سیاسی و سماجی
سیلاب کا سبق!
جنوبی ہند کے علاقہ میں عام طور پر پانی کی قلت ہوتی ہے، نہ صرف کسان کاشت کاری کے لئے پریشان رہتے ہیں؛ بلکہ پینے کے پانی کے لئے بھی دشواری پیدا ہو جاتی ہے، شمال مشرق کے علاقہ میں تقریباََ ہر سال سیلاب کی آفت سماوی سے لوگوں کو پریشان ہونا پڑتا ہے؛ مگر وہاں کے باشندے ایک حد تک اس کے عادی ہو چکے ہیں اور وہ گویا اس کے لئے تیار رہتے ہیں؛ لیکن اس بار ایسا ہوا کہ بارش کی کثرت اور اس کی وجہ سے سیلاب اور پانی کے جماؤ نے حیدرآباد جیسے شہر کو بھی تربتر کر دیا؛ حالاں کہ اس کے مختلف محلے بلند قامت پہاڑیوں پر آباد ہیں اور یہاں تیز سے تیز بارش کے بعد بھی گھنٹے دو گھنٹے میں سڑکیں خشک ہو جاتی ہیں، یہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا، کہا جاتا ہے کہ ۱۹۰۸ء کے بعد پہلی بار شہر میں اتنا پانی آیا، مختلف پہلوؤں سے اس سانحہ کا تجزیہ کیا جا رہا ہے، نیز مختلف افراد اور تنظیمیں اپنی اپنی صلاحیت اور گنجائش کے لحاظ سے ابھی تک ریلیف کے کاموں میں مشغول ہیں۔
مگر بہ حیثیت مسلمان یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ قدرت کی طرف سے جو غیر معمولی واقعات پیش آتے ہیں، ان میں انسانیت کے لئے سبق آموز پہلو بھی ہوتے ہیں، سورج گہن اور چاند گہن طبعی اعتبار سے معمول کے واقعات ہیں؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی واقعہ کو عبرت کے پہلو سے پیش فرمایا، کائنات کے طبعی نظام کے تحت زلزلہ کے چھوٹے ،بڑے واقعات پیش آتے رہتے ہیں؛ لیکن قرآن مجید نے زلزلہ کے ذریعہ قیامت کے منظر کو پیش کیا ہے، یہ اس کائنات میں آنے والا سب سے بڑا زلزلہ ہوگا، جو پورے عالم کو زیروزبر کر کے رکھ دے گا، اس پس منظر میں دیکھئے تو بارش کی فراوانی اور اس کی وجہ سے پیدا ہونے والی طغیانی میں بھی غوروفکر کے کئی پہلو ہیں۔
اس کا پہلا سبق انسان کا عجزاور اس کی ناتوانی ہے، بہت سی دفعہ حکومت، طاقت اور ان سب سے بڑھ کر علمی ترقی اور جدید ٹکنالوجی پر گرفت سے انسان غرور میں مبتلا ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ وہ قدرت کا مقابلہ کرنے کی سوچنے لگتا ہے، اسی سوچ کے تحت فرعون وقارون اور نمرود نے اللہ تعالیٰ کی طاقت کو چیلنج کیا تھا، ماضیٔ قریب میں کمیونسٹ تحریک نے انسان کے دائرۂ ادراک سے باہر کسی بھی طاقت کو ماننے سے انکار کر دیا تھا، خدا کا اور ما بعد الطبیعی تصورات کا مذاق اڑایا جاتا تھا؛ لیکن اِس طرح کے غیر معمولی واقعات انسان کے اس دعوے کی نفی کرتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتا ہے اور ہر مسئلہ کو حل کر سکتا ہے، نیز اس کے عجز وناطاقتی کو ظاہر کرتے ہیں؛اور انسان کو خدا کی طرف متوجہ کرتے ہیں، جب سورج گہن کا واقعہ پیش آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر طویل نماز ادا فرمائی (بخاری، حدیث نمبر: ۱۰۴۴)چاند گہن کے موقع کے لئے بھی نماز رکھی گئی (بخاری، حدیث نمبر: ۱۰۶۵) جب بارش رُک گئی اور قحط کی صورت پیدا ہو گئی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز استسقاء ادا فرمائی (بخاری، حدیث نمبر: ۱۰۱۳) پھر جب بارش کی کثرت ہو