بابری مسجد ملکیت مقدمہ؛ بابر نے نہیں اورنگ زیب نے بنوائی تھی ایودھیامیں مسجد
نئی دہلی 28/اگست ( ملکیت مقدمہ کی سماعت کا آج چودھواں دن تھا، رام جنم بھومی سمیتی کے وکیل پی این مشرا نے اپنی کل کی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے آج بینچ کو بتایا کہ جو نقش بابری مسجد میں ملے ہیں اور جس کا ذکر مسلمانوں نے اپنے کیس میں کیا ہے وہ 1934 کے دنگوں کے بعد دوبارہ لگائے گئے تھے، مشرانے نقش کے ترجموں میں فرق دکھاتے ہوئے کہاکہ نہ تواس نقش پر اور نہ ہی اس کے ترجمہ پر بھروسہ کیا جاسکتاہے واضح ہوبابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت لیڈمیٹرسول پٹیشن نمبر10866-10867/2010 پر بحث کے دوران جمعیۃ علماء ہندکی جانب سے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیودھون کی معاونت کے لیئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول،کے علاوہ ایڈوکیٹ کنورادتیہ سنگھ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قراۃ العین، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیا، ایڈوکیٹ ایشامہرو دیگر موجود تھے۔ اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے ایڈوکیٹ پی این مشرانے کہاکہ جس دورمیں بابری مسجد کی تعمیر کو بتایا جارہا ہے اس دورکے ذکرمیں بابرنامہ میں مسجد کی تعمیر کاکوئی ذکر نہیں ہے مشرانے یہ بھی کہا کہ مسلم فریق نے یہ کہا ہے کہ بابرنامہ میں 1528 کے کچھ مہینوں کا ذکر نہیں ہے تاہم انہوں نے کہا کہ جو نقش مسجد میں پائے گئے ہیں ان پر تاریخ 935 ہجری تھی اور بابرنامہ میں 2/اپریل 1528سے لیکر 17/ستمبر 1528تک کاکوئی ذکر نہیں ہے لیکن 2/اپریل 1528سے 15/ستمبر 1528تک 934ہجری چل رہی تھی، اس طرح سے 935ہجری میں صرف دودن کا ذکر نہیں ہے اس کے علاوہ مشرانے یہ بھی کہا کہ میر باقی جیسے کسی شخص کا بابرنامہ میں ذکرنہیں پایا جاتاہے ہاں بابرنامہ میں باقی تاشقندی اور باقی اصفہانی کا ذکر توہے لیکن میر باقی کا نہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ اودھ کے دورہ کے وقت بابر کے سپہ سالار کا نام چین تیمور تھا اس لئے نقش میں ذکر کئے ہوئے میر باقی کا نہ تو بابرنامہ میں ذکر ہے اور نہ ہی سپہ سالار کے طورپرکوئی حوالہ موجودہے،۔ اس پر جسٹس بوبڑے نے مشراسے پوچھا کہ اگر بابر نے متنازعہ پراپرٹی نہیں بنائی تواس معاملہ میں وہ کیاکہیں گے کہ اس پراپراٹی میں مسجد کے کچھ فیچرہیں اس پر مشرانے کہا کہ بابر نے یہ بلڈنگ نہیں بنائی بلکہ اورنگ زیب نے بنائی تھی کیونکہ بابرنامہ میں کسی مندرکو توڑ کر مسجد بنانے کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی کسی میر باقی کا ذکر ہے اور بابر کے دورکے فورابعد کے دستاویزمیں بھی اس کا ذکر نہیں ہے اس کے بعد انہوں نے آئین اکبری، ہمایوں نامہ اور تزک جہانگیری کا حوالہ دیا اورکہا کہ آئین اکبری میں ابوالفضل نے ایودھیا کا ذکر کیا ہے اوررام کورٹ کو رام کی پیدائش کی جگہ بھی بتائی ے لیکن ایودھیامیں کسی مسجد کاذکر نہیں کیا ہے اگر بابرنے ایسی کوئی مسجد بنائی ہوتی تو اس کا ذکر آئین اکبری میں ہوتااورانہوں نے یہ بھی کہا کہ اورنگ زیب کے دورمیں کئی مندرتوڑنے کے آرڈردیئے گئے تھے جس کا ذکر ایک اٹالین سیاح نے اپنی کتاب میں