سیاسی و سماجی

ماہ رمضان سید الشہور ہے، جسے ملے وہ خوش نصیب ہے!

رمضان المبارک کا روزہ رکھنے سے دلوں میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے جو لوگ سال کی سال غربت کا سامنا کرتے ہیں انکی مصیبتوں کا احساس ہوتا ہے ماہ رمضان کو سید الشہور کہا گیا ہے یعنی رمضان المبارک کا مہینہ تمام مہینوں کا سردار ہے اسی مہینے میں قرآن مقدس کا نزول بھی ہوا ہے اس مہینے کو ماہ تربیت بھی کہا جاتا ہے ماہ رمضان ذکر و اذکار کا موسم ہے اس مہینے میں قرآن کے نغمے گونجا کرتے ہیں مسلمانوں کو چاہیے کہ لہو و لعب اور دنیاوی خرافات سے دور رہ کر اس بابرکت مہینے کی رحمتوں اور برکتوں سے خوب مالا مال ہوں اپنے گناہوں سے توبہ کریں اور خدا کا قرب حاصل کریں رمضان المبارک کا مہینہ ملنے کا شکر ادا کریں،،
اسی مہینے میں ایک رات ایسی ہے جسے لیلۃ القدر کہا جاتا ہے یہ رات ہزار مہینوں سے افضل ہے اس کی فضیلت قرآن پاک میں بھی بیان کیگئی ہے اکیس، تئیس، پچیس، ستائیس اور انتیسویں شب میں سے کسی بھی شب میں شب قدر ہوسکتی ہے اور اسی وجہ سے رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف میں بیٹھنے کا حکم ہے کہ بندہ جب اعتکاف میں بیٹھے گا تو راتوں میں جاگ جاگ کر خدا کو یاد کرے گا تو وہ ضرور شب قدر والی رات پالیگا صرف کسی ایک رات کو مخصوص کرلینے سے شب قدر ملنے والی نہیں ہے خود نبی کریم علیہ الصلاۃ و التسليم رمضان المبارک کا آخری عشرہ مسجد نبی میں گذارا کرتے تھے،،
ماہ رمضان المبارک تین عشرے پر مشتمل ہے اور تینوں عشرے کی خصوصیات بہت ہی عظیم الشان ہیں پہلا عشرہ رحمت کا ہے، دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے اور تیسرا عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے یعنی بندہ اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوکر سربسجود ہوگا روکر اپنے گناہوں کی معافی مانگے گا توبہ استغفار کرے گا تو اللہ کی رحمت جوش میں اور جب رحمت الٰہی جوش میں آئیگی تو بندے پر اللہ کا فضل خاص ہوگا اور جب فضل خاص ہوگا تو بندے کو خدا قرب حاصل ہوگا اور جب خدا کا قرب حاصل ہوجائے گا تو بندے بیڑا پار ہوجائے گا پورا دن روزہ رکھنے کا بعد شام کو کھانے پینے کا سامان دسترخوان پر سجا کر بندہ مغرب کی اذان کا انتظار کرتا ہے وہ وقت بھی ہمارے لیے درس عبرت ہے کہ کل تک مغرب کی اذان ہوا کرتی تھی تو مساجد نمازیوں کا انتظار کرتی تھی اور آج ہم مغرب کی اذان کا انتظار کر رہے ہیں سوچ مسلماں سوچ کہیں روز قیامت سے قبل ہی مساجد اللہ کی بارگاہ میں شکایت نہ کردیں کہ اے اللہ تیرے بندوں نے میری تعمیر کیلئے پیسہ تو دیا، اینٹ اور پتھروں سے مجھے تعمیر تو کردیا، جھالر اور قمقموں سے مجھے سجا تو دیا، پنکھا اور اے سی لگا تو دیا لیکن جب تیرا مؤذن کانوں میں انگلیاں ڈال کر میرے میناروں پر کھڑا ہوکر تیری کبریائی اور تیری بڑائی بیان کیا، نماز کے لئے بلایا، کامیابی کی طرف بلایا تو تیری بندے نے لبیک نہیں کہا، تیرے بندوں کا جسم لرزہ براندام نہیں ہوا تیرا بندہ چار قدم چل کر مجھ تک نہیں آیا، میرے صحن میں بچھی ہوئی چٹائیوں پر آکر تیرے نام کا سجدہ نہیں کیا یعنی مسجد تو بنا لی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے، پر من اس کا پرانا پاپی برسوں میں نمازی بن نہ سکا آج ہمیں اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں مساجد کی فریاد ہی تو بارگاہ خدا وندی تک نہیں نہ پہنچ گئی کہ آج فی الحال مسجد کے دروازے بھی ہمارے لیے بند ہیں ہم چاہ کر بھی آج مسجد نہیں جاسکتے ہمیں  یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ روزہ صرف بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ احساس ہونا چاہئے کہ جس طرح آج ہم بھوکے پیاسے ہیں تو اللہ کے وہ بندے سالہا سال بھر پیٹ کھانا نہیں کھا پاتے تو ان کا گذر بسر کیسے ہوتا ہے اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ روزے کی حالت میں بھی اگر کسی کو غریبوں اور مسکینوں کی مصیبت کا خیال اور احساس نہ ہو تو اس کا روزہ قابل قبول نہیں ہے بلکہ اس کے منہ پر مار دیا جائے گا روزہ پورے جسم کا ہونا ضروری ہے ہاتھ اٹھے تو غریبوں مسکینوں اور یتیموں کی امداد کے لئے اٹھے، یعنی ہاتھ اللہ نے بخشا ہے سخاوت کیلئے، پاؤں بخشا ہے راہ صداقت کیلئے، آنکھ بخشا دیدار حقیقت کیلئے، دماغ بخشا ہے سوچنے سمجھنے اور صلاحیت کیلئے، دل دیا ہے تو ایمان کی دولت کیلئے، اپنے محبوب کی اور اپنی محبت کیلئے، زباں بخشا ہے اعلان حقانیت کیلئے غرضیکہ پورے جسم کا روزہ ہے زبان سے غیبت اور چغلی نہ کرے، کان سے شکوہ اور شکایت نہ سنے، کسی کمزور پر ہاتھ نہ اٹھائے، کسی کے ساتھ حق تلفی نہ کرے تجارت میں دھوکا نہ دے، امانت میں خیانت نہ کرے بس زبان سے جو بات بھی نکلے تو خدا کی خاطر،، دل جو دھڑکے تو خدا کی خاطر جب اتنا سب کچھ احساس ہوگا تو یقیناً دل اطیعو اللہ اور اطیعو الرسول سے لبریز ہوگا اور جب کسی مسلمان کے اندر یہ ساری خوبیاں ہوں گی تو وہ سمجھے گا کہ بنی الاسلام علی خمس اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے جس میں سے ایک رمضان المبارک کا روزہ بھی ہے جس کا اہتمام نہ کرنے والا گنہگار ہوگا اور انکار کرنے والا کافر ہوجائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم دیا ہے وہ فرض ہے اور فرض کا انکار کرنے والا دائرہ اسلام سے باہر ہے اللہ تبارک و تعالیٰ عالم اسلام کو روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین–

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×