احوال وطن

بابری مسجد فیصلے کو تسلیم کرنا ہر ہندوستانی کی ذمہ داری

دربھنگہ۔ 8/نومبر: (رفیع ساگر) آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان و سکریٹری فقیہ العصر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے آج جاری اپنے صحافتی بیان میں کہا ہے کہ عدالت سے بابری مسجد سے متعلق جو بھی فیصلہ آئے گا ہم اسے بخوشی قبول کریں گے اور عدالت کے قابل ججوں کے فیصلے کا احترام کیا جائے گا انہوں نے آج جالے میں اخباری نمائندوں کو دیئے اپنے پریس ریلیز میں کہا کہ بابری مسجد کا مقدمہ ہندوستان کی عدالتی تاریخ کا سب سے قدیم اور طویل مقدمہ ہے جس کی کارروائی تقریباً پون صدی کا احاطہ کرتی ہے اور ہمیں تاریخی حوالے سے یہ بات بھی یاد رکھنی ہوگی کہ اس مقدمہ کا آغاز ظلم اور دھوکہ پر مبنی اس عمل سے ہوا کہ کچھ شرپسندوں نے رات کی تاریکی میں دیوار پھاند کر مسجد کے احاطہ میں مورتیاں رکھ دیں جس کے بعد ملک میں کئی قسم کے حساس مسئلے رونما ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر اسی وقت اس غیر قانونی عمل کو روکا جاتا اور مورتیاں نکال دی جاتیں تو یہ مسئلہ وہیں پر ختم ہوجاتا لیکن افسوس حکومت اور پولس عہدے داروں نے فرقہ پرستوں کے ساتھ ساز باز کر کے ٹال مٹول سے کام لیا اور فرقہ پرست عناصر نے سیاسی مقاصد کے لئے اس کو ایک موضوع بنالیا اس کی وجہ سے نہ صرف صورت حال بد سے بدتر ہو گئی بلکہ 1992 میں مسجد شہید بھی کر دی گئی، انہوں نے کہا کہ بورڈ کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ اس معاملے میں جوکچھ کیا جائے قانون کے دائرے میں ہو چنانچہ معاملہ کورٹ تک پہونچا اور بورڈ نے بھر پور طریقے پر مقدمہ کی 9 پیروی کی اور قانون وآئین کے اعتبار سے مسلمانوں کے موقف کی اہمیت کو واضح کیا گیا انہوں نے کہا کہ مقدمہ کی پیروی کرتے ہوئے تاریخی حوالوں سے یہ بات ثابت کی گئی کہ یہاں پر کوئی مندر نہیں تھا جس کو توڑ کر مسجد بنائی گئی ہو بلکہ اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ بابر ایودھیا میں آیا ہو،علم الآثار سے بھی اس موقف کو واضح کیا گیا اور یہ بات بھی دلائل سے پیش کی گئی کہ کسی ہندو مذہبی کتاب میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ ” شری رام جی” خاص اسی جگہ پر پیدا ہوئے جس جگہ پر مسجد بنی ہوئی ہے مولانا رحمانی نے کہا کہ مقدمے میں دوران بحث یہ بات بھی خود غیر مسلم مورخین کے حوالے سے پیش کی گئی کہ مندر توڑ کر مسجد بنانے کی بات سراسر جھوٹ پر مبنی جو ہندوں اور مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کے لئے ان انگریزوں نے پہلے اپنی طرف سے گھڑ کر کہی تھی جو بابر کے صدیوں سال بعد ہندوستان آئے،انہوں نے کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس مقدمے کی پیروی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بلکہ ٹھوس طریقے سے مقدمہ لڑا گیا یہی وجہ ہے کہ اس مسئلے میں نہ صرف پوری ملت اسلامیہ متفق ہے بلکہ ملک کے انصاف پسند سیکولر غیر مسلم بھائی بھی مسلمانوں کے موقف کی تائید کرتے رہے ہیں،انہوں نے کہا کہ اس معاملے کے دوسرے فریق کی طرف سے اپنے موقف پر نہ کوئی قابل توجہ قانونی شواہد پیش کئے گئے اور نہ اپنی مذہبی کتابوں ہی سے وہ اس بات کا ثبوت پیش کر سکے کہ ” شری رام جی” اسی خاص جگہ پر پیدا ہوئے تھے یا بابری مسجد بنائی جانے سے پہلے وہاں کوئی مندر موجود تھا اس لئے بورڈ کو پوری امید ہے کہ عدالت کا فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آئے گا،تاہم کورٹ کا جوبھی فیصلہ آئے گا ملک کے تمام باشندے کا فریضہ ہے کہ وہ فیصلہ آنے کے بعد اس کو قبول کریں اور کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے ملک کا امن وامان متاثر یو یہ ملک کی اکثریت کا بھی فریضہ ہے اور اقلیت کا بھی،انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے ہمیشہ اپنے آپ کو قانون کا پابند رکھا ہے اور اشتعال انگیز قول وفعل سے اجتناب کیا ہے اس لئے ہم بجا طور پر ہندو بھائیوں سے بھی اس کی امید رکھتے ہیں ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×