احوال وطن

جے این یو پر حملہ، آکسفورڈ نیویارک اور ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں پُر زور مذمت

نئی دہلی: 6؍جنوری (ذرائع) جے این یو کیمپس میں اے بی وی پی غنڈوں کے ذریعے ہوئے تشدد کے خلاف ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں احتجاج کیا جارہا ہے۔وہیں پوری دنیا کے سوشل سائنسدانوں بھی جے این یو پر حملے کی مذمت کی۔ دنیا بھر کے پچاس سے زائد معروف سوشل سائنسدانوں اور ماہرین تعلیم نے جواہرلعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) میں نقاب پوش طلبہ کے بہیمانہ حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے وائس چانسلر اور رجسٹرار کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ برطانیہ، امریکہ، کناڈا، جاپان اور جنوبی افریقہ کی یونیورسٹیوں میں خدمات انجام دینے والے پروفیسروں نے ایک مشترکہ بیان جاری کرکے مذمت کی۔ ان میں آکسفورڈیونیورسٹی، ییلے یونیورسٹی، جان ہوپکِنس یونیورسٹی، نیویارک یونیورسٹی، ٹورنٹو یونیورسٹی، کیوٹو یونیورسٹی کے پروفیسر شامل ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ جے این یو ملک کی ایک اہم تعلیمی ادارہ ہے اور گذشتہ کئی دنوں سے طلبہ فیس اضافے کے خلاف مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد (اے بی وی پی) سے منسلک طلبہ نے مبینہ طور پر طلبہ اور اساتذہ کو ہوسٹل اور کمروں میں گھس کر زدو کوب کیا جس کے نتیجے میں وہ بری طرح زخمی ہوگئے اور انھیں اسپتال میں داخل کروایا گیا۔ بیان میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ وائس چانسلر ایم جگدیش کمار اور رجسٹرار پرمود کمار کو استعفیٰ دینا چاہیے کیونکہ وہ لاء اینڈ آرڈر قائم رکھنے میں ناکام ہو گئے۔ زخمی طلبہ اور استاتذہ کے مفت علاج اور واقعہ کی تفتیش کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ بیان میں دستخط کرنے والوں میں پارتھ چٹرجی، وینا داس روہنی، ڈیسوجا، اکشے تنکھا، نَینِکا ماتھر، روچی چترویدی، روہت ڈے وغیرہ شامل ہیں۔ ادھر آئی آئی ٹی بامبے، جامعہ ملیہ اسلامیہ، بی ایچ یو، کولکاتہ جادھو پور یونیورسٹی، عالیہ یونیورسٹی، پریڈنسی یونیورسٹی، کلکتہ یونیورسٹی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی، عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبہ نے حملے کی مذمت کی اور غنڈوں کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا۔ ممبئی میں مختلف کالجوں کے طلبہ رات سے ہی گیٹ آف انڈیا پر احتجاج کررہے ہیں، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور پونے میں فلم اینڈ ٹیلیویزن انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا، حیدرآباد یونیورسٹی کے طلبہ رات میں ہی سڑکوں پر نکل آئے اور جے این یو تشدد کے خلاف احتجاج کرنے لگے۔ جادھو پور یونیورسٹی ٹیچرایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری پارتھ پرتیم رائے نے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہاکہ جے این یو میں حالات ساز گار بنانےکےلیے مرکزوی وریاستی حکومت فوری کارروائی کرے، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ٹیچرس ایسوسی ایشن نے بھی اس واردات کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اے بی وی پی کے غنڈوں اور خاموش تماشائی پولس کو فوری گرفتار کیاجائے گا، ایسوسی ایشن کے سکریٹری پروفیسر نجم الاسلام نے اس واردات میں ملوث اے بی وی پی کے کارکنان کو غنڈہ بتاتے ہوئے کہاکہ خاموش تماشائی پولس کے سامنے جے این یو کے طلبہ اور اساتذہ کے ساتھ غنڈوں نے جس طرح بربریت کا مظاہرہ کیا ہم اس کی مذمت کرتے ہیں انہو ںنے حکومت اور صدرجمہوریہ سے اے بی وی پی کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا۔ چنڈی گڑھ میں اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا ، آل انڈیا اسٹوڈنٹس فیڈریشن اور دیگر تنظیموں نے بھی جے این یو میں اتوار کو ہوئے تشدد کےخلاف احتجاج کیا ۔ جے این یو میں تشدد کے خلاف اور طلبہ سے یگانگت کے اظہار کے لئے حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کے طلبہ کی بڑی تعداد نے احتجاجی مارچ میں حصہ لیا۔اس مارچ کے دوران ”ہم لے کے رہیں گے آزادی“ اور ”دہلی پولیس مردہ باد“کے نعرے لگائے گئے۔یہ مارچ اتوار کی شب نکالا گیا۔ان طلبہ نے جے اے یو میں ہوئے تشدد کی شدید مذمت کی اور اس کو جمہوریت پر ایک داغ قرار دیا۔ان طلبہ نے پولیس کے رویہ پر بھی شدید برہمی کا اظہار کیا۔اسی دوران حیدرآباد کی عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبہ نے بھی احتجاج کیا۔اس احتجاج کا اہتمام طلبہ تنظیم پی ڈی ایس یو کی جانب سے کیا گیا تھا۔ان طلبہ نے مرکزی حکومت کا پتلا نذر آتش کیا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔پی ڈی ایس یو کے احتجاجی طالب علم وشنو جو پی ایچ ڈی اسکالر ہیں نے کہاکہ عثمانیہ یونیورسٹی کے طلبہ،جے این یو کے طلبہ کے ساتھ ہیں۔حکومت کو چاہئے کہ وہ اس واقعہ پر ملزمین کے خلاف فوری سخت کارروائی کرے۔دریں اثنا مختلف کالجس کے طلبہ نے اس واقعہ کے خلاف حیدرآباد میں احتجاج کیا۔شہر کے ٹینک بنڈ کے قریب واقع امبیڈکر کے مجسمہ کے پاس طلبہ اور بعض جہد کاروں نے دھرنا دیا۔ادھر پٹنہ یونیورسٹی کے طالب علم جے این یو تشدد کے خلاف دھرنے پر بیٹھ گئے۔طالب علم یونین کے صدر منیش کمار نے بتایا کہ مسلسل طالب علموں کو دہلی سے لے کر پٹنہ تک نشانہ بنایا جا رہا ہے اور یہ سب نریندر مودی اور امت شاہ کے اشارے پر اے بی وی پی کی طرف سے کروایا جا رہا ہے۔منیش کمار نے بتایا کہ مسلسل بے قصور طلباء کونشانہ بنایا جا رہا ہے۔جو طالب علم نریندر مودی اور امت شاہ کے اشارے پر کام نہیں کر رہے ہیں، انہیں یرغمال بنا کر مارا پیٹا جا رہا ہے۔ادھر علی گڑھ میں ’اتوار کی رات ہی طلبہ نے جے این یو کے ساتھ اظہار یکجہتی اور تشدد کے خلاف احتجاج کے لئے پرامن کینڈل مارچ نکالا اور نقاب پوش حملہ آوروں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا‘۔مارچ یونیورسٹی احاطے میں نکالا گیا جو باب سید پر آکے ختم ہوا۔اے ایم یو کے سابق یونین لیڈر نائب صدر حمزہ سفیان کے مطابق’’ہمارا احتجاج پرامن تھا۔اے بی وی پی کے افراد نے جے این یو کے نہتھے طلبہ پر حملہ کیا۔ان کے خلاف ہر حال میں کاروائی کی جانی چاہئے۔حکومت احتجاج کرنےوالوں کے خلاف ایف آئی آر درج کررہی ہے۔تو اب لازم ہے کہ وہ یونیورسٹی کیمپس میں گھس کر آتنک مچانے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرے‘‘۔اے ایم یو ٹیچر ایسوسی ایشن(اے ایم یو ٹی اے)نے بھی اس ضمن میں اپنا بیان جاری کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا شرد اروند بوبڑے سے اتوار کی رات جے این یو میں پیش آئے معاملے کی از خود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔علی گڑھ کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس آکاش کہاری نے کہا کہ احتیاطی قدم کے طور پر اے ایم یو کیمپس کے تمام حساس مقامات پر پولیس کو تعینات کیا گیا۔