احوال وطن

بابری مسجد ملکیت مقدمہ؛ محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ پر بحث غلط نہیں ڈاکٹر راجیودھون کی دلیل

نئی دہلی 26ستمبر (پریس ریلیز) بابری مسجد ملکیت مقدمہ کی سماعت کا آج 32واں دن تھا جس کے دوران جمعیۃعلماء ہند کی جانب سے ڈاکٹر راجیو دھون نے چیف جسٹس کی اجازت سے محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ پر مختصر لیکن جامع بحث کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ سول پروسیجر کوڈ کے آرڈر 26 کے تحت مقامی کمشنر کو اختیار ہے کہ وہ کسی بھی جگہ کامعائنہ کر نے کے بعد اس کی رپورٹ عدالت میں پیش کرسکتا ہے لیکن اس معاملے میں کمشنر سے الہ آباد ہائی کورٹ میں جرح نہیں کی گئی تھی حالانکہ سنی وقف بورڈ کی جانب سے تحریری اعتراض داخل کیا گیا تھا لہذا محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ کو زیر بحث لانا غلط نہ ہوگا۔ڈاکٹر راجیو دھون کے دلائل پر جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ ہم ثبوت کی حیثیت پر دیئے گئے ماہرین کے تبصرے کو یکسر نظر انداز نہیں کرسکتے ہیں جس پر دھون نے کہا کہ وہ اس تعلق سے جلد بحث کریں گے۔ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو مزید بتایا کہ گذشتہ روزکی بحث کے دوران ان کی دوست وکیل میناکشی اروڑانے محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ پر سوالات اٹھائے تھے اس تناظر میں یہ بات واضح کرنا چاہتاہوں کہ ہم محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ پر اب سوال نہیں اٹھا سکتے ٹھیک ہے لیکن رپورٹ کی بنیاد پر بحث کی جاسکتی ہے۔ کل میناکشی ارورا کی جانب سے محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ پر سوال اٹھانے پر چیف جسٹس نے انہیں کہا تھا کہ انہوں نے الہ آباد ہائیکورٹ میں محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ دینے والے افسران سے جرح نہیں کی تھی لہذا آج رپورٹ پر وہ سوال نہیں اٹھا سکتے۔دوران بحث آج ڈاکٹرراجیو دھون نے عدالت میں 42 صفحات پر مشتمل نوٹس بھی پیش کئے اور عدالت کو بتایا کہ ایسے معاملات میں جہاں کمشنر سے جرح نہیں کی گئی تھی مختلف عدالتوں نے مختلف فیصلے سنائے ہیں جس میں معاملہ کو واپس دوبارہ سماعت کے لئے  دینا، آثار قدیمہ کی رپورٹ کو خارج کردینا،جس پارٹی کے مفاد میں رپورٹ پیش کی گئی ہے اگر مخالف فریق کو اعتراض نہیں ہے تو اسے تسلیم کرلینا نیز فریقین کو رپورٹ پر اعتراض کرنے کی اجازت دیناشامل ہے۔انہوں نے کہاکہ اس معاملہ کوہم عدالت میں دوبارہ سماعت کے لیئے بھیجنے کی گذارش نہیں کررہے ہیں لیکن یہ انصاف کا تقاضا ہے کہ ہمیں آثار قدیمہ کی رپورٹ میں موجود خامیاں عدالت کے سامنے پیش کرنے کی اجازت ملنی چاہئے۔