*قربانی، خلوص اور محبت*
دنیا میں بیشمار ایسی چیزیں ہیں جن سے انسان محبت کرتا ہے اور کچھ ایسے انسان بھی ملیں گے جو ایسی محبت کرتے ہیں کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ محبت کا اصل معیار کیا ہے آج کے زمانے میں دولت سے محبت، زمین جائداد سے محبت، کاروبار سے محبت، اولاد سے محبت، عزیز و اقربا سے محبت لیکن دل خلوص سے خالی ہوتا ہے،، دولت کمانا اور ذخیرہ اندوزی کرنا یہ محبت نہیں بلکہ حرص ہے لالچ ہے اور اسے محبت کا نام دینا غلط ہے یہ بھی یاد رہے کہ کہ دولت کمانا اور دولت حاصل کرنا بری بات نہیں ہے لیکن ہاں وہ دولت جو راہ خدا میں خرچ نہ کیا جائے تو بالکل ایسی دولت کمانا بری بات ہے،، زمین جائداد کا حاصل کرنا بری بات نہیں ہے لیکن کسی دوسرے کی زمین پر ناجائز قبضہ کرنا یقیناً بری بات ہے کاروبار کرنا بری بات نہیں ہے لیکن کاروبار میں دھوکا دینا یقیناً بری بات ہے تجارت کرنا تو نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت ہے لیکن آج کے کاروبار اور تجارت کو سنت نبوی سے جوڑنے سے پہلے ہمیں نبی اکرم کے اس واقعے پر نظر ڈالنا ہوگا کہ صحابہ کرام کے ساتھ سرکار دو عالم کھجور کے بازار میں جاتے ہیں تمام کھجوروں کے ڈھیر لگائے ہوئے ہیں چلتے چلتے نبی اکرم ایک جگہ ٹھہر جاتے ہیں وہاں کھجور کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں اچانک کھجور کے ڈھیر میں ہاتھ ڈالتے ہیں اور جب ہاتھ باہر نکالتے ہیں تو فرماتے ہیں کہ جو تجارت میں دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں ہے معاملہ یہ تھا کہ کہ کھجور کے تاجر نے کھجوروں کو پانی سے تر کیا ہوا تھا اور وہ کھجوریں اندر تھیں اوپر سے اچھے قسم کی کھجوریں رکھی ہوئی تھیں نبی اکرم نے جب ہاتھ باہر نکالا تو ہاتھ بھیگا ہوا تھا آج کے ماحول میں تجارت کرنے والے اپنی تجارت کو نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کے اس واقعے کی کسوٹی پر رکھیں اور خود فیصلہ کریں کہ ہماری تجارت سنت نبوی کے مطابق ہے یا اس کے برعکس ہے،، اولاد سے سب کو محبت ہوتی ہے لیکن اصل محبت کا معیار یہ ہے کہ اس کی پرورش صحیح طریقے سے ہونی چاہئے اس کی تربیت اچھے طریقے سے ہونی چاہئے محبت کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اولاد لاکھ غلط کام کرے اور باپ ساری غلطیاں نظر انداز اس لئے کرے کہ وہ اس کا بیٹا ہے،، بیٹا ہر طرح کی غلطی کرے یہاں تک کہ شریعت کے خلاف بھی کام کرنے لگے لیکن باپ اسے ڈانٹے نہیں، پھٹکارے نہیں، مارے نہیں، سمجھائے نہیں صرف اس لیے کہ وہ اولاد ہے بیٹا ہے کیسے اسے تنبیہ کروں اس کا دل ٹوٹ جائے گا، اداس ہو جائے گا، آنکھوں میں آنسو آجائے گا اور مجھے اپنے بیٹے سے بڑی محبت ہے میں اس کی آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا،، تو یاد رکھنا چاہیے کہ ایسی محبت غلط ہے، فرضی ہے بلکہ ظاہر میں محبت نظر آتی ہے لیکن حقیقت میں وہ نفرت ہے، دشمنی ہے اور فتنے کا سبب ہے ایسی محبت جس میں نبی کی اور فرمان نبی کی نافرمانی ہوجائے تو ایسی محبت جہنم تک پہنچائے گی اور ایسے لوگوں کو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بیٹے