سیاسی و سماجی

ہمارا اگلا قدم!

کوروناوائرس کی حقیقت کیاہے؟ کیایہ قدرتی وائرس ہے یامصنوعی؟ اگرمصنوعی ہے تواس کے تخلیق کارکون لوگ ہیں؟ اورکس وجہ سے اس کی تخلیق کی گئی ہے؟اوراگر قدرتی ہے توکیااس کے اندراتنی صلاحیت ہے کہ وہ لاکھوںلاکھ لوگوںکی جان لے سکے؟ یااس کے اندرچھیڑچھاڑکرکے یہ صلاحیت پیداکردی گئی ہے؟ یایہ ایساخطرناک تو نہیں؛ لیکن اپنی چودراہٹ برقراررکھنے کے لئے اس کوخطرناک بناکرپیش کیاگیاہے؟ یاایک جینیاتی ہتھیارہے، جس کااستعمال وہ لوگ کررہے ہیں، جوپوری دنیاپراپناکنٹرول چاہتے ہیں؟وغیرہ سوالات پربہت کچھ لکھاگیااورلکھاجارہاہے، مجھے اس سلسلہ میںبات نہیںکرنی ہے، مجھے توبات اس پرکرنی ہے کہ اس کی وجہ سے کئی قسم کے مسائل ہمارے پیداہوچکے ہیں، جن کاحل اگرابھی سے نہیںڈھونڈ ھ لیاگیاتوآگے ’’اللہ اللہ، خیرصلا‘‘والامعاملہ ہمارے ساتھ ہوسکتاہے۔
اس کوسمجھنے کے لئے ہمیں’’تبلیغی جماعت اورکورونا‘‘کے مسئلہ کودیکھناہوگاکہ کس طرح میڈیائی مکھیوںنے اپنی بھنبھناہٹ کے ذریعہ ملک کے تمام باشندوںکے کانوںتک یہ بات پھیلادی کہ اس کورونا کے پھیلاؤ کاذریعہ مسلمان ہیں، اب حالت بہ ایںجارسیدکہ شہرتوشہر، دیہی باشندے بھی یہی راگ الاپ رہے ہیں؛ حتی کہ دوکانوں اوربازاروںسے آگے بڑھ کرندیوںاورتالابوںکے گھاٹوںتک یہی گونج ہے، پھربڑے بوڑھوںاوربوڑھیوںسے آگے جاکربچوںکے ذہنوںمیںبھی یہی بات بٹھادی گئی ہے اوروہ بھی اپنے بچہ ساتھیوںسے کہتے ہیںکہ تم لوگوںکے ذریعہ سے ہمارے ملک میں کوروناپھیلاہے، یہ واقعی انتہائی خطرناک کھیل کھیلاگیاہے۔
اس عمل سے بھی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ آج تک ملک کی اعلیٰ قیادت کوکوروناکی خطرناکی کااحساس نہیںہے، یاپھرحقیقت میںکورونااتناخطرناک ہے ہی نہیں، جتناکہ بنا کرپیش کیاجارہاہے، ورنہ ایسے وقت میں، جب کہ پوری دنیااس وائرس کی زدمیںہے، بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک، جن کواپنے میڈیکل ریسرچ پرنازتھا اورجنھوںنے اس میدان میںنوبل پرائزبھی حاصل کیاہے، وہ بھی اپنے کوبے بس اورمجبورظاہرکررہے ہیں، ایسے وقت میںاس ملک کے اندرہندومسلم کاکارڈنہ کھیلاجاتا، پھرغورکرنے کی بات یہ بھی ہے کہ جس وقت یہ کارڈ کھیلاجارہاتھا، اس وقت ملک کے اس کونے سے لے کراس کونے تک، کیااپنے اورکیاغیر، کیالیفٹ اورکیارائٹ ، کسی کی طرف سے بھی اس کے خلاف آواز نہیںاٹھی، کسی نے بھی یہ نہیںکہاکہ اس مسئلہ کوہندومسلم نہ بنایاجائے، حتی کہ وہ پارٹیاں، جن کوہم سیکولراورمسلمانوںکی ہمدردسمجھتے