گئی ، جانور مرنے لگے، راستے خراب ہو گئے، صحابہؓ نے درخواست کی کہ بارش تھمنے کی دعاء کی جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لئے بھی دعاء فرمائی، اور بارش رک گئی (بخاری عن انس، حدیث نمبر: ۱۰۱۳) اس لئے ایسے واقعات اللہ تعالیٰ کی سے تنبیہ ہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچیں، توبہ واستغفار کا اہتمام کریں، اپنے روٹھے ہوئے خالق کو منانے کی کوشش کریں، اور ایک نئی زندگی شروع کر یں، ایسی زندگی جو قرآن کی تعلیمات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کے سانچے میں ڈھلی ہوئی ہو، اپنے شب وروز کا جائزہ لیں کہ کہاں کہاں ہم سے نافرمانی ہو رہی ہے، اور اپنی زندگی کے مختلف شعبوں کا احتساب کریںکہ کہاں ہم سے اللہ کا حکم ٹوٹ رہا ہے؟
اس واقعہ سے ایک اہم سبق اعتدال اور میانہ روی کا ملتا ہے، بارش اپنی فطرت کے اعتبار سے نقصان کی چیز نہیں ہے؛ بلکہ انسان کے لئے بے حد فائدہ مند اور کائنات کے لئے بقاء کا ذریعہ ہے، پانی ہی کے ذریعہ مردہ زمین لہلہا اٹھتی ہے، اور نوع بہ نوع پھل پیدا ہوتے ہیں اور وہ غذائی اجناس وجود میں آتی ہیں، جن پر ہماری زندگی کا مدار ہے۔ (انعام: ۹۹) بارش نہ صرف پودوں اور پھلوں کے وجود میں آنے کا ذریعہ ہے؛ بلکہ انسان کی پیاس بجھانے کا سامان بھی ہے: ’’ ھو الذی أنزل من السماء ماء لکم منہ شراب ‘‘ (نحل: ۱۰) اسی سے ہمارے جانوروں کے لئے بھی پانی کا انتظام ہوتا ہے۔ (طٰہٰ: ۵۴) نیز یہ انسان کے لئے پاکی کا ذریعہ بھی ہے (الفرقان: ۴۸) جوظاہری گندگی کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی کو بھی دور کرتا ہے ، غرض کہ پانی اور ہوا دو ایسی نعمتیں ہیں، جن پر کائنات کی تمام مخلوقات کی زندگی موقوف ہے۔
لیکن اتنی مفید اور حیات بخش چیزیں بھی اگر حد اعتدال سے بڑھ جائیں تو یہ انسان کے لئے رحمت کے بجائے زحمت اور منفعت کے بجائے مضرت کا سبب بن جاتی ہیں، باد نسیم کے جھونکے انسان کو شاد کام کرتے ہیں؛ لیکن یہی ہوا اگر طوفان کی صورت اختیار کر لے تو بلائے جان بن جاتی ہے، اور آبادی کی آبادی تہس نہس ہو کر رہ جاتی ہے؛ چنانچہ ایسا بھی ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہَوا کا عذاب بھیجا گیا اور پوری قوم صفحۂ ہستی سے مٹ کر رہ گئی (حاقہ: ۶) یہی حال پانی کا ہے، پانی ایسی نعمت ہے کہ موسم گرما کی تپش میں ہر شخص بارش کا متمنی رہتا ہے، کسان بارش کے لئے بے قرار ہوتا ہے اور جب آسمان پر گھٹا چھاتی ہے تو اس کے دل میں خوشی کی کلیاں چٹکنے لگتی ہیں؛ لیکن حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر جو عذاب آیا، وہ بھی بارش ہی کی شکل میں آیا (ھود:۴۴) فرعون کو بھی پانی ہی کی موجوں نے دبوچ لیا تھا (بقرہ: ۵۰)؛ اس لئے اللہ کی کتنی ہی بڑی نعمت ہو اگر وہ حد اعتدال سے آگے بڑھ جائے تو انسان کے لئے رحمت کے بجائے زحمت اور راحت کے بجائے کلفت کا سبب بن جاتی ہے۔
