سیاسی و سماجی

لاک ڈاؤن کا دوسرا دور؛مرے کوماریں شاہ مدار

۱۴؍اپریل بروز منگل کوہمارے پی ایم نریندرمودی جی نے ایک بارپھرقوم سے خطاب کیااورکوروناکی اس مہاماری میں سابقہ دوخطابوں کے مقابلہ میںکچھ بہتراورSomething is better than nothingکے لحاظ سے قدرے غنیمت کیا، انھوں نے بتایاکہ کوروناکے بڑھتے خدشات کے تحت لاک ڈاؤن میں توسیع کی گئی ہے، جو۳؍مئی تک جاری رہے گا، انھوں نے خاص طورپر۷؍ امورپرعمل کرنے کی بات کہی ہے، جن کو’’سپت پدی فارمولہ‘‘کہاگیاہے، انھوں نے زوردیاکہ کوروناسے جنگ جیتنے کے لئے ان سات امورپرسختی کے ساتھ عمل کریں،وہ سات اموریہ ہیں:(۱) اپنے گھرکے بزرگوں اورجنھیں پرانی بیماریاں ہیں، ان کاخاص خیال رکھاجائے۔(۲)سوشل ڈسٹینسنگ کی لکشمن ریکھاپرپوری عمل کیاجائے اورفیس ماسک کاہرحال میں استعمال کریں۔(۳)بیماری کے خلاف مدافعتی مزاحمت کوبڑھانے کے لئے وزارت آیوش کی جانب سے دئے گئے ہدایات پرعمل کیاجائے اورگرم پانی کااستعمال کیاجائے۔(۴) اس بیماری کے پھیلاؤسے بچنے کے لئے ’’آروگیہ سیتو‘‘موبائل ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔ (۵) جتنا ہوسکے، غریب کنبوں کی ضرورت کاخیال رکھیں۔(۶)کمپنیوں کے مالکین سے کہاگیاکہ اپنے یہاں کام کرنے والوں کونوکریوں سے نہ نکالیں اوران کاخیال رکھیں۔(۷)کورونا سے لڑنے میں مدد گارڈاکٹروں، نرسوں، صفائی کرمیوں اورپولیس اہل کاروں کااحترام کریں۔
ان امورکودیکھنے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پہلے دوخطابات کے مقابلہ میں اب کی بارکچھ تیاری کرکے پی ایم صاحب آئے تھے اوریہ تیاری سابقہ دوتیاریوں کے مقابلہ میں قدرے غنیمت تھی، ورنہ سا بق میں توتالی، تھالی اوردیاکے لولی پاپ سے خوش کرگئے تھے اورکوئی کام کی بات نہیں ہوسکی تھی، اسی وقت یہ ذہن میں آیاتھاکہ کم از کم گرم پانی کے استعمال کی ہی بات کہہ دیتے توکچھ اصول ہوجاتا؛ لیکن منگل کے خطاب میںبھی صرف عوام سے مطالبہ تھا، حکومتی سطح پرکیاپیش رفت ہوئی، اس کاتذکرہ بس اتناسا تھا کہ ہم نے ایک لاکھ بیڈ تیارکرلئے ہیں؛ لیکن ملک کے باشندوں کی جوبنیادی ضرورتیں ہیں، اس سلسلہ میں کیاپیش رفت ہورہی ہے اورہوئی ہے؟ اس کاذکربالکل ندارد۔
جس وقت پہلے مرحلہ میں لاک ڈاؤن ہواتھا، اس کے چندہی دنوں کے بعددہلی کی سڑکوں میں ایک بھیڑاترآئی تھی، جوصرف اس لئے اتری تھی کہ ان کے پاس کھانے پینے کی سہولت باقی نہیں رہی تھی، بھوک سے تڑپ رہے تھے، جب کہ کچھ لوگ بیچ راستوں میں پھنس گئے تھے، وہ اپنے گھروں تک پہنچنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے اوربہت سوں نے سیکڑوں کیلومیٹرکافاصلہ پیادہ پاطے کیاتھا، کئی لوگوں نے بھوک کی شدت برداشت نہ کرسکنے کے نتیجہ میںپورے پریوارکے ساتھ مل کرخود کشی کرلی تھی، کئی خبریںایسی آئی تھیں، جہاں ماں نے خوداپنے ہاتھوں سے معصوم بچوں کی جان لے لی اوریہ سب بھوک کے نتیجہ میںکیاتھا۔
