سیاسی و سماجی
خوشی ہو عید کی کیوں کرکہ سوگوار ہوں میں
’’روزے توختم ہوگئے باصدغم وملال‘‘اور’’اب ہم منتظرشوق ہلال عید ہیں‘‘، جوافق کی سپیدی کوچیرکربس نکلاہی چاہتاہے؛ لیکن اس سال عید کے معنی نہیں پائے جارہے ہیں، چہرے مہرے پروہ دمک نہیں، جوگزشتہ سالوں میں پائی جاتی تھی، حلیہ بشرمیں وہ چمک نہیں، جوپیوستہ سالوں میں دیکھنے کوملتی تھی، آتورہی ہے عید؛ لیکن ماتمی لباس پہن کر، آتورہی ہے عید؛ لیکن غم واندوہ کے ساتھ، آتورہی ہے عید؛ لیکن بغیرکسی چہل پہل کے، آتورہی ہے عید؛ لیکن بغیرتام جھام کے ، آتورہی ہے عید؛ لیکن اس گھرکے آنگن میں اترنے کی طرح ، جس کے یہاں شادی کی ڈولی میت کے جنازہ میں تبدیل ہوگیا ہو، ہے توکہنے کومیٹھی عید؛ لیکن اس کے اندرنمکینیت بھی نہیں پائی جارہی ہے؛ بل کہ مریض کے کھانے کی طرح پھیکی عیدہے۔
اوریہ عیدپھیکی کیوں نہ ہو؟یہاں تو کوروناکی مہاماری ہے،اس کی وجہ سے ملک بندی ہے، تقریباً دومہینے سے ہرفردبشرگھرکی چہاردیواری میں حبس بے جاکاشکارہے، رزق کے ذرائع مسدودہیں، بھوک اورپیاس کی وجہ سے لوگ دم توڑرہے ہیں، دانہ دنکا نہ ہونے کی وجہ سے لوگ خودکشی کررہے ہیں، ہزاروں کیلومیٹرکاسفرپیادہ پاچلنے کی وجہ سے ادھ مواہوچکے ہیں،ان کے پیروں پرآبلہ پڑچکے ہیں، رستے خون اوربہتے پیپ کے ساتھ وہ کشاں کشاں اپنے ٹھکانوں کی طرف چلے جارہے ہیں، تھکے ہارے مزدورٹرین کی پٹریوں میں آرام کرتے ہوئے اپنی شہ رگ کٹواچکے ہیں، لاریوں میں سفر کرتے ہوئے اپنی جان گنوابیٹھے ہیں، پولیس کے ڈنڈوں کی مارسہ رہے ہیں، مردہ جسموں کواپنے کندھوں پرڈھونے پرمجبورہیں، ایسے عیدمیٹھی ہونے کے باوجودپھیکی ہی تورہے گی۔
کورناکومسلمانوں کے ساتھ جوڑکران کاٹارچرکیاگیا، انھیں گھروں سے اس طرح اٹھایاگیا، جیسے وہ خطرناک مجرم ہوں، ان کے پاسپورٹ ضبط کرلئے گئے، انھیں ماراپیٹاگیا، ان کے علاج سے دست کشی کی گئی ، ان کی دوکانوں کابائیکاٹ کیاگیا، انھیں سامان دینے سے منع کیاگیا، اکثریتی طبقہ کی طرف سے ہراسانی جھیلنی پڑی، کورونا کے پھیلاؤ کامجرم بنایاگیا، ان کے ساتھ اچھوتوں والاسلوک کیاگیا، ایسے میں میٹھی عید پھیکی نہیں ہوگی توکیاہوگی؟
مسلمانوں سے مذہب کی آزادی کوچھین نے کی کوشش کی گئی ، مذہب میں مداخلت کی گئی اورباوجوداحتجاج کے طلاق ثلاثہ بل پیش کیاگیااورنافذالعمل قانون بنادیاگیا، سی اے اے کادستوربناکران کے سروں پرننگی تلوارلٹکادی گئی، ایک سوایک دن تک احتجاج کرنے کے باوجوداس میں کسی طرح کی کوئی ترمیم نہیں کی گئی، ملک بندی کے دوران سی اے اے کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں سے بہوتوں کوتوجیل میں ٹھونس دیاگیا، حالاں کہ کوروناکی مہاماری میں قیدیوں کوجیل خانوں سے نکالنے کی تگ ودوچل رہی تھی، حتی کہ تین ماہ کی حاملہ صفورازرگرکوبھی بخشانہیں گیااوراسے تہاڑجیل میں ڈال دیاگیا، اس کے حمل پرطنزاورطعنے کسے گئے، اس کے حمل کومشکوک قراردینے کی ناپاک کوشش کرکے اسے بدچلن قراردیاگیا، ایسے میں عیدکی حقیقی خوشیاں کہاں سے میسرہوسکتی ہیں؟
مسلمانوں کی پانچ سوسالہ قدیم مسجدکواس اعتراف کے باوجودبزورطاقت مسلمانوں سے چھین لیاگیاکہ وہ کسی مندرکوتوڑکرنہیں بنائی گئی تھی، مسجد ڈھانے والوں کومجرم توماناگیا؛ لیکن انھیں سزانہیں دی گئی، وہ آج بھی کھلے سانڈ کی طرح گھوم رہے ہیں، جامعہ ملیہ میں گولی بارودبرسائی گئی اورطلبہ پرظلم کیاگیا، گولیوں کی زدمیں آکرکئی طلبہ شہیدبھی ہوگئے، کئی زخمی بھی ہوئے، لڑکیوں کے ساتھ زیادتی کی گئی، انھیں بھی ماراپیٹااورگھسیٹاگیا، ایسے میں عیدکی خوشی کیسے منائی جاسکتی ہے؟
