
اندور میں مسلم نوجوانوں نے ادا کی دُرگا کی آخری رسومات‘ نفرت کے سوداگروں کے منہ پر طمانچہ
اندور: 6؍اپریل (نیوز 18) اندور کے مسلم نوجوانوں نے غیر مسلم خاتون دُرگا کی آخری رسومات ادا کرکے محبتوں کے مہاساگر کو بنانے کا کام کیا ہے۔ اس وقت پورے ملک میں نفرت کی فضائیں عام ہیں حالانکہ جنت نشاں ہندوستاں کو مشترکہ تہذیب کا ملک کہا جاتا ہے۔ مشترکہ تہذیب صرف یہاں کے قول کا حصہ نہیں ہے ، بلکہ یہاں کے ذرے ذرے میں اس کا عکس نمایاں ہے ۔ مدھیہ پریش میں اس مشترکہ تہذیب کی ایک انوکھی جھلک دیکھنے کو ملی ہے ۔ اندور ساؤتھ توڑا جونا گنیش مندر کے پاس درگا نامی خاتون رہتی تھی ۔ درگا کئی دنوں سے بیمار تھی ۔ درگا اندور میں اکیلی رہتی تھی ، اس کے دو بیٹے ہیں اور دونوں مزدوری کے لئے شہر سے باہر گئے تھے ۔ لاک ڈاؤن میں درگا کی بیماری زیادہ بڑھی ، تو مقامی لوگوں نے درگا کے بچوں کو اس کی خبر کی ۔ درگا کے بیٹے آئے بھی ، لیکن اس سے پہلے درگا دنیا سے جا چکی تھی ۔ کورونا وائرس کے بڑھتے خطرات کے بیچ لاک ڈاؤن کی مشکلات تو اپنی جگہ ہیں ۔ لاک ڈاؤن کی مشکلات میں عام انسان تو متاثر ہے ہی صاحب ثروت لوگ بھی اس کے خوف سے باہر نکلنے سے قاصر ہیں ۔ درگا کے بیٹوں پر ماں کے بچھڑنے کا غم اپنی جگہ تو تھا ہی لیکن ماں کی آخری رسومات کے غم نے انہیں اور نڈھال کردیا ۔ جب مقامی مسلمانوں کو اس بارے میں معلوم ہوا تو درگا کی آخری رسومات کو ادا کرنے کے لئے ایک نہیں بلکہ کئی مسلمان نکل کر سامنے آئے ۔ محمد اسلم ، عقیل احمد ، مدثر، عمران ، رشید ، سراج اور ابراہیم قریشی نے نہ صرف درگا کے بچوں کو آخری رسومات کے لئے رقم پیش کی ، بلکہ درگا کو اپنے کندھوں پرمکتی دھام پہنچایا۔ یہی نہیں تب تک وہاں موجود رہے جب تک درگا کی آخری رسومات ادا نہیں ہو گئیں ۔ ملک میں اپنے ذاتی مفاد کے لئے نفرت کی سیاست کرنے والے چند لوگ ہندوستان کی مشترکہ تہذیب کے اس تانے بانے کو کبھی ختم نہیں کر سکتے ہیں ۔
ماشاءاللہ