احوال وطن

بابری مسجد ملکیت مقدمہ؛ مسجد کی جگہ شیعہ وقف بورڈ کی ملکیت نہیں

نئی دہلی 17 ستمبر (پریس ریلیز) بابری مسجد ملکیت مقدمہ میں روزانہ سماعت کاآج25 واں دن تھا جس کے دوران جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو بتایا کہ وہ خود چاہتے ہیں کہ اس مقدمہ کا فیصلہ ہوجائے اور ان کی کوشش ہوگی کہ وہ اپنی بحث کو مختصر کریں، ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کی جانب سے پوچھے گئے  اس سوال پر جس میں چیف جسٹس نے ان سے اور دیگر وکلاء سے پوچھا تھاکہ وہ عدالت کو بتائیں کہ انہیں بحث مکمل کرنے میں کتنا وقت اور لگے گا عدالت کو بتایا کہ وہ مسلم فریق کی نمائندگی کرنے والے دیگر وکلاء سے صلاح و مشورہ کرکے عدالت کواس بارے میں کل آگاہ کریں گے۔چیف جسٹس کی جانب سے پوچھے گئے سوال کا جواب دینے کے بعد ڈاکٹر راجیو دھون نے اپنی نا مکمل بحث کا آغازکرتے ہو ئے عدالت کو بتایا کہ اس معاملے میں فریق مخالف یہ دعوی کررہا ہے بابری مسجد کے اندرونی صحن پر رام کا جنم ہوا تھا اور وہ وہاں پرکٹ ہوئے تھے جس میں کوئی صداقت نہیں ہے کیونکہ اگر ہم اس دعوی کا موازنہ کیلاش مندر سے کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتاہے کہ وہاں شیو لنگم جیسی کوئی چیز پرکٹ ہوئی تھی لیکن یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ ایک منصوبہ سازش کے تحت مورتی کو بیرونی صحن سے اندرونی صحن میں منتقل کردیا گیا اور بعد میں اسے بھگوان کے پرکٹ ہونے کا دعوی کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ رام کا جنم کہاں ہوا اس پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ فریق مخالف کے دعوی پر اعتراض ہے جس نے رام کا جنم استھان مسجد کے اندرونی صحن میں بتایا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سوئم بھو(خودبخودظاہرہونے والا) کے لیئے ضروری ہے کہ کوئی چیزمثبت طور پر اچانک وجود میں آئے اور اس کی خصوصیات بھی ظاہر ہوں،نیز کسی بھی جگہ پریکرمایعنی کہ طواف کرنے سے وہ جگہ خصوصی مذہبی جگہ نہیں ہوجاتی اگر ایساہی ہونے لگاتو کوئی بھی کہیں بھی پریکرماکرکے اس جگہ کی حق ملکیت پر اپنا دعویٰ پیش کردیگا، ڈاکٹر راجیودھون نے کہا کہ مورتی کی شکل میں سوئم بھویا تو ازخوداظہارکی شکل اختیارکرسکتاہے یاپھر انسان بھی، ہندوفریق رام جنم استھان کی صحیح جگہ بتانے میں ناکام رہے ہیں اس لئے صرف آستھا سوئم بھوہونے کے لئے کافی نہیں ہے،ڈاکٹر راجیودھون نے وضاحت کی کہ ایک ایسے اظہار کا ہونا ضروری ہے جسے ہم بھگوان کے روپ میں تسلیم کرسکتے ہیں اس پر جسٹس بوبڑے نے کہا کہ دیوتاکا ایک روپ انسان کے روپ میں بھی ہوسکتاہے اور نہیں بھی ہوسکتاہے یا کسی دوسری شکل میں بھی ہوسکتاہے اس پر ڈاکٹر راجیودھون نے جواب دیا کہ ہندووں کا اعتقادہے اوراگر ایسا ہوتاہے تو اس کی پوجاکی جاتی ہے انہوں نے یہ بھی کہاکہ بابری مسجد وقف کی جائدادہے اور سنی وقف بورڈکا اس پر حق ہے انہوں نے ایک بارپھر وضاحت کی کہ 1885 کے بعد ہی بابری مسجد کے باہر رام چبوترے کو رام جنم استھان کے طورپر مانا گیااس موقع پر ڈاکٹر راجیودھون نے علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا کہ ہے رام کے وجودپہ ہندوستان کو ناز، اہل نظر سمجھتے ہیں ان کو امام ہند، اس شعر کو پڑھنے کہ بعد انہوں نے کہا کہ رام کی بزرگی پر کوئی اختلاف نہیں ہے اس بات پر بھی اختلاف نہیں ہے کہ بھگوان رام کا جنم ایودھیامیں کہیں ہواتھا لیکن اس طرح کی بزرگی کسی مقام کو ایک قانونی حیثیت میں تبدیل کرنے کا متبادل کب ہوگئی اسی طرح جنم اشٹھمی بھگوان کرشن کے جنم دن کے طورپر منایا جاتاہے لیکن کرشن قانونی شخصیت نہیں ہیں۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو مزید بتایا کہ فریق مخالف نے یہ دعوی کیا ہے کہ متنازعہ عمارت کے 14 کسوٹی ستونوں پر لوٹس یعنی کہ کنول کے پھول کا نشان پا یا گیا تھا جو مسجد کے فیچر میں نہیں آتا ہے جس کا جواب یہ ہے کہ ہائی کورٹ نے فیصلہ دینے میں غلطی کی ہے کیونکہ ستونوں پر کسی مورتی کے نشان نہیں ملے تھے بلکہ ستونوں پر ایسے ہی کنول کا پھول بنا ہوا تھا اور