، ڈاکٹرراجیودھون نے کہا کہ محکمہ آثارقدیمہ کی رپورٹ پر کثرت سے اعتراضات کئے گئے تھے اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ عدالت اس کو قبول نہ کرے مگر ایسانہیں کیا گیا، انہوں نے کہا کہ اگر سی پی سی کے قانون 10(2) کے تحت علاقائی کمشنرمقررکیا جاتاہے اور سپریم کورٹ کی آئینی بینچ اس پر کوئی فیصلہ دیتی ہے تو یہ ایک مثال بن جائے گی کیونکہ کراس اکزامنیشن(جرح) کی اجازت الہ آبادہائی کورٹ  نے نہیں دی تھی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں یہ جان نا ہوگا کہ آیا کوئی مندرتوڑاگیا ہے یا نہیں؟ ڈاکٹرراجیودھون نے آگے کہا کہ قانون 10(2) کے دوسرے حصہ کے مطابق کوئی بھی فریق عدالت کی اجازت سے کمشنرکی جانچ کرسکتاہے، اسی درمیان چیف جسٹس آف انڈیانے فریقین کو کہا کہ عدالت کے پاس اب صرف آٹھ دن بچا ہے لہذا فریقین کو کسی بھی حال میں ان کی جانب سے کی جانے والی بحث کو مکمل کرنا ہوگا تاکہ بقیہ چار ہفتوں میں عدالت فیصلہ لکھ سکے اگر بحث طویل ہوئی تو فیصلہ لکھنے میں دشواری آئے گی۔ڈاکٹر راجیو دھون کی بحث کے بعد مسلم پرنسل لاء بورڈ کی وکیل میناکشی اروڑا نے محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ پر ان کی جانب سے شروع کی گئی بحث کوآگے بڑھاتے ہوئے پانچ رکنی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس چندر چوڑ اور جسٹس عبدالنظیرشامل ہیں کو بتایا کہ محکمہ آثار قدیمہ نے رپورٹ میں کہا ہے کہ رام چبوترے سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ یہاں رام کا جنم ہوا تھا جو مسجد سے باہر تھوڑے فاصلے پر ہے، عدالت نے اسی بنیاد پر ہندوؤں کو اس پر اختیار دیا تھا، یہ تب ہوا تھا جب 1886 میں رام چبوترا پر ہندوؤں نے اپنا دعوی پیش کیا تھا، محکمہ آثار قدیمہ نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم صرف تلاش کئے گئے شواہد کو واضح کریں گے اور یہی اس معاملہ میں ہمارا رول ہے۔انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ کھدائی میں 184 مقامات کی نشاندہی کی گئی تھی جبکہ تحقیقات صرف بیس فیصد مقامات کی ہی کی گئی نیز ان مقامات سے حاصل شدہ اشیاء کی کاربن ڈیٹنگ کی اہمیت پر انہوں نے روشنی ڈالی اور کہا کہ محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق زمین کے نیچے موجود ڈھانچہ کی تعمیر بارہویں صدی میں ہوئی ہوگی نیز محکمہ آثار قدیمہ نے یہ بات بھی قبول کی تھی کہ انہیں ریسرچ کرنے میں شدید دقت پیش آئی تھی۔وکیل میناکشی اروڑانے کہا کہ فلور2۔3اور 4پر محکمہ آثارقدیمہ کی رپورٹ میں کچھ ستون ملنے کی بات کہی گئی ہے یہ تمام فلورالگ الگ عہد کے ہیں، تو کیسے محکمہ آثارقدیمہ یہ کہہ رہا ہے کہ وہاں کوئی بہت بڑاڈھانچہ رہا ہوگا انہوں نے کہا کہ اس ڈھانچہ کا گپت عہد سے کوئی تعلق نہیں ہے، اے ایس آئی نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھاہے کہ وہاں ہرجگہ باقیات تھے مگر بابری مسجد کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا البتہ انہوں نے رام چبوترے کی جگہ کو رام چبوترا بتایا ہے، انہوں نے کہا کہ جس بڑے ڈھانچے کی بات ہورہی ہے وہ 12مابعد مسیح میں بنایا گیا تھا اس گپت عہد سے کوئی تعلق نہیں ہے وہاں عید گاہ بھی ہوسکتی ہے سب جانتے ہیں کہ عید کا رخ مغرب کی طرف ہوتاہے تو پھر یہ کیوں کہا جارہا ہے کہ وہ مندرتھا، انہوں نے کہا کہ محکمہ آثار قدیمہ نے جن چیزوں کی تفتیش کی ہے اس کا مندر سے کوئی لینا دینا نہیں ہے نیز کاربن ڈیٹنگ کا استعمال اس لیئے کیا جاتا ہے تاکہ اس کی قدامت کا اندازہ لگایا جاسکے۔