سیاسی و سماجی

شکستہ ہوکے بھی ناقابل شکست ہوں میں

طاقت ور اورکمزوراور شریف وکمینہ کی لڑائی آج سے نہیں، وجودانسانیت کے بعدہی سے ہوتی چلی آرہی ہے اورطاقت ورنے ہمیشہ اپنے سے کمزورکواس طرح دبوچ لینے کی کوشش کی ہے، جیسے بازاور چیل جھوٹے پرندوں کودبوچ لینے کی کوشش کرتے ہیں، دنیامیں سب سے پہلے قتل کامعاملہ ہابیل کاپیش آیا، یہ دونوں حضرت آدم وحواعلیہماالسلام کے بیٹے تھے، حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت میں توالد وتناسل کاسلسلہ یوں تھاکہ ایک بطن سے ایک لڑکااورایک لڑکی کی پیدائش ہوتی تھی ، جن کی شادی دوسرے بطن کے لڑکے اورلڑکی سے ہوا کرتی تھی، قابیل کی بہن حسین تھی، جب کہ ہابیل کی بہن کچھ کم حسین تھی، جب ان کی شادی کی بات آئی توقابیل نے انکار کردیا، جس کے حل کے لئے حضرت آدم علیہ السلام نے اللہ کے حضورقربانی پیش کرنے کاحکم دیا، ہابیل کی قربانی مقبول ہوئی، اس کے باوجودبھی قابیل تیارنہ ہوا اور راستہ صاف کرنے کے لئے ہابیل کاقتل کردیا، یہ پہلاطاقت کااستعمال اورایک شریف النفس کے قتل کاواقعہ تھا، جس کی بنیادقابیل کے ذریعہ سے پڑی، جس کی غیرانسانی حرکت آج تک چلتی چلی آرہی ہے، طاقت ورنے کمزور اورکمینہ نے شریف کوقتل تو کر دیا؛ لیکن سرخ روئی کمزوراورشریف کوہی حاصل ہوئی۔
آج بھی پوری دنیامیں یہی رواج چل رہاہے، ہرطاقت وراپنے سے کمزور کا گلا گھونٹے کے درپے ہے، گزشتہ زمانہ میں بھی یہی چلتارہاہے؛ لیکن بالآخرہرمغرورکاسر نیچاہوتاہے ، نوح علیہ السلام کی قوم نے دھمکی دی کہ ’’اس دعوت سے باز آجاؤ، ورنہ سنگ سارکردئے جاؤگے‘‘، ابراہیم علیہ السلام کوبھی سنگ ساری کی دھمکی دی گئی، پھرنمرودنے شعلہ زن آگ میں انھیں بھنکوادیا؛ لیکن جسے اللہ رکھے، اسے کون چکھے؟ نارنمرود ٹھنڈی ہوگئی، لوط علیہ السلام کی قوم نے بھی دھمکی دی، شعیب علیہ السلام کی قوم نے بھی دھمکی دی، فرعون نے توحدہی کردی، نوزائیدہ لڑکوں کے قتل کاحکم دے دیا، جس کے نتیجہ میں سیکڑوں بچوں کودنیاکی زیبائش وآرائش دیکھنے سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتاردیاگیا، عیسی علیہ السلام کوبھی قتل کرنے کی کوشش کی گئی اور آخری نبی حضرت محمدﷺ کے ساتھ کیاکچھ نہیں کیاگیا؟ لیکن کیامغرورہمیشہ غرور کے منھ زورگھوڑے پرسوارہی رہے یاان کے گھوڑوں نے بھی ٹھوکرکھائی؟ کیاان کی طاقت کانشہ ہرن نہیں ہوا؟ کیاان کے مظالم کاپھریرالہراتاہی رہا؟ کیاوہ ہمیشہ عروج واقبال کی مسندوں پرہی براجمان رہے؟کیانقارخانہ میں ان کی ہی طورطی بولتی رہی؟
قیصر کاغرور بھی خاک میں مل گیا، کسری کاعروج بھی زمیں دوز ہوگیا، تاتاریوں کاحملہ بڑازوردارتھا؛ حتی کہ لوگوں کے ذہنوں میں اس قدرمرعوبیت بیٹھ چکی تھی کہ اگرکہہ دیاجاتاکہ تاتاری شکست کھاچکے ہیں تولوگ ماننے کوتیارنہیں ہوتے تھے؛ لیکن ان کاسورج بھی غروب ہوا، ہٹلراورمسولینی بھی ظلم کی ساری حدیں پھلانگ چکے تھے؛ لیکن انھیں بھی خاک میں ملناپڑا،ایک زمانہ میں سلطنت روس(Russian Empire) کادبدبہ قائم تھا؛ لیکن اس کے بھی ٹکڑے ٹکڑے ہوئے،بیسویں صدی میں تاریخ، معیشت، نظریات اورنیکنالوجی کومتاثرکرنے والاسویت یونین ، جس نے ہٹلرکوبھی شکست دی تھی؛ لیکن آخرکاراس کے بھی حصے بخرے ہوگئے، افریقی ممالک پربھی یورپی ممالک کاغاصبانہ قبضہ رہا؛ لیکن پھرقابضین کووہاں سے جاناپڑا، امریکہ کے سرخ ہندی(Red Indian) پر بھی ظلم کے پہاڑ توڑے گئے؛ لیکن ۱۹۶۰ء کے بعد سے بالآخراس میں تبدیلی آہی گئی،ایک زمانہ تک ہمارے ملک پرانگریزوں کاقبضہ رہا؛ لیکن ان کی طاقت کوبھی زوال آیا:
