سیاسی و سماجی

مسلمان کیسے آتم نِر بَھر (خود مکتفی) ہوں؟

5/اگست2020ء کو رام مندر کی مستقل اور وسیع عمارت کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا، اور اس بات کا جس قدر افسوس کیا جائے کم ہے کہ ایک سیکولر ملک کے سربراہ اعلیٰ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس کی بنیاد رکھی، اس خبر پر مجھے چند سال پہلے کا واقعہ یاد آیا، جب گجرات فساد میں شہید ہونے والی مسجدوں کی حکومت کی طرف سے تعمیر کی بات آئی،اس وقت وہ وہاں وزیر اعلیٰ تھے، اور انھوں نے بحیثیت وزیر اعلیٰ بیان دیاکہ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے، وہ کسی خاص مذہب کی عبادت گاہ کیسے تعمیر کرسکتا ہے؛ لیکن۲۰۰۰ء کا یہ اصول۲۰۲۰ء میں یکسر تبدیل ہوگیا، حکومت نے خود مندر کی تعمیر کے لئے ایک ٹرسٹ بنایا اور اعلیٰ ترین سرکاری عہدہ داروں نے اس کی بنیاد رکھی۔
قرآن مجید نے بنی اسرائیل کا واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک شخص کا قتل ہوگیا، لوگوں میں بڑی الجھن پیدا ہوئی،کچھ لوگ چاہتے تھے کہ قاتل کا جرم چھپادیا جائے، اور زبان سے مطالبہ کرتے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام قاتل کے بارے میں بتائیں، آخر اللہ تعالیٰ نے ایک خاص گائے کی نشاندہی فرمائی اور کہاگیا کہ اس کو ذبح کریں اور اس کا گوشت مقتول کے جسم سے لگائیں، تو مقتول قاتل کے بارے میں بتانے کی حد تک زندہ ہوجائے گا؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا، مقتول ایک لمحہ کے لئے زندہ ہوا، قاتل کا نا م بتایا، اور ہمیشہ کے لئے موت کی آغوش میں چلا گیا،بابری مسجد کی صورت حال یہی ہے، اس کا قتل تو اسی وقت ہوگیا تھا،جب مسجد کے اندر مورتیاں رکھی گئیں؛ لیکن وہ یکے بعد دیگرے اپنے قتل میں شامل تمام چہروں سے پردہ ہٹاتی جارہی ہے، اُن پنڈت نما غنڈوں سے جنھوں نے رات کی تاریکی میں مورتیا ں لا کر رکھ دی تھیں، اُن پولیس والوں سے جنھوں نے مجرموں کا ہاتھ تھامنے کے بجائے اُن کے کالے کرتوت سے آنکھیں موند لیں، اُن حکومتوں سے جنھوں نے وعدے کیے اورانہیں وعدہ خلافی میں کو ئی عار نہ ہوئی، وہ کلیان سنگھ کی حکومت ہو یا نرسمہا راؤ اور نریندر مودی کی، اُن عدالتوں سے جنھوں نے فیصلے کیے؛ لیکن انصاف فراہم نہیں کیا، غرض کہ یہ ایسی مقتول عمارت ہے جس نے حکومتوں کی بد یا نتی، پولیس کی بے عملی، اپنے آپ کو مذہبی نمائندہ کہنے والی شخصیتوں کے اندر چھپی ہوئی غنڈہ گردی، اور عدالتوں کارویہ، اِن ساری حقیقتوں کو دوپہر کی دھوپ کی طرح عیاں کردیا ہے۔
