مسجدوں کی حفاظت اور مسلمانوں کی ذمہ داریاں
اسلام میں مسجد کی بڑی اہمیت ہے،مسجد کے اصل معنی ہیں : سجدہ کرنے کی جگہ ، غور کیجئے تو نماز کا اصل مقصد عجز و فروتنی کا اظہار ہے اور اس کا سب سے بڑا مظہر سجدہ ہے ، جس میں انسان عظمت و احترام کی آخری علامت پیشانی اور ناک کو بھی خاک پر بچھا دیتا ہے ؛ اسی لئے نماز پڑھنے کی مخصوص جگہ کو مسجد سے تعبیر کیا گیاہے ، اسلام میں مساجد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ مکہ میں تھے ، اس وقت تو خود کعبۃ اللہ موجود تھا ، جو اس کائنات میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد تھی ؛ اس لئے مسجد کی ضرورت نہیں پڑی، گو اس پر مشرکین کا قبضہ تھا ؛ لیکن جب آپ ﷺ نے ہجرت فرمائی اور مدینہ پہنچنے سے پہلے قباء میں قیام پذیر ہوئے تو وہیں آپ ﷺ نے ایک مسجد کی بنیاد رکھی ، جس کا خود قرآن مجید نے ذکر کیا ہے ، (التوبۃ : ۱۰۸) پھر مدینہ پہنچنے کے بعد آپ ﷺنے اپنی اور اپنے رفقاء کی رہائش گاہ کے لئے فکر کرنے سے پہلے مسجد کی فکر فرمائی، اور جس مکان کو آپ کی قیام گاہ ہونے کا شرف حاصل تھا ، اسی کے سامنے ایک زمین خرید کر مسجد نبوی کی بنیاد رکھی ۔
ان مساجد کی خصوصی حیثیت ہے ؛ کیوںکہ کسی زمین کو مسجد کے لئے وقف کرنا ، اس حصۂ زمین کو براہ راست اللہ کے حوالہ کردینا ہے ، اب گویا وہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں ہے ؛ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَّ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا ۔ ( الجن : ۱۸ )
بے شک مسجدیں اللہ کے لئے ہیں ؛ اس لئے ( مسجدوں میں ) اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرو ۔
اس آیت میں اولاً تو تاکید اور قوت کے لئے ’’ اَنَّ ‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ، جو عربی گرامر کے مطابق قوت و تاکید کے معنی کے لئے ہے ، پھر مسجد کے بجائے ’’ مساجد ‘‘ یعنی واحد کے بجائے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ،اور اس پر جو ’’ الف ، لام ‘‘ آیا ہے ، وہ عربی گرامر کی رو سے ’’ استغراق ‘‘ کے معنی میں ہے ، اس طرح اب اس کے معنی ’’ تمام مسجدوں ‘‘ کے ہوگئے ، یعنی جو حکم بیان کیا جارہا ہے وہ کسی ایک مسجد کا نہیں ہے ؛ بلکہ تمام ہی مسجدوں کا ہے ؛ اسی لئے مشہور مفسر عکرمہ نقل کرتے ہیں کہ یہ آیت تمام ہی مسجدوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، قال عکرمۃ : نزلت فی المساجد کلھا۔(مختصر تفسیر ابن کثیر : ۳؍۵۸۶ )
