ریاست و ملک

متعصب میڈیا پر لگام کسنے کا معاملہ؛ سپریم کورٹ نے دیا پریس کونسل آف انڈیا کو بھی فریق بنانے کا حکم

نئی دہلی: 13/اپریل  (پریس ریلیز) مسلسل زہر افشانی کرکے اور جھوٹی خبریں چلاکر مسلمانوں کی شبیہ کوداغدار،ہندوؤں اورمسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیوارکھڑی کرنے کی دانستہ سازش کرنے والے ٹی وی چینلوں کے خلاف داخل کی گئی جمعیۃعلماء ہند کی عرضی پر آج سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی،ویڈوکانفرنسنگ کے ذریعہ ہوئی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا ودیگر دوججوں کے سامنے جمعیۃعلماء ہند کے وکیل آن ریکارڈ اعجاز مقبول ایڈوکیٹ نے مضبوطی سے اپنے دلائل رکھے اور کہا کہ تبلیغی مرکزکو بنیادبناکر پچھلے دنوں میڈیا نے جس طرح اشتعال انگیز مہم شروع کی یہاں تک کہ اس کوشش میں صحافت کی اعلیٰ اخلاقی قدروں کو بھی پامال کردیا گیا اس سے مسلمانوں کی نہ صرف یہ کہ سخت دلآزاری ہوئی ہے بلکہ ان کے خلاف پورے ملک میں منافرت میں اضافہ ہوا ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک عام سے واقعہ کو میڈیا کے بڑے حلقے نے غیر معمولی واقعہ بناکر پیش کیا اور اس کے لئے جھوٹ کو بنیادبنایا گیا یہاں تک کہ کورونا وائرس کی وباء کو کورونا جہاد سے تعبیر کرکے یہ تاثردینے کی مجرمانہ کوشش کی گئی کہ ملک میں اس وباکو مسلمانوں نے پھیلایا ہے اس سے عوام کی اکثریت نہ صرف گمراہ ہوئی بلکہ عام مسلمانوں کو لوگ شک کی نظرسے دیکھنے لگے،اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے مسٹراعجازمقبول نے چیف جسٹس آف انڈیا اے ایس بوبڑے، جسٹس ناگیشورراؤ اورجسٹس شانتانوگورا کے بینچ سے کہا کہ ان حالات میں ضروری ہوگیا ہے کہ عدالت میڈیا کے لئے شرائط اور حدودطے کرے اور اسے آئندہ اس طرح کی اشتعال انگریزی سے روکے کیونکہ ایک ایسے وقت میں کہ لوگ ایک ساتھ مل کر کورونا وائرس کے خلاف جنگ لڑنے میں مصروف ہیں بے لگام میڈیا کا ایک بڑاطبقہ معاشرے میں انتشاروتفریق پید اکرکے لوگوں کو مذہبی طورپر تقسیم کرنے کی خطرناک سازشیں کررہا ہے  اور اس کے لئے دھڑلے سے جھوٹی خبریں اور فرضی ویڈیوزکاسہارالیا جارہا ہے جو قانونی طورپر انتہائی قابل گرفت بات ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ صحافتی اصول کا تو یہ تقاضہ ہے کہ کوئی بھی خبر شائع یا نشرکرنے سے پہلے اس بات کی باضابطہ طورپر تصدیق کی جائے کہ آیا خبر میں جو کچھ کہا گیا ہے صحیح ہے یاغلط مگر میڈیا ایسانہیں کررہا ہے، انہوں نے کہا کہ ہماراقانون یہ بھی کہتاہے کہ اس طرح کی کوئی خبر شائع یا نشرنہیں کی جانی چاہئے جس سے کسی شخص یا فرقہ کی بدنامی یا دل آزاری ہویا جس سے لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہوں، مسٹراعجازمقبول نے عدالت کے سامنے 98اخبارات کے تراشے اور ویڈیوز بطورثبوت پیش کئے اور کہا کہ انڈیا ٹی وی،زی نیوز، نیشن نیوز،ری پبلک بھارت،ری پبلک ٹی وی،شدرشن نیوز چینل اور بعض دوسرے چینلوں