جو کچھ ہوتا آیا تھااس لحاظ سے ۵ا/گست کی تقریب عین توقع کے مطابق تھی؛ لیکن جب دل پر چوٹ لگتی ہے، تو چاہے پہلے سے اس کا یقین رہا ہو، زخم تازہ ہو جاتا ہے؛ اس لئے اس واقعہ نے بجاطور پر مسلمانوں کو افسردہ بھی کیا اور ان کے حوصلوں کو بھی چوٹ پہنچائی، ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان مایوسی اور حوصلہ شکستگی کے احساس سے باہر آئیں، انبیاء کی زندگی دیکھیں، رسول اللہ ﷺ کی سیرتِ طیبہ پڑھیں، مسلمانوں کی فتح مندی اور پھر گاہے شکست سے دوچار ہونے کی طویل تاریخ کو ملا حظہ کریں اور یاد رکھیں کہ زندہ قوموں پر اس طرح کے حالا ت آتے رہے ہیں اور آتے رہیں گے، مردہ پر کوئی وار نہیں کیا جاتا؛ لیکن جو سپا ہی زندہ ہو،اسی پر حملے کیے جاتے ہیں، اس لئے نفرت و عداوت اور ظلم و ناانصافی کے تیر مسلمانوں کی زندگی کی علامت ہیں، اور بحیثیت مسلمان ہمارا یقین ہے کہ مسلمان تو شکست کھا سکتا ہے؛ مگر اسلام شکست نہیں کھا سکتا، اسلام کی قوت ناقابل تسخیر ہے، اس کی روشنی ایسی نہیں جسے بجھایا جاسکے،اس کی کشش زمین کی قوت کشش سے بھی بڑھ کر ہے، جو اجسام کو ہی نہیں دلوں کو بھی اپنی طرف کھینچ لیتی ہے؛ اس لئے ہمیں بالکل مایوس نہیں ہونا چاہیے، اور اس ملک کے حالا ت کو سامنے رکھتے ہو ئے دین پر استقامت اور ملی وجو د کے تحفظ کے لئے منصوبہ بنانا چاہیے۔
جیسے رسول اللہ ﷺ نے غزوہ خندق کے موقع سے حضرت سلمان فارسیؓ کے مشورہ پر ایرانیوں کا طریقہ جنگ اختیا ر کیا تھا، اسی طرح اگر مسلمان اس ملک میں آر ایس ایس کی منصوبہ سازی اور طریقہ تنظیم سے فایدہ اٹھائیں تویہ ایک بہتر صورت ہوگی، منصوبہ جو بھی ہو، اس کا بنیادی نکتہ یہ ہو کہ ہم اپنے مسائل آپ حل کریں گے، ہمیں حکومتوں سے یہ امید نہیں رکھنی چا ہیے کہ وہ مسلمانوں کی تعلیم، صحت اور روزگا ر کے لئے کوئی خصوصی نظم کریں گی،یا انہیں دلتوں کی طرح ریزرویشن ملے گا، کوشش کرنے اور مواقع سے فایدہ اٹھانے میں کوئی حرج نہیں؛ لیکن نقشہ کا ر کچھ اس طرح بنایا جائے کہ مسلمان اپنی صلاحیت، افرادی وسائل اور مالی وسائل کے ذریعہ خود مکتفی ہوکر اپنا تحفظ کریں گے اور ترقی کے دور میں آگے بڑھیں گے، موجودہ سرکار کی زبان میں وہ اپنے آپ کو ’آتم نِربَھر‘ (خود مکتفی)بنائیں۔
اسلام کا تحفظ
اس منصوبہ میں کم سے کم مسلمانوں کے۷/اہداف ہونے چاہیے: سب سے پہلا ہدف مسلمانوں کو دین پرثابت قدم رکھنے کا ہے،اس سلسلے میں چند امور کی طرف اولین توجہ کی ضرورت ہے:
۱۔ اسلام کے پانچ ارکا ن ہیں: کلمئہ شہادت، نماز، روزہ، زکٰوۃ اور حج؛ اگر غور کیا جائے تو ان میں سے سب سے کم بات کلمئہ شہادت یعنی ایمان پر کی جاتی ہے، رمضان المبارک کے پورے مہینہ میں روزہ، تراویح، زکٰوۃ اور انفاق پر بات کی جا تی ہے، ماہ ذوالحجہ میں حج اور قربانی کے موضوع پر بیانات ہوتے ہیں، نماز چونکہ سال بھر ادا کیا جانے والا فریضہ ہے؛ اس لئے موقع بموقع نماز کی اہمیت پر خطابات ہوتے رہتے ہیں، رجب میں واقعہ معراج کے ضمن میں خاص کر نماز پر تقریریں کی جاتی ہیں؛ لیکن اس احساس کے تحت کہ ہم سب خود