احوال وطن

موجودہ حالات میں آسام اسمبلی حلقوں کی جدید حد بندی غلط‘ جمعیۃ علماء ہند پہنچی سپریم کورٹ

نئی دہلی: 17؍جولائی  (پریس ریلیز) صوبہ آسا م میں اقلیتوں کے سیاسی وسماجی حقوق کو خطرے میں ڈالنے والے صدارتی حکم نامہ برائے جدید حد بندی (delimitation of (Constituenciesاور اس سے متعلق وزارت قانون کے ذریعہ مقرر کردہ کمیشن کی کارروائی کو جمعیۃ علماء ہند نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ اس  سلسلے میں چیف جسٹس آف انڈیا ایس اے بوبدے، جسٹس آر سبھاش ریڈی اور جسٹس اے ایس پوبنا کی بنچ کے سامنے جنرل سکریٹری جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود مدنی نے ایک عرضی دائر کرکے ریاست آسام میں اسمبلیوں کی جد ید حد بندی کو غیر قانونی، موجودہ حالات کے تقاضوں کے مغایر اور جلد بازی پر مبنی عمل قرار دیا ہے۔سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں مرکز ی سرکار کو نوٹس جاری کرکے جواب طلب کیا ہے، عدالت میں سرکار کی طرف سے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ بھی موجود تھے جب کہ جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے شکیل احمد سید، پرویز دباس، عظمی جمیل حسین،دانش احمد سید، شیخ نورالحسن اور راکیش کمار پیش ہوئے۔
جمعیۃ علماء ہند جو آسام میں قضیہ شہریت کے مسئلے میں مختلف عدالتو ں میں مقدمہ لڑرہی ہے اور وہاں بہت سارے مظلوم انسانوں کی داد رسی کرتی ہے، اس نے سرکار کے منشا پر سوال اٹھا یا ہے کہ اسمبلیوں کی حد بندی آبادی کے سبھی طبقے کو برابر حصہ دینے کے لیے کی جاتی ہے تو پھر اس وقت یہ عمل کس بنیاد پر انجام دیا جارہا ہے:ریاست میں این آرسی کا عمل مکمل نہیں ہوا ہے اور نہ اس بنیاد پر آباد ی کا رجسٹر فائنل ہوا ہے اور نہ حال میں کوئی مردم شماری ہوئی ہے، حیرت کی بات تو یہ ہے کہ حد بندی کا موجودہ عمل 2001کی مردم شماری کو بنیاد بنا کر کیا جارہا ہے جب کہ بیس سالوں میں ہر اسمبلی کا جغرافیائی اور ڈیموگرافک نقشہ کافی بدل چکا ہے۔
جمعیۃ علما ء ہند نے عرضی میں یہ سوال بھی ا ٹھایا ہے کہ جب سرکار نے خود آسام کو 28/اگست 2019ء سے ”ڈسٹربڈ ایریا“ قرار دے رکھا ہے تو اسے اس طرح کے متنازع عمل کو شروع کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ جس بنیاد پر آسام میں 2008ء میں  اسمبلیوں کی حد بندی کا عمل موقوف کردیا گیا تھا، حالات آج بھی جوں کی تو ں ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ خراب ہیں:یہ کسی سے مخفی نہیں ہے کہ ریاست میں 19 /لاکھ افراد کی شہریت ختم ہونے اور شہریت ترمیمی ایکٹ کے نفاذ کی وجہ سے ا من و امان کی صورت حال ٹھیک نہیں ہے۔
جمعیۃ علماء ہند نے اپنی عرضی میں27/جنوری 2020 کو نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈو لینڈ اور آل بوڈو اسٹوڈینٹ یونین کے ساتھ ’بی ٹی آر معاہدہ‘ کا بھی حوالہ دیا ہے جس کے تحت و ہ گاؤں جوبوڈولینڈ سے باہر ہیں لیکن وہاں بوڈو قبیلہ کی اکثریت ہے، ان کو بھی بوڈو لینڈ میں شامل کیا جائے گا، سوال یہ ہے کہ اب تک اس معاہدہ پر عمل نہیں ہوا ہے اور نہ اس کے تحت کسی علاقے کی حد بندی ہوئی ہے تو ایسی صورت میں سرکار کس طرح سے جدید حد بندی کے عمل کو نافذ کرپائے گی۔ ظاہر سی بات ہے کہ سرکار کا منشا درست نہیں ہے اور وہ اور اس کی پارٹی مسلسل آسام میں مسلمانوں کی مفروضہ بڑھتی آبادی کو نشانہ بناتی رہی ہے اور اب جب کہ این آرسی میں یہ سب غلط ثابت ہو ا تو اس نے اقلیتوں کی طاقت کو توڑنے کے لیے نیا پینترا  اپنایا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×