پھر فرمایا گیا ’’ للہ ‘‘ ، عربی گرامر کی رو سے ’’ل ‘‘ ملکیت اور اختصاص کو ظاہر کرنے کے لئے آتا ہے ، یعنی مسجدیں اللہ ہی کی ملکیت ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لئے مخصوص ہیں ، آگے اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی واضح فرمادی کہ مسجد کے اللہ کی ملکیت ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ اور وہ یہ کہ یہ جگہ ہمیشہ اللہ کی عبادت کے لئے مخصوص ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰی فِیْ خَرَابِهَا ۔ (البقرۃ :۱۱۴)
اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا ؟ جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کا نام لینے سے روک دے اور اس کو ویران کرنے کے درپے ہو ۔
اس آیت میں بھی مساجد کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کی گئی ہے اور جو جگہ اللہ کی عبادت کے لئے بنائی گئی ہو ، اس میں اللہ کی عبادت کے روک دینے کو بہت بڑا ظلم قرار دیا گیا ہے ، یہ آیت گو مسجد حرام سے متعلق نازل ہوئی ہے ؛ لیکن جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے ، جس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تمام مسجدوں کا یہی حکم ہے : ’’ المراد سائر المساجد‘‘ (تفسیر قرطبی : ۲؍۵۳ ، نیز دیکھئے : تفسیر طبری : ۱؍۳۵۲)؛ اسی لئے مولانا ثناء اللہ پانی پتی ؒنے فرمایا کہ اگرچہ یہ آیت ایک خاص واقعہ کے پس منظر میں نازل ہوئی ہے ؛ لیکن یہ حکم عام ہے : ’’ الحکم عام و إن کان المورد خاصاً‘‘ (تفسیر مظہری : ۱؍۱۱۶)اور مسجد کو ویران کرنے سے مراد اس کو منہدم کرنا اور اس میں عبادت کو روک دینا ہے ۔ (تفسیر ابی السعود : ۱؍۱۴۹)
اس آیت کے آئینہ میں وہ لوگ اپنی تصویر دیکھ سکتے ہیں جو مسجد سے دستبردار ہوکر اس کی قیمت یا اس کے بدلہ دوسری زمین کو قبول کرلیتے ہیںکہ قرآن کی زبان میں یہ سب سےبڑا ظلم ہے ۔
مسجد کی شرعی حیثیت کے سلسلہ میں رسول اللہ ﷺ کے ارشادات سے بھی روشنی ملتی ہے ،حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : زمین میں مسجدیں اللہ کے گھر ہیں اور یہ بات اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے کہ جو اللہ کے گھر کی زیارت کرے ، اللہ تعالیٰ اس کا اکرام فرمائیں ۔ (معجم طبرانی کبیر ، کتاب الصلاۃ ، باب لزوم المساجد ، حدیث نمبر : ۲۰۲۸)
اس حدیث میں مسجدوں کو اللہ تعالیٰ کا گھر قرار دیا گیا ہے ، گھر قرار دینے کا مطلب ظاہر ہے کہ مسجدیں اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور ظاہر ہے کہ جب انسان اس کا مالک باقی نہیں رہا ، تو اس کو اس میں کسی تصرف اور اس کی حیثیت اور کیفیت کو بدلنے کا حق کس طرح ہوسکتا ہے ؟
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
=خیر البقاع بیوت اللّٰه فی الأرض ۔ (المعجم الاوسط للطبرانی ، حدیث نمبر : ۷۱۴۰)
