سی اے اے پر عدلیہ سے امید لگائے کروڑوں لوگوں کو سخت مایوسی ہوئی ہے : مولانا ارشدمدنی
نئی دہلی: 22 /جنوری (پریس ریلیز) شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں داخل 144عرضیوں پر آج چیف جسٹس اے ایس بوبڑے کی سربراہی والی تین رکنی بینچ نے سماعت کی عدالت نے قانون پر فی الحال روک لگانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اس پر پانچ ججوں کی آئینی بینچ ہی کوئی راحت دے سکتی ہے، اس معاملہ پر جواب دینے کیلئے مرکزکو چارہفتہ کا مزید وقت دیا گیا ہے علاوہ ازیں شہریت قانون کے خلاف ہائی کورٹوں میں داخل عرضیوں کی سماعت پر عدالت نے روک لگادی ہے جبکہ آسام اور تری پورہ کے معاملوں کو اس سے الگ رکھا گیا ہے، واضح ہو کہ سی اے اے، این آرسی اور این پی آرکے خلاف عرضی داخل کرنے والوں میں جمعیۃعلماء ہند نے پہل کی تھی اور آج سماعت کے دوران اس کی طرف سے پیروی کے لئے سینئر ترین وکیل پیش ہوئے، آج سماعت شروع ہونے سے پہلے ہی عدالت نمبر ایک کھچاکھچ بھرچکی تھی اس کی وجہ سے عدالت کے تینوں دروازے کھول دینے پڑے سماعت جیسے ہی شروع ہوئی مرکزکی طرف سے اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے کہا کہ کل 144عرضیاں ہیں اس لئے ہم ابھی ابتدائی حلف نامہ ہی داخل کررہے ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ مرکزکو اب تک 60عرضیاں ہی موصول ہوئی ہیں اس پر سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے کہا کے پہلے یہ طے ہوکہ معاملے کو آئینی بینچ کے حوالہ کیا جائے گا یا نہیں، سینئرایڈوکیٹ منوسنگھوی نے عدالت کی توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ لوگوں کو شہریت دینے کا عمل بھی شروع ہوگیا ہے، اترپردیش میں 30ہزارلوگوں کا انتخاب بھی ہوچکاہے اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم حکومت کو پروزنل شہریت دینے کے لئے کہہ سکتے ہیں، ہم یک طرفہ طورپر روک نہیں لگاسکتے عرضی گزاروں کے وکلاء کا اس بات پر اصرارتھا کہ معاملے کو آئینی بینچ کے حوالہ کردینا چاہئے اور شہریت دینے کے عمل کو روک دیا جانا چاہئے اٹارنی جنرل نے اس کی مخالفت کی اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ آئینی بینچ کو سونپاجاسکتاہے اور ہم پابندی لگانے کے موضوع پر بعدمیں سماعت کریں گے دوسری طرف سالیسٹرجنرل تشارمہتانے کہا کہ عدالت کو اس معاملہ میں مزید عرضیاں داخل کرنے پر روک لگادینی چاہئے مگر عدالت نے اس مطالبہ پر کوئی توجہ نہیں دی اسی دوران ایک وکیل نے این پی آرکا ایشواٹھاتے ہوئے کہا کہ اگر این پی آرمیں کسی کو مشکوک قراردیا گیا تو اس کا نام ووٹرلسٹ سے کٹ جائے گااس پر مسٹرکپل سبل نے بھی کہا کہ یہ ایک انتہائی تشویشناک بات ہے بالآخر عدالت نے مرکزکو نوٹس جاری کرکے جواب داخل کرنے کو کہا اور اس کے لئے چارہفتہ کی مہلت طلب کی جس کی عرضی گزاروں نے مخالفت کی مگر عدالت نے اس درخواست کو قبول کرلیا، عدالت نے یہ بھی کہا کہ عبوری راحت کے لئے تین ججوں کی بینچ فیصلہ نہیں دے سکتی جبکہ چیف جسٹس ایس اے بوبڑے کاکہنا تھا کہ صرف پانچ ججوں کی آئینی بینچ ہی اس بابت کوئی فیصلہ کرسکتی ہے، شہریت قانون کے خلاف داخل عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے قانون کو فی الحال بحال رکھنے اور مرکزکو جواب داخل کرنے کے لئے جس طرح چارہفتہ کی مزید مہلت دی ہے اس پر جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سیدارشدمدنی نے سخت تشویش کا اظہارکیا ہے اور کہا ہے کہ ملک کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ہمیں امید تھی کہ کوئی مثبت پیش رفت ہوگی انہوں نے کہا کہ اگر عدالت قانون کے نفاذ پر روک لگادیتی تو ملک بھرمیں اس قانون کے منظوری کے