سیاسی و سماجی

لاک ڈاؤن کے دوران سی اے اے مخالفین کی گرفتاریاں چہ معنی دارد؟

جب دوہزارانیس(2019)کے الیکشن کی تیاریاں زوروں پرتھیں، ہرپارٹی کے نیتااپنی پارٹی کوجیت دلانے کے لئے بڑھ چڑھ کردعوی کررہاتھا، ہرایک کے اپنے مدعے تھے، عوام کولبھانے کے لئے ہرایک کے پاس اپنے حربے تھے، کئی پارٹیاں سیکولرزم کی دہائی دے کرعوام سے ووٹ مانگ رہی تھیں، وہیں بھارتیہ جنتاپارٹی ہندومسلم کاکارڈ کھیل کراپناووٹ بٹورنے کی کوشش کررہی تھی،جو اس کاپراناکارڈ ہے اورجس کے بل بوتے پرآج تک نہ صرف وہ اپنی ساکھ برقراررکھے ہوئے ہے؛ بل کہ اسی کی بدولت آج برسراقتداربھی ہے، اس پارٹی کے صدرنے بھی کئی ریلیاں کیں، یہ وہی صدرہیں، جن کے خلاف کئی مقدمات درج تھے اورجواس سے قبل جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی جاچکے ہیں۔
اس پارٹی نے اپنے پہلے دورانیے میں کروڑوں روپے پھونک کرآسام میں این آرسی کرایا، جس کامقصدیہ تھاکہ وہاں سے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کوحق شہریت سے محروم کردیاجائے ؛ لیکن جب اس کاآخری رزلٹ سامنے آیاتووہ چونکادینے والاتھا، ۱۹؍لاکھ لوگوں کانام فہرست میں شامل نہیں تھا، جن میں سے اکثریت غیرمسلموں کی تھی، اب برسراقتداراورمسلمانوں کے تئیں کینہ رکھنے والی پارٹی کاماتھاٹھنکا، اب تواس کے اپنے ووٹ بینک کامسئلہ تھا، لہٰذا بہت سوچ سمجھ کرایک قانون سی اے اے (CAA)کے نام سے بناناطے کیاگیا، اسی قانون کودوہزارانیس کے الیکشن میں سب سے بڑامدعابناکرپیش کیاگیا، پارٹی کے صدرنے مختلف جگہوں کی ریلیوں میں ببانگ دہل یہ بات کہی کہ این آرسی نافذکرنے سے پہلے بھارتیہ جنتاپارٹی سی اے اے بل لانے جارہی ہے، جس کے حساب سے ان ہندؤوں، سکھوں، بدھسٹوں، جینیوں، پارسیوں اورعیسائیوں کوہندوستانی شہریت دی جائے گی،جوپاکستان، بنگلہ دیش اورافغانستان سے مذہبی طورپرستائے ہوئے آئے ہیں، اس فہرست سے قصداً مسلمانوں کوخارج کیاگیا، نیزیہ بات بھی مستقل دہرائی جاتی رہی کہ گھس پیٹھیوں چھوڑانہیں جائے گا(اشارہ مسلمانوں کی طرف تھا) اورشرناتھیوں کوبھیجانہیں جائے گا(اشارہ مذکورہ فہرست میں شامل غیرمسلموں کی طرف تھا)۔
بہرحال! الیکشن ہوااورحسب توقع بھارتیہ جنتاپارٹی کی جیت ہوئی، زمام کارسنبھالنے کے بعد۹؍دسمبر۲۰۱۹ء کولوک سبھا میں سی اے اے بل پیش کیاگیا اوراکثریت کے ووٹ سے ۱۰؍دسمبرکوپاس کردیاگیا، لوک سبھامیں اس کے پاس ہونے کے بعدمسلمانوں میں کئی قسم کے اندیشے پیداہوئے، ذہنی طورپروہ پریشان ہوئے کہ ان کے سامنے آسام کی مثال موجودتھی؛ لیکن اس کی مخالفت کے لئے سامنے نہیں آیاگیا، زبانی بہت کچھ کہاگیا، اخبارات میں خامہ فرسائی کی گئی؛ لیکن زمین پراترکرکام نہیں کیاگیا، اس تعلق سے اگرہم اپنے قائدین کوموردالزام ٹھہرائیں توبے جانہیں کہ جب ان کے سامنے آسام کی صورت حال مکمل طورپرواضح تھی توراجیہ سبھا کا انتظار کیوں کیا گیا؟ لوک سبھامیں پاس ہونے کے بعدہی کیوں نہیں سڑکوں پراترکراحتجاج درج کرایا گیا؟ بل کہ سی اے اے کی بات جب سے شروع ہوئی تھی، اسی وقت سے اس کے خلاف موچہ سنبھالنا چاہئے تھا، اس سے پہلے ہم نے کئی بڑے بڑے جلسے دین بچاؤ دستوربچاؤ اوردیش بچاؤ دستوربچاؤ وغیرہ کے ناموں سے کئے ہیں، اس موقع سے ایساکچھ کیوں نہیں کیاگیا؟ اگراس کے باوجود بل لوک سبھامیں پیش بھی کیاجاتاتوکم ازکم وہ صورت تودیکھنے کونہیں ملتی، جوبعد میں ملی۔
