سیاسی و سماجی

تدبیر کے ساتھ رجوع الی اللہ بھی ضروری!

CAA قانون کے خلاف اس وقت پورا ملک سراپا احتجاج بنا ہوا ہے؛ لیکن حکومت سمجھتی ہے کہ اپنی ضد پر اڑا رہنا، رعایا کے جذبات کو کچل دینا اور آنکھ کان بند کر کے حکومت کرنا کمال کی بات ہے؛ اس لئے وہ ذرا بھی اپنے موقف سے ہٹنے کو تیار نہیں ہے، اسے یہ بات جان لینی چاہئے کہ بدترین حکومت وہ ہے، جو رعایا کی بات سننے پر آمادہ نہ ہو اور جس کو طاقت کا نشہ اتنا بدمست کر دے کہ مظلوموں کی آہیں اس کے کانوں سے ٹکرا ٹکرا کر واپس آجائیں، اور یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ ظلم وجبر ایک غیر فطری چیز ہے اور اس کو آج یا کل ان شاء اللہ ختم ہو کر رہنا ہے، اس سلسلہ میں یونیورسیٹیوں کے طلبہ، سیکولر دانشور حضرات، فلم اور کھیل کی دنیا کے لوگ، ملک کے ریٹائرڈ قابل افسران اور میڈیا کے وہ لوگ جن کے ضمیر میں ابھی زندگی کی رمق باقی ہے، قابل تحسین بھی ہیں اور شکریہ کے مستحق بھی کہ وہ پوری جرأت اور حوصلہ کے ساتھ انصاف کی یہ لڑائی لڑ رہے ہیں۔
اسی پسِ منظر میں برادران اسلام سے عرض ہے کہ اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کے دو نظام کارفرما ہیں، ایک: نظامِ اسباب، دوسرے: نظامِ غیب، نظام اسباب یہ ہے کہ ظاہری اسباب کے واسطہ سے نتائج ظاہر ہوں، یہ ایک واضح حقیقت ہے، جس کو ہم روز وشب سر کی آنکھوں سے دیکھتے ہیں،اگر کوئی شخص آگ کے شعلہ کو اپنے ہاتھ میں لے لے تو اس کا ہاتھ جلے گا، اور تیرنے سے واقف نہ ہو پھر بھی گہرے دریا میں کود جائے تو یقیناََ ڈوب جائے گا، یہ اسباب کا نظام ہے جو پوری کائنات میں کارفرما ہے، اور دنیا میں ہمارے سارے کام اسی ذریعہ سے انجام پاتے ہیں۔
نظامِ غیب کا مطلب یہ ہے کہ کسی چیز کے حاصل ہونے کا جو فطری ذریعہ ہوتا ہے، اس کے بغیر وہ چیز حاصل ہو جائے، یا جو چیز جس بات کا سبب بنتی ہو، اس کا وہ نتیجہ ظاہر نہ ہو پائے، جیسے: آگ میں انسان جل جاتا ہے؛ لیکن اللہ کے حکم سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ نے نہیںجلایا ، حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کے ساتھ بحر قلزم میں اتر گئے؛ لیکن سمندر انہیں ڈبو نہیں سکا، انسان اس دنیا میں باپ اور ماں کے واسطہ سے پیدا ہوتا ہے؛ لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام صرف ماں کے ذریعہ پیدا کئے گئے، یہ اللہ تعالیٰ کا غیبی نظام ہے، آخرت کا تو پورا نظم ونسق اسی نظام کے تحت رہے گا؛ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں بھی وقتاََ فوقتاََ انسان کو اس نظام کی جھلک دکھائی جاتی ہے۔
اس لئے جیسے حکومت کے ظالمانہ رویہ سے مقابلہ کے لئے سیاسی اور عوامی جدوجہد کی جارہی ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ سے رجوع کا بھی اہتمام کرنا چاہئے، یہ اپنی مہم میں کامیابی حاصل کرنے کا غیبی نظام ہے، قرآن مجید میں مؤمنوں کے لئے آزمائشوں کا ذکر کرتے ہوئے صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنانے کا حکم دیا گیاہے، اور ان کی شان بتائی گئی ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں: ’’ ہم اللہ کے لئے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے‘‘ إذا أصابتھم مصیبۃ قالوا إنا للہ وإنا الیہ راجعون (البقرہ: ۱۵۶) یعنی مؤمن کی شان یہی ہے کہ خوشی کا موقع ہو یا تکلیف کی گھڑی، ہر حال میں وہ خدا کو یاد رکھے اور اسی سے رجوع کرے۔
