اسلامیات

اہل بیت اوراہل سنت(۱)

اللہ تعالیٰ نے نیکی کے کاموں میں تعاون کرنے کا حکم دیا ہے، اور گناہ کے کاموں میں مددگاربننے سے منع فرمایا ہے، تعاونوا علی البر والتقویٰ ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان (مائدہ:۲) نیکی کے کام میں تعاون کی صورتوں میں ایک نہایت ہی اہم صورت یہ ہے کہ داعیان حق کا ساتھ دیاجائے؛ کیوں کہ اگر خیروبھلائی کی دعوت میں بہت سے لوگ شریک ہو جائیں تو اس کا نتیجہ خیز اور ثمر آور ہونا آسان ہو جاتا ہے، اور دعوت کا کام ایک انفرادی عمل سے بڑھ کر تحریک بن جاتا ہے، دنیا میں جتنے لوگوں نے خیر وصلاح کی دعوت دی ہے، ان میں سب سے برگزیدہ ہستیاں وہ تھیں، جن کے سروں پر اللہ تعالیٰ نے نبوت کا تاج رکھا تھا، ان ہی ہستیوں کو ہم نبی کہتے ہیں، انبیاء کا کام بہت دشوار ہوا کرتا تھا؛ کیوں کہ وہ اس دور میں مبعوث کئے جاتے تھے، جب سماج میں بگاڑ اپنی انتہا پر پہنچ جاتاتھااور عمل کے بگاڑ کے ساتھ انسان کی سوچ بھی بگڑ جاتی تھی، یہاں تک کہ وہ بری باتوں کو اچھی بات، تاریکی کو روشنی اور رات کو دن سمجھنے لگتے تھے، ان کو اس غلط موقف سے ہٹانے اور صحیح راستہ پر لانے کے لئے بڑی محنتوں اور ریاضتوں سے گزرنا پڑتا تھا، علمی بصیرت، کردار کی پاکیزگی، تفہیم کی صلاحیت اور سب سے بڑھ کر خیر خواہی اور درد مندی کا غیر معمولی جذبہ، یہ سب مل کر حالات کو بدلتے تھے؛ اسی لئے انبیاء کے رفقائے عالی مقام کا بڑا اونچا مقام ہے۔
قرآن مجید نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مخلص ساتھیوں، حضرت یوشع علیہ السلام کے فرماں بردار سپاہیوں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ثابت قدم حواریوں کا اسی حیثیت سے ذکر کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر چوں کہ سلسلۂ نبوت ختم کر دیا گیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کسی ایک گروہ، علاقہ، نسل اور خاندان کے لئے نہیں تھی؛ بلکہ پوری دنیائے انسانیت کے لئے تھی؛ اس لئے آپ کو نسبتاََ زیادہ مخلص، جاں نثار، صاحب ِبصیرت، عالی حوصلہ، جذبۂ ایمانی سے سرشار، مصیبتوں اور آزمائشوں کی آگ سے گزرنے اور طوفان سے ٹکرانے کی صلاحیت رکھنے والے معاونین وانصار عطا فرمائے گئے؛ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں ان کی تعریف وتوصیف فرمائی، اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ حق ترجمان سے ان کے لئے مژدۂ حق سنایا گیا، رضی اللہ عنھم ورضوا عنہ ۔
نبی کے علاوہ کسی کی شخصیت معصوم نہیں ہوتی، اس میں صحابہ بھی شامل ہیں؛ بلکہ یہ بھی ہوا کہ جس بات کا ارتکاب نبی کے شایان شان نہیں تھا، من جانب اللہ صحابہ سے اس کا ارتکاب کرایا گیا؛ تاکہ امت جن واقعات سے دو چار ہو سکتی ہو، اس کا حل اس کے سامنے آجائے؛اسی لئے اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ جس شخص نے بھی بحالت ایمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کیا اور ایمان ہی پر اس کی موت ہوئی، وہ صحابی ہے، اور ہر صحابی عادل اور عنداللہ مغفور ہے،صحابہ کی عظمت کا اندازہ اس سے کیا جا سکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو بار فرمایا کہ میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو، ان سے محبت میری محبت کی دلیل ہے اور ان سے بغض مجھ سے بغض رکھنا ہے: اللہ اللہ فی أصحابی، لا تتخذوھم غرضا من بعدي ، من أحبھم فبحبي أحبھم، ومن أبغضھم فببغضي أبغضھم (ترمذی، حدیث نمبر: ۳۸۶۲) بعض روایتوں میں یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنے تمام صحابہؓ کو ستاروں کے مماثل قرار دیا ہے: أصحابي کالنجوم بأیھم اقتدیتم اھتدیتم (جمع الفوائد، حدیث نمبر: ۸۵۵۴) اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہر صحابی کو اللہ تعالیٰ نے اپنی خوبیوں کے اعتبار سے امت کے لئے مشعل راہ بنایا ہے، اگرچہ یہ روایت سند کے اعتبار سے حد درجہ ضعیف ہے؛بلکہ بعض حضرات نے موضوع (من گھڑت) قرار دیا ہے؛ لیکن بعض اہل فن جیسے: امام احمدؒ کے نزدیک دوسری روایات سے مطابقت کی وجہ سے مضمون کے اعتبار سے اس کو معتبر مانا گیا ہے (المعتبر فی تخریج احادیث المنہاج والمختصر:۴۸)۔