’’تری‘‘ عروج کی لکھی تھی داستاں جس میں
’’ترے‘‘زوال کاقصہ بھی اس کتاب میں’’ہے‘‘
اس وقت ہمارک ملک کی حالت بہت ہی نازک اورپرخطرہے، نازک تواس اعتبارسے کہ جس وبائی مرض کی آڑمیں ملک بندی کی گئی تھی، وہ مرض تورکنے کانام ہی نہیں لے رہاہے، ایک ایک دن میں پانچ پانچ ہزارسے زائد متاثرین کی تعداددکھائی جارہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ مزدوروں کی ہجرت، بے چارگی اوربے بسی کے ساتھ ان کی موت، خودکشی، پھرپولیس والوں کاان پربے تحاشاظلم وجبر، بھوکے پیاسے لوگ، نہ کام نہ دھندھا، کمائی کے نام پرپھوٹی کوڑی ہاتھ میں نہیں، بھوک کی شدت سے بچے بلک رہے ہیں، بیماری کے شکارلوگ تڑپ اورمررہے ہیں، ملک کی اقتصادی حالت اوندھے منھ جا پڑا ہے، یہ سب امورملک کی نازک حالت کاپتہ دیتے ہیں۔
پرخطراس لحاظ سے کہ ایک ایسے ملک کو، جوکلی طورپرجمہوری ہے، اس ملک کو تاناشاہ کے راستے پرڈال دیاگیاہے، اس ملک کوایک خاص طبقہ کی طرف منسوب کرنے کی سازش رچی جاچکی ہے، اس کے رہنے والے باشندوں کی آزادی سلب کرنے کی سعی کی جارہی ہے، کھانے پینے کی آزادی سے لے کررہنے سہنے اورچلنے پھرنے کی آزادی تک ، مذہبی امورمیں عمل درآمدگی سے لے کرپہننے اوڑھنے کی آزادی تک، ہرچیزکوسلب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اوران سب پرمستزاد بھید بھاؤ والے معاشرہ کوجنم دینااور ہندومسلم کے درمیان مذہبی عصبیت کی خلیج کاپیداکرناہے، جس کے نتیجہ میں بھائی چارگی بے چارگی اوراتحادانتشارکاشکارہوچکاہے، شکاربھی ایساکہ اکثریتی طبقہ کے لوگ اقلیتی طبقہ کے لوگوں کی شکل دیکھنے کے روادارنہیں، ظاہرہے کہ یہ چیزیں ملک کی سلامتی اورسالمیت کے لئے خطرناک ہیں، ملک کی ترقی کے لئے ضروری ہے کے ملک کے تمام باشندے ایک دوسرے کا احترام کریں، ایک دوسرے کے ساتھ سماجی اورمعاشی رابطے سے ہی ملک کی ترقی ہوتی ہے، اگرایک دوسرے کے ساتھ روابط استوارنہیں رہیں گے اورملک کے باشندوں کے دل میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت بھری رہے گی توملک کی ترقی رک جائے گی؛ بل کہ ملک خانہ جنگی کی طرف برھتا جائے گا۔
ہمارے ملک کااقتداربدقسمتی سے ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، جن کانظریہ ہی یہ ہے کہ اس جمہوری ملک کو’’ہندوراشٹر‘‘بنادیاجائے، اس کے لئے انھوں نے سو سال پہلے سے ہی پلاننگ کررکھی ہے اورراستہ ہموارکرنے کے لئے ان لوگوں نے گھر گھرجاکرمسلمانوں کے خلاف نفرت کی بیج بوئی ہے، پھرجب دوہزارچودہ میں برسراقتدار آئے تواقلیتوں کے خلاف کھل کرخون کی ہولی کھیلنے کاموقع انھیں ملا، ملک کی ترقی کی طرف کبھی انھوں نے توجہ ہی نہیں دی، ہمیشہ ایسے فیصلے کئے، جوملک کے لئے نقصان کاباعث رہے، نوٹ بندی کی وجہ سے ملک کوبڑامالی خسارہ جھیلناپڑا، پھر برسر اقتدار پارٹی سے تعلق رکھنے والے بعض بڑے لوگوں نے بڑے بڑے تجارتی قرضے بینکوں سے لئے اورملک سے رفوچکرہوگئے، جس کی وجہ سے بھی معیشت پرمارپڑی۔
