سیاسی و سماجی

کیاحق کے لئے لڑناملک سے غداری ہے؟

سولہویں صدی کی صبح ہندوستان جنت نشان کے لئے بدقسمتی کاسورج لئے ہوئے طلوع ہوئی، جب برطانوی ایسٹ انڈیاکمپنی (British East India)کویہاں سے تجارت کاپروانہ ملا، ابتداء ان کاتجارتی تعلق جاوااورسماتراوغیرہ سے تھا، جس کی وجہ سے انھوں نے 1613ء میں سورت میں اپنی پہلی کوٹھی قائم کی اوریہ گویاقبضہ کی پہلی بنیادتھی، پھرجب 1623ء میں ان علاقوں میں تجارت کرنے سے انھیں روک دیاگیا توانھوں نے پوری توجہ ہندوستان کی طرف مبذول کردی۔
کہنے کوتویہ ایک تجارتی کمپنی تھی؛ لیکن پس پردہ علاقائی تسخیرکاکام بھی کرتی تھی، یہی وجہ ہے کہ اس کمپنی کے پاس اپنی فوج تھی، جن لوگوں کامقصدصرف تجارت ہوتاہے، ان کی اپنی فوج کہاں ہوتی ہے؟ اورہندوستان کی بدقسمتی ہے کہ اس دورمیں اس کوایسے بادشاہ میسرہوئے، جوحکمرانی سے زیادہ اپنی عیش وعشرت کے دل دادہ تھے، نتیجہ یہ ہواکہ رفتہ رفتہ مختلف علاقوں میں باہرسے آئے ہوئے تاجرقابض ہوتے گئے اور1757ء میں جنگ پلاسی کے بعدان کاکنٹرول بنگال کے چوبیس پرگنوں پرہوگیا، جس کی وجہ سے ان کے حوصلے مضبوط اورمستحکم ہوتے چلے گئے، رفتہ رفتہ وہ اس پوزیشن میں آگئے کہ اپنی بات بزورطاقت منوائیں، بس پھرطاقت کے نشہ نے انھیں چورکردیااوروہ ہندوستانی باشندوں سے غلاموں کاساسلوک کرنے لگے، ان پرظلم وستم کے پہاڑتوڑنے لگے۔
اٹھارہ سوستاون (1857ء)تک انھوں نے ملک کے اکثرحصوں پرقبضہ جمالیاتھا،جس کے لئے انھوں خودہندوستانی باشندوں کابھی استعمال کیاتھا، اپنی فوج میں بھی انھیں جگہ دے رکھی تھی؛ لیکن دن بہ دن ملک کے مختلف علاقہ جات پرقبضہ کرنے کی وجہ سے عام لوگوں کے ذہنوں میں تشویش پیداہوچکی تھی اورکچھ لوگوں کے دلوں میں ان کے خلاف لاواپکنے لگاتھا، اس لاواکوبھڑکانے کاکام اس خیال نے کیاکہ بندوقوں میں استعمال ہونے والے کارتوس گائے اورخنزیرکی چربی سے آلودہ ہوتے ہیں، جن کوبندوقوں میں ڈالنے سے پہلے دانت سے کانٹناضروری ہوتاتھا،جوکہ ہندوومسلم قوم کے لئے مذہبی اعتبارسے گوارانہیں تھا، ان وجوہات کی بناپر1857ء میں انگریزوں کے خلاف ہندوستانی باشندوں کی طرف سے پہلی باقاعدہ مسلح جنگ تھی، جوعدم قیادت اوردشمن کے مقابلہ میں عدم منصوبہ بندی وآلات حرب وضرب کی کمی کے نتیجہ میں ناکام رہی ، اس ناکامی کوانگریزوں نے ’’غدر‘‘کانام دیا۔
یہاں رک کرسوچئے! آپ کاگھر، آپ کی زمین ، آپ کی جائدادیں اور آپ کے مال ومتاع پراگرکوئی قبضہ کرلے توآپ کیاکریں گے؟ بحالی کے لئے تگ ودو کریں گے یانہیں؟ اورآپ کی اس تگ ودوکوجائزسمجھاجائے گایاناجائز؟اورآپ کی اس تگ ودوکوکیاقابض شخص سے غداری کہلائے گا یاحق کے حصول کے لئے جدوجہد؟ پھراگر وہ قابض شخص آپ پردھونس بھی جمائے توآپ کب تک برداشت کریں گے؟ اورجب بے برداشت ہوکراپنے حقوق کے حصول کے لئے لڑیں گے اوراس قابض شخص کے خلاف آواز بلندکریں گے توکیایہ غداری کہلائے گا؟اورکیااس کے لئے آپ کوغداری کی سزادی جاسکتی ہے؟ ظاہرہے کہ دنیاکے کسی بھی قانون میں اپنے حق کے لئے کی گئی لڑائی کو غداری نہیں کہاجاتااورآج کی دنیامیں توبالکل بھی نہیں؛ کیوںکہ اقوام متحدہ کی جانب سے ۱۰؍دسمبر۱۹۴۸ء میں’’انسانی حقوق کاعالمی منشور‘‘منظورکرکے اس کاعام اعلان کیاگیاہے، جس کے دفعہ نمبر(۱۷)میں ہے: (۱) ہرانسان کوتنہایادوسرے سے مل کرجائدادرکھنے کاحق ہے۔(۲) کسی شخص کوزبردستی اس کی جائدادسے محروم نہیں کیاجائے گا، دفعہ نمبر (۱۸) میں ہے: ہرانسان کوآزادیٔ فکر، آزادیٔ ضمیر اورآزادیٔ مذہب کا پوراحق ہے، دفعہ نمبر(۱۹) میں ہے: ہرشخص کواپنی رائے رکھنے اوراظہاررائے کی آزادی کاحق حاصل ہے۔
یہ وہ حقوق ہیں، جوانسان کے بنیادی حق کے طورپراقوام متحدہ میں مظورشدہ ہیں، اب ظاہرہے کہ جس انسان سے اس کے یہ حقوق چھین لینے کی کوشش ہوگی تواسے اپنے ان حقوق کے دفاع کاپوراپوراحق حاصل ہوگا، اس کے لئے کی جانے والی کوشش حق کے حصول کی کوشش کہلائے گی، اس کے خلاف آوازبلندکرنے کی آزادی ہوگی اوراگرحق کے حصول کی اس لڑائی میں کوئی ساتھ دے تواسے دینے کاحق ہوگا اوراگراس ساتھ دینے والے کاشکریہ اداکیاجائے تووہ قابل مؤاخذہ نہیں گرداناجائے گا۔
اس وقت ہمارا ملک ہندوستان کوروناکی چپیٹ میں ہے، اس میں دن بہ دن اضافہ ہی ہوتاجارہاہے، متاثرین کی تعداد تھمنے کانام ہی نہیں لے رہی ہے، جس کی بنیادی وجہ اس بیماری سے بے توجہی ہے، زمینی حقیقت کے لحاظ سے اگردیکھاجائے توحکومت نے اس کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی ہے، اگرحکومت کی طرف سے اس کی روک تھام کے لئے سنجیدہ کوشش ہوتی تولاک ڈاؤن کی اس طویل مدت میں مرض پرقابوپالیاجاتا؛ لیکن سوال یہ ہے کہ پھرحکومت کیاکرہی ہے؟
اس کاواضح جواب یہ ہے کہ حکومت اپنے مشن کی تکمیل پرپوری تنددہی کے ساتھ لگی ہوئی ہے، اس کامشن ملک کوہندوراشٹربنانے کاہے، جس کے لئے اس نے اقتدار میں آنے کے بعدسے ہی کوششیں تیزکردی ہیں اوردوسرے دورانئے میں توتیزتر، اس کے لئے وہ مسلمانوں کوچارہ کے طورپراستعمال کررہی ہے اورکوئی ایساموقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی، جہاں اس مشن کامفادنظرآتاہو، اس مشن کی تکمیل کے لئے اس نے دوسرے دورانئے کے ابتدائی ایام میں ہی آناًفاناًکئی کام کئے، پھروزیراعظم صاحب کی وائرل ویڈیو میں ان کاموں کو ٹریلر قرار دیاگیا۔
ان میں سے ایک سی اے اے (CAA)کے نفاذکی کوشش ہے، اس قانون کاسب سے بڑامنفی پہلویہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے حکومت جسے چاہے گی، ملک کی شہریت دے گی اورجس سے چاہے گی ، دستاویزات کے نامکمل ہونے کابہانہ کرکے شہریت چھین لے گی، یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ اس قانون میں اگرچہ ہند ؤوں، سکھوں، بدھسٹوں، جینیوں، پارسیوں اورعیسائیوں کوشہریت دینے کی بات کی جارہی ہے؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کواپنی طرف مائل کرنے کایہ ایک فریب ہے؛ کیوں کہ ہندوستان کی دیگرقوموں کے بارے میں ان کی بنیادی آئیڈیالوجی یہ ہے کہ وہ یا تو ہندوکلچراورزبان اختیارکرلیں، ہندومذہب کی توقیراورعزت کریں اورہندونسل اورکلچرکی تعریف اور توصیف میں لگ جائیں یاپھرانھیں کوئی شہری حقوق نہ دئے جائیں؛ بل کہ انھیں پوری طرح ہندوراشٹرکے تابع ہوناچاہئے، چوں کہ مسلم قوم کی تہذیب وثقافت تمام قوموں سے الگ ہے؛ اس لئے اس کے کندھے پربندوق رکھ کردوسروں کوبھی برہمنیت قبول کرنے پرمجبوریاحق شہریت سے محروم کرنے کی پالیسی پرتیزی کے ساتھ عمل درآمدگی ہورہی ہے۔