کیا ہے اس بات کے لئے مشرانے ایک کتاب ہسٹوریا مغل کا حوالہ دیا جس پر جمعیۃعلماء ہند کے ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیودھون نے آئین اکبری اور اطالوی سیاح کی کتاب پر اعتراض جتایا اور کہا کہ یہ کتاب 2010 میں شائع ہوئی ہے اور ہائی کورٹ کے سامنے یہ نہیں رکھی گئی تھی، بلکہ اس کے کچھ صفحات ہی ہائی کورٹ کے سامنے رکھے گئے تھے اس بحث کے بعد مشرانے آگے کہاکہ اسلامی قانون میں تین تصورہیں دارالاسلام، دارالامن، دارالحرب،ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس وقت بابرہندوستان میں آیا اودھ پر حکومت ابراہیم لودھی کی تھی اور ابراہیم لودھی مسلمان تھے اس لئے یہ دارالاسلام کہلائے گا،ان کا کہنا تھا کہ دارالاسلام میں زمین نہیں لی جاتی ہے صرف دارالحرب میں زمین راجہ کی ہوتی ہے اس وجہ سے ایودھیاپر اگر بابر نے فتح کی تب بھی اس پر اس کا حق نہیں ہوگا کیونکہ یہ دارالاسلام تھا، مشرانے کہا کہ حدیث شریف میں آپ ﷺ نے بتایا ہے کہ ایک مسجد جو وقف ہوتی ہے اس کو بنانے کے لئے واقف کا زمین پر مالکانہ حق ہونا چاہئے، انہوں نے مزید کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کس وقت اس زمین کا مالکانہ حق دیا گیا اور کس نے اس زمین کو وقف کیا اور بابر نامہ میں اس زمین پر کس کا مالکانہ حق تھا اس کابھی کوئی ذکر نہیں ہے بحث کے دوران جسٹس چندرچورنے جب یہ سوال کیاکہ کیاابوالفضل کی آئین اکبری میں کسی مسجد کا ذکر ہے توپی این مشرا نے کہا کہ اس میں صرف دو قبروں کے تعلق سے تحریر ہے۔ آئین اکبری کو ابوالفضل نے بابر کے پوتے اکبر کی ایماء پر لکھا تھا۔انہوں نے آگے کہا کہ مسجد کا تذکرہ ہے لیکن ایودھیا کی مسجدکا نہیں ہے جس کے بعد جسٹس بوبڑے نے کہا کہ کس جگہوں پر مسجد ہونے کا ذکر ہے ہمیں بتائیں۔ جسٹس بوبڑے کے اس سوال پر پی این مشرا نے کہا کہ انہیں امید نہیں تھی کہ جسٹس بوبڑے ایسا سوال پوچھ لیں گے لہذا کل وہ عدالت کو اس تعلق سے بتائیں گے۔آئین اکبری کے بعد پی این مشرا نے عدالت میں ہمایوں نامہ جسے بابر کی لڑکی گلبدین بیگم نے لکھا تھاکو پڑھا جس میں مسجد کے وجود کا کہیں ذکر نہیں ہے جبکہ اس کے بعد انہوں نے تزک جہانگیری بھی پڑھی اورکہاکہ اس میں بھی مسجد کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ اس معاملہ کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس اے ایس بوبڑے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس چندر چوڑ اور جسٹس عبدالنظیر شامل کے سامنے مغل انڈیا نامی کتاب پڑھنے کی کوشش کی جس پر ڈاکٹر راجیو دھون نے اعتراض کیا اور عدالت کو بتایا کہ اس بک کی اشاعت 2010 میں ہوئی تھی اور یہ بک ہائی کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے جس پر پی این مشرا نے عدالت کو بتایاکہ یہ صحیح ہے کہ اس کتاب کی اشاعت 2010 میں ہوئی تھی لیکن ہائیکورٹ میں دوران سماعت میں نے اس کتاب کے چند اقتباسات عدالت میں پیش کیئے تھے۔ایڈوکیٹ پی این مشرا نے عدالت کو دارالاسلام، دارالامن اور دارالحرب کے معنی بتائے اسی درمیان عدالت کا وقت ختم ہوگیا اور عدالت نے اپنی کاررائی کل تک کے لیئے ملتوی کردی۔