زمین میں سب سے بہتر حصہ اللہ کے گھر ( مسجدیں ) ہیں ۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ جس جگہ ایک دفعہ مسجد تعمیر کردی جاتی ہے، یا جو حصۂ زمین مسجد کے لئے وقف کردیا جاتا ہے ، اس کی اللہ تعالیٰ سے نسبت قائم ہوجاتی ہے اور اس کی ایک خاص حیثیت بن جاتی ہے ، نیز مسجدہونا در و دیوار سے متعلق نہیںہے ؛ بلکہ اس زمین سے متعلق ہے ، جس کو مسجد کی حیثیت سے وقف کیا گیا ہو؛ اسی لئے فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ مسجدوں کی زمین کو فروخت کرناجائز نہیںہے،نہ روپیہ کے بدلہ نہ دوسری زمین کے بدلہ،مشہور حنفی فقیہ علامہ ابن نجیم مصریؒ فرماتے ہیں:
مصلحت ِمسجد کے لئے بھی خاص مسجد کی زمین کو فروخت کرنا جائز نہیں ؛ اگرچہ قاضی کے حکم سے ہو اور چاہے مسجدویران ہوگئی ہو ۔(البحر الرائق : ۵؍۲۲۳، کتاب الوقف)
یہی رائے امام مالکؒ کی ہے؛ چنانچہ وزارتِ اوقاف کویت کی مطبوعہ مشہور فقہی انسائیکلو پیڈیا ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ‘‘ میں مالکیہ کا مسلک ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے :
مسجد کو بیچنا مطلقاً جائز نہیں ، خواہ ویران ہوگئی ہو یا نہیں ، اس میں کوئی اختلاف نہیں ۔(الموسوعۃ الفقہیۃ : ۷؍۲۲۳ ، استبدال المسجد)
فقہاء شوافع کے نزدیک بھی مسجد کی جگہ ہمیشہ کے لئے مسجد ہوجاتی ہے ، گو مسجد ویران ہوگئی ہو اور اس کی عمارت منہدم ہوگئی ہو ؛ چنانچہ معروف شافعی فقیہ علامہ نوویؒ فرماتے ہیں :
جب مسجد منہدم ہوجائے اور اس کو دوبارہ بنانا دشوار ہو ، جب بھی اسے فروخت نہیں کیا جاسکتا ؛ کیوںکہ اس زمین میں نماز کی ادائیگی کے ذریعہ فی الحال بھی اس سے نفع اُٹھانا ممکن ہے ۔(شرح مہذب : ۱۵؍۳۶۱، کتاب الوقف)
یہی رائے فقہاء حنابلہ کی ہے؛ چنانچہ مشہور حنبلی فقیہ علامہ ابن قدامہ مقدسیؒ فرماتے ہیں:
مسجدیں بیچی نہیں جائیں گی ؛ لیکن اس کا سامان دوسری مسجد کو منتقل کیا جاسکتا ہے ۔(الشرح الکبیر : ۱۶؍۵۲۱، کتاب الوقف)
غرض کہ قرآن و حدیث میں واضح طور پر یہ بات فرمائی گئی ہے کہ مسجدیں براہ راست الله کی ملکیت میں چلی جاتی ہیں، نہ عام مسلمانوں کے لئے اس کی گنجائش ہے کہ وہ اس کی حیثیت تبدیل کردیں نہ عدالت و حکومت کو اس کا حق ہے، نہ مسجد کی کمیٹی کو اور نہ اس شخص کو جس نے مسجد کے لئے اس جگہ کو وقف کیا تھا، اسی پس منظر میں جب عدالت نے بابری مسجد کے عوض پانچ ایکڑ زمین دیے جانے کا فیصلہ کیا اور پھر بعد میں اتر پردیش کی حکومت نے سنی وقف بورڈ کو ایودھیا سے 25/ کلو میٹر کے فاصلہ پر زمین بھی الاٹ کردی، تو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور تمام مسلم تنظیموں نے متفقہ طور پر یہی موقف اختیار کیا کہ ہمیں مسجد کے عوض زمین لینی نہیں ہے؛ کیوں کہ شرعاً ایسا کرنا جائز نہیں ہے، اور اب بھی مسلمانوں کو یہی موقف ہے کہ سنی وقف بورڈ اتر پردیش کا بابری مسجد کے عوض زمین قبول کرنا ایک غیر شرعی عمل ہے اور یہ مسلمانوں کے لئے قطعاً ناقابل قبول ہے۔
