سیاسی و سماجی

لانچنگ سے لنچنگ تک

یقینا ۲۲؍جولائی ۲۰۱۹ء ہندوستانیوںکے لئے خوش کن دن ہے کہ ’’چندریان ٹو‘‘ کوکامیابی کے ساتھ لانچ کیاگیا اوراس طرح ہندوستان ٹیکنالوجی کے میدان میں مزیداپنی دھاک جمانے میں کامیاب ہوگیا، یقیناً یہ قابل فخرکارنامہ ہے ، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہندوستان نے آج سے بہت پہلے ہی قدم جما دیا تھا اور دنیا کے اندر اپنی شناخت بنانے کے لئے جن طاقت ورہتھیاروں کی ضرورت اس وقت ہے، وہ سب اس ملک کے پاس ہے، جس کا سہرا یقینا ایسی شخصیت کو جاتی ہے، جس  نے اپنی پوری زندگی ان کے بنانے میں صرف کردی، یہ شخصیت ہیں اے پی جے عبدالکلام، چندریان ٹوکے لانچنگ کے موقع سے بعض لوگوں نے ان کوبھی خراج عقیدت پیش کیا اور ان کی عظمت کو سلام کیا اور یہ کیا بھی جانا چاہئے کہ وہی اصل ہیں ہمارے اس ملک کو ٹیکنالوجی  کے اعتبارسے ترقی کے اس منزل تک پہنچانے میں۔
چندریان ٹوکے کامیاب وشاندار لانچنگ پرصدر جمہوریۂ ہند اور وزیراعظم  نے ملک کے سائنس دانوں کو مبارک بادی دیتے ہوئے کہاکہ آج کی کامیاب لانچنگ پرہر ہندوستانی کوزبردست فخر ہے، وزیراعظم  نے یہ بھی کہا کہ یہ مشن ہندوستان کادل اورہندوستان کی آتماہے، انھوںنے یہ بھی کہاکہ چندریان ٹوجیسی کوششوں سے ہمارے روشن خیال نوجوانوں کو سائنس کے اعلی ریسرچ اور اختراع کی جانب بڑھنے کے لئے مزیدحوصلہ ملے گا، وزیراعظم نریندرمودی نے مزیدیہ بھی کہاکہ چندریان ٹوایک منفردمشن ہے؛ کیوں کہ یہ چاندکے جنوبی قطب پرکھوج کرے گا اور اسٹڈیز کا اہتمام کرے گا، ماضی کے کسی مشن میں ایسی کھوج نہیںکی گئی تھی، یہ مشن چاندکے بارے میںنئی معلومات فراہم کرے گا(روزنامہ منصف، ۲۳؍جولائی ۲۰۱۹ء)۔
چندریان ٹوکامشن بذات خودجس قدر خوش کن ہے، وزیراعظم کے بیانات اورپیغامات نے اس سے زیادہ اسے خوش کن بنادیاہے ؛ لیکن اس سے ہونے والے فائدے کی نسبت روشن خیال نوجوانوں کے ساتھ جوڑ کرکچھ اوربھی واضح کردیاہے ، ظاہرہے کہ ہمارے ملک کاہرنوجوان روشن خیال نہیںہے اورروشن خیال بن بھی نہیںسکتا؛ کیوںکہ وہ تعلیم یافتہ نہیں ہے، ۲۰۱۱ء کی رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی تعلیمی ۷۴فیصدہے؛ لیکن اس ۷۴ فیصدکے اندرکتنی سچائی ہے، ہم خوب اس سے واقف ہیں، ہمارے ملک کی ایک بڑی تعداد صرف ڈگری ہولڈر ہے، ان کے پاس ڈگریاں توضرور ہیں؛ لیکن تعلیم کی ت سے وہ واقف نہیں۔
