احوال وطن

بابری مسجد ملکیت مقدمہ؛ قبریں ہونے سے مسجد کی شرعی حیثیت ختم نہیں ہوجاتی: ایڈوکیٹ شیکھر نافڈے

نئی دہلی 30ستمبر2019 (پریس ریلیز) بابری مسجد ملکیت مقدمہ کی سماعت کا آج 34واں دن تھا جس کے دوران  فریق محمد فاروق کے وکیل شیکھر نافڈے نے اپنی نا مکمل بحث شروع کرنے سے قبل کہا کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ عدالت پر اس معاملہ کی جلد از جلد سماعت مکمل کرنے کا دباؤ ہے  اس لیئے ان کی کوشش ہوگی کہ وہ کم وقت میں اپنی بات عدالت کے سامنے رکھ سکیں۔شیکھرنافڈے نے عدالت کو بتایا کہ 1885 میں داخل کیا گیا سوٹ اور موجودہ سوٹ میں صرف اتنا ہی فرق ہے کہ ماضی کے سوٹ میں باہری چبوترے پر دعوی کیا گیا تھا جبکہ موجودہ سوٹ میں مکمل اراضی پر حق ملکیت کا دعوی کیا جارہا ہے  جو Res Judicata یعنی کہ ایک مرتبہ کسی معاملہ کی سماعت مکمل ہوجانے اور فیصلہ آجانے کے بعد اس سوال پر دوبارہ مقدمہ قائم نہیں کیا جاسکتا کے تحت آتا ہے لہذا عدالت کو سوٹ خارج کردینا چاہئے  اس پر فیصلہ آچکا ہے۔انہوں نے عدالت کو مزید بتایاکہ سب سے پہلے 1885 میں نرموہی اکھاڑہ نے سوٹ داخل کیا تھا جسے فیض آباد سول کورٹ نے خارج کردیا تھا اس کے بعد 1961میں پھر مالکانہ حق کے لیئے سوٹ داخل کیا گیا جہاں پھر نرموہی اکھاڑہ کو مایوسی ہاتھ لگی اور ان کا سوٹ نچلی عدالت سے خارج کردیا گیا لہذا یہ ریسٹ جوڈیکا کا معاملہ بنتاہے۔ایڈوکیٹ شیکھرنافڈے کی اس بحث کے درمیان جسٹس بوبڑے نے کہا کہ مہنت رگھوبر داس نے ذاتی حیثیت سے سوٹ داخل کیا تھا، ہندؤں کی جانب سے ایساکوئی سوٹ کبھی داخل نہیں کیا گیا تھا جس پر شیکھر نافڈے نے کہا مہنت،مٹھ اور ہندؤں کے قانونی نمائندے ہوتے ہیں لہذا عدالت کو اس بات کو مدنظر رکھنا چاہئے۔ایڈوکیٹ نافڈے نے عدالت کو مزید بتایا کہ ہندوؤں کے 1885 میں داخل کیئے گئے سو ٹ میں مسجد کے ہونے کا ذکر ہے اور انہوں نے رام چبوترے پر دعوی کیا تھا جس  پرعدالتی کمیشن نے انہیں کہا تھا کہ ہندو اپنے حقوق سے تجاوز کررہے ہیں۔اسی درمیان شیکھر نافڈے کی بحث کا اختتام ہوا جس کے بعد مصباح الدین نامی عرضی گذار کی جانب سے ایڈوکیٹ نظام پاشانے بحث شروع کی اور پانچ رکنی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس اے ایس بوبڑے جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس چندرچوڑ، جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں کو  بتایا کہ حق ملکیت کا معاملہ ہمیشہ سے موجودہ دور کے قانون کی مدد سے حل کیا جاتا ہے اس لئے قانون شریعت کو اس میں شامل نہیں کرنا چاہئے۔ایڈوکیٹ نظام پاشا نے عدالت کو مزید بتایاکہ بابری مسجد قانونی تھی یا نہیں، یا اس میں وضو کرنے کی سہولت تھی یا نہیں پر بحث کرنے کے بجائے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ مسلمان اسے مسجد مانتے تھے یا نہیں نیز یہ کہناکہ مسجد میں ستون نہیں ہوتے ہیں پوری طرح سے غلط ہے کیونکہ احادیث میں اس کا ذکر ملتا ہے کہ مسجد میں موجود دو کھمبوں پر بنی دیوار(محراب) کے سامنے نماز ادا کی جاسکتی ہے۔