توہینِ رسالت بدترین دہشت گردی!!
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت اور آپ کے کمال و محاسن بے شمار ہیں، نبی کریم کی ذات سب سے اعلیٰ ہے، آپ سید الانبیاء ہیں، سید البشر ہیں، سید المرسلین ہیں، خاتم النبیین ہیں، آپ شفیع المذنبین ہیں، آپ رحمۃ اللعالمین ہیں، آپ حضرت ابراہیم کی دعا اور خواہش بھی ہیں اور تخلیق کائنات کا سہرا بھی آپ ہی کے سر ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو کائنات کے ذرے ذرے کے لئے نبی بنایا ہر مخلوق کے لیے آپ کو نبی بنایا آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ عالم انسانیت کے لئے نمونہ عمل ہے، مشعل راہ ہے، آپ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا دونوں جہاں میں کامیابی کی ضمانت ہے،، آپ پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبوت کا سلسلہ ختم فرمایا، آپ کو پوری دنیا کے لئے رحمت بنایا آپ نے دعوت و تبلیغ کو اس طرح انجام دیا کہ پوری دنیا میں اسلام کا بول بالا ہوگیا خود اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا کہ اے میرے محبوب تم نے دین کو مکمل کردیا،، اور قرآن مجید اعلان کررہا ہے کہ بیشک اللہ کے نزدیک سب سے پسندیدہ دین دینِ اسلام ہے اور یہ ہر شخص کو یاد رکھنا چاہیے کہ نبی سے سچی محبت ہی کا نام ایمان ہے جو آپ سے محبت نہ کرے اور سب سے زیادہ محبت نہ کرے تو اس کا ایمان مکمل نہیں ہے آج جو لوگ مذہب اسلام اور پیغمبر اسلام سے نفرت اور بغض میں اندھے ہو کر رسول کی شان میں گستاخی کررہے ہیں وہ درحقیقت مسلمانوں کو آزما رہے ہیں کہ آج کا مسلمان اپنے نبی سے کتنی محبت کرتا ہے ورنہ نبی کریم کی سیرت طیبہ سے تو وہ بھی بہت حد تک واقف ہیں لیکن اسلام کی شبیہ کو بگاڑنے اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کی کوشش ان کی فطرت میں داخل ہے اس لیے وہ اپنی بدبختانہ حرکتوں سے باز نہیں آتے –
آئیے ذرا فتح مکہ کے منظر کو دیکھیں جو درس ہدایت بھی ہے اور درس عبرت بھی ہے بخاری، وزرقانی، سیرت ابن ہشام کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فاتحانہ شان و شوکت کے ساتھ بانی کعبہ کے جانشین حضور رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے سرزمین مکہ میں نزول اجلال فرمایا اور حکم دیا کہ میرا جھنڈا مقام حجون جنت المعلی کے پاس نصب کیا جائے اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے نام فرمان جاری کردیا کہ وہ فوجوں کے ساتھ مکہ کے بالائی حصہ یعنی کدا کی طرف سے مکہ میں داخل ہوں (بخاری)
تاجدا دوعالم نے مکہ کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی جو پہلا فرمان جاری کیا اور شاہی اعلان فرمایا وہ یہ تھا کہ ایک ایک لفظ میں رحمتوں کے دریا موجیں ماررہے ہیں جو شخص ہتھیار ڈال دے گا اس کے لیے امان ہے، جو شخص اپنا دروازہ بند کر لے گا اس کے لیے امان ہے، جو کعبہ میں داخل ہوجائے گا اس کے لیے امان ہے سرکار دو عالم جب فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو آپ اپنی اونٹنی قصوا پر سوار تھے سورہ فتح تلاوت تلاوت فرمارہے تھے سرجھکائے ہوئے اللہ رب العالمین کا شکر ادا کررہے تھے اس کے بعد آپ نے حرم الٰہی میں آپ نے سب سے پہلا دربار عام منعقد فرمایا جس میں افواجِ اسلام کے علاوہ ہزاروں کفار و مشرکین کے عوام و خواص کا زبردست ازدہام تھا جس میں وہ ظالم و جفاکار بھی تھے جو آپ پر بارہا پتھر کی بارش کر چکے تھے، وہ خونخوار بھی تھے جنہوں نے بارہا آپ پر قاتلانہ حملے بھی کئے تھے، وہ بے رحم و بے درد بھی تھے جنہوں نے آپ کے دندان مبارک شہید کئے تھے اور چہرہ انور کو لہولہان کئے تھے، وہ سنگ دل بھی تھے جو برسہا برس تک اپنی بہتان تراشیوں اور شرمناک گالیوں سے آپ کے قلب مبارک کو زخمی کرچکے تھے، وہ سفاک اور درندہ صفت بھی تھے جو آپ کے گلے میں چادر اور رسیوں کا پھندا ڈال کر آپ کا گلا گھونٹ نے کوشش بھی کر چکے تھے، وہ ظلم و ستم کے مجسمے بھی تھے جنھوں نے آپ کی صاحبزادی حضرت زینب کو نیزہ مارکر اونٹ سے زمین پر گرادیا تھا اور ان کا حمل ساقط ہوگیا تھا وہ جفاکار و خونخوار بھی تھے جن کے جارحانہ حملوں اور جارحانہ یلغار سے بار بار مدینہ کے درودیوار دہل چکے تھے، وہ ستمگار بھی تھے جنہوں نے آپ کے چچا حضرت امیر حمزہ کو قتل کیا تھا، ناک، کان کاٹ کر اس کا ہار بناکر گلے میں پہنا تھا، ان کا جگر چبانے والے بھی اس مجمع میں موجود تھے، حضرت بلال، حضرت صہیب، حضرت عمار، حضرت خباب، حضرت خبیب، حضرت زید رضی اللہ عنہم رسیوں باندھ باندھ کر کوڑے مارا کرتے تھے، جلتی ریتوں پر اور دہکتے ہوئے انگارے پر لٹایا کرتے تھے، کسی کو سولی پر لٹکا کر شہید کردیا کرتے تھے اس دربار عام میں یہ سب کے سب مجرم بنے کانپ رہے تھے انہیں اس بات کا احساس تھا کہ آج ہمارے بوٹی بوٹی ہونے کا دن ہے آج ہمارے بچوں کو خاک و خون میں ملا کر ہمیں نیست و نابود کردیا جائے گا، ہماری آبادیوں اور بستیوں کو تاراج کردیا جائے گا –
سرکار دو عالم نے اس دربار عام میں ایک خطبہ دیا اور پھر اہل مکہ کو مخاطب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ بولو آج تمہیں معلوم ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟
اس دہشت انگیز سوال سے تمام مجرموں کے جسم کانپنے لگے لیکن جبین رحمت کے پیغمبرانہ تیور کو دیکھ کر سب یک زبان ہوکر بولے کہ آپ کرم والے بھائی اور کرم والے باپ کے بیٹے ہیں یہ سن کر فاتح مکہ سید عرب و عجم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا کہ: لا تثریب علیکم الیوم فادھبو انتم الطلقا (آج تم پر کوئی ملامت نہیں،، جاؤ تم سب آزاد ہو)
بالکل غیر متوقع طور پر ایکدم اچانک فرمان رحمت سن کر سب مجرموں کی آنکھیں فرط ندامت سے اشکبار ہو گئیں اور کفار کی زبانوں پر لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ نعروں سے حرم کعبہ کے درودیوار پر بارش انوار ہونے لگی مجرموں کی نظروں میں خلاف توقع ایک عجیب انقلاب برپا ہوگیا کہ سماں ہی بدل گیا –