جیسے قدرت کے کارخانہ میں بے اعتدالی تباہی وبربادی کی چیز بن کر آتی ہے، اسی طرح انسان کی عملی زندگی میں بھی بے اعتدالی بے حد نقصان دہ ہوتی ہے؛ اسی لئے اسلام نے قدم قدم پر اعتدال کی تعلیم دی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: انسان کو اپنے رویہ میں میانہ روی اختیار کرنی چاہئے، نہ یہ ہو کہ ظالم کے سامنے اپنے آپ کو ظلم کے لئے پیش کر دیا جائے کہ اگر تم نے ایک گال پر تھپڑ مارا ہے تو آؤ دوسرے گال پر بھی تھپڑ رسید کر دو، اور نہ انسان کو مغرور ومتکبر ہونا چاہئے کہ اس کی چال ورفتار سے کبر کی بو آنے لگے:’’ ولا تصعّر خدک للناس ولا تمش فی الأرض مرحا‘‘(لقمان: ۱۸) کارِ خیر میں خرچ کرنا ایک اچھی بات ہے؛ لیکن اس میں بھی اعتدال کی تعلیم دی گئی ہے کہ نہ اتنا بخل ہو کہ کبھی کسی کی مدد کے لئے ہاتھ نہ اٹھے اور نہ اس طرح خرچ کیا جائے کہ انسان خود ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہو جائے ( اسراء: ۲۹) آواز کا بلند ہونا بھی اللہ تعالیٰ کا ایک عطیہ ہے؛ لیکن انسان کا لب ولہجہ اتنا تیز اور آواز اتنی کرخت نہ ہو کہ لوگوں کو ناگوار گزرے، قرآن میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیاکہ بلند ہونے کے باوجود سب سے ناپسندیدہ آواز گدھے کی ہوتی ہے : ’’ إن أنکر الأصوات لصوت الحمیر ‘‘ ( لقمان: ۱۹) کھانے پینے میں بھی اعتدال کا حکم دیا گیا ہے: ’’ کلوا واشربوا ولا تسرفوا‘‘(اعراف: ۳۱) نماز اہم ترین عبادت ہے اور قرأت اس کا اہم ترین رکن ہے؛ لیکن اس میں بھی درمیانی راستہ اختیار کرنے کو کہا گیا ہے، نہ آواز بہت اونچی ہو اور نہ بہت پست:’’ ولا تجھر بصلاتک ولا تخافت بھا‘‘ (اسراء: ۱۱)
غرض کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ہو یا لوگوں کے ساتھ تعلقات، ہر موقع پر قرآن مجید نے اعتدال ومیانہ روی کا حکم دیا ہے؛ مگر افسوس کہ موجودہ دور میں مسلمان بہ حیثیت قوم عمومی طور پر افراط وتفریط میں مبتلا ہیں، علماء معمولی اسباب کے تحت مسلمانوں پر کافر وفاسق ہونے کا حکم لگا رہے ہیں، سیاسی لیڈران ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں، جماعتیں اور تنظیمیں اتحاد کی دعوت دیتی ہیں؛ مگر ان کے نزدیک اتحاد کا مطلب یہ ہے کہ سارے لوگ ان کے گرد جمع ہو جائیں، اصحاب زر نے اپنی قیمتی دولت کو اپنی شان وشوکت کے اظہار کا ذریعہ بنا لیا ہے، مشائخ نے اپنی اپنی خانقاہوں اور درگاہوں میں حق کو منحصر کر دیا ہے، مقررین کا حال یہ ہے کہ ان کی ہنگامہ خیز تقریریں نذرانوں کی وصولی اور اپنے نام کی سر بلندی کے لئے ہوتی ہیں، غرض کہ ہر جگہ بے اعتدالی نے امت کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیا ہے، قدرت کی طرف سے پیش آنے والے ایسے واقعات ہمیں متوجہ کرتے ہیں کہ دین ہو یا دنیا، خالق کے ساتھ تعلق ہو یا مخلوق کے ساتھ ، ہر موقع پر اعتدال کا دامن ہمارے ہاتھوں میں ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سماجی رویہ کے بارے میں جن باتوں کی تعلیم دی ہے، ان میں سے ایک اہم بات یہ ہے کہ آپ نے راستہ سے تکلیف دہ چیزوں کے ہٹانے کو ایمان کا ایک حصہ قرار دیا ہے: ’’ وأدناھا اماطۃ الأذی عن الطریق‘‘ (بخاری، حدیث نمبر:۲۶۳۱) اذی کے معنیٰ تکلیف دہ چیز کے ہیں، چاہے وہ کانٹے اور چبھنے والی چیزوں کی شکل میں ہو یا گندگی کی شکل میں ، یا کسی نے بیچ راستہ پر اور نو پارکنگ کے حصہ میں اپنی گاڑی پارک کر دی ہو، یا کوئی شخص ڈرینج کی نالی کو بند کر دے، جس سے گندگی سڑک پر اُبل آئے، یا جو راستہ بارش اور سیلاب کا پانی نکلنے لئے چھوڑا گیا ہو، کوئی اس راستے میں پلاٹنگ کر کے آبادی بسا دے اور پانی کی نکاسی میں رکاوٹ پیدا ہو جائے، یہ تمام صورتیں ’’أذی‘‘(تکلیف دہ چیز) میں داخل ہیں، اور ان سب کو دور کرنا ایمان کا تقاضا ہے۔