ایڈوکیٹ نظام پاشا نے عدالت کو مزید بتایاکہ مسجد میں جاندار تصاویر اس لئے نہیں لگائی جاتیں کیونکہ تصاویر کی وجہ سے نماز میں خلل پڑسکتا ہے لہذا نماز میں یکسوئی کے لیئے مساجد میں تصاویر نہیں ہوتی ہیں نیز فریق مخالف نے مسجد کے ستونوں پر جو تصاویر ہونے کا دعوی کیا ہے وہ تصاویر  کیا ہیں صاف دکھائی نہیں دے رہی ہیں بلکہ اس تعلق سے گواہوں کے بیانات میں بھی تضاد ہے۔انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ احادیث میں لفظ تصاویر آیا ہے اس کا ہندی معنی تصویر ہوتا ہے، مسجد میں تصاویر لگانے کی ممانعت ہوتی ہے لہذا مسجد کے ستونوں پر تصاویر ہونے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا نیز ایسی متعد د مساجد ہیں جس میں مینار، وضو خانہ، استنجا خانے وغیرہ نہیں ہیں لیکن شرعی طور پر ان کا شمار مسجد میں ہوتا ہے جیسے افسر والامسجد(ہیمایوں مقبرہ)جمالی کمالی مسجد، سدی سید مسجد (احمد آباد)کابلی باغ مسجد (پانی پت)وغیرہ شامل ہیں۔ایڈوکیٹ نظام پاشا نے عدالت کو بتایا کہ فریق مخالف نے دوران بحث یہ کہا تھا کہ مسجد کے پاس قبریں نہیں ہوسکتیں، انہیں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت نظام الدین اولیاؒ اور اجمیر شریف میں درگاہوں کے پاس قبریں موجود ہیں لہذا مسجد کے پاس قبریں ہونے سے مسجد کی شرعی حیثیت ختم نہیں ہوجاتی نیز اگر مسجد میں ایک شخص بھی نماز ادا کرتا رہے گا مسجد قائم رہے گی۔ایڈوکیٹ نظام پاشا نے آئینی بینچ کومزید بتایا کہ متنازعہ اراضی پر تعمیر شدہ عمارت کیا مسجد تھی اس کا فیصلہ شرعی قانون کے حساب سے نہیں بلکہ ملک کے موجودہ قانون کے تحت کیا جانا چاہئے کیونکہ ہندوستان میں شرعی قانون نہیں چلتا ایسے میں مسجد کی شرعی حیثیت پر بحث نہیں ہونا چاہئے بلکہ جس وقت مسجد وقف بورڈ کی ملکیت بنی تب مسجد کی کیا حقیقت تھی نیز مسجد کو شہید کئے جانے پر بحث ہونا چاہئے نہ کہ اس کی تعمیر پر۔ایڈوکیٹ نظام پاشا نے عدالت میں 123 صفحا ت پر مشتمل تحریری نوٹس بھی پیش کئے اور عدالت کوبتایا کہ مسجد کی تعمیرپر فریق مخالف نے بحث کی لیکن مسجد کی شہادت پر انہوں نے عدالت میں کچھ بھی نہیں کہا ہے حالانکہ آج عدالت میں معاملہ مسجدکی شہادت کا ہے تعمیر کا نہیں۔انہوں نے کہا کہ نرموہی کا مطلب ہوتاہے انہیں کسی بھی چیز کے قبضہ سے کوئی سرو کار نہیں ہے لہذ ا آج اگر عدالت مذہبی بنیاد پر مالکانہ حق کا فیصلہ کریگی تو نرموہی اکھاڑہ کا کوئی حق ہی نہیں بنتا سوٹ داخل کرنے کا۔اسی درمیان نظام پاشا کی بحث کا اختتام ہوا جس کے بعد رام للا کے وکیل پرسارنن  جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وکلاء میناکشی اروڑا، شیکھر نافڈے اور نظام پاشا کی جانب سے کی جانے والی بحث کا جواب دینے کھڑ ے ہوئے عدالت میں بحث شروع کی جس پر ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا کہ ایڈوکیٹ پرسارنن ہماری بحث کا جواب دینے کے بجائے کچھ اور ہی بحث کررہے ہیں جس پر پرسارنن نے انہیں جواب دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر دھون نے اپنے خود کے ذریعہ لکھے گئے آرٹیکل عدالت میں داخل کیئے ہیں جس پر دھون نے سخت لہجے میں کہاکہ اگر فریق مخالف کو ان آرٹیکلوں پر اعتراض ہے تو عدالت انہیں اپنے ریکارڈ سے نکال سکتی ہے۔