آج ایڈوکیٹ پی این مشرا کی بحث نا مکمل رہی جس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی کل تک کے لئے ملتوی کئے جانے کے احکامات جاری کئنئی دہلی: 28/اگست (پریس ریلیز) بابری مسجد ملکیت مقدمہ کی سماعت کے چودھویں دن رام جنم بھومی سمیتی کے وکیل پی این مشرا نے اپنی کل کی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے آج بینچ کو بتایا کہ جو نقش بابری مسجد میں ملے ہیں اور جس کا ذکر مسلمانوں نے اپنے کیس میں کیا ہے وہ 1934 کے دنگوں کے بعد دوبارہ لگائے گئے تھے، مشرانے نقش کے ترجموں میں فرق دکھاتے ہوئے کہاکہ نہ تواس نقش پر اور نہ ہی اس کے ترجمہ پر بھروسہ کیا جاسکتاہے واضح ہوبابری مسجد کی ملکیت کے تنازعہ کو لیکر سپریم کورٹ آف انڈیا میں زیر سماعت لیڈمیٹرسول پٹیشن نمبر10866-10867/2010 پر بحث کے دوران جمعیۃ علماء ہندکی جانب سے سینئر وکیل ڈاکٹر راجیودھون کی معاونت کے لیئے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ اعجاز مقبول،کے علاوہ ایڈوکیٹ کنورادتیہ سنگھ، ایڈوکیٹ تانیا شری، ایڈوکیٹ اکرتی چوبے، ایڈوکیٹ قراۃ العین، ایڈوکیٹ سدھی پاڈیا، ایڈوکیٹ ایشامہرو دیگر موجود تھے۔ اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے ایڈوکیٹ پی این مشرانے کہاکہ جس دورمیں بابری مسجد کی تعمیر کو بتایا جارہا ہے اس دورکے ذکرمیں بابرنامہ میں مسجد کی تعمیر کاکوئی ذکر نہیں ہے مشرانے یہ بھی کہا کہ مسلم فریق نے یہ کہا ہے کہ بابرنامہ میں 1528 کے کچھ مہینوں کا ذکر نہیں ہے تاہم انہوں نے کہا کہ جو نقش مسجد میں پائے گئے ہیں ان پر تاریخ 935 ہجری تھی اور بابرنامہ میں 2/اپریل 1528سے لیکر 17/ستمبر 1528تک کاکوئی ذکر نہیں ہے لیکن 2/اپریل 1528سے 15/ستمبر 1528تک 934ہجری چل رہی تھی، اس طرح سے 935ہجری میں صرف دودن کا ذکر نہیں ہے اس کے علاوہ مشرانے یہ بھی کہا کہ میر باقی جیسے کسی شخص کا بابرنامہ میں ذکرنہیں پایا جاتاہے ہاں بابرنامہ میں باقی تاشقندی اور باقی اصفہانی کا ذکر توہے لیکن میر باقی کا نہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا کہ اودھ کے دورہ کے وقت بابر کے سپہ سالار کا نام چین تیمور تھا اس لئے نقش میں ذکر کئے ہوئے میر باقی کا نہ تو بابرنامہ میں ذکر ہے اور نہ ہی سپہ سالار کے طورپرکوئی حوالہ موجودہے،۔ اس پر جسٹس بوبڑے نے مشراسے پوچھا کہ اگر بابر نے متنازعہ پراپرٹی نہیں بنائی تواس معاملہ میں وہ کیاکہیں گے کہ اس پراپراٹی میں مسجد کے کچھ فیچرہیں اس پر مشرانے کہا کہ بابر نے یہ بلڈنگ نہیں بنائی بلکہ اورنگ زیب نے بنائی تھی کیونکہ بابرنامہ میں کسی مندرکو توڑ کر مسجد بنانے کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی کسی میر باقی کا ذکر ہے اور بابر کے دورکے فورابعد کے دستاویزمیں بھی اس کا ذکر نہیں ہے اس کے بعد انہوں نے آئین اکبری، ہمایوں نامہ اور تزک جہانگیری کا حوالہ دیا اورکہا کہ آئین اکبری میں ابوالفضل نے ایودھیا کا ذکر کیا ہے اوررام کورٹ کو رام کی پیدائش کی جگہ بھی بتائی ے لیکن ایودھیامیں کسی مسجد کاذکر نہیں کیا ہے اگر بابرنے ایسی کوئی مسجد بنائی ہوتی تو اس کا ذکر آئین اکبری میں ہوتااورانہوں نے یہ بھی کہا کہ اورنگ زیب کے دورمیں کئی مندرتوڑنے کے آرڈردیئے گئے تھے جس کا ذکر ایک اٹالین سیاح نے اپنی کتاب میں کیا ہے اس بات کے لئے مشرانے ایک کتاب ہسٹوریا مغل