سیاسی و سماجی

ہوشیار! کہیں آپ پھر نشانہ پرتونہیں؟

جب سے بی جے پی برسر اقتدارآئی ہے، کوئی موقع ایساہاتھ سے جانے نہیں دیتی ہے، جس میں مسلمانوں کوپریشانی کاسامنانہ کرناپڑے، دوہزارچودہ کے بعدسے ملک کانقشہ بالکل بدلاہوانظرآتاہے، دوہزارچودہ کے ابتدائی دورمیں تین قومیں ان کاٹارگٹ تھیں، مسلمان، عیسائی اوردلت؛ لیکن پھر رفتہ رفتہ انھیں احساس ہواکہ ایک ساتھ تین تین دشمنوں سے مقابلہ ممکن نہیں، عیسائیوں سے تواس لئے نہیں کہ اوپرسے دباؤ پڑنے لگے گا اوردلت سے اس لئے نہیں کہ ان کی ایک بڑی تعدادہے اور دنگوں میں خصوصیت کے ساتھ انھیں سے کام لیاجاتاہے، اب اگرانھیں کودشمن بنالیاجائے توپھردنگوں میں اصل کام کون کرے گا؟
رہے مسلمان تویہ بے چارے ہیں، خودعرب ممالک ان کاساتھ نہیں دیتے تودوسرے کیادیں گے؟ پھریہ ایک زندہ قوم ہے، رگ حمیت کبھی بھی جاگ سکتی ہے اوراگر رگ حمیت جاگ گئی توان کامقابلہ نہیں کیاجاسکتا، انگریز نہیں کرپائے اورملک چھوڑکرجاناپڑا توہم کس کھیت کے مولی ہیں؟ پھراس وقت پوری دنیامیں یہی ایک قوم ایسی ہے، جس کے خلاف پوری دنیاکھڑی ہے تواگرہم بھی پہلے اسی کوٹاگٹ کریں اورہمارے ٹارگٹ کی وجہ سے اگریہ دب جاتے ہیں تودوسرے توبدرجۂ اولیٰ دب ہی جائیں گے؛ اس لئے پہلا ٹارگٹ مسلمانوں کوبنایاگیااورپوری توجہ ان کی طرف پھیردیاگیا، اس کے لئے انھوں نے دلتوں کوبھی اپنابھائی(اگرچہ کہ یہ صرف زبانی ہے)بنالیا۔
جب بی جے پی کادوسرادورشروع ہوا تومسلمانوں کی تئیں ان کی سوچ سورج کی روشنی کی طرح بالکل یک طرفہ طور پر ظاہر ہوئی، پہلے ہی مرحلہ میں تین طلاق بل کوپوری ڈھٹائی کے ساتھ پاس کیاگیا؛ حالاں کہ اس کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجات ہوئے، دستخطی مہم چلائی گئی اورکورٹ میں دستخط شدہ دستاویزات پیش بھی کئے گئے؛ لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات، بابری مسجد کامقدمہ ۱۹۹۳ء سے چل رہاتھااورخودسپریم کورٹ کے مطابق کوئی ایساثبوت پیش نہیں کیاجاسکا، جس سے یہ ثابت ہوتاکہ وہاں پہلے مندر تھی، اس کے باوجودیک طرف طورپروہ جگہ رام مندرکے لئے الاٹ کردی گئی، ملک کی آزادی کے وقت کشمیر ایک خودمختارریاست تھی، چندشرطورکے ساتھ اس نے اپنے آپ کوہندوستان میں ضم کیاتھا، جسے آرٹیکل تین سوسترکانام دیاگیا، اس آرٹیکل کوختم کردیاگیا، جب کہ اس کے علاوہ کئی ریاستوں کے خصوصی درجہ کوباقی رکھاگیا؛ بل کہ ناگالینڈ کوخصوصی درجہ دیاگیا، مسلمانوں کوپریشان کرنے کے لئے سی اے اے کاقانون بنایاگیااوراس کے لئے ملک کے تقریباًہرشہرمیں احتجاجات ہوتے رہے؛ بل کہ شاہین باغ میں، جوملک کی راجدھانی میںہی ہے، ایک سوایک دن تک اس کے خلاف احتجاج جاری رہا،شاہین کے باغ کے خلاف توعجیب وغریب ہتھکنڈے اختیارکئے گئے اوربالآخردہلی فسادکی شکل میں مخالفین کوکچھ سکون ملااوراب لاک ڈاؤن کی مدت میں ان طلبہ کوچن چن کرگرفتارکیاجارہاہے، جواس احتجاج میں پیش پیش تھے۔