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو اتنا رحم دل ہو پھر اس کے خلاف اتنی سازشیں کیوں رچی جاتی ہیں جب سے دنیا قائم ہوئی ہے تب سے آج تک کوئی اتنا رحم و کرم کا معاملہ کرنے والا پیدا نہیں ہوا زمین و آسمان، چاند و سورج، شجر و حجر، بحر و بر، جن و انس سب کے ساتھ جس نے انصاف کیا ہے وہ محمد عربی کی ذات ہے، جس نے زمین میں زندہ لڑکیوں کو دفن کرنے سے روکا وہ محمد عربی کی ذات ہے، جس نے مساوات کا درس دیا وہ محمد عربی کی ذات ہے، جس نے حقوق اللہ و حقوق العباد کی ادائیگی کی تعلیم دی وہ محمد عربی کی ذات ہے، جس نے کراہتی اور سسکتی و دم توڑ تی ہوئی انسانیت کو سکون بخشا وہ محمد عربی کی ذات ہے، جس نے اپنی بیٹی کے ہتھیارے کو معاف کیا اور جس نے اپنے چچا کے قاتل کو معاف کیا وہ محمد عربی کی ذات ہے، جس نے گالیاں سن کر، اینٹ و پتھر کی مار کھاکر، لہولہان ہوکر بھی بددعا دینے کے بجائے اللہ سے ان کی ہدایت کی دعا کرے وہ محمد عربی کی ذات ہے لیکن اس کے باوجود بھی فرانس، ڈنمارک و دیگر ممالک میں نبی کریم کی شان میں گستاخی کرنا، اہانت آمیز خاکہ تیار کرنا، خاکوں کی اشاعت کرنا یہ سراسر بے حیائی ہے، بدترین دہشت گردی ہے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک سازش ہے اور اس طرح کی گھٹیا حرکت کرنا یہود و نصاریٰ کی فطرت ہے یہ وہ قومیں جو ہمیشہ امن کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرتی رہی ہیں پوری دنیا کو یہ جان لینا چاہیے کہ توہین رسالت اللہ کو بھی گوارا نہیں ہے خود نبی کریم کی ظاہری زندگی میں بھی یہ دیکھا اور آج بھی دیکھا جارہا ہے کہ جس نے رسول پاک کی شان میں گستاخی کی تو اسے زندہ رہنے کا حق ختم ہوگیا اس کی زندگی کے خاتمے کا چاہے جو بھی سبب بنے –
جو مذہب اسلام پر شدت پسندی کا الزام لگاتے ہیں وہ درحقیقت اسلام دشمنی میں اندھے ہیں وہ مذہب اسلام کے ساتھ خود اپنے مذہب کی تعلیمات کے بھی مخالف ہیں وہ قومیں نہ اپنے نبی کی وفادار ہوئیں اور نہ اپنے مذہبی کتاب کے ساتھ وفادار ہوئیں جبکہ مذہب اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جتنے بھی انبیاء کرام علیہم السلام تشریف لائے سب برحق، قرآن سے پہلے جتنی بھی کتابیں نازل ہوئیں توریت، زبور، انجیل برحق،، یہاں تک کہدیا گیا کہ جو بھی شخص قرآن کو اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتاب مانے اور توریت، زبور، انجیل کو اللہ کی طرف سے نازل کردہ کتاب نہ تو وہ مسلمان ہوہی نہیں سکتا یعنی قرآن کو اللہ کی کتاب ماننا ضروری ہے اور قرآن سے پہلے جو کتابیں نازل ہوئی ہیں ان کو بھی ماننا ضروری ہے( سورۃ البقرۃ) کے پہلے رکوع کی تلاوت کرنے اور ترجمہ پڑھنے سے سب کچھ واضح ہوجاتاہے مذہب اسلام کا دائرہ بہت وسیع ہے آنکھوں سے نفرت کی چنگاڑیاں اور دلوں سے بغض و حسد نکال کر مذہب اسلام کی تعلیمات کا مطالعہ کرنے والے آج بھی اسلام کی شیتل چھایا میں پناہ لے رہے ہیں، مذہب اسلام کے شامیانے میں داخل ہورہے ہیں اور یہی چیز یہی بات اسلام مخالف ذہنیت رکھنے والے ہضم نہیں کرپاتے ان سے یہ برداشت نہیں ہوتا –