ہیں، ان کے منھ میںمینڈک گھس گیاتھا، مسلمانوں نے جن پرتکیہ کیاتھا، وہی پتے ہوادینے لگے، الکٹرانک میڈیاسے لے کرپرنٹ میڈیاتک اورتمام سوشل میڈیازکابس ایک ہی موضوع تھا کہ کورونامسلمانوںکے ذریعہ پھیلاہے اوریہ ’’کوروناجہاد‘‘ہے، مسلمان کورونابم ہیں، جب تسلسل کے ساتھ کئی دن اسی پرٹیوٹرٹرینڈ کرایاگیاتوامریکہ نے جراء ت دکھائی اوراس نے اس کوغلط قراردیا، تب ملک کی کئی مایہ ناز ہستیوںنے بھی اپنے منھ کے مینڈک کونکال باہرکیااور جب معاملہ تھم گیاتواب پھراپنابھائی بنانے کے لئے کودپڑے اوربیان بازی شروع کردی کہ مسلمانوںکے ساتھ اس مسئلہ کوجوڑناغلط ہے۔
اس معاملہ سے ہمیںکئی چیزیںسمجھنے اورعملی طورپرکرنے کی ضرورت ہے:
۱- ہمیںیہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس ملک کانقشہ بالکل بدل چکاہے، اکثریتی طبقہ کے اکثرلوگوںکے ذہنوںمیںیہ بات بٹھادی گئی ہے مسلمان اس ملک کے لئے نقصان دہ ہیں، اس ملک کے خیرخواہ نہیںہیں، اس سے سی اے اے کوپوری تقویت ملے گی اورجوغیرمسلم آج تک اس مسئلہ میںہماراساتھ دے رہے تھے ، وہ بھی دست کش ہوجائیںگے، یہ لاک ڈاؤن کھلنے کے بعددواوردوچارکی طرح واضح ہوجائے گا، سی اے اے کے خلاف عملی طورپرسب سے زیادہ ہماراساتھ سکھ بھائیوںنے دیاتھا، ان کوبرگشتہ کرنے کے لئے پڑوسی مسلم ملک کے گردووارے پرحملہ کرایاگیا، جس سے یقیناً ان کادل ہمارے لئے میلاہوگیاہوگا، اورجن کادل ابھی صاف ہوگا، ان کے دل کومیلاکردیاجائے گا، اس طرح ہم اکیلے پڑجائیںگے پھرنقارخانے میںطوطی کی صداکون سنے گا؟اس لئے ہمیںلاک ڈاؤن کے موقع کافائدہ اٹھاتے ہوئے حکمت عملی طے کرلینی چاہئے کہ اب مسئلہ سے نمٹنے کے لئے ہمیںکیاکرناہوگا؟
۲- سی اے اے کی مخالف تحریک میںسب سے کامیاب اورمؤثرترین تحریک’’شاہین باغ‘‘تحریک تھی، لاک ڈاؤن کے بعدسب سے پہلاواراسی پرکیاگیااور تحریک کی علامتوںکواکھاڑپھینکاگیا، اس پہلے وارسے ہی ہمیںسمجھ لیناچاہئے تھا کہ لاک ڈاؤن کے پس پردہ کیاگل کھلے گا؛ لیکن ہم اتنے بھولے بھالے ہیںکہ کسی بھی معاملہ کوبالکل ہلکاسمجھ لیتے ہیں، یادرکھئے! ہماراذہن کتناہی صاف کیوںنہ ہو، ہمارے حریف کاذہن بالکل بھی صاف نہیںہے، وہ کوروناکے پس پردہ اپناکام بہت حدتک کرچکاہے اورمسلمانوںکاساتھ دینے والوںکے ذہن کوبھی کمال عیاری سے پھیرچکا ہے، حتی کہ اب اپنے بھی غیرہوگئے ہیںاورشایدوہ سمجھتے ہیںکہ اس طرح ہم دیش بھگت بن جائیںگے تو یہ ان کی خام خیالی ہے، قرآن میںیہودونصاریٰ کے تعلق سے کہاگیاہے کہ وہ تم سے اس وقت راضی نہ ہوںگے، جب تک کہ تم ان کے دین کونہ مان لو، یہاںبھی بالکل وہی مسئلہ ہے؛ بل کہ اس سے آگے بڑھ کرہے، اگرآپ ان کے دین کوبھی مان لیںگے نا، تب بھی وہ آپ کودیش بھگت نہیںمانیںگے؛ اس لئے ہم بھی اپنے ذہن میںیہ بات بٹھالیںکہ حریف کے تعلق سے کسی بھی غلط فہمی کے شکارنہیںہوںگے باوراس سے برادرانہ تعلق رکھتے ہوئے اپناحریف سمجھیںگے۔