بعد خوف ودہشت کا جو ماحول قائم ہوا ہے اس میں بڑی حدتک کمی آجاتی اور جگہ جگہ ہورہے مظاہرے بھی بڑی حدتک تھم جاتے مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔ مولانا مدنی نے کہا کہ ملک بھرمیں شدید احتجاج اور مظاہرے کے بعد بھی حکومت کہہ رہی ہے کہ اس قانون میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی اس صورت میں ملک کے تمام انصاف پسند لوگوں کی امید یں اور آرزویں ملک کی سب سے بڑی عدالت سے ہی وابستہ ہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سیاہ قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں ریکارڈ 144عرضیاں داخل ہیں اوران سب میں اس قانون کو آئین مخالف قراردیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ چونکہ اس قانون سے آئین کے تمہید کی صریحا خلاف ورزی ہوتی ہے اس لئے اس پر پابندی لگنی چاہئے انہوں نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ سرآنکھوں پر لیکن اس سے ملک کے ان کروڑوں ہندو،مسلم، سکھ اور عیسائی کو سخت مایوسی ہوئی ہے جو پچھلے ایک ماہ سے سخت سردی، ٹھٹھرن اور بارش میں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھ کر اس کالے قانون کے خلاف پرامن مگر مثالی احتجاج کررہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ان سب کے باوجود حکومت آمرانہ روش اختیارکرکے اس آئین مخالف قانون کو سب پر تھوپنا چاہتی ہے یہی وجہ ہے کہ 18/دسمبرکو اسے جواب داخل کرنے کے لئے جو ایک ماہ کی مہلت عدالت نے دی تھی اسے اس نے ضائع کردیا جبکہ اسے آج مکمل حلف نامہ داخل کرنا چاہئے تھا اس سے حکومت کی منشاء کا اندازہ لگایا جاسکتاہے، انہوں نے ایک بارپھر وضاحت کی کہ جمعیۃعلماء ہند کا شروع سے یہ مانناہے کہ جن مسائل کا حل سیاسی طورپر نہ نکلے اس کے خلاف قانونی جدوجہد کا راستہ اپنانا چاہئے، کئی اہم معاملوں میں اس نے ایسا کیا ہے اور عدلیہ سے انصاف بھی ملا ہے چنانچہ اس معاملہ میں بھی جمعیۃعلماء ہند نے وکیل آن ریکارڈ ارشادحنیف اور سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیودھون کے مشورہ سے ایک رٹ پیٹشن شروع میں ہی داخل کی تھی، مولانامدنی نے کہا کہ جو لوگ اسے ہندومسلم کا مسئلہ سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں سچائی یہ ہے کہ یہ ملک کے آئین ودستورسے جڑاہواایک انتہائی اہم معاملہ ہے البتہ بعض لوگوں کی جانب سے اسے مسلسل ہندومسلم بنانے کی دانستہ کوششیں ہورہی ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ اس کے خلاف ملک بھرمیں لوگ مذہب ذات پات اور برادری سے اوپر اٹھ کر احتجاج کررہے ہیں گویا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتاہے کہ اس سیاہ قانون نے سب کو ایک دوسرے سے جوڑدیا ہے اور جولوگ باہمی اتحاداور یکجہتی کو نقصان پہنچانے کا خواب دیکھ رہے تھے انہیں سخت مایوسی ہاتھ لگی ہے، انہوں نے کہا کہ پورے ملک میں جہاں جہاں شاہین باغ اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طرزپر مظاہرے ہورہے ہیں ان میں ایک بڑی تعدادہمارے غیرمسلم بھائیوں کی ہوتی ہے، انہوں نے کہا کہ پچھلے چھ سال کے دوران حکومت نے نفرت کی جودیوارمختلف جذباتی اور مذہبی ایشوزکو ہوادیکر ہندووں اور مسلمانوں کے درمیان منصوبہ بندطریقہ سے کھڑی کی تھی ان مظاہروں نے اس دیوارکو پوری طرح مسمارکردیا ہے اور یہی ہماری اصل طاقت ہے درحقیقت یہ ہندوستان کی طاقت ہے جس کے آگے اقتدارکے نشہ میں چور انگریزوں نے بھی گھٹنے ٹیک دیئے تھے انہوں نے آخر میں کہا کہ ان حتجاج اور مظاہروں کو عام احتجاج یا مظاہرہ نہ سمجھاجائے بلکہ یہ ایک نئے انقلاب کی آہٹ ہے اور مرکزی حکومت نوشتہ دیوار کو پڑھنے کی کوشش کرے ورنہ کل تک بہت دیر ہوسکتی ہے۔