختلاف ہے؛ چنانچہ فتاویٰ تاتارخانیہ میں ہے:
ومن رضی بکفر نفسہ فقد کفر، ومن رضی بکفر غیرہ فقد اختلف المشائخ، وفی النصاب : والأصح أنہ لا یکفر بالرضا بکفر الغیر (الفتاویٰ التاتارخانیہ، کتاب احکام المرتدین، فصل اجراء کلمۃ الکفر وحدیث النفس:۷؍۲۸۳، طبع: زکریا بک ڈپو دیوبند)
جو شخص اپنے کفر پر راضی ہو تو وہ کافر ہے اور جو دوسرے کے کفر پر راضی ہو تو کیا اس کی وجہ سے اس کو کافر قرار دیا جائے گا؟ اس سلسلہ میں مشائخ کے درمیان اختلاف ہے ، اور صحیح تر قول یہ ہے کہ دوسرے کے کفر پر راضی رہنے کی وجہ سے کسی مسلمان کو کافر قرار نہیں دیا جائے گا۔
لیکن غیر کے کفر پر راضی ہونا اس وقت موجب کفر ہے، جب کہ وہ کفر کو جائز اور مستحسن سمجھتا ہو:
وذکر شیخ الاسلام خواھر زادہ رحمہ اللہ تعالیٰ فی شرح السیر: أن الرضا بکفر الغیر إنما یکون کفرا إذا کان یستجیز الکفر ویستحسنہ ،(المحیط البرہانی، کتاب السیر، فصل مسائل المرتدین واحکامھم: ۷؍ ۳۹۸)
شیخ الاسلام خواہر زادہ نے نقل کیا ہے کہ دوسرے کے کفر پر راضی رہنا بھی اس صورت میں کفر ہوگا، جب کہ وہ مسلمان اس کے کفر کو جائز سمجھتا ہو اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہو،
۴۔ قائل اور فاعل کی نیت جیسے اقرار سے ثابت ہوتی ہے، اسی طرح قرینہ قاطعہ سے بھی ثابت ہوتی ہے، جیسے کوئی شخص بُت خانہ میں جائے اور بُت کے سامنے وہ افعال کرے، جو مشرکین پوجا کے طور پر کرتے ہیں تو یہ قرینہ قاطعہ ہوگا اور یہ فعل خود کفر سمجھا جائے گا، اسی اصول پر فقہاء نے نجاست کی جگہ میں قرآن مجید کے ڈالنے کو باعث کفر قرار دیا ہے، یا سورج، چاند کو سجدہ کرنے کو کفر قرار دیا گیا ہے؛ کیوں کہ یہ فعل بجائے خود کفر کا واضح قرینہ ہے:
اتفق الفقہاء علیٰ أن إلقاء المصحف کلہ فی محل قذر یوجب الردۃ؛ لأن فعل ذلک استخفاف بکلام اللہ، فھو أمارۃ عدم التصدیق، وقال الشافعیۃ والمالکیۃ: وکذا إلقاء بعضہ، وکذا کل فعل یدل علی الاستخفاف بالقرآن الکریم کما اتفقوا علیٰ من سجد لصنم، أو للشمس، أو القمر فقد کفر (الموسوعۃ الفقیہہ، ما یوجب الردۃ من الافعال: ۲۲؍ ۱۸۶)
فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ گندگی کی جگہ پر پورے قرآن مجید کو ڈال دینا موجب ارتداد ہے، یعنی اس فعل کو کرنے والا کافر ہو جاتا ہے؛ اس لئے کہ یہ اللہ کے کلام کی بے احترامی ہے، ور یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ قرآن مجید پر یقین نہیں رکھتا، فقہائے شوافع اور مالکیہ فرماتے ہیں کہ اگر قرآن مجید کا کچھ حصہ بھی نجاست میں ڈال دیا جائے تب بھی یہی حکم ہے، اور یہی حکم ہر ایسے فعل کا ہے، جو قرآن مجید کی بے احترامی کو بتاتا ہو، جیسا کہ فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو شخص بت کو، یا سورج کو، یا چاند کو سجدہ کرے وہ کافر ہے۔
غرض کہ اعتقاد، قول اور فعل یہ تینوں چیزیں کفر کا باعث ہیں؛ بشرطیکہ اس کے خلاف قرینہ موجود نہ ہو :
….. أي أن ھذہ الثلاثۃ أعنیٰ العزم علی الکفر أو قولہ أو فعلہ تقطع الاسلام ویحصل بھا الردۃ بالاعتقاد أو العناد أو الاستھزاء، أما إذا لم تقترن بھا بل اقترنت بسبق لسان أو حکایۃ کفر أو غیر ذالک فلا تقطع الاسلام ولا یحصل بھا الردۃ (اعانۃ الطالبین علی حل الفاظ فتح المعین: ۴؍ ۱۱۵۰)