اللہ سے رجوع کرنے کی صورت اللہ تعالیٰ سے دعاء کرنا ہے، یہ مؤمن کا ہتھیار ہے، اور اس سے مصیبتیں دور ہوتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :صرف دعاء ہی ایسی چیز ہے، جس سے تقدیر کا فیصلہ بدلتا ہے: لا یرد القضاء إلا الدعاء (ترمذی عن سلمان الفارسی، حدیث نمبر: ۲۱۳۹) حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ بندہ جب بھی دعاء کرتا ہے تو یا تو جو مانگتا ہے، اللہ تعالیٰ وہی عطا فرما دیتے ہیں، یا اسی کے مثل کوئی اور مفید چیز عنایت کرتے ہیں؛ بشرطیکہ وہ گناہ یا قطع رحمی کی دعاء نہ کرے :ما أحد یدعو بدعاء إلا أعطاہ اللہ ما سأل الخ (مسند احمد عن جابر، حدیث نمبر: ۱۴۸۷۹) سب سے اہم بات یہ ہے کہ دعاء سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی معیت نصیب ہوتی ہے، اور بندہ کو اللہ کا ساتھ مل جائے، اس سے اہم بات اور کیا ہو سکتی ہے؛ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرا بندہ مجھ سے جو گمان رکھتا ہے، میں اسی کے مطابق اس کے ساتھ عمل کرتا ہوں،اور جب وہ مجھ سے دعاء کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں: أنا عند ظن عبدی بی وأنا معہ إذا دعانی (مسلم عن أبی ھریرۃ حدیث نمبر: ۲۶۷۵)
خاص کر ظالموں کے ظلم سے چھٹکارے کے لئے دعاء کی بڑی اہمیت ہے، سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام عراق میں نبوت سے نوازے گئے، وہاں ان پر بڑے مظالم ہوئے، انھوں نے عراق سے شام کی طرف ہجرت فرمائی، انہیں مصر سے گزرنا تھا، مصر کا بادشاہ بڑا ظالم وجابر تھا، کوئی شخص اگر اپنی بیوی کے ساتھ گزرتا اور وہ خوبصورت ہوتی تو بادشاہ زبردستی اس کو لے لیتا، حضر ت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ان کی بیوی حضرت سارہؑ بھی ہمسفر تھیں، اور اللہ تعالیٰ نے ان کو حسن وجمال سے بھی نوازا تھا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کو پہلے سے خطرہ تھا کہ وہ حضرت سارہ کو گرفتار کر لے گا؛ اس لئے انھوں نے حضرت سارہ سے فرمایا: اگر بادشاہ تم سے پوچھے کہ مجھ سے کیا رشتہ ہے؟ تو تم اپنے آپ کو میری بہن بتانا؛ کیوں کہ اس وقت دنیا میں ہم ہی دو مسلمان ہیں، اس رشتہ سے ہم بھائی بہن ہوئے، یہ بات اس لئے فرمائی کہ بادشاہ صرف گزرنے والوں کی بیوی کو اپنے تصرف میں لیا کرتا تھا نہ کہ بہن کو؛ مگرآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا، اہل ایمان کے اس مختصر قافلہ کو دیکھ کر اس کی نیت خراب ہوگئی، اور یہ بتانے کے باوجود کہ وہ بیوی نہیں ہیں، بہن ہیں، اس نے حضرت سارہ کو گرفتار کر لیا، پھر جب اس نے حضرت سارہؑ کے پاس آنا چاہا تو انھوں نے وضوء کیا، نماز میں مشغول ہو گئیں اور دعاء کی: اے اللہ!آپ کو معلوم ہے کہ میں آپ پر اور آپ کے رسول پر ایمان لائی ہوںاور اپنے شوہر کے سوا میں نے ہر ایک سے اپنی عصمت کو محفوظ رکھا ہے؛ لہٰذا مجھ پر اس کافر کو مسلط نہ فرمائیے، دعاء کرنا تھا کہ وہ ظالم بے ہوش ہوگیا اور پاؤں پٹخنے لگا، حضرت سارہؑ پھر اللہ تعالیٰ سے رجوع ہوئیں کہ اگر یہ مر گیا تو کہا جائے گا:میں نے ہی اسے مار دیا ہے؛ اس لئے اسے ہوش عطا کر دیجئے، وہ ہوش میں آگیا ، اس طرح تین یا چار بار حضرت سارہ کو نشانہ بنانے کی کوشش کی ، ہر بار حضرت سارہ نے دعاء کی اور وہ اسی کیفیت میں مبتلا ہوا، اخیر میں اس نے تنگ آکر اپنے مصاحبین سے کہا کہ تم لوگوں نے میرے پاس شیطان کو بھیج دیا ہے ،ان کو ابراہیم (علیہ السلام) کے حوالہ کر دو، نیز حضرت ہاجرہؑ کا حضرت ابراہیم سے نکاح کر دیا (مسند احمد عن ابی ھریرۃ، حدیث نمبر: ۹۲۴۱) یہ حدیث بتاتی ہے کہ ظالموں کے تسلط کو روکنے اور ان سے مقابلہ کرنے کے لئے دعاء ایک طاقتور ہتھیار ہے؛ اس لئے موجودہ حالات میں ہمیں ضرور اس کا اہتمام کرنا چاہئے۔