لیکن ہم مسلمانوں کوسیکولرپارٹیوں پرخودسے زیادہ بھروسہ ہے؛ حتیٰ کہ سیکولرپارٹیوں کوجتانے کے لئے اپنے بھائی بندوں کی پارٹیوں تک کوہرانے سے نہیں چوکتے؛ بل کہ اس کے خلاف زہرافشانی بھی بڑھ چڑھ کرکرتے ہیں، لوک سبھا میں بل پاس ہونے کے بعد۱۱؍دسمبرکوراجیہ سبھامیں پیش کیاگیا، امیدتھی کہ یہاں اس کی مخالفت کی جائے گی اور یہاں سے یہ بل پاس نہیں ہوپائے گا؛ لیکن جن پہ تکیہ تھا، وہی پتے ہوادے گئے، بھارتیہ جنتاپاٹی کے سارے ممبران موجودرہے، جب کہ سیکولرپارٹیوں کے بہت سارے ممبران غیر حاضررہے، پھرکچھ واک آوٹ بھی کرگئے، نتیجہ یہ ہواکہ یہاں بھی اکثریت کے ووٹ سے بل پاس ہوگیااور۱۲؍ دسمبر کو صدر جمہوریہ ہندکے دستخط کے بعدیہ قانون بن گیا۔
یہ قانون ہندوستان کے اس دستورکے مخالف تھا، جس میں واضح طورلکھا ہے کہ مملکت محض مذہب، نسل، ذات، جنس، مقام پیدائش یاان میں سے کسی بناپرکسی شہری کے خلاف امتیازنہیں برتے گی،جب کہ اس قانون کی روسے ہندوستان کی ایک بڑی اقلیت کے ساتھ امتیازبرتاگیاتھا، اس کانتیجہ یہ ہواکہ ملک کے گوشہ گوشہ سے اس کے خلاف آواز اٹھائی گئی، سب سے پہلے طلبہ نے اس کے خلاف آواز اٹھائی، جس میں جامعہ ملیہ اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ پیش پیش رہے، پھررفتہ رفتہ ملک کی تمام بڑی یونیورسٹیوں کے طلبہ ان کےساتھ شامل ہوتے گئے؛ لیکن افسوس کہ مسلمانوں کے قائدکہے جانے والوں کی طرف سے مکمل طورپرخاموشی چھائی رہی، شایدانھوں نے ذہنی طورپراس قانون کواس یقین کے ساتھ قبول کرلیاہو کہ چھٹنی کی فہرست سے وہ خارج رہیں گے۔
اس قانون کے خلاف ملک گیرپیمانہ میں احتجاجات بلندہونے لگے، مدارس کے طلبہ نے بھی آوازبلندکی اورمستقل طورپراحتجاج کرنے کے لئے ’’شاہین باغ‘‘ منتخب ہوگیا، جہاں ہزاروں کی تعدادمیں خواتین اس کالے قانون کے خلاف دھرنے پربیٹھنے لگیں، پھریہ شامین باغ ایک سیمبل بن گیااوراس کے طرز پرملک کے اس کونے سے لے کر اس کونے تک بیسیوں شاہین باغ بن گئے، جن کواکھاڑنے کے لئے حکومت نے سطح سے نیچے گرکرالٹے سیدھے ہتھکنڈے اپنائے ، کئی جگہوں میں توبذریعہ فورس ان شاہین باغوں کو اجاڑ دیا گیا؛ لیکن دہلی کاشاہین باغ اپنی جگہ پرنہ صرف قائم رہا؛ بل کہ وہ اورہرابھراہوتاگیا اورراہ روآتے گئے اورکارواں بنتاگیاکے مثل مسلمانوں کے علاوہ سکھ، دلت ، سادھو سنت اوردیگرغیرمسلم اقوام کی ایک بڑی تعدادنے اس میں شرکت کرکے شاہین باغ کو لہلہا دیا اور ایسا لہلہایا کہ دہلی کا الیکشن اسی کے نام سے لڑا گیا۔