اس وقت حیدرآباد شہر کے اندر جو تباہی آئی، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ لینڈ گرابرس نے تالابوں میں پلاٹنگ کر دی ہے، غریب اور ناواقف لوگوں نے سستی زمین سمجھ کر پلاٹ خرید لیا، بیچنے والے تو زمین بیچ کر نکل دئیے، اور غریب وناواقف خریداروں پر جو مصیبت آئی، وہ سب کے سامنے ہے، یہ ہمارے ملک میں مسلمانوں کا عام مرض ہے اور اس کے ذریعہ کسی بھی شہر میں مسلم اور غیر مسلم آبادی کی شناخت کی جا سکتی ہے، مسلم آبادیوں میں پہلے تو راستے تنگ کر دئیے جاتے ہیں، سڑک پر سیڑھیاں نکالنا اور چھجے بنانا ہر آدمی اپنا حق سمجھتا ہے، پھر اس کے بعد اپنی گاڑی کھڑی کر دی جاتی ہے، اگلے حصہ میں کرایہ لے کر ٹھیلے والے کو کھڑا کر دیا جاتا ہے، یہاں تک کہ کشادہ سڑک چھوٹی سی گلی بن جاتی ہے، تالابوں، نہروں اور دریاؤں کے کنارے پاٹ پاٹ کر وہاں پلاٹنگ کی جاتی ہے، غیر قانونی طور پر مکانات بنائے جاتے ہیں، اور پانی نکلنے کے راستے کو تنگ سے تنگ تر کر دیا جاتا ہے، تالابوں کا بڑا حصہ بیچ کھایا جاتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کو پینے کا پانی نہیں ملتا، زمین میں پانی کی سطح گرتی چلی جاتی ہے، اور ایسی مصیبتوں کے وقت لوگ ناقابل بیان تکلیف سے دو چار ہوتے ہیں، یہ چیز ایمان کے مغائر ہے؛ کیوں کہ یہ راستہ میں تکلیف دہ چیز رکھنے میں شامل ہے، اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تلقین پر عمل کریں کہ اپنے راستوں کو خواہ چلنے کا راستہ ہو یا پانی کے گزرنے کا، رکاوٹ سے بچائیں تو انسانیت ایسی مصیبتوں سے دو چار نہ ہو۔
اس صورت حال کا ایک سبق آموز پہلو یہ بھی ہے کہ بدقسمتی سے ہمارے معاشرہ میں اراضی پر نائز قبضہ کا مزاج عام ہو گیا ہے، غصب تو کسی بھی مال کا گناہ کبیرہ ہے اور اس پر شدید وعید آئی ہے؛ لیکن خاص کر زمین کا غصب بہت ہی سنگین گناہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایک بالشت زمین بھی ظلماََ لے لی، قیامت کے دن اس کو سات زمینوں کا طوق پہنا یا جائے گا (بخاری، حدیث نمبر: ۳۱۹۸) ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا : جس نے کوئی زمین ایک بالشت ظلماََ لے لی، قیامت کے دن اس کو حکم دیا جائے گا کہ اس پوری زمین کو پانی کی سطح تک کھودے، اور پھر اسے حساب وکتاب کے میدان تک لے کر جائے ’’ کلف أن یحملہ یوم القیامۃ، حتیٰ یبلغ الماء ثم یحملہ إلی المحشر‘‘ (المعجم الکبیر للطبرانی، حدیث نمبر: ۶۹۵)