افسوس کہ ادھر ملک کے مختلف علاقوں سے ایسے واقعات سامنے آرہے ہیں کہ مسجد کی کمیٹیاںحکومت یاروڈ ڈیلوپمنٹ اتھارٹی یا’’لینڈ گرابرس‘‘کو مسجد دے کر متبادل مسجد کی زمین اور خطیر رقم حاصل کرلیں، شہر حیدرآباد کے اطراف میں اس طرح کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں، یہ انتہائی بے شرمی کی بات ہے اور یہ ان مسجد کمیٹیوں کی سنگین مجرمانہ حرکت ہے، مسلمانوں کو ایسے معاملات کی سخت مخالفت کرنی چاہیے اور پوری قوت کے ساتھ اس کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے،اس سے غلط نظیریں قائم ہورہی ہیں، یہ ایک اصولی مسئلہ ہے؛ اگر مسلمانوں نے اس میں تساہل سے کام لیا تو ہماری تمام مسجدیں خطرے میں پڑ جائیں گی، دنیا کی رسوائی تو اپنی جگہ ہے، اور آخرت میں بھی جواب دہ ہوں گے، مسجد بیچ کر اگر متبادل مسجد بنائی جائے یا کوئی بناکر دے اور اسے قبول کرلیا جائے، تویہ ’’مسجد ضرار‘‘کی طرح ہوگی، اور شاید اس میں نماز پڑھنا بھی جائز نہ ہو۔
ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیںکہ ’’ریئل اسٹیٹ‘‘ کےمسلمان تاجر میں نے پلاٹنگ کی اور پلاٹنگ کے دوران مسجد کے لئے زمین چھوڑی گئی، نقشہ میں اس کو واضح کیا گیا، لوگوں کو ترغیب دینے کے لئے اس نقشہ کو استعمال کیا گیا، اور جب پلاٹ فروخت ہونے لگے تو آخری مرحلہ میں مسجد کا پلاٹ بھی فروخت کردیا گیا، یقینا یہ جھوٹ، دھوکہ اور پلاٹ خریدنے والوں کے ساتھ ظلم ہے، اور ایک اجتماعی چیز کو غصب کرنے کے مترادف ہے، اس سے بھی بڑا ستم یہ ہے کہ بعض اوقات مسجد کے لئے زمین محفوظ کردی جاتی ہے اور لوگوں کو اطمینان دلانے کے لیے اس پر نماز بھی پڑھ لی جاتی ہے؛ لیکن بعد کو اسے فروخت کردیا جاتا ہے، یہ تو قطعا ناجائز اور گناہ ہے؛ کیونکہ کوئی جگہ عمارت بنانے سے مسجد نہیں بنتی ہے؛ بلکہ اگر کوئی جگہ مسجد کے لئے مخصوص کردی جائے اور وہاں نماز پڑھ لی جائے تو وہ شرعاً مسجد ہوجاتی ہے، اب نہ اس کو بیچنا جائز ہے اور نہ خریدنا، نہ کسی اور مقصد کے لئے اس کا استعمال کرنا اور نہ کسی دوسری زمین سے اس کا تبادلہ کرنا؛ اس لئے اگر اندیشہ ہو کہ شاید بعد میں جگہ تبدیل کرنی پڑے گی، تو لوگوں سے کہنا چاہیے کہ یہاں مسجد تعمیر کرنے کا ارادہ ہے؛ لیکن اس جگہ پر نماز نہیں پڑھوانی چاہیے؛ کیوں کہ اگر مسجد کی نیت سے واقف کی اجازت سے نماز پڑھ لی جائے تو یہ مسجد شرعی بن جاتی ہے اور اب اس کی حیثیت کو تبدیل کرنے کی گنجائش نہیں ہے، حاصل یہ ہے کہ اگر ہم خود مسجد کی حفاظت کریں گے تو اللہ تعالیٰ حکومت سے بھی مساجد کو محفوظ رکھیں گے، اور اگر مسلمان خود مسجد کی حرمت پامال کردیں تو حکومت اور فرقہ پرستوں سے تحفظِ مساجد کی لڑائی دوسروں کو نصیحت اور اپنے آپ کو فضیحت کے مصداق ہوگی، اور ہماری کوششیں ناکام ہوکر رہ جائیں گی۔