۳- یہ با ت بھی یادرکھنے کی ہے کہ یہ دورتیروتفنگ اورہتھیارواسلحہ جات سے کہیںزیادہ دمیڈیائی جنگ لڑنے کادورہے، اس جنگ میںجیت ہمیشہ اس کی ہوتی ہے، جس کے پاس میڈیاہو، عراق وافغانستان وغیرہ کی جنگوںکے تعلق سے یہی مسئلہ رہاہے، جس کاواضح ثبوت بیس سالوںکے بعدامریکہ -افغانستان معاہدہ ہے؛ کیوںکہ اس کے ذریعہ سے لوگوںکے ذہنوںکوبدل دیاجاتاہے، اب دیکھئے ناکہ کس عیاری کے ساتھ خودمسلمانوںکے ایک بڑے طبقہ کوتبلیغی جماعت کے خلاف اکسادیاگیاہے، جس کااندازہ ان ویڈیوزسے لگاسکتے ہیں، جن میںایک مسلمان ہی خودتبلیغی جماعت کودہشت گردجماعت اورنہ جانے کیاکیاکہہ رہاہے؛ بل کہ اس پرپابندی کی بھی مانگ کرہاہے اورعجب نہیںکہ لاک ڈاؤن کے بعدایساہوبھی جائے؛ اس لئے ہمارے اہل ثروت اورقائدین کوفوری طورپراس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہمارااپناایک میڈیاہاؤس ہوناچاہئے، جس کے ذریعہ سے ہم دودھ کودودھ اورپانی کوپانی ہی لوگوںکے سامنے دکھاسکیں، اس سلسلہ میںیہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہ کسی پارٹی کاترجمان نہ ہو؛ بل کہ مکمل طورپرآزادہو۔
۴- آنے والی نسل کوبچانے کی ذمہ داری ہماری ہے اوراس کوبچانے کاسب سے اہم ذریعہ اس وقت تعلیم گاہیںہیںکہ مکمل طورپربچوںکی ذہن سازی وہیںہوتی ہے، اکبرالٰہ بادی نے اسی کی طرف’’افسوس کہ فرعون کوکالج کی نہ سوجھی‘‘کے ذریعہ اشارہ کیاہے، آج جب پورے ملک کاجائزہ لیںگے توآٹے میںنمک کے برابرہمارے اسکولس اورکالجزملیںگے، تقریباًبیس کروڑلوگوںکی ضرورت کے لئے یہ بالکل بھی کافی نہیں، ہم ہرسال جلسے جلوس میںکروڑوںروپے صرف کردیتے ہیں، اب ان جلسے جلوس کاوقت ختم ہوگیاہے، ان پرصرف ہونے والے روپیوںکواسکولس اورکالجز بنانے میںلگایئے، ملک کی موجودہ حالات میںاس کام کے لئے میرے خیال سے ان روپیوںکوبھی لگائے جانے کی اجازت ہونی چاہئے، جوسودکے نام سے ہماری بڑی بڑی رقمیںبینکوں میںپڑی ہوئی ہیں، تاہم اس عمل سے پہلے کسی معتبرزمانہ شناس فقیہ سے ضروررابطہ کرلیں، کچھ بھی ہو اس کی طرف توجہ دینا ازحدضروری ہے، تاہم ان پیسوںسے قائم کئے جانے والے ادارے ذاتی پراپرٹی کے طورپرنہ ہوں؛ بل کہ قوم کے نام وقف ہوں،پھراس کاتعلیمی معیار ملک کے اعلی تعلیمی معیارپررکھنے کی کوشش ہونی چاہئے۔