ڈاکٹر راجیو دھون نے کہا کہ پرسارنن جو مثالیں دے رہے ہیں اس کا اس مقدمہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے لیکن جب ہم مثالیں دے رہے تھے اس وقت عدالت نے انہیں روکا تھالہذا اب عدالت کو انہیں بھی روکنا چاہئے۔پرسارنن نے اپنی بحث آگے بڑھاتے ہو ئے کہا کہ Juristic Personality یعنی کہ قانونی شخصیت کو ہندو قانون کے مطابق دیکھنا چاہئے، روم قانون اور انگریزی قانون کا مطالعہ کرنا ضروری نہیں ہے، وقت کے ساتھ ہندو قانون بہت ترقی کرچکا ہے نیز متنازعہ مقام پر مورتی تھی یا نہیں یہ ضروری نہیں ہے بلکہ اس مقام سے ہندؤدں کی آستھا ہے اوریہی ضروری ہے۔ایڈوکیٹ پرسارنن نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہاکہ بھگوان کا کوئی روپ نہیں ہوتا بلکہ لیکن ایک عبادت گذار کو بھگوان کا یقین ہو اس کے لئے مختلف طرح کی مورتیاں بنائی جاتی ہیں البتہ کئی ایک مندروں میں بغیر کسی مورتی کے بھی پوجا کی جاتی ہے۔انہوں نے مزید کہاکہ قانونی شخصیت یعنی کہ Juristic Perosonalityکا تعین اسی لحاظ سے کیا جاتا ہے کہ اس کے ماننے والے کیسے اسے قبول کرتے ہیں۔انہوں نے اس تعلق سے عدالت میں ماضی کے فیصلوں کی نظیر بھی پیش کی جہاں مورتی کو قانونی شخصیت مانا گیاہے، ماضی کے فیصلوں میں کیشو نند بھارتی بمقابلہ اسٹیٹ آف کیرالا (1973) 4 SCC 225)، جمنا بھائی بمقابلہ کھنجوILR Bombay، ویسٹ بنگال بمقابلہ انور علی 1952 AIR 75, 1952 SCR 284  و دیگر شامل ہیں جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ بغیر مورتی کے بھی عبادت ہوسکتی ہے  اورہندومذہب کے مطابق انہیں قانونی حیثیت دی جاسکتی ہے۔پرسارنن نے مزید بتایا کہ ایسی قانونی شخصیت کو وہ تمام حقو ق دستیاب ہوتے ہیں جو ایک عام شخص کو ہوتے ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ سوئم بھودوطرح کے ہوتے ہیں ایک تو مورتی کی شکل میں دوسرا جو خودپرکٹ ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ میرے یہاں زمین بھی سوئم بھوہوتی ہے، اور ضروری نہیں کہ بھگوان کی کوئی یقینی شکل ہولیکن عام لوگوں کو پوجاکرنے کیلئے ایک شکل کی ضرورت ہوتی ہے جس سے لوگوں کادھیان مرکوز ہو، اسی درمیان رام للا ورجمان کے وکیل سی ایس ودیاناتھن نے عدالت کو بتایا کہ وہ سنی وقف بورڈ کی جانب سے مصالحت کی دوبارہ پہل کیئے جانے کے حق میں نہیں ہیں بلکہ وہ عدالت سے فیصلہ چاہتے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اس معاملے کی بحث اب آخری مقام پر پہنچ چکی ہے اور وہ چاہتے ہیں فریق اپنی بحث 18 اکتوبر تک ختم کردیں نیز اگر ضرورت پڑی تو عدالت سنیچر کو بھی سماعت کرسکتی ہے۔دوران کارروائی عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ڈاکٹر راجیو دھون، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قرۃالعین، ایڈوکیٹ کنور ادتیہ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیاودیگر موجود تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×