جب دوسری مرتبہ یہ پارٹی اقتدارپرآئی تومسلم دشمنی میں بالکل کھل کرآگے آگئی، اپنے گرگوں کوجھوٹ دیدی کہ دریدہ دہنی کرتے رہیں، کوئی گرفت نہیں ہوگی، لنچنگ کرتے رہیں، کوئی پکڑنہیں ہوگئی، معمولی معمولی بہانہ بناکراقلیتی طبقہ کے لوگوں کاقتل کرتے رہیں، کوئی مواخذہ نہیں ہوگا، عدم مؤاخذہ کی بے خوفی کی وجہ سے ہی پال گھرکامعاملہ پیش آیا، مسلم دشمنی میں ایک ایساقانون بنایاگیا، جس کی وجہ سے مسلم قوم کی شہریت ہی کوداؤں پرلگادیاگیا، جسے سی اے اے کانام دیاگیا، اس قانون کے خلاف بڑے پیمانہ پراحتجاجات ہوئے، بالخصوص نوجوانوں نے ان میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیااوروہ بھی طلبہ وطالبات نے، اسی قانون کی مخالفت کے لئے شاہین باغ کاکامیاب دھرناشروع کیاگیا، جس کی گونج دنیاکے دیگرممالک میں بھی سنی گئی، اتفاق سے اس دھرنے کے ایک سوایک دن پوراہونے کے ساتھ ہی ملک بندی کاشاہی فرمان جاری ہوگیا، جس کے نتیجہ میں اس دھرنے کوختم کیاگیا۔
محسوس ایساہورہاہے کہ ملک بندی کوروناکی وجہ سے کی ہی نہیں گئی، یہی وجہ ہے کہ حکومت کی جانب سے اس کی طرف دس فیصد بھی توجہ نہیں دی گئی، پھر اپنی ناکامی کوچھپانے اورمسلمانوں کے خلاف لوگوں کی ذہن سازی کرنے کے لئے کورونا کومسلمانوں کے ساتھ جوڑدیاگیا؛ بل کہ حکومت کی نظرمیں ملک بندی کااصل مقصد شاہین باغوں کوختم کرنا اورسی اے اے کے مخالفین کوگرفتارکرناہے، یہی وجہ ہے کہ ملک بندی کے دوران چن چن کران لوگوں کوگرفتارکیاگیا، جوسی اے اے کے خلاف احتجاجی دھرنوں میں لیڈنگ کررہے تھے، جامعہ ملیہ ، جے این یو اورعلی گڑھ کے طلبہ وطالبات کوٹارگٹ کیاگیااورانھیں گرفتارکیاگیا، ملک بندی کے دوران حکومت کاجوکام نظرآیا، وہ یہی تھا، حکومت کو نہ تولوگوں کی بھک مری نظرآئی، نہ مزدوروں کی حالت زار، ان کوتوبے یارومددگارچھوڑدیاگیا، نہ انھیں ان کے گھرآنے دیاگیا، ناہی ان تک دانہ پانی پہنچایاگیا، سیکڑوں مزدور ہلاک ہوگئے، حکومت کواس کی پرواہ نہیں، اس کوتوبس یہ پرواہ ہے کہ مسلمانوں کوکس طرح خوف میں مبتلاکیاجائے، مسلمانوں کوکس طرح ڈرایااوردھمکایاجائے، ان کوکس طرح بے بس کیاجائے، اس کے لئے وہ ہرطرح کا حربہ استعمال کرنے کے لئے تیارہے، کوروناکوہندومسلم بھی اسی لئے بنایاگیا۔
لیکن شایداس کومعلوم نہیں کہ یہ وہی قوم ہے، جوانیس سواڑتالیس(1948)سے لے کرآج تک پتھروں کے ذریعہ سے اسرائیل جیسے ملک سے پنگا لے رہی ہے، یہ وہی قوم ہے، جس نے روس کوناکوں چنے چبوادئے، جس نے امریکہ کومعاہدہ پرمجبورکردیا، جوتاتاریوں کے حملے سے بھی ختم نہیں ہوئی؛بل کہ خودانھیں ہی اپنے اندر ضم کرلیا، یہ قوم زندہ قوم ہے، بس زندگی کاثبوت نہیں دے رہی ہے، اسی قوم نے اسی ملک میں دوسال تک انگریزوں سے زورآزمائی کی اوراصلاًانھیں کی وجہ سے انگریزملک چھوڑنے پرمجبور ہوئے، ان پرپے درپے حملے کرکے یہ نہ سوچاجائے کہ یہ قوم شکست خوردہ اورپست ہوچکی ہے؛ بل کہ حقیقت یہی ہے کہ یہ قوم اپنی تمام ترکمزوریوں کے باوجود آج بھی ناقابل شکست ہے، یہی وجہ ہے کہ پوری دنیااسی قوم کوٹاگرگٹ کرتی ہے :
یہ حادثات نہ سمجھیں ابھی کہ پست ہوں میں
شکستہ ہوکے بھی ناقابل شکست ہوں میں
jamiljh04@gmail.com / Mob:8292017888

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×