مسلمان ہیں، کلمہ گو ہیں اور مسلمان والدین کی اولاد ہیں، ایمانیا ت پر بہت کم گفتگو کی جاتی ہے، اس وقت ہندوستان میں تعلیم کا بھگوا کرن کرنے، دھرم پرِیوَرتن کی دعوت دینے، میڈیا اور نصابی کتابوں کے ذریعہ دیومالائی کہانیاں اور ہندو تصورات پر مبنی نغموں کو رواج دینے، اور ہندو ثقافت کو آرٹ کے نام پر مسلط کرنے کی جو کوشش کی جارہی ہے، اس پس منظر میں بہت ضروری ہے کہ علماء اور خطباء ایمانیات کو اپنا موضوع بنائیں، توحید،رسالت، آخرت کی تفصیل سے وضاحت کی جائے اورکفر و شرک کی تردید اور بت پرستی کی نامعقولیت پر گفتگو کی جائے، خواہ وہ جمعہ و عیدین کے بیانات ہوں یا مدارس کے سالانہ جلسے اور اصلاح معاشرہ یا سیرت کے پروگرام، ہر جگہ ایمانیات پر بیانات کاحصہ رکھنا چاہیئے؛ البتہ اس کو امت میں اختلاف کا ذریعہ نہ بنایا جائے؛ بلکہ دین کے تحفظ کی مہم کے طور پر خطاب کیا جائے؛ کیوں کہ یہ ی جلسے ہمارے لئے مسلم عوام تک پہنچنے کا سب سے مؤثر ذریعہ ہیں۔
۲۔مکاتب کا نظام بڑی اہمیت کا حامل ہے، جو بچے سرکاری یا پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں، ان کو دین سے جوڑے رکھنے کے لئے اس سے زیادہ مؤثر کوئی نظام نہیں، اور مسلم سماج کو اس سلسلے میں بڑی سہولت ہے؛ کیونکہ قریب قریب ہر مسلمان محلہ میں مسجد موجود ہے اور مسجد میں امام و مؤذن مقرر ہیں، مسجد ہمارے لئے درسگاہ ہے، اور یہی امام و مؤذن اس درسگاہ کے معلم ہیں، نہ اس کے لیے الگ سے انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے اور نہ ملازمین کی، بہت ہی کم اخراجات کے ذریعے مکاتب کا نظام چل رہا ہے اور چل سکتا ہے، آر ایس ایس والوں نے شاید مسلمانوں کے نظام مکاتب کو دیکھتے ہوئے ایک خاص صورت ’ایک استاد ایک اسکول‘کی نکالی ہے، جس میں وہ مذہبی تعلیم پر بھی پوری توجہ دیتے ہیں، مسلمانوں کے یہاں تو یہ نظام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور ہی سے قائم ہے، بس ضرورت ہے توجہ اورتنظیم کی۔
۳۔ مسلمانوں کے زیر انتظام ماشااللہ اسکولوں کی بڑی تعداد اس وقت پورے ملک میں موجود ہے، بظاہر شہروں میں ۵۷/ فیصد مسلمان طلبہ و طالبات پرائیویٹ اسکولوں میں پڑھتے ہیں، اور چونکہ وہ کارپوریٹ اسکولوں کی فیس ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؛اس لیے ان میں زیادہ تر طلبہ و طالبات مسلم اسکولوں سے رجوع کرتے ہیں، اب ایک ضرورت تو یہ ہے کہ مسلمان انتظامیہ ان اسکولوں کے تعلیمی معیار کو بہتر بنائے؛ لیکن ساتھ ساتھ مسلمانوں کی نئی نسل کے دین وایمان کی حفاظت کے نقطہ نظر سے اپنے اسکولوں میں ضروری بنیادی دینی تعلیم پر بھی خصوصی توجہ دے، اور اس کو ایک ملی فریضہ تصور کرتے ہوئے انجام دیا جائے، عجیب بات ہے کہ جدید تعلیم یافتہ بھائیوں کی طرف سے دینی مدارس میں عصری مضامین داخل کرنے کی بات تو خوب کی جاتی ہے، اور اس پر بہت زور دیا جاتا ہے؛ لیکن عصری درسگاہوں میں دینی تعلیم پر توجہ نہیں دلائی جاتی؛ حالانکہ اس کی ضرورت زیادہ ہے، دینی مدارس میں طلباء کی تعداد پہلے سے کم ہے، اور جو کچھ ہے اس میں بھی دن بدن کمی ہوتی جارہی ہے؛ اس لیے مسلمانوں کے زیر انتظام عصری درسگاہوں میں ضروری دینی تعلیم پر ہماری اولین توجہ ہونی چاہیے۔