۵- یہ بات بھی اہم ہے کہ ہمیںمعاملات کی پیش بندی کرنی چاہئے اورمعاملہ کی پیش بندی یہ بھی ہے کہ ہم اپنے دشمن کوروکنے اوراس کے حملہ سے بچنے کی کارگر تدبیر کریں؛ تاکہ ہمیںکم سے کم نقصان اٹھاناپڑے، حضوراکرم ﷺ کو معلوم ہواکہ یہودخیبرکے ساتھ ساتھ غطفان بھی ہیںتوغطفانیوںکویہودخیبرکے ساتھ نہ ملنے دینے کی تدبیر اختیار کرتے ہوئے مقام رجیع میں خیمہ زن ہوئے، رجیع خیبروغطفان کے بیچوںبیچ کامقام ہے، جب غطفان کومعلوم ہواکہ ان کے حلیف یہودخیبرپریورش کے لئے اسلامی لشکرنکل چکی ہے تووہ ان کے تعاون کے لئے ہتھیاروںسے سج دھج کرنکلے؛ لیکن آگے بڑھ کرمعلوم ہوا کہ خودان کے اپنے گھرمحفوظ نہیںتووہ راستے ہی سے پلٹ آئے اوراس طرح اسلامی فوج نقصان اٹھانے سے بچ گئی،آج کے دورمیں ہمیںغزوۂ خیبرکے اس واقعہ سے سبق لیناچاہئے اور دشمن سے بچنے کی کارگرتدبیرکر نی چاہئے، آج ہم جس پستی اورجورجفاکے شکارہیں، اس کاایک نتیجہ معاملات کی پیش بندی نہ کرنابھی ہے، اگرہم نے اس کی طرف توجہ دی ہوتی توکوئی وجہ نہیںکہ دشمن ہماری طرف آنکھ اٹھاکربھی دیکھ سکتا، آزادی کے ستربہترسال گزرجانے کے باوجودبھی ہم نے اس کی طرف توجہ نہیںدی؛ لیکن توجہ دیناوقت کی ضرورت ہے۔
۶- ہمارے یہاںقیادت کاجنازہ نکل چکاہے، پارٹیاںاورتنظیمیںتوبہت ہیں؛ لیکن قیادت مفقود، کل حزب بمالدیہم فرحون(ہرجماعت اپنے آپ میںمگن ہے) والامسئلہ ہے، اس سے اوپراٹھنے کی ضرورت ہے، قیادت کے فقدان کانتیجہ ہے کہ زمینی سطح پرہماری کوئی حیثیت نہیں، یہاںیہ سوال ضرورپیداہوتاہے کہ یہ قیادت کا فقدان ہواکیسے؟ اس کاسیدھاجواب یہ ہے کہ افراط وتفریط کے نتیجہ میں، اعتدال کوچھوڑدینے کے نتیجہ میں، اگرآج بھی ہرفردہرمسئلہ میںاعتدال اورمیانہ روی کادامن پکڑلے تویہ فقدان ختم ہوسکتاہے، پھرہمیںسیاسی اوردینی دونوںطرح کی قیادت کی ضرورت ہے؛ لیکن مسئلہ وہی ہے کہ معتدل مزاج لوگوںکوہی یہ قیادت سونپی جائے، خواہ اس کاتعلق کسی بھی مشرب سے ہو، اگرہم نے اپنی کھوئی ہوئی قیادت حاصل کرلی توہماری بھی طوطی بول سکتی ہے۔
مذکورہ باتوںکی طرف اگرتوجہ نہ دی گئی اورہماری حالت وہی رہی اورہم ’’ملاکوہے جوہندمیںسجدہ کی اجازت- وہ سمجھتاہے کہ اسلام ہے آزاد‘‘پرہی عمل پیرارہے توپھریہودی نسل سے تعلق رکھنے والوںکی شاطرانہ چال سے ہم نہیںبچ سکتے۔jamiljh04@gmail.com/ Mob:8292017888

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×