کے مابین ہونے والی گفتگو پر غور کرنا چاہیے کہ بیٹا کہتا ہے کہ والد محترم آپ جنگ کے دوران کئی بار میری تلوار کی زد میں آئے لیکن میں نے اس لئے وار نہیں کیا کہ میں بیٹا ہوں اور آپ میرے باپ ہیں،، اتنا سننا تھا کہ حضرت ابو بکر نے کہا کہ اے بیٹا خیر منا کہ تو میری تلوار کی زد میں نہیں آیا ورنہ میں تجھے ہرگز نہیں چھوڑتا فوراً وار کرتا کیونکہ معاملہ رشتہ ناطے کا نہیں بلکہ حق اور باطل کا تھا، اسلام اور کفر کا تھا اور میں اسلام کی صداقت و حقانیت کا پرچم بلند دیکھنا چاہتاہوں میرا جینا مرنا بس اللہ کیلئے اور اللہ کے رسول کیلئے ہے،، آج کے پر فتن دور میں اولاد سے محبت کا دم بھرنے والے ذرا غور کریں کہ 80 سال تک حضرت ابراہیم علیہ السلام دعا کرتے رہے رب ھبلی من الصالحین اے میرے رب مجھے نیک و صالح بیٹا عطا فرما 80 سال کی عمر میں حضر ابراہیم علیہ السلام کی تمنا پوری ہوئی اللہ رب العالمین نے بیٹا عطا فرمایا یعنی حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے غور کرنے کا مقام ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے سے کتنی محبت رہی ہوگی آج کے دور میں شادی ہونے کے بعد دو سال سے زیادہ عرصہ گذرا اور اولاد نہیں ہوئی تو علاج شروع ہوجاتا ہے ڈاکٹر، طبیب، اسپتال، آستانہ، خانقاہ، پیر، بابا، حتیٰ کہ اوجھا شوکھا کے وہاں بھی چلے جاتے ہیں اور شعبدہ بازی کے جال میں پھنس جاتے ہیں نہ جانے کتنے نقلی پیروں اور روٹی توڑ فقیروں کے مکر و فریب کا شکار ہوتے ہیں،، اور سماج و معاشرہ، سوسائٹی کے بہت سے لوگ بھی طعنہ مارنا شروع کردیتے ہیں طویل جدوجہد کے بعد اللہ تبارک و تعالیٰ جب اس کی تمنائیں پوری کرتا ہے تو یہ اللہ کا شکر کم ادا کرتا ہے اور لعن و طعن کرنے والوں کو جلانے کی زیادہ کوشش کرتا ہے اور اپنے اس طریقے کو خوشی اور اولاد کی محبت سے تعبیر کرتا ہے اس موقع پر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے بلکہ اب تو خوشی کے اظہار کا ایسا ایسا طریقہ اپنایا جاتا ہے کہ شریعت کا بھی پاس و لحاظ بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے لیکن اصل محبت دیکھو کہ سخت آزمائش کا وقت ہے ایک طرف باپ بیٹے کی محبت تو دوسری طرف عبد و معبود کا معاملہ ہے معبود تو معبود ہے اور جو عبد ہے وہ نبی ہے اسی معبود حقیقی کی طرف سے امتحان ہے خواب میں کہا جارہا ہے کہ اپنی سب سے پیاری چیز کو اللہ کی راہ میں قربان کرو روایتوں میں ملتا ہے اور علماء کرام بیان کرتے ہیں کہ صبح ہوئی تو اونٹوں کو اللہ کی راہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے قربان کیا پھر خواب میں واضح طور پر بیٹے کی قربانی دینے کو کہا گیا اب اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 80 سال کی عمر میں ایک بیٹا پیدا ہوا ہے اسے قربان کرنے کو کہا جارہا ہے لیکن کوئی ٹال مٹول نہیں ابراہیم علیہ السلام نے ایک مرتبہ بھی نہیں کہا کہ اے اللہ مجھے میرا بیٹا بہت پیارا ہے میں کیسے اسے قربان کروں بلکہ خود اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام سے کہا کہ اے بیٹے میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے راہ خدا میں قربان کررہا ہوں تو اسماعیل علیہ السلام نے فرمایا اے ابو جان ہم اور آپ اسی رب العالمین کی ہی تو امانت ہیں اور وہی ہمیں اور ساری مخلوق کو پیدا کرنے والا ہے آپ نے جو خواب دیکھا ہے اسے پورا کر ڈالئے انشاءاللہ آپ مجھے بخوشی صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے باپ اسی سال کے ضعیف اور بیٹا ابھی بہت چھوٹا لیکن ایک نبی کے خواب کو دوسرا نبی سمجھ گیا کہ ہمارا امتحان لیا جارہا ہے اور تخلیق آدم کے وقت فرشتوں نے رائے دیتے ہوئے جو تشویش اور اعتراض کیا تھا تو اس کا جواب بھی اسی امتحان میں مکمل ہوگا چنانچہ ابراہیم علیہ السلام بیٹے کو لیکر میدان منی میں پہنچ گئے ادھر شیطان ملعون کافی پریشان ہے کبھی اسماعیل علیہ السلام کے پاس جاتا ہے تو کبھی حضرت ہاجرہ کے پاس جاتا ہے کہ کسی طرح یہ باپ بیٹے حکم خداوندی بجا لانے سے باز آجائیں لیکن دونوں جگہ سے اسے زوردار طمانچہ لگتا ہے بالآخر ابراہیم علیہ السلام نے بھی پتھر چلا کر مارا اور آج تک اس شیطان لعین کو کنکریاں ماری جارہی ہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو پیشانی کے بل زمین پر پچھاڑ دیا قرآن میں بھی ذکر ہے( وتلہ للجبین) اب چھری اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر رکھنے ہی والے تھے کہ بیٹے نے کہا کہ اے ابو جان میرے ہاتھوں اور پیروں کو رسی سے باندھ دو کہیں ایسا نہ ہو کہ تڑپتے ہوئے میرا ہاتھ آپ کے ہاتھ تک پہنچ جائے اور آپ کا ہاتھ شفقت پدری کی بنیاد پر کانپ جائے اور کہیں حکم الٰہی کی تعمیل و تکمیل میں رکاوٹ کا سبب نہ بن جائے اور میرے سرہانے سے یہ چادر بھی نکال لیجیے تاکہ یہ خون میں سننے نہ پائے اور میرے ٹھنڈا ہونے کے بعد یہ کفن کے کام آئے،، اے ابو یہ کرتا میرے جسم سے اتار لیجیے یہ کرتا میری ماں کو دیدیجئے گا اور میرا سلام بھی کہید یجئے گا جب ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کے یہ کلمات سنے تو بولے کہ اے میرے بیٹے تم اللہ کے احکام کو پورا کرنے میں میری کتنی مدد کر رہے ہو یہ کہہ کر ابراہیم علیہ السلام نے اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری رکھی آہ سمندر کی لہریں ٹھہر گئیں، درختوں کے پتوں کی حرکتیں بند ہو گئیں، آسمان کانپ اٹھا زمین تھرا گئی پہاڑ بھی لرز گئے اور آج فرشتے بھی زاروقطار رو رہے ہیں کیونکہ ساری چیزیں خلاف توقع،، ایک باپ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہا ہے اللہ کہتا ہے کہ اے فرشتوں تم تو کہتے تھے کہ یہ انسان زمین پر فساد برپا کریں گے لیکن دیکھو یہ انسان ہے جو میرے حکم کا اتنا پابند ہے اور مجھ سے اتنی محبت کرتا ہے کی میری راہ میں اپنے بیٹے کو ذبح کر رہا ہے تو فرشتوں نے بھی کہا کہ ہاں اے اللہ اسی لیے تو تونے بھی کہدیا تھا کہ جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے،، ادھر ابراہیم کو حکم تھا کہ تم بیٹے کی گردن پر چھری چلاؤ حافظ ابن قیم نے زادالمعاد میں لکھا ہے کہ چھری اتنی تیز تھی کہ اگر اس کے نوک کو پتھر پر مارا جاتا تو پتھر میں بھی سوراخ ہوجاتا لیکن ساتھ ہی رب کائنات کا اعلان تھا کہ آج ابراہیم کا کام