بابری مسجد ملکیت مقدمہ؛ ڈاکٹر راجیو دھون کو ملی پھر دھمکی
نئی دہلی 12/ ستمبر (پریس ریلیز) بابری مسجد ملکیت مقدمہ کا آج بائیسواں دن تھا لیکن آج جیسے ہی عدالتی کارروائی شروع ہوئی ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کو بتایا کہ انہیں ایک بارپھر دھمکی ملی انہوں نے بتایا کہ فیس بک پر مجھے ایک پیغام ملا ہے کہ جس میں واضح طورپر کہا گیا ہے کہ ابھی تم کورٹ میں ہوجب کورٹ میں نہیں ہوگے تو تمہیں دیکھ لیں گے، انہوں نے بینچ کے سامنے یہ انکشاف بھی کیا کہ گزشتہ روز ان کے کلرک پھول سنگھ عرف آنند سے ایک دوسرے کلرک کے نے کہا کہ تمہارے صاحب رام مندرکے خلاف مقدمہ لڑرہے ہیں یہ اچھی بات نہیں ہے، ڈاکٹرراجیودھون نے آگے کہا کہ یہ عدالت کی کارروائی میں رخنہ ڈالنے کی کوشش ہے کیا میں ہر بارعدالت میں شکایت کرتارہوں گا؟ اس پر چیف جسٹس رنجن گگوئی نے کہا کہ ہم آپ کے تحفظ کے احکامات جاری کردیتے ہیں اس پر ڈاکٹردھون نے کہا کہ مجھے کسی طرح کی سیکورٹی نہیں چاہئے لیکن یہ بحث کا ماحول نہیں ہے ہم باربارتوہین عدالت کی پٹیشن داخل نہیں کرسکتے واضح ہوڈاکٹر دھون کو اس سے پہلے بھی دوباردھمکی مل چکی ہے، ڈاکٹر راجیو دھو ن نے حال ہی میں یوپی حکومت میں منسٹر مکٹ بہاری ورما کی جانب سے دیئے گئے بیان کی جانب بھی عدالت کی توجہ مبذول کرائی جس میں انہوں نے دعوی کیا ہے کہ سپریم کورٹ ان کی ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انہوں نے بھی یہ خبر پڑھی ہے اور وہ اس کی پر زور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔عدالت نے کہا کہ یہ جو کچھ ہے عدالت اس کی مذمت کرتی ہے، ہم اسے ریکارڈ میں ڈال دیں گے کہ یہ ایسا رویہ ہے کہ جو نہیں ہونا چاہئے ہم ایک بحث کے درمیان ہیں دونوں فریق کے وکلاء کو اپنا جواب داخل کرنے کے لئے کسی بھی طرح کے اثرسے آزادہونا چاہئے، حالانکہ چھوٹی چھوٹی پریشانیاں آسکتی ہیں ہم اس کی سخت مذمت کرتے ہیں،متذکرہ واقعات کا ذکر کرنے کے بعد ڈاکٹر راجیو دھون نے اپنی نامکمل بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ کی اہم فریق نرموہی اکھاڑہ کا دعوی ہے کہ وہ متنازعہ اراضی میں عبادت کیا کرتے تھے لہذا انہیں اس پر قبضہ دیا جائے، ڈاکٹر دھون نے کہا کہ میں سپریم کور ٹ میں پریکٹس کرتا ہوں تو کیا سپریم کورٹ میری ہوگئی؟ صرف عبادت کرنے سے کسی مقام کے قبضہ کا دعو ی نہیں کیا جاسکتا بلکہ قبضہ کے دعوے کے لئے پختہ ثبو ت وشواہد عدالت میں پیش کرنے ہونگے۔ڈاکٹر راجیو دھو ن نے نرموہی اکھاڑہ کی بطور فریق قانونی حیثیت پر اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ لمیٹیشن یعنی کہ مقرر مدت میں داخل نہیں کئے گئے سوٹ کی بنیاد پر اگر عدالت نرموہی کھاڑہ کے سوٹ کو خارج کردیتی ہے تو شبیعت کا کیا ہوگا؟ یا پھر عدالت اگرنرموہی اکھاڑہ کو فریق تسلیم کرلیتی ہے تو پراپرٹی کس کو ملے گی؟ جمعیۃ علماء ہند کے وکیل ڈاکٹر راجیودھون نے عدالت کو مزید بتایا کہ شبیعت پراپرٹی پر دعوی نہیں کرسکتا اس کی ذمہ داری صرف انتظامی امور کی ہے لہذاعدالت کو نرموہی اکھاڑہ کے بدلتے دعوؤں پر فیصلہ کرنا ہوگا نیز اپیل میں کی گئی درخواست اور اس کے سپورٹ میں پیش کیئے گئے دستاویزات کی روشنی میں عدالت کو فیصلہ کرنا ہوگا لیکن اس معاملے میں دونوں ہی باتیں کمزور دکھائی دیتی ہیں۔انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ایک جانب کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے مسجد میں نماز ادا کرنا بند کردیا تھا پھردوسری جانب اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ جمعہ کی نماز ادا کی جاتی تھی نیز مسلمان تو مسجد میں نماز ادا کرنا چاہتا تھا اسے جانے سے روکا گیا اور بعد میں یہ کہا گیا کہ مسلمانوں نے مسجد کو ویران کردیا تھا۔اس معاملہ کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس ایس اے بوبڑے، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس اشوک بھوشن اور جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں کو ڈاکٹر راجیو دھون نے مزید بتایا کہ نرموہی اکھاڑہ والے ہمیشہ سے باہری صحن میں پوجا پراتھنا کیا کرتے تھے لیکن 1949 کے غیر قانونی عمل کے تحت انہیں اندرون صحن میں داخلہ ملا۔