دہلی فسادکاماسٹرمائنڈ طاہر کو قرار دیدیا گیا؛ حالاں کہ اس سے پہلے کپل مشراجیسے کئی لوگوں نے جوپٹرول ڈالنے کاکام کیاہے، ان پرآنچ تک نہیں آئی، وہ بالکل آزاد ہیں،اس تعلق سے ان پرکوئی ایف آئی آردرج نہیں، پھرکوروناکی آڑمیں جوشرانگیزی کی گئی، وہ کسی سے بھی پوشیدہ نہیں، اب تک کوروناکاساراٹھیکرامسلمانوںکے سرپرپھوڑاجا رہا ہے، اس تعلق سے میڈیانے جوکردارنبھایاہے، وہ نہایت ہی شرم ناک ہے؛ لیکن اس کے نتیجہ میں ہواکیا؟ کھلے عام راشن دوکان والے راشن دینے سے منع کررہے ہیں اورجہاں مسلمانوں کی راشن دوکان ہے، وہاںسے غیرمسلم خریداری نہیں کررہاہے، ٹھیلوں پرسبزی بیچنے والوں کوصرف اس لئے ماراجارہاہے کہ وہ مسلمان ہے اورصرف ماراہی نہیں جارہاہے؛ بل کہ دھمکی بھی دی جارہی ہے کہ آئندہ سبزی لے کر ہمارے علاقہ میں داخل مت ہونا، غیرمسلم سبزی والوں سے کہاجارہاہے کہ وہ اپنی دوکانوں میں بھگواجھنڈالگائیں یا پھربھگواتولیہ لپیٹیں، جس سے یہ معلوم ہوسکے گاکہ وہ ہندوہیں اورغیرمسلم انھیں کے پاس سے سبزی خریدیں گے؛ کیوں کہ میڈیاکی شرانگیزی کے نتیجہ میں عوام کویہ باورکرایاجارہاہے کہ مسلمان سبزیوں میں تھوک ڈال کربیچتے ہیں اوراس طرح وہ کوروناپھیلارہے ہیں۔
مسجدوں میں پانچ آدمی سے زیادہ نہیں جاسکتے، جمعہ کے لئے بھی نہیں، جب کہ دوسری طرف کئی جگہوں کی مندروں میں پوجاکی غرض سے سیکڑوں کی بھیڑ اکٹھی دیکھی گئی اوروہ بھی پولیس کی موجودگی میں، رمضان میں تراویح کے لئے جمع نہیں ہوسکتے، مسجدمیں توخیربالکل نہیں؛ لیکن گھروں میں بھی نہیں، سات آٹھ آدمیوں کی جماعت کوبھی گرفتار کیاگیااوران پرلاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کامقدمہ قائم کردیاگیا، جب کہ دووسری طرف بی جے پی نیتاکاجنم دن منایاجاتاہے اورہزاروںکی تعداد میں لوگ جمع ہوتے ہیں، پولیس بھی موجودہے؛ لیکن کوئی ڈنڈانہیں چلتا، یہ ہے ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ سلوک۔