یعنی یہ تینوں چیزیں— کفر کا پختہ ارادہ، موجب ِکفر قول یا موجب کفر فعل— دائرہ اسلام سے باہر کر دیتی ہیں، اور ارتداد عقیدہ، عناد مخالفت یا استہزاء تینوں چیزوں سے ثابت ہو جاتا ہے؛ البتہ اگر اس کے کافر ہونے کا قرینہ نہ ہو؛ بلکہ قرینہ اس بات کو بتلاتا ہو کہ اس سے سبقت لسانی ہو گئی ہے، یا اس نے نقلِ کفر کے طور پر کہا ہے یا کیا ہے، یا کسی اور طور پر اس کا مرتکب ہوا ہے، تو اب وہ دائرہ اسلام سے باہر نہیں ہوگا اور اس کی وجہ سے وہ مرتد شمار نہیں کیا جائے گا۔
ان اصولوںکو سامنے رکھتے ہوئے سوالات کے جواب اس طرح ہیں:
۱۔ (الف) اگر کسی شخص نے اپنے اس کھلاڑی کو کارٹون کے سامنے جھکایا؛ لیکن اس شخص کا ارادہ اس کارٹون کی پرستش کا نہیں تھا تو یہ کفر نہیں ہوگا؛ کیوں کہ جھکنا ہمیشہ عبادت ہی کے لئے نہیں ہوتا، احترام کے لئے بھی ہوتا ہے، یا صرف رسماََ بھی ہوتا ہے؛ البتہ اس میں کفر کا شبہ ہے؛ اس لئے احتیاطاََ اس کو توبہ کرنی چاہئے:
وما کان فی کونہ کفرا اختلافاََ فإن قائلہ یؤمر بتجدید النکاح وبالتوبۃ والرجوع عن ذلک بطریق الاحتیاط (المحیط البرہانی، کتاب السیر، فصل مسائل المرتدین واحکامہم: ۷؍۳۹۸)
جس بات کے کفر ہونے میں اختلاف ہو، اس کے کہنے والے کو بہ طور احتیاط تجدید نکاح، توبہ اور اپنی بات سے رجوع کرنے کا حکم دیا جائے گا۔
(ب)اگر گیم کھیلنے والے کو پتہ ہی نہ ہو کہ یہ چیز مورتی (بُت) ہے، تب تو بدرجۂ اولیٰ اس پر کفر کا حکم نہیں لگے گا:
۲۔ (الف) اگر گیم کھیلنے والے شخص نے کارٹون کو بتوں اور مورتیوں کے سامنے جھکایا تو یہ اسی شخص کا فعل سمجھا جائے گا؛ کیوں کہ اس کی حیثیت اگرچہ متسبب (بالواسطہ سبب)کی ہے، وہ مباشرۃََ(براہِ راست) اس فعل کا مرتکب نہیں ہے؛ لیکن جب متسبب اور فعل کے درمیان کوئی فاعل مختار (بااختیار) نہ ہو تو متسبب ہی کی طرف فعل منسوب ہوتا ہے۔
(ب)جو شخص بٹن دبا کر ایک تصویر کو دوسری تصویر کے سامنے ہاتھ جوڑے ہوئے جھکا کر کھڑا کرتا ہے، اس کاحکم، حقیقی انسان کو حقیقی بُت کے سامنے کھڑا کرنے کا نہیں ہوگا؛ کیوں کہ کارٹون کا انسان کے درجہ میں ہونا واضح نہیںہے، اور جس کے سامنے جھکایا جا رہا ہے، اس کا بھی بُت کے درجہ میں ہونا واضح نہیںہے، یہ دونوں چیزیں فرضی ہیں، اور ان دونوں کی انسان اور مورتی پر دلالت مشکوک ہے۔
۳۔اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھا ہوا ہو، قرآنی آیات کا صفحہ نظر آتا ہو، اللہ تعالیٰ کا مبارک نام لکھا ہوا ہو یا کعبۃ اللہ کی تصویر ہو اور اس کے ساتھ استہزاء کا سلوک کیا جائے تو اگرگیم کھیلنے والے نے اپنے ارادہ سے ایسا کیا ہو اور اس کو وہاں مذکورہ قابل احترام چیزوں کا ہونا معلوم ہو تو یہ اسی کا فعل سمجھا جائے گا اور یہ باعث کفر ہوگا:
إذا قبّل أحد بین یدی أحد الأرض، أو انحنیٰ لہ، أو طأطأ رأسہ لا یکفر؛ لأنہ یرید تعظیمہ لا عبادتہ، وقال غیرہ: من مشائخنا رحمھم اللہ تعالیٰ إذا سجد واحد لھؤلاء الجبابرۃ فھو کبیرۃ من الکبائر، وھل یکفر؟ قال بعضھم: یکفر مطلقا، وقال أکثرھم: ھذا علی وجوہ ان أراد بہ العبادۃ یکفر، وإن أراد بہ التحیۃ لم یکفر، ویحرم علیہ ذلک۔(الفتاویٰ الہندیہ:۲؍۲۹۲)