کا حوالہ دیا جس پر جمعیۃعلماء ہند کے ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیودھون نے آئین اکبری اور اطالوی سیاح کی کتاب پر اعتراض جتایا اور کہا کہ یہ کتاب 2010 میں شائع ہوئی ہے اور ہائی کورٹ کے سامنے یہ نہیں رکھی گئی تھی، بلکہ اس کے کچھ صفحات ہی ہائی کورٹ کے سامنے رکھے گئے تھے اس بحث کے بعد مشرانے آگے کہاکہ اسلامی قانون میں تین تصورہیں دارالاسلام، دارالامن، دارالحرب،ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس وقت بابرہندوستان میں آیا اودھ پر حکومت ابراہیم لودھی کی تھی اور ابراہیم لودھی مسلمان تھے اس لئے یہ دارالاسلام کہلائے گا،ان کا کہنا تھا کہ دارالاسلام میں زمین نہیں لی جاتی ہے صرف دارالحرب میں زمین راجہ کی ہوتی ہے اس وجہ سے ایودھیاپر اگر بابر نے فتح کی تب بھی اس پر اس کا حق نہیں ہوگا کیونکہ یہ دارالاسلام تھا، مشرانے کہا کہ حدیث شریف میں آپ ﷺ نے بتایا ہے کہ ایک مسجد جو وقف ہوتی ہے اس کو بنانے کے لئے واقف کا زمین پر مالکانہ حق ہونا چاہئے، انہوں نے مزید کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ کس وقت اس زمین کا مالکانہ حق دیا گیا اور کس نے اس زمین کو وقف کیا اور بابر نامہ میں اس زمین پر کس کا مالکانہ حق تھا اس کابھی کوئی ذکر نہیں ہے بحث کے دوران جسٹس چندرچورنے جب یہ سوال کیاکہ کیاابوالفضل کی آئین اکبری میں کسی مسجد کا ذکر ہے توپی این مشرا نے کہا کہ اس میں صرف دو قبروں کے تعلق سے تحریر ہے۔ آئین اکبری کو ابوالفضل نے بابر کے پوتے اکبر کی ایماء پر لکھا تھا۔انہوں نے آگے کہا کہ مسجد کا تذکرہ ہے لیکن ایودھیا کی مسجدکا نہیں ہے جس کے بعد جسٹس بوبڑے نے کہا کہ کس جگہوں پر مسجد ہونے کا ذکر ہے ہمیں بتائیں۔ جسٹس بوبڑے کے اس سوال پر پی این مشرا نے کہا کہ انہیں امید نہیں تھی کہ جسٹس بوبڑے ایسا سوال پوچھ لیں گے لہذا کل وہ عدالت کو اس تعلق سے بتائیں گے۔آئین اکبری کے بعد پی این مشرا نے عدالت میں ہمایوں نامہ جسے بابر کی لڑکی گلبدین بیگم نے لکھا تھاکو پڑھا جس میں مسجد کے وجود کا کہیں ذکر نہیں ہے جبکہ اس کے بعد انہوں نے تزک جہانگیری بھی پڑھی اورکہاکہ اس میں بھی مسجد کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ اس معاملہ کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بینچ جس میں چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی، جسٹس اے ایس بوبڑے، جسٹس اشوک بھوشن، جسٹس چندر چوڑ اور جسٹس عبدالنظیر شامل کے سامنے مغل انڈیا نامی کتاب پڑھنے کی کوشش کی جس پر ڈاکٹر راجیو دھون نے اعتراض کیا اور عدالت کو بتایا کہ اس بک کی اشاعت 2010 میں ہوئی تھی اور یہ بک ہائی کورٹ کے ریکارڈ کا حصہ نہیں ہے جس پر پی این مشرا نے عدالت کو بتایاکہ یہ صحیح ہے کہ اس کتاب کی اشاعت 2010 میں ہوئی تھی لیکن ہائیکورٹ میں دوران سماعت میں نے اس کتاب کے چند اقتباسات عدالت میں پیش کیئے تھے۔ایڈوکیٹ پی این مشرا نے عدالت کو دارالاسلام، دارالامن اور دارالحرب کے معنی بتائے اسی درمیان عدالت کا وقت ختم ہوگیا اور عدالت نے اپنی کاررائی کل تک کے لیئے ملتوی کردی۔آج ایڈوکیٹ پی این مشرا کی بحث نا مکمل رہی جس کے بعد عدالت نے اپنی کارروائی کل تک کے لئے ملتوی کئے جانے کے احکامات جاری کئے