اس قانون کے خلاف تحریک یونیورسٹیوں سے شروع ہوئی، جس میں جامعہ ملیہ اورعلی گڑھ کانام سرفہرست ہے، پھرباقاعدہ طورپر’’شاہین باغ‘‘احتجاجی پوئنٹ بناگیا اور اس کے نتیجہ میں پورا ملک جاگ اٹھا، اس وقت حکومت ان لوگوں کوچن چن کر اٹھا رہی ہے، جواس احتجاج میں پیش پیش تھے اورانھیں اٹھاہی نہیں رہی ہے؛ بل کہ ان پریو اے پی اے(Unlawful Activities (Prevention) Act)’’غیرقانونی سرگرمیاں(روک تھام)ایکٹ‘‘کے تحت مقدمہ درج کیاجاچکاہے، اسی طرح ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف روارکھے جانے والے سلوک کے بارے میں عرب کے بعض افرادکی طرف سے ردعمل ظاہرکرنے کے عمل کودرست قراردئے جانے کی بنیادپر دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹرظفرالاسلام کے خلاف بھی اسی کے تحت مقدمہ درج کیاگیاہے، سوال یہ ہے کہ حق کے حصول کی جدوجہدغیرقانونی سرگرمی کیسے ہوسکتی ہے؟ آپ کاسی اے اے لانا، جس میں اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت کونظراندازکردیناہی خوداس ملک کے دستورکی خلاف ورزی ہے، پھراس کوذات پات اورمذہب سے جوڑنابھی اس ملک کے دستورکی خلاف ورزی ہے، اسی کے ساتھ بین الاقوامی قانون کے بھی خلاف ہے، تواگرایسے قانون کے خلاف آوازبلندکی جائے تواسے غیرقانونی سرگرمی کیسے قرار دیاجاسکتا ہے؟
غیرقانونی سرگرمی بابری مسجدکوڈھادیناہے،جسے خودسپریم کورٹ نے تسلیم کیاہے،غیرقانونی سرگرمی مکہ مسجد، مالیگاؤں اورسمجھوتہ ایکس پریس میں دھماکہ کرناہے، ہندوستان جیسے ملک میں گجرات جیسے فسادات غیرقانونی سرگرمیوں میں شامل ہے، ان کے مجرمین کھلے سانڈ کی طرح کیوں پھررہے ہیں؟ ان کویواے پی اے کے تحت کیوں گرفتار نہیں کیاگیا؟ انھیں عہدے اورمناصب کیسے سونپ دئے گئے؟یوم جمہوریہ اوریوم آزادی کے موقع پر ترنگا کی جگہ بھگواجھنڈالہراناغیرقانونی سرگرمی ہے، اس عمل کےکرنے والوں کے خلاف کیوں یواے پی اے کے مقدمہ درج نہیں کیا گیا؟ ایک قوم کے خلاف بھڑکاؤبھاشن دیناایک جمہوری ملک میں غیرقانونی سرگرمی ہی ہے، ایسے لوگوں پرکیوں یواے پی اے کے تحت مقدمہ درج نہیں کیاجاتا؟ اس سے صاف ظاہرہے کہ حکومت غیرمنصف ہے، وہ اپنے مشن کو پورا کرنے میں چٹی ہوئی ہے، ناحق کے خلاف آواز بلندکرنے والے کودبانے کے کام میں لگی ہوئی ہے اوراس نے وہی طریقہ اختیار کر رکھا ہے، جو انگریزوں نے ہندوستانی باشندوں کے خلاف اختیار کر رکھا تھا؛ لیکن زمانہ جانتاہے کہ بے انصافی کے ساتھ حکومت بہت زیادہ دنوں تک نہیں چلتی۔jamiljh04@gmail.com/ Mob:8292017888

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×