جب کوئی شخص کسی کے سامنے زمین کو چومے، یا اس شخص کے لئے جھکے، یا اس کے لئے اپنا سر جھکائے تو اس کی وجہ سے اس کو کافر نہیں کہا جائے گا؛ اس لئے کہ اس کا مقصد تعظیم ہے نہ کہ عبادت، بعض مشائخ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص ان جابر وظالم حکمرانوں کے سامنے سجدہ ریز ہو تو اس کا یہ عمل گناہ کبیرہ ہے؛ لیکن کیا اسے اس کی وجہ سے کافر قرار دیا جائے گا، توبعض حضرات نے اس کو مطلقاََ باعث کفر قرار دیا ہے اور اکثر نے کہا ہے کہ مختلف صورتیں ہیں، اگر اس کا ارادہ عبادت کا تھا تو یہ باعث کفر ہے اور اگر اس کا ارادہ سلام واحترام کا تھا تو باعث کفر نہیں ہے؛ مگر یہ اس کے لئے حرام ہے۔
۴۔ اگر پینٹر اس قسم کی تصویر بنائے؛ لیکن اس کا ارادہ بُت کی پوجا کرنے کا نہیں ہو ، صرف نقل کرنے کا ہو تو اس کا یہ عمل گناہ ہوگا؛ مگر صریحاََ شرک نہیں ہوگا؛ بلکہ یہ خیالی تصویر کی نقل وحکایت ہوگی؛ لیکن اگر اس کا ارادہ پوجا کرنا ہی ہو تو پھر یہ کفر کے دائرہ میں آجائے گا، حکایت ِفعل اور انشاء ِفعل میں بنیادی فرق فاعل کے ارادہ کا ہے؛ چنانچہ علامہ ابن نجیم مصریؒ فرماتے ہیں:
وإن قال: اللہ فی السماء فإن قصد حکایۃ ما جاء فی ظاہر الاخبار لا یکفر وإن أراد المکان کفر الخ ( البحر الرائق:۵؍۱۲۹)
اگر کوئی شخص کہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے، تو ظاہر حدیث میں جو بات آئی ہے، اگر اسی کو نقل کرنے کا ارادہ ہو ( یعنی یہ مقصد نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ اپنے جسم کے ساتھ آسمان میں بیٹھے ہوئے ہیں، جس سے اللہ تعالیٰ کا ذی جسم ہونا ظاہر ہوتا ہے) تو ایسی صورت میں یہ باعث کفر نہیں ہوگا، اور اگر ایک خاص جگہ پر اللہ تعالیٰ کے متمکن ہونے کی نیت ہو تو یہ باعث کفر ہوگا (کیوں کہ اس نے اللہ تعالیٰ کے ذی جسم ہونے کا گمان رکھا ہے)
۵۔ اگر کوئی پینٹر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا توہین آمیز خاکہ کاغذ پر یا اسکرین پر پرنٹ کرے تو وہ اصل میں تو شتم رسول ہی ہوگا؛ لیکن اگر وہ کہتا ہے کہ میرا ارادہ اہانت رسول کا نہیں تھا، یوں ہی میں نے کہیں دیکھا اور نقل کر دیا تو اسے نقل وحکایت سمجھا جائے گا؛ مگر ایسا شخص بھی لائق تعزیر ہوگا۔
یہ تو پَب گیم کی ایک خاص صورت کا حکم ہے، جس میں کفر کا شبہ ہے اور اس کی شناعت بہت بڑھی ہوئی ہے؛ لیکن اس کے علاوہ گیم کی اور صورتیں بھی گناہ اور کراہت سے خالی نہیں ہیں، اس میں وقت کا ضیاع ہے، فضول خرچی ہے، لہو ولعب میں وقت گزاری ہے اور جو نوجوان لڑکے اورلڑکیاں اس طرح کے کھیل میں مبتلا ہو جاتے ہیں، وہ آہستہ آہستہ اس کے ایسے خوگر ہو جاتے ہیں کہ تعلیم سے دور اور اپنے فرائض سے غافل ہو جاتے ہیں، فقہاء نے قمار کے بغیر بھی شطرنج کو ان ہی مفاسد کی وجہ سے مکروہ قرار دیا ہے (ہدایہ: ۴؍۳۸۰) جو مفاسد شطرنج میںہے، میرا خیال ہے کہ اس طرح کے گیموں میں اضافہ کے ساتھ وہ مفاسد پائے جاتے ہیں، اس کی وجہ سے نوجوان کسب ِمعاش کی محنت سے غافل اور اپنے فرائض سے بے پرواہ ہو جاتے ہیں، اس سے مختلف برائیاں پیدا ہوتی ہیں، انسان اپنے بچوں کی تربیت سے غافل ہو جاتا ہے اور ازدواجی زندگی میں تلخیاں پیدا ہو جاتی ہیں؛ اس لئے نوجوانوں کو اس سے دور رہنا چاہئے اور والدین کا بھی فریضہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ایسی چیزوں سے دور رکھیں۔