نے کس طرح تبلیغی جماعت اور عام مسلمانوں کے خلاف عرصہ سے محاذ کھول رکھا ہے انہوں نے عدالت سے یہ بھی کہا کہ WHO، بی جے پی کے قومی صدر،وکلاء اورڈاکٹروں کی ٹیموں اور دوسرے کئی اہم اداروں نے میڈیا کی اس غیر ذمہ دارانہ اورخطرناک رپورٹنگ پر اپنی ناراضگی ظاہر کی ہے اور انہیں متنبہ بھی کیا ہے مگر میڈیا نے بظاہر اپنا رویہ تبدیل نہیں کیا ہے،انہوں نے عدالت سے یہ بھی کہا کہ جس طرح میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بندطریقہ سے اشتعال انگیز رپورٹنگ ہوئی ہے اس سے پورے ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت اور غم وغصہ کااضافہ ہوا ہے یہاں تک کہ بعض جگہ اس وجہ سے ان پر حملہ بھی ہوئے ہیں مسٹر اعجاز مقبول نے عدالت کے سامنے 31صفحات پر مشتمل اپنی تحریری بحث بھی پیش کی، ان کے دلائل سننے کے بعد عرضی کو سماعت کے لئے قبول کرتے ہوئے عدالت نے پریس کونسل آف انڈیا کو فریق بنانے کا حکم دیا اور سماعت دوہفتہ کے لئے ملتوی کردی،واضح ہوکہ یہ عرضی جمعیۃعلماء ہند کی لیگل سیل کے سربراہ گلزاراحمد اعظمی نے داخل کی ہے۔
آج کی قانونی پیش رفت پر جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی نے کہا کہ متعصب میڈیا پر لگام کسنے کی ہماری قانونی جدوجہد مثبت نتیجہ آنے تک جاری رہے گی عدالت کے حکم کے مطابق پریس کونسل آف انڈیا کو بھی فریق بنایاجائے گا، انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد پریس کونسل آف انڈیا کاقیام اسی مقصدکیلئے عمل میں آیا تھا کہ اس کے ذریعہ اخبارات پر نظررکھی جائے گی، مولانا مدنی نے وضاحت کی کہ ہمارا شروع سے یہ اصول رہا ہے کہ اگر کوئی مسئلہ سیاسی طور حل نہیں ہوتاتو ہم اپنے آئینی حق کا استعمال کرتے ہوئے عدالت جاتے ہیں اور ہمیں وہاں سے انصاف بھی ملتاہے اس معاملہ میں بھی ہمارے تمام ترمطالبوں اور گزارشات پر جب کوئی کاروائی نہیں ہوئی اورفرقہ پرست میڈیا نے اپنی فرقہ وارانہ رپورٹنگ کی روش ترک نہیں کی تو ہمیں عدالت کا رخ کرنے پر مجبورہونا پڑا ہم اپنی اس جدوجہد کو آخر آخر تک جاری رکھیں گے اور ہمیں امید ہے کہ دوسرے معاملوں کی طرح اس اہم معاملہ میں بھی ہمیں انصاف ملے گا کیونکہ یہ معاملہ محض مسلمانوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ملک کے اتحاد اور قومی یکجہتی سے جڑاہوا معاملہ ہے۔

Related Articles

One Comment

  1. عدالت اس جانب توجہ دینے کے ساتھ ساتھ جلد از جلد فیصلہ سنائے اور ان میڈیا کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دے جنھوں نے ملک میں امن واتحاد کو ختم کرنے کےلئے ایک معمولی واقعہ جھوٹ بناکر پیش کیا گیا اور عوام کو گمراہ کیا۔
    اللہ تعالی جمعیت علماء کی اس کوشش و کاوش کو ککامیابی عطاء کرے اور صدر محترم مولانا ارشد مدنی صاحب ق گلزار اعظمی صاحب کو مزید ہمت و حوصلہ بلند کرے مزید ان بزرگوں کا سایہ عاطفت ہمارے سروں پر قائم ودائم رکھے۔آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×
Testing