پھر یوں تو تمام ہی صحابہ آپ کے برگزیدہ رفقاء اور امت کے لئے مرکز محبت اور لائق احترام ہیں؛ لیکن صحابہ میں بھی فرق مراتب ہے، خلفاء راشدین سب سے افضل ہیں، یہاں تک کہ امام ابو حنیفہؒ نے حضرت ابو بکرؓ وعمرؓ کی فضیلت کے قائل ہونے اور حضرت عثمانؓ و علیؓ سے محبت رکھنے کو اہل سنت والجماعت کا شعار قرار دیا ہے، اسی طرح ایمان لانے کے اعتبار سے جن لوگوں نے شرفِ سبقت حاصل کیا، ان لوگوں کا خصوصی درجہ ہے، جن کو قرآن نے ’’سابقون اوّلون ‘‘(توبہ: ۱۰۰) کہا ہے، ان میں ام المؤمنین حضرت خدیجہ ، حضرت ابو بکر، حضرت عثمان غنی، حضرت علی اور حضرت زید بن حارثہ– رضی اللہ عنہم– شامل ہیں، پھر وہ صحابہ ہیں جو مدینہ ہجرت کرنے سے پہلے مشرف بہ ایمان ہوئے، ان ہی میں مہاجرین حبشہ بھی ہیں، پھر بدری صحابہ ہیں، جنھوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر حق وباطل کے اس پہلے معرکہ میں شرکت کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا: یہ بارگاہ ربانی کے وہ مقبول بندے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف دیکھا اور فرمایا :آج کے بعد تم سب مغفور ہو (بخاری، حدیث نمبر: ۹۰۴۸) اس کے بعد ان صحابہ کا نمبر آتا ہے، جو ۶؍ھ میں صلح حدیبیہ کے موقع سے بیعت رضوان میں شریک ہوئے، اس وقت صورت حال ایسی تھی کہ ظاہری اسباب کے اعتبار سے اگر جنگ ہوتی تو ان میں سے کوئی فرد شاید بچ نہیں پاتا؛ اسی لئے بعض صحابہ نے اس بیعت کو موت پر بیعت قرارد دیا ہے (بخاری، حدیث نمبر: ۴۱۶۹) اس واقعہ کے دو سال بعد فتح مکہ کا معرکہ پیش آیا، اور جوق درجوق لوگ ایمان لائے،بحیثیت مجموعی ان کو آخری درجے میں رکھا گیا ہے۔
بعض دوسری حیثیتوں سے بھی صحابہ کے درمیان فرق مراتب پایاجاتا ہے، جیسے امور قضاء میں حضرت علیؓ کو، فقہ میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓکو، تفسیر میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو، اور حدیث میں حضرت ابوھریرہؓ کو خصوصی مقام حاصل ہے، اور ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ تو علوم اسلامی کے تمام ہی میدان میں نمایاں حیثیت کی حامل ہیں، بعض صحابہ کو مخصوص اخلاقی اوصاف میں خصوصی مقام حاصل تھا، جیسے حضرت ابوبکر صدیقؓ امت کے ساتھ رحم اور فتنہ ارتداد کے مقابلہ میں، حضرت عمرؓ جوش حق اور معاملہ فہمی میں، حضرت عثمان غنیؓ حیا اور انفاق میں، حضرت ابو ذر غفاریؓ زہد میں، حضرت خالد بن ولیدؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ جذبۂ جہاد میں، حضرت سلمان فارسیؓ دعوتِ اسلام میں، اور شعراء بارگاہِ نبوی حضرت حسان بن ثابتؓ اور حضرت عبداللہ بن رواحہؓ وغیرہ شعروادب کے ذریعہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے دفاع میں؛ اگرچہ ان اوصاف میں دوسرے صحابہ بھی شریک تھے؛ لیکن ان کو امتیازی حیثیت حاصل تھی۔