ہے کہ بیٹے کو ذبح کرے تو ابراہیم اپنا کام کریں گے لیکن اے چھری آج تیرا کام بند یعنی ابراہیم کو چھری چلانا ہے لیکن تجھے کاٹنا نہیں ہے اسی دوران ابراہیم علیہ السلام نے پڑھا اللہ اکبر اللہ اکبر،، تو اسماعیل علیہ السلام نے پڑھا لاالہ الا اللہ،، فرشتوں نے پڑھا واللہ اکبر اللہ اکبر و لللہ الحمد اور اسی تسبیح سے رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے عید گاہ کو سجا کر مزین کیا اور آج بھی نویں ذی الحجہ کی فجر سے تیرہ ذی الحجہ کی شام یعنی عصر تک فرض نمازوں میں سلام پھیرنے کے بعد پڑھاجاتا ہے اللہ کی طرف سے حکم ہوا کہ اے جبرئیل میرا ابراہیم اپنے بیٹے کی گردن پر چھری چلائے اور چھری کاٹے یعنی چھری چلنے اور کٹنے کے وقفے کے درمیان تم جنت سے دنبہ لیکر جاؤ اسماعیل کو ہٹاؤ اور اس جگہ پر دنبہ کو لٹاؤ جبرئیل علیہ السلام نے ایسا ہی کیا ادھر ابراہیم علیہ السلام بار بار چھری چلاتے رہے لیکن چھری بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کیسے کرتی اعلان ہوتا ہے وہ بھی اللہ رب العالمین کی جانب سے کہ بس کر اے ابراہیم بس کر تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نے تیری قربانی قبول کر لی اس دنبہ کے بارے میں ذکر ملتا ہے کہ پہلے زمانے میں بھی جانوروں کی قربانی دینے کا معمول تھا آسمان سے آگ اترتی تھی اس دی ہوئی قربانی کو جلا دیا کرتی تھی تو اسے قبولیت کی دلیل مانا جاتا تھا چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے ہابیل اور قابیل کا ذکر ملتا ہے کہ انہوں نے قربانی دی تو قابیل کی قربانی رد کر دی گئی ہابیل نے دنبہ ذبح کرنے کے لئے لٹایا آسمان سے کوئی آگ نازل نہیں ہوئی اور اس دنبہ کی گردن پر چھری نہیں چلی بلکہ اس دنبہ کو آسمان پر زندہ اٹھا لیا گیا اور وہ دنبہ جنت میں سیر کرتا رہا کھاتا پیتا رہا اور اسی دنبہ کو اسماعیل علیہ السلام کی جگہ پر رکھنے کا جبرئیل علیہ السلام کو اللہ کی طرف سے حکم دیا گیا اب سوال یہ ہے کہ آخر اسماعیل علیہ السلام ذبح کیوں نہیں ہوئے کچھ لوگ دبی آواز میں طنز کستے ہیں،، تو ایسا سوال تو اللہ کی کبریائی اس کی عزت و جلال کو للکار نے اور چیلنج کرنے والا ہے اور ایسا چیلنج کرنے والا تو بدبخت و بدقسمت ہی ہوسکتا ہے ہم تو اتنا جانتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے ہی اللہ تعالیٰ کو امام الانبیاء خاتم النبیین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو مبعوث فرمانا تھا اس لیے چھری کو اللہ نے حکم دے رکھا تھا کہ خبردار کاٹنا نہیں،، اور جب ابراہیم علیہ السلام کو نمرود نے آگ میں ڈلوایا تھا تب بھی جبرئیل علیہ السلام آئے تھے تو ابراہیم علیہ السلام کی خواہش جاننی چاہی تو ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ اے جبرئیل میری خواہش ہے کہ جو آخری نبی دنیا میں تشریف لائے تو وہ میری نسل سے ہو میری اس خواہش کو اللہ تعالیٰ سے عرض کرنا تو ایسا ہی ہوا کہ ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کی نسل سے ہی سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں تو جب معراج کے سفر پر آقائے کریم تشریف لے گئے تو