اب کچھ دنوں سے ارباب اقتدارکی طرف سے بھائی چارہ والے بیانات آرہے ہیں اورہندوستان کی طرف سے بارباریہ باورکرایاجارہاہے کہ ہندوستان مسلمانوں کے لئے جنت ہے ، مسلمانوں کے سلسلہ میں جوبھی باتیں پہنچ رہی ہیں، وہ صرف پروپیگنڈاہیں، یہاں حالات نارمل ہیں اوراب توآرایس ایس سربراہ بھی یہ بول رہے ہیں کہ کسی بھیدبھاؤکے بغیرلوگوں کی مددکی جائے، ظاہرہے کہ یہ سب مسلمانوں کی ہمدردی میں نہیں کہاجارہاہے؛ بل کہ صرف اورصرف اپنے مفادکو سامنے رکھ کرکہاجارہاہے؛ کیوںکہ چنددنوں سے ہندوستانی مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کے رویہ کی خبریں عالم عرب میں پہنچیں تووہاں کے بعض صحافیوں اورسوشل ایکٹیوسٹوں کے ذریعہ شدید ردعمل ظاہر کیا گیا اوربعض کی طرف سے ایسے جملے ٹیوٹ کئے کہ اگرہم بھی یہاں سے غیرمسلموں کونکال دیں توکیاہوگا؟
اس وقت خلیج میں تقریباً ایک کروڑاکیس لاکھ غیرمسلم روزی روٹی کی تلاش میں مختلف کمپنیوں میں ہیں؛ بل کہ بعض توخود کمپنیاں چلاتے بھی ہیں، سوال انھیں کاہے؟ اگرویساہوگیا، جیساوہ کہہ رہے ہیںتوپھران کی نوکریوں کاکیاہوگا؟ اس لئے ان لوگوں کوخوش کرنے کی باتیں شروع ہوگئی ہیں؛ حالاں کہ ہندوستان کے زمینی حقائق بالکل ان کے قول کے خلاف ہے، دراصل یہ ان کی سیاسی چالیں ہیں اوراپنے مفاد کے لئے یہ گدھے کوبھی باپ کہنے سے نہیں چوکیں گے، اس کے ساتھ ساتھ ان کی کوشش یہ بھی ہوگی کہ کوئی ایسا موقع پھرسے ملے، اورمسلمانوں کوبدنام کیاجائے،اس کے لئے رمضان المبارک سے زیادہ اچھا موقع ہاتھ نہیں آسکتا۔
یہی وہ مہینہ ہے، جس میں مسلمان لباس وپوشاک اورکھانے پینے میں دریادلی کامظاہرہ کرتے ہیں اوراسی مہینہ میں مارواڑی لوگوں کواتنی کمائی ہوجاتی ہے، جتنی وہ سال بھرمیں نہیں کماپاتے، اوریہی وہ لوگ ہیں، جوبی جے پی کوفنڈنگ کرتے ہیں، اب کرونولوجی سمجھئے، سپرمارکیٹ اور مال کو چھوڑ کر بازار کھولنے کی اجازت دیدی گئی؛ تاکہ آپ جائیں اورخریداری کریں، اس میںایک تویہ ہوگادوکانداروں کوکمائی کاموقع ملے گااورپھروہ بی جے پی کو فنڈنگ کریں گے، دوسرایہ ہوگاکہ کوروناکی بڑھوتری کوپھرسے مسلمانوں کے سرڈال دیاجائے گا؛ کیوں کہ ڈیڑھ مہینے کے لاک ڈاؤن کے بعدبھی حکومت اس پرکنٹرول نہیں کرپارہی ہے اورمتاثرین کی تعدادچھبیس ہزارسے پارکرچکی ہے، حکومت اس تعلق سے دراصل سنجیدہ شروع ہی سے نہیں ہے، توآپ مسلمان عیدکی خریداری کے لئے جائیں گے تولامحالہ سوشل ڈسٹینسنگ کی خلاف ورزی ہوگی اوریہ وہ موقع ہے، جس کی تلاش میں حکومت بھی ہے، میڈیابھی اورآپ کے محافظ پولیس بھی، توخدارا! ہوشیاررہئے، جب عیدہی منانے کونہیں مل رہی تواس کی خریداری کرکے کیاکریں گے آپ؟ اس لئے ہوشیار ہوجایئے اورحکومت کے پھندے میں مت آیئے !!!jamiljh04@gmail.com / Mob:8292017888

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×