ڈاکٹر راجیو دھون نے عدالت کی توجہ Continuous Wrong یعنی کہ لگاتار ہونے والے غیر قانونی عمل کی جانب دلاتے ہوئے 22 اور 23 دسمبر 1949 کی درمیانی شب میں ا نجام دیئے گئے عمل کا حوالہ دیا اور کہاکہ 1949 سے قبل نرموہی اکھاڑہ کا اندرونی صحن پر کوئی دعوی ہی نہیں تھا آج وہ اندرونی صحن پر دعو ی کررہے ہیں جو غیر قانونی طور پر شروع ہوئے عمل سے ہے لیکن قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کوئی کام غیر قانونی طریقہ سے کیاجائے اور پھر اس پر قانونی طریقہ سے دعوی کیا جائے۔ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو بتایاکہ 1858 سے قبل شبعیت کا بیرونی صحن پر قبضہ تھا جس پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن آج اندرونی صحن پر بھی دعوی کیا جارہا ہے جو بے بنیاد ہے کیونکہ 1989 میں پہلی بار اندورنی صحن پر دعوی کیا ہے۔ ڈاکٹر راجیو دھو ن نے عدالت کو بتایا کہ نرموہی اکھاڑہ اور رام للا کے دعوؤں میں تضاد کی وجہ سے انہوں نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ وہ پہلے ان کے دلائل کی سماعت مکمل کرلے لیکن ہمیں لگتا ہے کہ دونوں فریق عدالت کو مطمئن کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں ورنہ دعوؤں میں تضاد نہیں ہوتا۔آج ڈاکٹر راجیو دھون کی بحث نا مکمل رہی لیکن انہوں نے چیف جسٹس سے کہا کہ کل ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی عدالت کے سامنے اپنے دلائل پیش کریں گے اس کے بعد پھروہ اپنی سوٹ نمبر3 کی بقیہ بحث کو مکمل کریں گے،ٓآج دوران کارروائی پانچ رکنی آئینی بینچ نے ڈاکٹر راجیودھون سے کہا کہ مسلم فریق کی جانب سے جودستاویزات عدالت کے سامنے پیش کئے جارہے ہیں وہ باترتیب اورمنظم شکل میں ہیں جس کی وجہ سے عدالت کو کام کاج کرنے میں آسانی ہورہی ہے جس پر ڈاکٹر راجیودھون نے عدالت کو بتایا کہ یہ سب جمعیۃعلماء ہندکے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول کی کوششیں ہیں جو اتنا ضخیم ریکارڈ ہونے کے باوجود ایک ایک دستاویز کو ترتیب سے رکھتے ہیں اور حسب ضرورت عدالت میں پیش کرتے ہیں اس کی وجہ سے مجھے بھی آسانی ہوتی ہے،دوران بحث عدالت میں جمعیۃ علماء ہند کی جانب سے ڈاکٹر راجیو دھون کی معاونت کرنے کے لئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قرۃ العین، ایڈوکیٹ کنور ادتیہ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیا، ایڈوکیٹ ایشامہرو و دیگر موجود تھے۔ صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشدمدنی نے یوپی کے ایک وزیر کی جانب سے دیئے گئے حالیہ بیان پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ کچھ لوگ جس طرح غیر ضروری بیان بازی کرکے مسجدکی جگہ پر مند ر بنانے کی درپردہ دھمکی دے رہیں وہ بہت افسوس ناک اور خطرناک ہے، انہوں نے کہاکہ جب حتمی فیصلہ کے لئے معاملہ سپریم کورٹ میں ہے تو اس طرح کے بیانات اور دھمکیوں کا کیا مطلب نکالا جائے؟کیا یہ توہین عدالت کا معاملہ نہیں ہے؟ مولانا مدنی نے کہا کہ ہمارے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے بروقت فاضل عدالت کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی ہے، اس لئے معزز عدالت کو اس کا سخت نوٹس لینا چاہئے۔انہوں نے کہا مسلمانوں نے ہمیشہ عدلیہ پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔دہشت گردی کے بعض معاملوں میں عدلیہ کے جس طرح اہم فیصلے آئے ہیں اس سے عدلیہ پر ہمارا اعتماد اور یقین مزید مضبوط ہوا ہے، مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کسی کے خلاف نہیں بلکہ انصاف کی سربلندی کے لئے قانونی جنگ لڑ رہی ہے،انہوں نے وضاحت کی کہ یہ کوئی مذہبی لڑائی نہیں ہے بلکہ حق ملکیت کا معاملہ ہے اور عدالت بھی اسے تسلیم کرچکی ہے مگر کچھ لوگ اسے اپنی آستھااور اعتقادسے جوڑکر دیکھ رہے ہیں اور اسی لئے وہ اس طرح کی غیر ضروری بیان بازی بھی کررہے ہیں تاکہ ماحول میں انتشار اور اشتعال پھیلے ہم اس کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