زمین پر ناجائز قبضہ بہر صورت حرام ہے، چاہے کسی فرد کی زمین ہو یا عوامی املاک میں سے ہو، یا حکومت کی زمین ہو؛ مگر افسوس کہ دنیا کے چند روزہ فائدہ کے لئے کتنے ہی لوگ ہیں جو اپنی دولت، طاقت اور سیاسی رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے انفرادی اور اجتماعی املاک کو غصب کئے جا رہے ہیں، نہ معلوم ان کا آخرت پر یقین نہیں ہے یا ان کے اندر آخرت کا کوئی خوف نہیں ہے؟ اور اس میدان میں افسوس کہ مسلمان اور غیر مسلم کی تمیز اٹھ چکی ہے، کاش کہ جو مسلمان اس گناہ میں مبتلا ہیں، ان کو توبہ کی توفیق ہو اور وہ اللہ کی طرف رجوع ہوں۔
یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ کورونا کی جو آفت آئی، اس میں بھی مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، مسلمانوں کے خلاف جو پروپیگنڈہ شروع کیا گیا تھا، مسلمانوں نے اپنے عمل کے ذریعہ اس کا جواب دیا، اور سیلاب کی اس مصیبت کے موقع پر بھی پورے شہر اور پوری ریاست سے مسلمان اٹھ کھڑے ہوئے، دوسری ریاستوں کے مسلمانوں نے بھی مدد کا ہاتھ بڑھایا، لوگوںنے انفرادی سطح پر بھی تعاون کی کوشش کی، اور اجتماعی سطح پر بھی پریشان حال لوگوں کا تعاون کیا، جمعیۃ علماء اور جماعت اسلامی کے پروگرام میں تو ریلیف کا کام شامل ہے ہی، تبلیغی جماعت جو عام طور پر ایسے کاموں میں بہ حیثیت جماعت حصہ نہیں لیتی تھی؛ بلکہ اپنی تنظیمی جدوجہد کو دعوتِ دین تک محدود رکھتی تھی، اس مصیبت کے موقع پر جماعت کے ذمہ داروں کے حسب ہدایت انھوں نے بھی بھر پور طریقہ پر حصہ لیا اور بہت ہی نمایاں خدمت انجام دی، مسلمانوں کا جذبۂ تعاون کوئی قابل تعجب بات نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر ظلم نہیں کرتا، نہ اس کو ظلم کرتے ہوئے چھوڑتا ہے، جو اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرتا ہے، اللہ اس کی ضرورت پوری فرماتے ہیں، جو کسی مسلمان کی مصیبت کو دور کرتا ہے، قیامت کے دن اللہ اس کی مصیبت کو دور فرماتے ہیں اور جو کوئی کسی مسلمان کی مجبوری پر پردہ رکھتا ہے، اللہ اس کی کمزوری پر قیامت کے دن پردہ رکھیں گے ( بخاری، حدیث نمبر: ۲۴۴۲) حدیث میں اگرچہ مسلمان پر ظلم نہ کرنے اور اُن کو ظلم سے بچانے یا مسلمان کی ضرورت پوری کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے؛ لیکن یہ بات مدینہ کے ماحول کے لحاظ سے کہی گئی ہے؛ کیوں کہ وہاں مسلمانوں کا مسلمانوں ہی سے سابقہ تھا، ورنہ یہ تعلیمات پوری انسانیت کے لئے ہیں، جیسا کہ قرآن وحدیث کے عمومی احکام اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ مبارکہ سے ثابت ہے، بالخصوص ہمارے ملک میں جہاں بہت بڑی تعداد سطحِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ رہتے ہیں، کمزوروں، پریشان حالوں، تنگ دستوں اور ٹھکرائے ہوئے لوگوں کی مدد نہایت اہم اجتماعی فریضہ ہے۔
قدرت کی طرف سے ایک سانحہ پیش آیا جو امتحان بھی تھا، جس میں لوگوں کے لئے تنبیہ بھی تھی اور یہ گزر گیا، ان شاء اللہ آہستہ آہستہ اس کے اثرات بھی ختم ہو جائیں گے؛ لیکن اس حادثہ نے جو سبق دیا ہے، ہمیں چاہئے کہ دل کی تختی پر اسے نقش کر لیں، یہ سانحہ ہمیں اللہ کی طرف رجوع کرنے کا، زندگی کے تمام مرحلوں میں اعتدال پر قائم رہنے کا، انسانیت کو تکلیف پہنچانے والی باتوں سے بچنے کا، زمینوں پر ناجائز قبضہ سے باز آنے کا اور اللہ کے بندوں کے ساتھ حسن سلوک اور بِروتعاون کا سبق دیتا ہے۔
۰ ۰ ۰