طلبہ کی تعلیمی فیس میں بے تحاشہ اضافہ کردیاگیااوراس طرح ان طلبہ کوتعلیم کے حق سے محروم کرنے کی سازش کی گئی، جوغریب اورمزدورطبقہ سے تعلق رکھتے ہیں، اس پرجب احتجاج کیاگیاتوحکومت نے اپنے پالے ہوئے غنڈوں سے ان پرحملہ کروایا، انھیں ہاسٹل کے اندرگھسنے کی عام اجازت دیدی گئی اورراجدھانی میں ہونے کے باوجوداس وقت تک پولیس کونہیں آنے دیاگیا، جب تک کہ وہ غنڈے مارپیٹ کے عمل کوانجام دے کرنکل نہیں گئے، ان میں سے بعض غنڈوں کی نشاندہی بھی سوشل میڈیازکے ذریعہ سے کی گئی؛ لیکن کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی گئی، ایسے میں فرحت وانبساط والی عید کیسے ہوسکتی ہے؟
راجدھانی میں، جہاں تمام وزراء موجودرہتے ہیں، جہاں پولیس ہیڈکواٹرہے، جہاں پولیس کی پہرہ داری میں چوکسی بھی زیادہ ہے، وہاں فرقہ وارانہ فسادات بھڑکائے گئے اورگجرات ماڈل کواپنایاگیا، گھروں کوجلایاگیا، عورتوں کی عزتیں لوٹی گئیں، انھیں قتل کیاگیا، زندہ انھیں جلایاگیا، دوکانوں کوبھی نذرآتش کیاگیا، عبادت گاہوں کونقصان پہنچایاگیا، درگاہوں کوبھونک دیاگیا، کتنے بچوں کویتیم کردیاگیا، کتنی عورتوں کوبیوہ بنادیاگیااوریہ سب ایک پلان کے تحت کیاگیا، ایسے میں عیدکی مسرت کاتصوربھی کیاجاسکتاہے کیا؟
مسلم قوم کے ساتھ مسلسل ذہنی اذیت کامعاملہ کیاجارہاہے، وزیراعظم خود کپڑوں سے پہچاننے کی بات کرتے ہیں، وزیرداخلہ اشارتاً وکنایتاً ’’گھس پیٹھئے‘‘کے لفظ سے یادکرتے ہیں، ان کے ایم پی اورایم ایل اسے ’’غدار‘‘کے خطاب سے نوازکران کے جذبات کوٹھیس اوران کے احساسات کومجروح کرتے ہیں اوران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی، عدالت میں جاکرمایوس لوٹتے ہیں کہ انصاف کی دیوی نے ان سے مکمل طورپرآنکھیں بند کرلی ہیں، بی جے پی اپنے کاری کرتاان لوگوں کوچنتی ہے، جوانھیں گالی گلوج کرسکے، بپیتا نے توانتہائی غلیظ لفظ’’سور‘‘کابھی استعمال کیاہے؛ لیکن اس قوم کے خلاف زہراگلنے والوں پرکسی قسم کی کارروائی نہیں ہوتی، ارنب گوسوامی جیسے شخص کے مقدمہ پر بھی تاریخ پڑتی جارہی ہے، پھردیپک وکیل کی پٹائی کے بعدیہ کہناکہ مسلمان سمجھ کرتمہیں ماردیاگیا، بہت کچھ کہہ رہاہے، ایسے میں چہروں پرخوشی کی چمک کیسے آسکتی ہے؟
یہ وہی ملک ہے ، جہاں طبقاتی نظام رائج تھا، برہمن اپنے علاوہ کوذات پات میں بانٹ کراپنی خدمت کے لئے چن رکھتے تھے، جہاں عورتوں کوشوہرکی موت کے بعدزندہ شوہرکی جلتی چتامیں جل جاناپڑتاتھا، جہاں قدرتی خزانے توبہت تھے؛ لیکن صحیح ڈھنگ سے ان کے استعمال کرنے والے نہیں تھے، زمینیں عام تھیں، کوئی بھی کہیں بھی جاکر آبادہوسکتاتھا، جہاں طاوقت وراپنے سے کمزوروں پرہمیشہ چڑھارہتاتھا، ان کی زندگی کتوں جیسی تھی، اس ملک میں مسلمان آئے ، ذات پات کے نظام کوختم کیا، ستی کی رسم کوبراسمجھا، قدرتی خزانوں کاصحیح استعمال کرکے اس ملک کو’’سونے کی چڑیا‘‘بنادیا، زمینوں کی رجسٹری کانظام قائم کیا، ایسے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ بدبختانہ سلوک کیا جارہا ہے، انھیں گائے کانام پرقتل کیاجارہاہے، داڑھی ٹوپی دیکھ کرانھیں ماردیاجارہاہے، مسلم ہونے کی وجہ سے لنچنگ کردی جارہی ہے، حتی کے لوک ڈاؤن کے دوران بھی نہیں بخشاگیا، ایسے میں عید میٹھی کیسے ہوسکتی ہے؟ کتنوں ہی شکرڈال دی جائے ؛ لیکن یہ عید پھیکی ہی رہے گی، عیدکی خوشی کیسے منائی جاسکتی ہے؟ یہاں توسوگواری کاہی عالم ہے، یہاں توماتم ہی ماتم ہے، بس اب توعید میں بھی فصل بہارکویادکرکے رونے کے سواکچھ بچا نہیں:
خزاں میں مجھ کورلاتی ہے یاد فصل بہار
خوشی ہوعیدکی کیوں کرکہ سوگوارہوں میں
jamiljh04@gmail.com / Mob: 8292017888