۴۔ آج کل عصری تعلیم گاہوں میں’مختصر سرٹیفیکٹ کورس‘کا رواج بڑھتا جارہا ہے، جس میں طلبہ بہت دلچسپی لیتے ہیں، اور اب اس میں ایک نئی صورت آن لائن تعلیم کی بھی پیدا ہوگئی ہے، دینی مدارس اپنے نظام تعلیم کو جاری رکھتے ہوئے، ہائی اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء کے لئے دینی تعلیم کا مختصر سرٹیفکیٹ کورس رکھ سکتے ہیں، جو چالیس سے پچاس گھنٹوں پر مشتمل ہو، جیسے: معلوماتِ قرآنی کورس، معلوماتِ حدیث کورس، شرعی مسائل کورس، سیرتِ نبوی کورس وغیرہ،خواہ یہ اردو میں ہو یا مقام کی مناسبت سے انگریزی یا مقامی زبان میں ہو، اس کا با ضابطہ امتحان ہو،اور اس پر انہیں ایک سند بھی دے دی جائے، یہ بہترین ذریعہ ہوگا عصری تعلیمی اداروں کو مدارس سے فیض یاب کرنے کا، ایسے کورس آن لائن بھی رکھے جاسکتے ہیں،اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہفتے میں ایک دن اتوار کے روز کلاس ہو۔
۵۔ زیبائش و آرائش کا جذبہ انسان کی فطرت میں رکھا گیا ہے، اور نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں اس کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ فیشن کے نام پر نامعقول سے نا معقول لباس کو لوگ قبول کر لیتے ہیں، اب یہی دیکھئے کہ کسی زمانے میں کپڑوں کا پھٹا ہونا یا پیوند لگا ہو نا فقر و غربت کی علامت تھی؛ لیکن آج کل یہ فیشن کا حصہ ہے، اور نوجوان شوق سے پھٹے ہوئے پَینٹ پہنتے ہیں، اب سنگھ پریوار والے ہندو ثقافت کو فروغ دینے کے لئے یونیفارم اور عام ملبوسات میں بھی ہندوانہ رنگ کو فروغ دے رہے ہیں، زعفرانی کپڑے، پیشانی پر سرخ تلک، ہاتھ مین دھاگے یا کڑے وغیرہ کو رواج دیا جا رہا ہے، ان حالات میں ضرورت ہے’اسلامی فیشن‘ کو فروغ دینے کی؛ یعنی ایسے لباس ڈیزائن کیے جائیں جو خوبصورت بھی لگتے ہوں اور لباس کے سلسلے میں شریعت کی بنیادی تعلیمات سے ہم آہنگ بھی ہوں۔ پڑوسی ملک میں جنرل ضیاء الحق شہیدؒ نے اپنے زمانے میں تمام آفسوں کے لئے پٹھانی سوٹ(قمیص شلوار) کو جاری کیا، اس کابہتر اثر مرتب ہوا اور وہاں کے بلند پایہ علماء نے بھی اس کی تحسین کی، اس کی وجہ سے مسلمان نوجوان اسلامی ثقافت سے مربوط رہیں گے اور ان میں اپنی شناخت اور پہچان کا احساس پیدا ہو گا۔
تعلیمی ترقی