دعاء ہی کی ایک صورت استغفار ہے، یہ بھی مصیبتوں سے نجات پانے کا ایک غیبی نسخہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو استغفار کا اہتمام کرے، اللہ تعالیٰ اس کے لئے مصیبت سے باہر نکلنے کا راستہ بنا دیتے ہیں، ہر فکر سے نجات عطا فرماتے ہیں، اور ایسے طریقہ پر رزق عطا کرتے ہیں، جس کا آدمی کو گمان بھی نہ ہو: من لزم الاستغفار جعل اللہ لہ من کل ضیق مخرجا، ومن کل ھمّ فرجا، ورزقہ من حیث لا یحتسب (سنن ابو داؤد، عن ابن عباس، حدیث نمبر: ۱۵۱۸) اس لئے استغفار کا بھی خصوصی اہتمام کرنا چاہئے۔
آزمائش کے ایسے حالات کے لئے ایک خاص ذکر بھی مروی ہے، اور وہ ہے: حسبنا اللہ ونعم الوکیل، حدیث میں ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا تو انھوں نے یہی پڑھا اور جب مسلمانوں کو ڈرایا گیا کہ دشمن طاقتیں تمہارے خلاف کھڑی ہیں، تم ان سے ڈر کر رہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی پڑھا (بخاری عن ابن عباسؓ کتاب التفسیر، حدیث نمبر: ۴۵۶۳) قرآن مجید میں صحابہؓ کا عمومی طرز عمل بھی یہی بیان فرمایا گیا ہے کہ جب لوگ انہیں مسلمان کے خلاف مخالفین کے اکٹھا ہونے سے ڈراتے تو وہ کہتے: حسبنا اللہ ونعم الوکیل(؟؟؟؟؟؟؟؟)
اسی طرح درود شریف کی کثرت کرنی چاہئے؛ کیوں کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا جائے تو اللہ کی طرف سے دس رحمتیں نازل ہوتی ہیں: من صلی علیہ واحدۃ صلی اللہ علیہ عشرا (مسلم، باب الصلوٰۃ علی البنیﷺ بعد التشھد ، حدیث نمبر: ۴۰۸) رحمتوں کے نازل ہونے میں مصیبتوں کا دور ہونا بھی شامل ہے۔
اس لئے دعاء کے ساتھ ساتھ استغفار، حسبنا اللہ ونعم الوکیل اور درور شریف کی کثرت کی جائے اور تمام لوگ روزانہ کم سے کم دورکعت نماز حاجت کا بھی اہتمام کریں؛ تاکہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دروازہ وا ہو اور شریروں کی شرارت سے تمام برادران اسلام اور برادران وطن کو نجات حاصل ہو۔
ظالموں کے تسلط سے نجات کے لئے شریعت میں ایک خصوصی دعاء نماز کے ساتھ رکھی گئی ہے، جس کو ’’قنوت نازلہ‘‘ کہا جاتا ہے، ایسے مواقع پر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نماز کا اہتمام فرمایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابۂ کرام نے بھی مشکل مواقع پر یہ نماز ادا کی ہے، اور اس پر امت کا تعامل رہا ہے، حدیث وفقہ کی کتابوں میں اس کی تفصیل موجود ہے، ابھی دو تین ہفتہ پہلے موجودہ حالات کے پس منظر میں راقم الحروف نے اسی عنوان پر ایک مختصر تحریر لکھی تھی، جواِن ہی صفحات میں طبع ہوئی تھی، اس دعاء کا بھی فجر کی نماز میں اہتمام کرنا چاہئے۔
حاصل یہ ہے کہ ہمیں اِن حالات سے گھبرانا نہیں چاہئے، اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہئے، ایک طرف اسباب کے درجہ میں سیاسی اور احتجاجی کوششیں جاری رہیں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کے نظامِ غیب پر یقین کے ساتھ پوری توجہ دی جائے، اور دعاء والتجاء کا عمل بھی جاری رہے، تو جب انسانی کوشش اور تدبیر کے ساتھ رجوع الی اللہ کا عمل جمع ہو جائے تو ان شاء اللہ ضرور کامیابی حاصل ہوگی، وبااللہ التوفیق وھو المستعان۔

٭ ٭ ٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×