تعلیم انسان کی سوچ کوبدلتی ہے، تعلیم تہذیب اورسلیقہ سکھاتی ہے، تعلیم معاشرہ کے اندرسنجیدگی لے کرآتی ہے اورسب سے بڑھ کرتعلیم انسان کوانسان بناتی ہے، اب غورکریں اپنے ملک پر، کیا لوگوں کی سوچ بدلی؟ کیا تہذیب آئی؟ کیامعاشرہ میں سنجیدگی پیدا ہوئی؟ کیا یہاں کے انسان انسان بنے؟ ان سارے سوالوںکے جواب ہمیں روزانہ کے اخبارکے مطالعہ سے مل جائے گا، دوسرے ایام کو جانے دیں، صرف اسی دن کا اخبار اٹھایئے، جس دن ہماراملک چندریان کی لانچنگ کی مسرت میں ڈوباہواتھا، اسی دن جھارکھنڈ کی سرزمین ماب لنچنگ میں نہایا ہوا تھا، صدرجمہوریہ ، وزیراعظم اوردوسرے سیاسی قائدین چندریان کی لانچنگ پرمبارکبادی پیش کررہے تھے؛ لیکن کیوںان کی زبانیں موب لنچنگ پرگنگ ہوگئیں؟
خبروں کے مطابق شنبہ اور اتوار کی درمیانی رات (۲۱؍جولائی) جھارکھنڈ کے ضلع گملہ میں چار معمر افراد بشمول دو خواتین کو جادو گر ہونے کے شبہ میں ان کے گھروں سے کھینچ کر نکالا گیا اور لاٹھیوں سے مارمار کر ہلاک کردیا گیا (روزنامہ منصف، ۲۳؍جولائی ۲۰۱۹ء)، یوں توموب لنچنگ کوئی بات نہیں ہے؛لیکن ۲۰۱۵ء کے بعدسے اس میں جس قدر تیزی آئی ہے، شاید اس سے پہلے کبھی نہیں رہی ہے، اب تک سو سے زائد افراد اس کی لپیٹ میں آچکے ہیں؛ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ توصدرجمہوریہ نے آج تک اس کے خلاف کوئی سخت بات کی ہے اورناہی وزیراعظم نے، نیز اس کے لئے آج تک کوئی ٹھوس کارروائی بھی نہیں کی گئی۔
اب سوال یہ ہے کہ چندریان کے کامیاب لانچنگ پرجس مسرت کااظہارکیاگیا،اسی قدر افسوس کااظہارموب لبچنگ پرکیوںآج تک نہیںکیاگیا؟ کیااس کی وجہ یہ ہے کہ لنچنگ کے شکاراقلیتی طبقات کے افرادہورہے ہیں؟ یا یہ ہے کہ اقتدارپربیٹھے افرادخودیہ چاہتے ہیں؟ کیوںکہ ماضی میںبھی ان کادامن خون کے دھبوںسے داغداررہاہے، اوریہ بات مسلم ہے کہ جس کوخون کاچسکا لگ جائے، وہ اس کے بغیرکیسے رہ سکتاہے؟آخرکیاوجہ ہے کہ موب لنچنگ کے خلاف کوئی ٹھوس قانون اب تک نہیںبنایاگیا؟حالاںکہ اس موب لنچنگ کی گونج اقوام متحدہ کے اجلاس میںبھی گونجا،اقتداراعلی توایسے ایشوز پربھی قانون بنانے سے نہیںچوک رہاہے، جس کی کوئی ضرورت ہی نہیں، توجس ایشو پر قانون بنانے کی ضرورت ہے، اس پرخاموشی کیوں؟
ہندوستان ایک گنگا جمنی تہذیب والاملک ہے، یہاںتمام ادیان ومذاہب کے ماننے والے لوگ صدیوں سے رہ رہے ہیں، ہرایک کارابطہ دوسرے سے استوارہے، ایک دوسرے کے خوشی وغم میںبھی شریک ہوتے ہیں، ہندوستان کواسی حالت میںرہنے دیناچاہئے، اگراس کوبدلنے کی کوشش کی جائے گی تویہ ملک خودبھی سالم نہیں رہ سکتا، تاریخ اس پرشاہدہے کہ اس ملک کی وسعت کہاں تک تھی؟ لیکن آپسی ناچاقی کی بدولت اب کہاںتک سمٹ آئی ہے؟ اس ملک کو اگر سالم رکھنا ہے توگنگا جمنی تہذیب کو باقی رکھنا ہوگا، جس کے لئے ضروری ہے کہ اس سوچ کو بدلا جائے، جواس وقت پنپ رہی ہے،چندریان کی لانچنگ پرہم بھی خوش ہیں؛ لیکن ہمیں یہاں کی موب لنچنگ پر بے حد افسوس ہے، کاش ! لنچنگ کاسفرچندریان کی لانچنگ پرختم ہوجاتا!!!

Mob: 8292017888

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×