دوسرا اہم مسئلہ عصری تعلیم میں مسلمانوں کی ترقی کا ہے، یہ افسوسناک حقیقت ہے کہ جس امت کو سب سے پہلے پڑھنے کی تعلیم دی گئی، وہ وطن عزیز میں تعلیم کے میدان میں سب سے آخری صف میں کھڑی ہے، اس پسماندگی کو دور کرنے کے لئے ایک طرف مسلمانوں میں شعور بیداری کی ضرورت ہے، اور بحمداللہ کسی حد تک پچھلے پچیس سالوں میں تعلیمی رجحان بڑھا ہے، آج آٹو اور رکشہ چلانے والا مسلمان بھی اپنے بچوں کی تعلیم کی طرف کچھ نہ کچھ توجہ کر رہا ہے، اور اسی لیے مسلم آبادیوں میں بھی کثرت سے اسکول قائم ہو رہے ہیں، دوسری ضرورت ہے زیادہ سے زیادہ تعلیمی ادارے قائم کرنے کی، ابھی مسلمان محلوں میں جو اسکول قائم کیے جا رہے ہیں،وہ زیادہ تر تجارتی نوعیت کے ہیں، انتظامیہ طلبہ سے زیادہ سے زیادہ فیس وصول کرنے کی سعی کرتی ہے،اور اساتذہ کو کم سے کم تنخواہ دیتی ہے، تنخواہ ہی کے لحاظ سے اساتذہ کا معیار بھی ہوتا ہے؛ بہرحال پھر بھی یہ ادراے امت کا بڑا سرمایہ ہیں اور ان کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا؛ لیکن کچھ ایسے تعلیمی ادارے بھی ہونے چاہئیں، جو ’نہ نفع اور نہ نقصان‘کے اصول پر کام کریں، اس طرح وہ طلبہ و طالبات جن میں ذہانت اور صلاحیت ہے؛ لیکن ان کے سرپرست مہنگی فیس ادا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے، وہ بھی تعلیم حاصل کر سکیں گے، اور جب اسکول کی پوری آمدنی اسکول ہی پر خرچ ہوگی تو زیادہ تنخواہیں دے کر اچھے ٹیچر رکھے جا سکیں گے، اس کے لئے ملی اور خیراتی اداروں کی ضرورت ہے، مسلم تنظیمیں، جماعتیں، دینی مدارس، مسجدیں، خیراتی ادارے اپنے زیر انتظام اگر ہائی اسکول قائم کریں اور اور انفراسٹرکچر کے بجائے اصل مقصد پر زیادہ سے زیادہ پیسہ خرچ کریں، تو انشاء اللہ اس سے بڑا فائدہ ہو سکتا ہے اور مسلم معاشرہ میں ایک تعلیمی انقلاب آ سکتا ہے۔
موجودہ صورت حال کے پس منظر میں ایک اہم ضرورت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کے تعلیمی ادارے مشترک طور پر طلبہ کے لئے نصابی نقطہ نظر سے بعض مضامین پر کتابیں مرتب کریں، ان میں تاریخ اور اخلاقیات کا موضوع خصوصی اہمیت کا حامل ہے، نئی تعلیمی پالیسی کے تحت تاریخ میں سے مسلم دور کو مکمل طور پر حذف کر دیا گیا ہے، اور اس کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مواد بھی شامل ہے، اور بہت سی سچائیوں کو مسخ کردیا گیا ہے، جیسے آریوں کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ باہر سے نہیں آئے تھے، طبقاتی تقسیم کے بارے میں دعوی،کہ یہ تقسیم پیدائشی طور پر نہیں تھی؛ بلکہ لوگوں کے عمل اور کردار کے لحاظ سے تھی وغیرہ۔ ان تمام حقائق کو سچائی اور غیر جانبداری کے ساتھ ذکر کیا جائے۔