ایسا مقام آیا کہ اس سے آگے جبرئیل بھی نہیں جاسکتے تھے تو وہاں رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے جبرئیل نارِ نمرود میں تم نے ابراہیم علیہ السلام سے خواہش پوچھی تھی اور آج میں تم سے پوچھ رہا ہوں کہ کوئی خواہش ہو تو بتاؤ میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے عرض کردوں گا تو جبرئیل نے خواہش ظاہر کی کہ یارسول اللہ میری خواہش ہے کہ جب آپ کے امت پل صراط سے گذرے تو اللہ حکم دے کہ اے جبرئیل اپنے پر کو بچھادو تو میں اپنے پر بچھادوں اور آپ کی امت اس پر سے گزر جائے اللہ نے اپنے نیک و محبوب بندے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی کو اتنا پسند فرمایا کہ اسے حج کے ارکان میں شامل کردیا اور صحابہ کرام نے قربانی کے بارے میں پوچھا تو رسول کائنات نے فرمایا کہ قربانی تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اور ہر مالک نصاب پر قربانی کرنا واجب ہے یہاں تک فرمایا آقا صل اللہ علیہ وسلم نے کوئی مالک نصاب ہوکر صاحب استطاعت ہوکر قربانی نہ کرے تو ایسا شخص میری عیدگاہ سے دور رہے کیونکہ عید الاضحٰی کی دس تاریخ قربانی کا دن ہے اسی لئے تو عیدقرباں بھی کہا جاتا ہے اس دن قربانی سے بڑھ کر دوسرا کوئی عمل نہیں ہے اور قربانی کا کوئی بدل بھی نہیں ہے اللہ کو اس دن بندوں کی طرف سے پیش کی گئی قربانی پسند ہے اور قربانی کرتے وقت اس کا خلوص پسند ہے، تقویٰ پسند ہے حج اور قربانی قرب الہی حاصل کرنے کا عظیم الشان ذریعہ ہے بشرطیکہ دکھاوا نہ ہو، ریاکاری نہ ہو – اور لین دین کا معاملہ بھی صاف ہو کیونکہ صرف حج بیت اللہ کیلئے ہی لین دین کا معاملہ صاف ہونے کی شرط نہیں بلکہ قربانی کا معاملہ اور مسئلہ بھی یہی ہے کہ آپ کے ذمے کسی کا بقایا ہے تو قربانی کیلئے جانور ذبح کرنے سے پہلے اس بقائے کی رقم کی ادائیگی کرو اور یہی نہیں رشتہ داروں اور بھائیوں کے درمیان بھی بغض اور حسد ہے، دشمنی ہے، بات چیت بند ہے تو پہلے میل ملاپ ضروری ہے ورنہ قربانی قابل قبول نہیں ہوگی خود نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ظاہری زندگی میں عید الضحٰی کا موقع تھا ایک صاحب نصاب نے قربانی کی تیاری کرلی محسن انسانیت کو معلوم ہوا کہ قربانی کرنے والے شخص کی اپنے بھائی کے ساتھ دشمنی ہے رحمۃ اللعالمین جلدی جلدی اس کے گھر پہنچے اور کہا کہ کہ خبردار جانور کی گردن پر چھری نہ چلانا یہ سنتے ہی اس نے کہا کہ یارسول اللہ آج تو قربانی کا دن ہے پھر آپ مجھے کیوں اس سے روک رہے ہیں تو فرمایا مدنی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم دونوں سگے بھائیوں کے درمیان دشمنی ہے بول چال بند ہے تو اس نے کہا کہ ہاں تو آقا نے فرمایا کہ جاؤ پہلے اپنے بھائی کو مناؤ اس کے بعد قربانی کرو آگے رسول کائنات نے یہ بھی فرمایا کہ اگر تم نے اپنے بھائی کو نہیں منایا اور منانے کی کوشش نہیں کی اور جانور کی گردن پر چھری چلادی تو تمہاری یہ قربانی بارگاہ الٰہی میں قبول نہیں ہوگی بلکہ تمہارے منہ پر مار دی جائے گی،، معلوم ہوا کہ قربانی میں بھی بہت ساری باتوں پر دھیان دینا ضروری ہے اور خلوص کا ہونا تو بہت ضروری ہے –