یہ دھرنا اتنا عظیم تھا کہ اس کی گونج بیرون ملک بھی نہ صرف سنی گئی؛ بل کہ اوپرسے اس سلسلہ میں دباؤبھی ڈالا گیا، خود حکومت نے اسے اجاڑنے کی بہت کوشش کی، یہاں تک کہ اس پر حملے کئے گئے، گولیاں چلائی گئیں، آگ لگائے گئے اور دھمکیوں کی توبوچھاڑہونے لگی، کسی نے ’’دیش کے غداروں کو، گولی ماروسالوں کو‘‘کانعرہ لگایا، توکسی نے تاریخ طے کردی کہ اس تاریخ کوشاہین باغ کوخالی کروایاجائے گا، لہٰذا تمام ہندوبھائی شاہین باغ میں جمع ہوجائیں؛ لیکن وطن کادردرکھنے والے اوروالیوں کے پائے ثبات کویہ گیدڑبھبکیاں ڈگمگا نہیں پائیں؛ بالآخرایک منظم سازش کے ساتھ دہلی کے ایک علاقہ میں فسادبھڑکایاگیا؛ تاکہ یہ شاہین باغ بھی ڈرکربھاگ جائے؛ لیکن یہ بھی کارگرنہ ہوسکا۔
یہ دھرناایک سوایک دن تک برابرجاری رہااوراس کے نتیجہ میں اب سربدلنے لگے تھے؛ لیکن کوروناکی آمدنے پورانظام درہم برہم کردیا، اس کے نام پرملک بندی کردی گئی ، جوابھی تک جاری ہے؛ لیکن ملک بندی کے بعدکورناکی روک تھام کے بجائے حکومت نے سب سے پہلے شاہین باغ کی علامتوں کواکھاڑپھینکا؛ حالاں کہ اس ملک بندی کے دوران اس کی چنداں ضرورت نہیں تھی کہ ویسے بھی لوگ نہیں رہتے، پھرکوروناکی آڑمیں مسلمانوں کواس بری طریقہ سے بدنام کیاگیاکہ اب لوگ مسلم نام سن کرہی بدک جاتے ہیں، اس بدنامی کوسی اے اے سے جوڑکردیکھنے کی ضرورت ہے، سی اے اے کے خلاف بہت سارے غیرمسلم بھی مسلمانوں کے ہم دردبن گئے تھے، اس بدنامی کے ذریعہ ان کویہ باورکرایاگیا کہ مسلمانوں کے ہم دردمت بنو، وہ ملک کے وفادارنہیں ہیں، کورناکے پھیلاؤ کے اصل ذمہ دارتویہی ہیں، تم ان کی ہم دردی کیوں کررہے ہو؟
ملک بندی کے دوران دہلی پولیس نے ایک اورگھناؤنی سازش رچی اوراس کالے قانون کے خلاف پیش پیش رہنے والے لوگوں کوگرفتارکرنا شروع ہی نہیں کیا؛ بل کہ کئی کو گرفتار کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیج چکی ہے، ان میں مردبھی ہیں اورعورتیں بھی، مسلم بھی ہیں اورغیرمسلم بھی، طلبہ بھی ہیں اوراسکالربھی،جب کہ ان لوگوں کے خلاف کوئی کیس تک درج نہیں، جوآگ لگانے اورگولی مارنے کی بات کررہے تھے۔
ملک بندی کی دوران، جب کہ پوراملک بلک رہاہے، ایسے وقت میں ان کی گرفتاری ہمیں کچھ بتارہی ہے؛ لیکن کاش ! ہوش اورسنجیدگی کے ساتھ ہم اس کوسن سکتے اورسمجھ سکتے، ایسے موقع سے ان حضرات کوآگے آنے کی ضرورت ہے، جنھیں ہم رہبراوررہنمامانتے ہیں، جولوگ بے قصورلوگوں کوجیل سے نکلوانے میں پیش پیش رہتے ہیں، انھیں چاہئے کہ پورے دم خم کے ساتھ ان گرفتاریوں کے خلاف میدان میں آئیں، ٹھیک ہے ہم احتجاج میں ان کے ساتھ نہیں رہے؛ لیکن وہ توہماری طرف سے فرض کفایہ کی ادائے گی توکررہے تھے نا، پھرہم ان کوکیسے اس طرح بے بس چھوڑسکتے ہیں؟ اگرآج ہم چپ رہے تولاک ڈاؤن کے بعدشایدہی اس قانون کے خلاف آوازاٹھانے کے قابل رہ سکیں گے۔
jamiljh04@gmail.com / Mob:8292017888

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×