اسی طرح جدید تعلیمی پالیسی کے تحت اخلاقیات کی تعلیم میں ہندو مذہب کے سوا کسی اور مذہب کا ذکر نہیں ہوگا، اس کی وجہ سے معصوم بچوں کا جو ذہن بنے گا، وہ ظاہر ہے؛ اس لئے مختلف مرحلوں کے بچوں کے لئے ان کی سطح کے لحاظ سے اخلاقی تعلیم کا ایک ایسا نصاب ہونا چاہیے، جس میں انبیاء کرام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہؓ اور سلف صالحین ؒکے اخلاقی واقعات اور تعلیمات ہوں، اردو زبان میں مولانا محمد میاں صاحب ؒ کی کتاب ’دینی تعلیم کا رسالہ‘، جناب محمد افضل صاحب کی ’اخلاقی کہانیاں‘ اور ’سچی کہانیاں‘، وغیرہ اس نقطہ نظر سے اہم کتابیں ہیں، اور ان سے استفادہ کرتے ہوئے موجودہ زمانے کی ضرورت کے لحاظ سے ایسی مزید کتابیں مرتب کی جا سکتی ہیں، کم سے کم مسلم انتظامیہ کے تحت چلنے والے اسکول اس کو اپنے نصاب میں شامل کرلیں، یہ بہت ضروری ہے؛تاکہ مسلمان بچے مشرکانہ افکار کا شکار نہ ہوں، اوران کے اندر اپنے دین اور اپنی تاریخ کے بارے میں احساس کمتری پیدا نہ ہو۔
اپنی حفاظت آپ
اس منصوبے کا تیسرا اہم ایجنڈا ملت اسلامیہ کا تحفظ ہونا چاہیے، تحفظ میں جسمانی تحفظ بھی شامل ہے، اور ملی وقار کا تحفظ بھی شامل ہے، اس سلسلے میں چند باتیں اہم ہیں:
۱۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنے جسمانی تحفظ کے لئے تیار کرنا، اور قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اس کی تربیت دینا، جیسے: مارشل آرٹ اور لاٹھی چلانے کا طریقہ وغیرہ،یہ حفظان صحت کے نقظہ نظر سے بھی ضروری ہے، اور ماب لنچنگ کے واقعات جس طرح بڑھتے جا رہے ہیں، اس نے اس کی ضرورت کو اور بڑھا دیا ہے۔
۲۔ مسلمان نوجوانوں کو قانون کی تعلیم حاصل کرنے پر متوجہ کرنا، اس میں اعلی مہارت کے حصول کے لئے ان کا تعاون کرنا اور عدالتوں میں ماہر مسلمان وکلا ء کو پہنچانا،یہ قانونی تحفظ کے لئے بے حد ضروری ہے، اب تو صورت حال یہ ہوگئی ہے کہ بعض دفعہ وکلاء مسلمانوں کا کیس لینے کو آمادہ نہیں ہوتے، ان حالات میں بے حد ضروری ہے کہ ہمارے پاس اچھے وکیل ہوں،اور اچھے وکیل ہی جج کی کرسی پر پہنچتے ہیں، افسوس کہ ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں مسلمان ججز کی تعداد کم سے کم ہوتی جا رہی ہے، ادھر مسلمانوں میں جدید تعلیم کا رجحان بڑھا ہے، مگر ان کی ساری توجہ میڈیکل اور انجینیرنگ پر ہے، یہ کافی نہیں ہے۔
۳۔ ملی تحفظ کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انتظامیہ میں اعلی عہدوں پر مسلمان موجود ہوں، گزشتہ کچھ عرصے سے بعض مسلمان اداروں نے اس کے لئے تیاری کرانے کا کام شروع کر رکھا ہے، اور اس کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اس سال بھی 44 /مسلم طلبہ نے اس امتحان میں کامیابی حاصل کی؛ لیکن اس پر ابھی مزید اور کافی کوششوں کی ضرورت ہے؛ اگر مختلف مسلم تنظیمیں اور جماعتیں سالانہ دو تین طلباء پر محنت کرائیں اور انہیں کامیابی کی منزل تک پہنچائیں؛ یہاں تک کہ سالانہ تقریبا سو مسلمان اس میں کامیابی حاصل کرسکیں، تو حکومت کی مشینری میں مسلمانوں کی قابل لحاظ نمائندگی ہو سکے گی، اور حکومت کے فیصلوں میں بھی اور ان فیصلوں کے نفاذ میں بھی مسلمانوں کو انصاف حاصل ہو سکے گا، سیاسی نمائندگی بڑھانے کے لئے جتنی محنت کی جاتی ہے، اِس میدان میں اس سے زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔
۴۔ آزادی کے بعد جتنے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں، ان میں پولیس کا جانبدارانہ بلکہ ظالمانہ رول بالکل واضح ہے، خود حکومت کے متعین کیے ہوئے بہت سے تحقیقاتی کمیشنوں نے اس کو واضح کیا ہے، اس پس منظر میں اس بات کی سخت ضرورت ہے کہ پولیس کے محکمہ میں مسلمان زیادہ سے زیادہ داخل ہونے کی کوشش کریں، یہ حقیقت ہے کہ محکمہ پولیس میں مسلمانوں کا تناسب نہایت کم ہے، ہو سکتا ہے اس میں کچھ دخل تعصب کا بھی ہو؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد پولیس کی ملازمت کی طرف رخ ہی نہیں کرتی، یا اسے حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے؛ حالانکہ اس شعبے میں چونکہ بنیادی طور پر صرف جسمانی موزونیت مطلوب ہوتی ہے، اس لئے ملازمت کے مواقع زیادہ ہیں، اس کے لئے ضرورت ہے ایک تو شعور بیداری کی، دوسرے: پولیس ٹیسٹ میں شرکت کے لیے ٹریننگ کی، اور یہ کام سول سروس امتحان کی تیاری کی طرح زیادہ خرچ طلب بھی نہیں ہے؛ اس لیے اگر مسلم ادارے اس جانب توجہ دیں تو مسلمانوں کی ایک مناسب تعداد اس شعبے میں داخل ہو سکتی ہے اور یہ چیز ان شائاللہ پولیس ظلم کو روکنے میں ممدومعاون ہوگی۔
۵۔ حفاظت کا ایک پہلو قومی اور ملی وقار کا تحفظ ہے، اس وقت قوموں کو بے وقار کرنے اور کسی گروہ کے وقار کو بے جا طریقہ پر بڑھانے اور اس کے حق میں مبالغہ آمیز جھوٹ اور پروپیگنڈے کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ میڈیا ہے خواہ الیکٹرانک میڈیا ہو یا پرنٹ میڈیا، نیشنل چینلز ہو یا یوٹیوب چینلز، ان کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا! اس لئے مسلمانوں کو اس شعبہ کی طرف توجہ کرنے کی اشد ترین ضرورت ہے؛ اگر چہ وہ اس سلسلے میں بہت پیچھے ہو چکے ہیں؛ لیکن اگر صبح کا بھولا شام میں واپس آ جائے تب بھی یہ ایک کامیابی ہے، اس کے لیے دو رخی کوشش ہونی چاہیے: ایک: افراد سازی کی، کہ انگریزی اور مقامی زبانوں میں لکھنے والے جرنلسٹ اور بولنے والے ماہرین تیار کیے جائیں، دوسرے: اگر اخبارات کا نکالنا اور نیشنل سطح کا چینل شروع کرنا مشکل ہو، جیسا کہ تجربہ ہے، تو کم سے کم سوشل میڈیا کے ذریعے ایسے چینل بنائے جائیں جو مسلمانوں کی آواز بنیں، مسلمانوں کی اچھی تصویر پیش کریں اور ان کے بہتر کاموں کو نمایاں کریں، یہ بھی اپنے تحفظ کا ایک حصہ ہے، اور اس سے بے توجہی نے مسلمانوں کو ناقابل بیان نقصان پہنچایا ہے۔
(جاری)

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×