جے این یو تشدد کے بعد کئی سیاسی پارٹیوں کے لیڈروں نے زخمی طلبا سے ملاقات کی۔ اس درمیان کانگریس پارٹی نے اس واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور دہلی کے کانگریس ہیڈ کوارٹر میں پارٹی ترجمان رندیپ سنگھ سرجے والا نے ایک پریس کانفرنس بھی کیا۔ اس پریس کانفرنس میں سرجے والا نے مرکز کی مودی حکومت کوپرزور طریقے سے تنقید کا نشانہ بنایا۔رندیپ سرجے والا نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ’’جے این یو میں جو کچھ بھی ہوا وہ وائس چانسلر کی رضامندی سے ہوا۔‘‘ انھوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ ’’وزیر داخلہ امت شاہ کے اشارے پر دہلی پولس نے جے این یو کیمپس میں طلبا پر حملہ ہونے دیا۔ تین گھنٹے تک پولس کیمپس کے باہر کھڑی رہی تاکہ غنڈے کیمپس میں طلبا اور اساتذہ کو پیٹ سکیں۔‘‘ کانگریس ترجمان نے کہا کہ ملک بھر کی یونیورسٹیوں میں حکومت کے ذریعہ اسپانسر حملے کیے جا رہے ہیں۔ یہ حکومت طلبا اور نوجوانوں کی آواز کو دبانا چاہتی ہے۔جے این یو میں طلبا پر ہوئے حملے کے پیش نظر کانگریس کے سینئر لیڈر کپل سبل نے میڈیا میں اپنا رد عمل ظاہر کیا ہے۔ کپل سبل نے کہا کہ ’’نقاب پوش لوگوں کو کیمپس میں کس طرح گھسنے دیا گیا؟ وائس چانسلر نے کیا کیا؟ پولس باہر کیوں کھڑی تھی؟ وزیر داخلہ کیا کر رہے تھے؟ یہ سبھی سوال ایسے ہیں جن کے جواب نہیں ملے ہیں۔ یہ ایک واضح سازش ہے، جانچ کی ضرورت ہے۔‘‘کیرالہ کے وزیر پینارائی وجین نے اس سلسلے میں اپنی بات میڈیا کے سامنے رکھتے ہوئے کہا کہ ’’جے این یو میں نازی اسٹائل میں طلبا پر حملے ہوئے ہیں۔ آر ایس ایس فیملی کو اب اس خونی کھیل سے خود کو الگ کر لینا چاہیے۔ جو طلبا کی آواز ہے وہی اس ملک کی بھی آواز ہے۔‘‘بی ایس پی سربراہ مایاوتی نے بھی جے این یو واقعہ کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ انھوں نے اس واقعہ کے تعلق سے کہا کہ ’’اس کی عدالتی جانچ ہونی چاہیے۔ جے این یو میں طلبا اور اساتذہ کے ساتھ ہوئی مار پیٹ شرمناک ہے۔ مرکزی حکومت کو اس واقعہ کو انتہائی سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ ساتھ ہی اس واقعہ کی عدالتی جانچ ہو جائے تو بہتر ہوگا۔‘‘کانگریس کے سینئر لیڈر ابھشیک منو سنگھوی نے جے این یو واقعہ پر ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انھوں نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا ہے ’’بند کرو چھاتروں پر اتیاچار، جے این یو میں ہِنسا بند کرو مودی سرکار‘‘ (بند کرو طلبا پر مظالم، جے این یو میں تشدد بند کرو مودی حکومت)۔ انھوں نے اپنے ایک دیگر ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ ’’طاقت کا نشہ عقل پہ حاوی ہے تمھاری، تم دیکھ نہ پاؤ گے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔‘‘ اڈیشہ کے وزیر اعلیٰ نوین پٹنایک نے جے این یو تشدد کو حیران کرنے والا بتایا ہے اور انھوں نے کہا ہے کہ جمہوریت میں اس طرح کے تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔طلبا کی حمایت میں دیے جا رہے ان لگاتار بیانوں کے درمیان مرکزی وزیر گری راج سنگھ نے ایک انتہائی متنازعہ بیان دیا ہے جو طلبا کے ہی خلاف ہے۔ انھوں نے واقعہ کی تو مذمت کی ہی ہے لیکن ساتھ ہی کہا ہے کہ ’’لیفٹ وِنگ طلبا جے این یو کو بدنام کر رہے ہیں، انھوں نے یونیورسٹی کو غنڈہ گردی کے سنٹر میں بدل دیا ہے۔‘‘ گری راج سنگھ نے اس طرح کے واقعات کے لیے سیاسی لیڈروں کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×