اسی طرح فضیلت کا ایک اہم سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرابت ہے، یوں تو مکہ کے اکثر خاندانوں میں آپ کی رشتہ داریاں تھیں اور بنو امیہ اور بنو ہاشم دو بڑے قبائل تھے، جن میں باہم کافی رشتہ داریاں تھیں، خود آپ کے دو داماد حضرت عثمان غنیؓ اور حضرت ابو العاصؓ بنو امیہ سے تھے؛ لیکن بنو ہاشم اور بنو مطلب سے آپ کی قربت سب سے بڑھ کر تھی ، انھوں نے اسلام اور پیغمبر اسلام کی نصرت وحمایت میں سب سے زیادہ حصہ لیا، اور دین حق کے لئے سب سے زیادہ آزمائشوں اور ابتلاؤں کو برداشت کیا، یہاں تک کہ بنو ہاشم جب دامن اسلام میں نہیں آئے تھے، اس وقت بھی انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل پشت پناہی کی، شعب ابی طالب میں بائیکاٹ کا جو تکلیف دہ واقعہ پیش آیا، اس میں بھی بنوہاشم آپ کے ساتھ رہے، اور آپ کا ساتھ دینے کی وجہ سے وہ بھی اس آزمائش سے دوچار کئے گئے، اللہ کا جو فیصلہ ہو وہ تو پورا ہو کر ہی رہتا ہے؛ لیکن ظاہری اسباب کے لحاظ سے اگر بنو ہاشم مشکلات اور مصیبت کی ان گھڑیوں میں آپ کے ساتھ نہیں ہوتے تو آپ کا تیرہ سال تک مکہ مکرمہ میں قیام کرنا دشوار ہوتا؛ اس لئے بحیثیت قبیلہ وخاندان بنو ہاشم کو خاص فضیلت حاصل ہے؛ چنانچہ حضرت واصلہ بن اسقعؓ سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے کنانہ کو، کنانہ میں سے قریش کو ،قریش میں سے بنو ہاشم کو اور بنو ہاشم میں سے مجھ کو منتخب فرمایا (مسلم عن ابی عمار، حدیث نمبر: ۲۲۷۶) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک بعض لوگوں کی کچھ بات پہنچی جو آپ کو ناگوار گزری، آپ منبر پر چڑھے، دریافت فرمایا: میںکون ہوں؟ صحابہؓ نے عرض کیا: آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں عبداللہ بن عبدالمطلب کا بیٹا محمد ہوں، اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے سب سے بہتر مخلوق میں رکھا، قبائل کو پیدا فرمایا تو مجھے سب سے بہتر قبیلے میں رکھا، ان کو مختلف گھروں میں بانٹا تو مجھے سب سے اچھے گھرانے میں رکھا، تو میں گھرانے کے اعتبار سے بھی اور اپنی ذات کے اعتبار سے بھی تم سب میں بہتر ہوں، أنا خیر کم بیتا وخیرکم نفسا (مسند احمد عن عباد، حدیث نمبر: ۱۷۸۸)
اس لئے بنو ہاشم کو ایک خاص فضیلت حاصل ہے، اور انہیں بعض خصوصیات نبوی میں شامل کیا گیا ہے، جیسے انبیاء کے لئے صدقہ حرام ہے، اور بنو ہاشم کے لئے بھی آپ نے صدقہ کو منع فرمادیا،پھر بنو ہاشم میں آپ کی اولاد اطہار اور ازواج مطہرات کا خاص درجہ ہے، ازواج مطہرات کی آپ سے قربت اور آپ کے مشن کو کامیاب کرنے کے لئے ان کی قربانیاں نیز آپ کے علوم کی نشرواشاعت میں ان کا حصہ محتاج بیان نہیں ہے، وہ پوری امت کی مائیں ہیں، خود ارشاد خداوندی ہے کہ نبی اہل ایمان کے لئے ان کی اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں، اور نبی کی تمام ازواج مطہرات پوری امت کی واجب الاحترام مائیں ہیں: النبي أولیٰ بالمؤمنین من أنفسھم وأزواجھ أمھاتھم (احزاب: ۴) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو درود شریف منقول ہیں، ان میں عام طور پر تو آل اطہار کو شریک فرمایا گیا ہے، جیسے درود ابراہیمی’ ’ اللّھم صل علی محمد وعلیٰ آلہ‘‘ لیکن بعض درودوں میں آپ کی اولاد اطہار کے ساتھ ساتھ ازواج مطہرات کو بھی شامل کیا گیا ہے، جیسے ’’ اللھم صلی علیٰ محمد وأزواجہ وذریتہ‘‘ (بخاری عن ای حمید ساعدی، حدیث نمبر: ۳۳۶۹)
آپ کے اہل بیت میں براہِ راست جو حضرات شامل تھے، حضرت عائشہؓ کی روایت میں ایک واقعہ نقل کیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت فاطمہ، حضرت علی، حضرت حسن اور حضرت حسین–رضی اللہ تعالیٰ عنہم– تھے (مسلم حدیث نمبر: ۲۴۲۴) نیزحضرت عمر بن ابی سلمہؓ سے روایت ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اہل بیت سے متعلق یہ آیت نازل ہوئی: إنما یرید اللہ لیذھب عنکم الرجس أھل البیت ویطھرکم تطھیرا (احزاب: ۳۳) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ، حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو بلایا، ان کو ایک کپڑا اوڑھایا اور اپنے پیچھے حضرت علیؓ کو رکھا، اور ان کو بھی کپڑا اوڑھایا اور دعاء فرمائی: اے اللہ! یہی میرے اہل بیت ہیں، ان سے گندگی کو دور فرما دیجئے اور انہیں پاک کر دیجئے، ام المؤمنین حضرت ام سلمہؓ نے عرض کیا: میں بھی ان کے ساتھ آجاؤں اللہ کے رسول؟ آپ نے فرمایا: تم اپنی جگہ پر رہواور تم بھی خیر پر ہو، (ترمذی عن عمر بن ابی سلمہ، حدیث نمبر: ۳۷۸۷) یہی روایت حضرت سعد بن ا بی وقاصؓ سے بھی منقول ہے، اور اس میں بھی ہے کہ آپ نے حضرت علیؓ ،حضرت فاطمہؓ اور حضرات حسنینؓ کے بارے میں ارشاد فرمایا :یہی ہیں میرے اہل بیت : اللّھم ھؤلاء أھلي (ترمذی، حدیث نمبر: ۳۷۲۴) اس سے معلوم ہوا کہ اگرچہ امہات المؤمنین کا درجہ بھی بہت اونچا ہے؛ لیکن آپ کے اصل اہل بیت یہ حضرات ہیں۔
شاید اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری صاحب زادیاں حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ کی وفات ہو چکی ہوگی؛ ورنہ آپ نے ان کو بھی اس شرف میں شامل رکھا ہوتا، جو لوگ حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ کے صاحب زادیِ رسول ہونے کا انکار کرتے ہیں اور ان کی نسبت حضرت خدیجہؓ کے پہلے شوہر کی طرف کرتے ہیں، وہ یقیناََ غلطی پر ہیں، خود قرآن مجید میں آپ کی صاحب زادیوں کا ذکر جمع کے صیغہ کے ساتھ ہے: قل لأزواجک وبناتک(احزاب: ۵۹) مسلم شریف میں حضرت زینب کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے صراحتاََآپ کے بنت رسول ہونے کا ذکر موجود ہے: ماتت زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (مسلم، حدیث نمبر: ۹۳۹) حضرت رقیہؓ کے بارے میں بھی حضرت عثمان غنیؓ کے غزوۂ بدر میں عدم شرکت کا سبب بیان کرتے ہوئے اس کا ذکر ہے (بخاری، حدیث نمبر: ۳۱۳۰) خود شیعہ عالم علامہ مجلسی نے ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت فاطمہؓ کے علاوہ حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثوم کا بھی ذکر کیا ہے، (حیات القلوب، باب: ۵۱– ۲؍۵۵۸)
ان اہل بیت اطہار کے لئے فرداََ فرداََالگ سے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فضیلت بیان فرمائی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ کے بارے میں فرمایا کہ ان کی محبت ایمان اور نفاق کا معیار ہے، جو مؤمن ہوگا، وہ ان سے محبت کرے گا، اور جو اُن سے بغض رکھے گا، وہ منافق ہوگا: أن لا یحبنی الا مؤمن ولا یبغضنی الا منافق (مسلم عن علی: ۷۸) ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ کے مجمع میں فرمایا: جو میرا دوست ہے، وہ علی کا دوست ہے، اے اللہ! جو علی سے محبت اور دوستی رکھے، آپ بھی اس سے محبت فرما ئیے، اور جو علی سے عداوت رکھے ، آپ بھی ان کے ساتھ عداوت کا معاملہ فرمائیے: من کنت مولاہ فعلي مولاہ، اللّھم وال من والاہ وعاد من عاداہ (مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۹۳۰۲)
حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مقام بلند کا حال یہ ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں کہ مومن خواتین، یا فرمایا:اِس امت کی تمام خواتین میں تم سردار بنائی گئی ہو: ألا ترضین أن تکونی سیدۃ نساء المؤمنین أو سیدۃ نساء ھذہ الأمۃ (بخاری: ۶۲۸۵) ایک موقع پر ام المؤمنین حضرت عائشہؓ ہی نے حضرت فاطمہؓ سے فرمایا: کیا میں تم کو خوش خبری نہیں دوں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ چار عورتیں خواتین جنت کی سردار ہیں: حضرت مریمؑ، حضرت فاطمہؓ، ام المؤمنین حضرت خدیجہؓ اور فرعون کی بیوی حضرت آسیہؓ (مستدرک عن عائشہ: ۴۸۵۳) (جاری)

Related Articles

One Comment

Abdallah کو جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×