میناکشی اروڑا نے کہا کہ دیواروں کی چوڑائی تقریبا ً دو میٹر تھی لہذا انہیں ستونوں کی ضرورت نہیں تھی جس پر جسٹس بوبڑے نے میناکشی اروڑا سے پوچھا کہ 50 بنیاد ی ستون مختلف وقتوں میں بنائے گئے تھے نیز ہمیں ثبوت ملتا ہے کہ چار ستونوں کی تعمیر مختلف زمانوں میں ہوئی تھی بقیہ 46 ستونوں کی تعمیر مختلف ایام میں ہوئی تھی، اس تعلق سے محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ کا باریک بینی سے جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ محکمہ آثار قدیمہ نے صرف چار ستونوں پرہی ریسرچ کیا تھا۔ایڈوکیٹ میناکشی ارورا نے عدالت میں فریق مخالف کی جانب سے پیش کیئے گئے گواہوں کے بیانات پڑھے جس میں ا نہوں نے آثار قدیمہ کی رپورٹ پر مسلم فریق کی جانب سے اٹھائے گئے اعتراضات کا ذکرکیا ہے  ایڈوکیٹ میناکشی اروڑانے کہا کہ یہ کیسے یقین کیاجاسکتا ہے کہ ایک مندر کے اوپر دوسری عمارت کی تعمیر کی جاسکتی ہے جسے بعد میں رام جنم بھومی کا نام دیا گیا گیا۔ایڈوکیٹ میناکشی اروڑ ا کی بحث آج نامکمل رہی جس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی کل تک کے لیئے ملتوی کیئے جانے کا حکم دیا۔ٓآج دوپہر کے کھانے کے بعد جب عدالت اس معاملے کی سماعت کرنے بیٹھی فریق مخالف کی جانب سے متعدد وکلاء نے عدالت سے بحث کرنے کی اجازت طلب کی جس پر چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنی مدت کے آخری دن تک بحث ہی سنتا رہوں؟ انہوں نے فی الحال کسی بھی فریقین کو درمیان میں بولنے کی اجازت دینے سے منع کردیا۔قابل ذکر ہے کہ جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا سید ارشدمدنی عدالتی کارروائی پر برابر نگاہ رکھے ہوئے ہیں انہوں نے اس سلسلہ میں آج بھی وکلاء کی ٹیم کے ساتھ ایک طویل میٹنگ کی اورمقدمہ میں اب تک کی پیش رفت کا جائزہ لیا، وکلاء کے استفسار پر انہوں نے اطمینان کا اظہارکیا اور کہا کہ ہمارے وکلاء تمام تر ثبوت اور شواہد ایک ایک کرکے عدالت کے سامنے پیش کررہے ہیں اورانہیں امید ہے کہ عدالت ان تمام ثبوت وشواہد کو نظرمیں رکھ کر قانون کے مطابق اپنا فیصلہ دے گی۔ انہوں نے ایک بارپھر کہا کہ اصل معاملہ ملکیت کا ہے یہ ہندومسلم تنازعہ ہر گز نہیں ہے انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالت بذات خود وضاحت کرچکی ہے کہ معاملہ آستھا کا نہیں ملکیت کا ہے اس لئے اسے ہندو،مسلم کی نظرسے نہ دیکھا جائے اور عدالت پر اعتمادکرتے ہوئے اس کے فیصلہ کا انتظارکیا جاناچاہئے۔، دوران کارروائی عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ڈاکٹر راجیو دھون، ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قرۃالعین، ایڈوکیٹ کنور ادتیہ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیاودیگر موجود تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×