کشمیر لاک ڈاؤن کا ایک سال؛ مقامی معیشت بُری طرح متأثر

سری نگر: 24؍جولائی (عصر حاضر) کشمیر کو ہندوستان کا حصہ بنائے ایک سال مکمل ہونے جارہا ہے۔ دونوں ایوانوں کے ذریعہ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے سے قبل کشمیر میں سخت لاک ڈاؤن کا نفاذ عمل میں آیا تھا اور کشمیر کا مکمل لاک ڈاؤن جموں و کشمیر میں گذشتہ ایک سال سے جاری ہے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے مقامی معیشت کو تقریباً 40 ہزار کروڑ روپے کا نقصان پہنچا ہے ۔یہ انکشاف ’’دی فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں اینڈ کشمیر‘‘نامی تنظیم نے اپنی رپورٹ بعنوان ‘جموں و کشمیر: انسانی حقوق پر لاک ڈائونز کے اثرات اگست 2019 تا جولائی 2020 میں کیا ہے ۔21 ممتاز ہندوستانی شہریوں پر مشتمل اس فورم کی سربراہی سپریم کورٹ آف انڈیا کے سابق جج جسٹس (ریٹائرڈ) مدن بی لوکر اور سابق خاتون مذاکرات کار برائے جموں و کشمیر پروفیسر رادھا کمار کر رہے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کے 5 اگست 2019 ء کے یکطرفہ فیصلے کی وجہ سے کشمیری عوام ہندوستان اور اس میں رہنے والے عوام سے مکمل طور پر بیگانہ ہوگئے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وادی کشمیر میں کام کرنے والے صحافیوں کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کیخلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والے کالے قانون ’’یو اے پی اے ‘‘ کے تحت مقدمے درج کئے جارہے ہیں۔ اس میں جموں و کشمیر حکومت کی نئی میڈیا پالیسی کو ‘آزاد میڈیا’ اور ‘اظہار رائے کی آزادی’ پر حملہ قرار دیا گیا ہے ۔جموں و کشمیر میں نئے ڈومیسائل قوانین کے نفاذ، جن کے تحت غیر مقامی شہری بھی یہاں رہائش اختیار کر سکتے ہیں، نے اس یونین ٹریٹری میں بے روزگاری بڑھنے کے خدشات کو جنم دیا ہے ۔’کشمیر’ کئی طریقوں سے ہندوستان کی جمہوریت کیلئے لتمس ٹیسٹ تھا لیکن ہم اس میں بری طرح سے ناکام ہوچکے ہیں۔70 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وادی کشمیر میں جاری مسلسل لاک ڈائون کے تعلیمی شعبے پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور سست رفتار 2G موبائل انٹرنیٹ خدمات کے چلتے آن لائن کلاسیس کا انعقاد ناممکن ہوگیا ہے ۔