ہندوستان ایک ایساملک ہے، جہاں کی اکثریت مزدوری کے ذریعہ سے اپناپیٹ پالتی ہے، آپ گاؤں گاؤں جاکرجائزہ لیں گے توسرکاری اورپرائیویٹ نوکریاں آٹے میں نمک کے برابرملیں گی، یومیہ مزدوری کرکے پورے خاندان کاپیٹ پالنے والوں کاتعدادہرگاؤں میں زیادہ مل جائے گی، کچھ لوگ پھیری والے اورکچھ لوگ ٹھیلے والے مل جائیں گے اورپی ایم صاحب نے جب سے ان کوکاروبارمیں شمارکیاہے، اس وقت سے اس میں کچھ اوربھی اضافہ ہوگیاہے، یہ بھی روزانہ کماکرکھانے والے ہی لوگ ہیں،ملک بندی سے پہلے یہ بات ضرورسوچنے کی تھی کہ ایسے لوگوںکے مسائل کاحل کیاہوگا؟ ان کوپیٹ بھرنے کے لئے کھاناکہاںسے ملے گا؟
یقیناً کتھنی اورکرنی میں بڑافرق ہوتاہے اورہم تودوہزارچودہ سے ہی دیکھتے چلے آرہے ہیںکہ پی ایم صاحب نے عوام کے لئے جتنی باتیں کہی تھیں، ان میں سے شایدہی کوئی پوری ہوئی، بارباراس پرسوال اٹھائے گئے؛ لیکن کنی کاٹنے کے اتنے ماہرکہ سامنے والابس کھڑامنھ دیکھتارہ جاتاہے، مفت راشن اورکھانے کے انتظام کے تعلق سے یقینا اعلان کیاگیاتھا؛ لیکن حکومتی سطح سے کہیںزیادہ عوام نے اپنی جانب سے اس کام کوکیا، اوراس میںبھی وہ لوگ زیادہ پیش پیش رہے، جنھیں گولی مارنے کی بات کی جاتی رہی ہے، جن کو کورونابم بم بتایاجاتارہاہے، یقینا اس سے ان کے اندرکے خدمت کاجذبہ ہمیں معلوم ہوتاہے، جسے سلام اورسیلوٹ کیاجاناچاہئے؛ لیکن افسوس یہاں کی میڈیاپر! کہ خیرکے کاموں کونہیں دکھائیں گے، انھیںتوبس شرہی نظرآتاہے اوریہ توشایدصحبت کااثرہوتاہے، اسی لئے کہاجاتاہے: صحبت صالح تراصالح کند- صحبت طالع تراطالع کند۔
کل کے خطاب میں بھی پی ایم صاحب نے سارے کام کامطالبہ عوام ہی سے کیا، آپ کویہ کرناہے، آپ کووہ کرناہے اوربس ، انھوں نے اپنے اوپرلازم ذمہ داری کاذرابھی ذکرنہیں کیا، ہم حکومت کاساتھ دیتے ہیں، ہم اس کاتعاون کرتے ہیں، اس کوٹیکس اداکرتے ہیں، اوراس طرح ہم ہمیشہ ملک کاخزانہ بھرنے کاکام کرتے ہیں، دوہزارچودہ میںجب ہم نے مودی جی کوحکومت سونپی تھی، اس وقت ملک کاجی ڈی پی کیاتھی اورآج آپ کادوسرادورہے، اس میں اس ملک کی جی ڈی پی کہاںپہنچ گئی ہے؟ لوگ آگے کی جانب ترقی کرتے ہیں اورہم ترقی معکوس پرگامزن ہیں، پھرہمارانعرہ ہے کہ ہم ڈیجیٹل انڈیاکی جانب قدم بڑھارہے ہیں، یقیناً یہ ایک دھوکہ اورریگستان کاسراب ہے، جولوگوں کودکھایاجارہاہے۔
لاک ڈاؤن ٹوکے اعلان کے ساتھ ہی ممبئی میںایک بھیڑنکل آئی، گجرات وسورت وغیرہ کے علاوہ کئی جگہوں کی بھی یہی خبرہے، یہ بھیڑکیاچاہتی ہے؟ اس کوسننے کے لئے کوئی بھی تیارنہیں، یہ وہ بھیڑہے، جس کے پاس کام نہیں، جس کے پاس گھر، نہیں، جس کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں، ان چیزوں سے مجبورہوکر یہ بھیڑباہرنکل آئی ، اس کابس اتناسامطالبہ ہے کہ آپ جب ہمیں کھلا نہیں سکتے، آپ نے کام کاج ٹھپ کررکھاہے، رہائش کی دشواری دوورنہیں کرپارہے ہیں توبس اتنی سی مہربانی کیجئے کہ ہمیں اپنے گھرلوٹ جانے دیجئے، ہم وہاں کچھ نہ کچھ راستہ نکال لیںگے، ہمیں بھوکوں مت مرنے دیجئے، ہمیں خودکشی پرمت مجبورکیجئے، ہمیں جینے دیجئے، ہمیں بھی جینے کاحق ہے، ہم بھی انسان ہیں، جینا چاہتے ہیں، جس کے جواب میں انھیں لاٹھیاں ملتی ہیں، اب بھلاآپ ہی بتایئے کہ کیالاٹھی سے پیٹ بھرجائے گا؟وہ توپہلے سے ہی بھوک وپیاس، دووری ومہجوری اورخستہ حالی کی مارسے مرے ہوئے لوگ ہیں اورانھیں کوپھرلاٹھیوں سے ماراجارہاہے، سچ کہاہے: مرے کوماریں شاہ مدار۔
حکومت کی طرف سے بارباریہ کہاجارہاہے کہ جنگ آپ کوجیتنی ہے، اس سے ہمیںسمجھ لیناچاہئے مرادہم ہی ہیں، حکومت نہیں ہے، اسی لئے وہ کان میں تیل ڈال کرسورہی ہے، بس کبھی کبھی طفل تسلی دے کرہمیں بہلانے کی کوشش کرہی ہے، حکومت نے آج تک کتنے لوگوں کے ٹیسٹ کروائے؟ خبروں کے مطابق فی ملین آبادی میں صرف ۱۴۹؍ لوگوں کے ٹیسٹ ہورہے ہیں، ظاہرہے کہ آٹے میں نمک کی مثال ہوئی،کتنے کورنٹین کئے ہوئے ایسے ہیں، جن کوپانچ پانچ اورسات سات دن سے صرف بندکرکے رکھ دیاگیاہے، چیک اپ تک نہیں ہوا، کتنے ہارٹ اوردمہ کے مریضوں کوکوروناکے شبہ میں اٹھالیاگیااورانھیں ان کی پرانی بیماری کی دوابھی نہیں دی جارہی ہے، کتنے لوگوں کے رپورٹ ایک ہفتہ گزرجانے کے باوجودبھی نہیں ملے، اورپوچھے جانے پرانھیں ٹال دیاجاتاہے،آج بھی ڈاکٹرس اورنرسیں اپنی سہولیات کے لئے مانگ کرتے نظرآرہے ہیں، انھیں سہولیات کیوں مہیانہیں کرائے جارہے ہیں؟ آج بھی کتنے گھراشیائے خوردنی کے محتاج ہیں کیاان کے گھرتک اشیائے خوردنی پہنچے؟ آج بھی میڈیاکے ذریعہ یہی بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کی وجہ سے اس میں اضافہ ہورہاہے اوران کے ساتھ سلوک بھی ایساکیاجارہاہے، جیسے حقیقی مجرم ہوں یہ کورونالانے کے، حکومت دراصل مکمل طورناکام ہے ، اس ناکامی کوجنتاکے سرمنڈھناچاہتی ہے، اسی لئے صرف اورصرف لاک ڈاؤن سے کام چلارہی ہے۔
لاک ڈاؤن کے بعدجب ہلچل شروع ہوگی، اس وقت اوربھیانک منظرہوگا، نفسانفسی کاعالم ہوگا، لوگوں کے کام جھوٹ چکے ہوںگے، کام کرانے والوں کی جیبیں خالی ہوچکی ہوں گی، نقصان کابھگتان عوام ہی سے کیاجائے گا، حکومت اورلیڈران کوایک پیسے کانقصان نہیں ہوگا، حکومتی اہل کاراسی طرح ایک ملک سے دوسرے ملک کا سفرکرتے نظرآئیں گے، جس طرح پہلے کیاکرتے تھے، بس عوام کی تعدادکم ہونی شروع جائے گی؛ کیوں کہ کچھ توبھوک کی وجہ سے موت کی آغوش میںچلے جائیں گے، کتنوں کوبھوک چوری چکاری پر مجبورکرے گی اوروہ اس کی خاطرجان لینے سے بھی دریغ نہیں کریں گے اورکتنے مجبوریوں سے تنگ آکردرختوں اورپنکھوں میں جھولتے نظرآئیں گے۔
jamiljh04@gmail.com / Mob:8292017888

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×