یہ ممکن ہے مزدوروں نے خودبنا دیا ہوگا، جیساکہ قطب مینار پر بھی ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں جیسے نشان ہیں جو اس بات کی علامت ہیں کہ عمارت کی تعمیر کرنے والے مزدوروں نے انہیں بنا دیا ہوگاجیساکہ تاج محل کی تعمیر بھی صرف مسلم مزدروں نے نہیں کی تھی بلکہ دیگر مذاہب کے مزدور بھی تعمیر میں شامل تھے۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ اسلامی فن تعمیرات میں مسجد کی تعمیر میں گول گنبد ضرور بنایا جاتا ہے جبکہ دیگر مذاہب کی عبادت گاہوں میں یہ نہیں دکھائی دیتا، کوئی تِکونی عمارت بناتا ہے تو کوئی چوکور۔ڈاکٹر راجیو دھون نے 1950 میں نکالی گئی تصاویر عدالت میں پیش کرتے ہوئے متعدد جگہوں پر موجود لفظ اللہ اور کلمہ وغیرہ کی نشاندہی کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ اسلامی فن تعمیر ات میں عبادت گاہوں میں ایسے الفاظ لکھے جاتے ہیں جو تصاویر میں صاف طور پر دکھائی دے رہے ہیں اور وقف کمشنر نے بھی اپنی رپورٹ میں اس بات کا ذکر کیا ہے۔ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو مزید بتایاکہ ستونوں کے نیچے کھدائی کرکے یہ معلوم نہیں کیا گیا کہ اندر کیا نشانات ہیں بلکہ متعدد گواہان بھی دوران گواہی ان نشانات کی نشان دہی نہیں کرسکے جس سکی بناء پر فریق مخالف کا دعوی کمزور ہوتا ہے۔رام للا کی مورتی کے Next Friend ڈاکٹر ورما  نے خود دوران گواہی یہ کہا کہ وہ ستونوں پر موجود مورتیوں کے نشان کو پہچان نہیں سکتے ہیں۔ڈاکٹر ورما نے سوٹ نمبر 3 اور 5 میں گواہی دی تھی۔انہوں نے مزید کہا کہ ہوسکتا ہے ڈیکوریشن کے لیئے کنول کے پھولوں کو بنایا گیا ہو۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ اگر ستونوں پر مورتیوں کے نشانات ہوتے تو مسلمان کبھی مسجد میں نماز ادا کرتا ہی نہیں بلکہ اس کے برعکس مسلمان 1949 سے قبل تک مسجد میں بلا ناغہ نماز ادا کرتے تھے نیز ہندوؤں کی عبادت گاہ مسجد کے باہری صحن میں تھی جبکہ مسلمان مسجد کے اندرونی صحن میں ہی نماز ادا کیا کرتے تھے۔
پانچ رکنی بینچ جس میں جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس ایس ایم بوبڑے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس چندرچوڑ اور جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں کو آج ڈاکٹر راجیو دھون نے شیعہ وقف بورڈ کی جانب سے داخل کردہ اپیل کے خلاف بحث کرتے ہو ئے بتایاکہ وہ ہندو فریق کو متنازعہ اراضی دینے کو تیار ہیں جبکہ حقیقت میں وہ ان کی ملکیت ہے ہی نہیں اور 1946میں ہی وہ مقدمہ ہارچکے ہیں اور اب جاکر عدالت میں اپیل داخل کی ہے جس میں کوئی قانونی پہلو نہیں ہے نیز انہوں نے وقت کے ساتھ اپنا دعوی بھی تبدیل کردیاہے۔اپنی بحث کے دوران ڈاکٹر راجیو دھون مورخین کی کتابوں کے حوالے اور آثار قدیمہ کے افسران کی جانب سے عدالت میں داخل کی گئی رپورٹس بھی پڑھ رہے ہیں۔
جمعیۃعلماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیودھون نے آج عدالت میں مسلم فریق کی جانب سے ان کے دعوئے کو تقویت دینے کے لئے اب تک عدالت میں داخل کئے گئے تمام دستاویزات کی فہرست پیش کی تاکہ عدالت انہیں زیر غورلائے،فہرست میں فریق مخالف کے وکلاء ایس کے جین، کے پرسارنن،سی ایس ودیاناتھن،پی این مشرا، ہر ی شنکر،وریندرکمارشرما، انوپ بوس ودیگر کی جانب سے کی گئی بحث کے جواب میں داخل کئے گئے دستاویزات کی فہرست شامل ہے، بابری مسجد معاملہ کی سماعت کا آج پچیسواں دن تھا جس میں سولہ دن فریق مخالف نے بحث کی جبکہ مسلم فریق کی نودن کی بحث آج مکمل ہوئی۔
آج ڈاکٹر راجیو دھون کی بحث نا مکمل رہی جس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی کل تک کے لیئے ملتوی کیئے جانے کا حکم دیا۔دوران بحث عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ڈاکٹر راجیو دھون کی معاونت کرنے کے لئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قرۃ العین، ایڈوکیٹ کنور ادتیہ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیا، ایڈوکیٹ ایشامہرو و دیگر موجود تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×