افکار عالم

افغانستان میں خواتین کی اعلی تعلیم پر پابندی کے بعد ایک چوتھائی جامعات پر لگ سکتا ہے تالا

افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے طالبات پرثانوی اوراعلیٰ تعلیم پرپابندی کے بعدایک چوتھائی نجی جامعات کی بندش کا خطرہ ہے۔ طالبان حکومت نے گذشتہ ہفتے خواتین کوفوری طور پریونیورسٹیوں میں داخلے سے روک دیا تھا، جس سے اگست 2021 میں ان کے اقتدار پرقابض ہونے کے بعدخواتین اور لڑکیوں کے حقوق اورآزادیوں کو ایک اوردھچکا لگا ہے۔اس اقدام کی بین الاقوامی سطح پرمذمت کی جارہی ہے اور اندرون ملک بھی اس کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ طالبان حکومت میں اعلیٰ تعلیم کے وزیرندا محمد ندیم نے اس پابندی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یونیورسٹیوں میں صنفی اختلاط کو روکنا ضروری ہے کیونکہ ان کے مطابق کچھ مضامین میں تعلیم اسلامی اورافغان اقدارکی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ طالبان نے ابتدائی طور پر خواتین اور اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے زیادہ اعتدال پسند حکمرانی کا وعدہ کیا تھا لیکن اس کے باوجود انھوں نے اسلامی قانون یا شریعت کی اپنی تشریح کو وسیع پیمانے پرنافذ کیا ہے۔ انھوں نے لڑکیوں کے مڈل اسکول اور ہائی اسکول جانے پرپابندی عاید کردی ہے، خواتین کو ملازمت کے بیشتر شعبوں سے روک دیا ہے اورانھیں عوامی مقامات پرسرسے پیر تک کے برقع اوڑھنے کا حکم دیا ہے۔ پارکوں اورجم میں بھی خواتین کے داخلے پر پابندی ہے۔افغان معاشرے نے اگرچہ زیادہ تر روایتی رویہ اختیار کیا ہے لیکن گذشتہ دو دہائیوں کے دوران میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کے تحت لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کو تیزی سے اپنایا ہے۔ نجی یونیورسٹیوں کی یونین کے ترجمان محمد کریم ناصری کا کہنا ہے کہ پابندی کی وجہ سے 35 ادارے بند ہونے کا خطرہ ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ طلبہ بھی طالبات کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے کلاسوں اور امتحانات کا بائیکاٹ کررہے ہیں۔ افغانستان میں 24 صوبوں میں 140 نجی جامعات کام کررہی ہیں۔ان میں مجموعی طور پر 200،000 طلبہ وطالبات زیرتعلیم ہیں۔ان میں سے قریباً 60،000-70،000 خواتین ہیں۔ان یونیورسٹیوں میں قریباً 25،000 افراد کام کرتے ہیں۔ ناصری نے کہا:’’جامعات کوخواتین کے لیے بند کرنا ایک روحانی اور مادی دھچکا ہے۔ ہم نے جرآت مندی کے ساتھ حکام کو بتایا کہ اس فیصلے سے ملک پیچھے کی طرف جا رہا ہے اور ہر کوئی پریشان ہے‘‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’’یہ کوئی اچھی صورت حال نہیں ہے، ہر کوئی اس فیصلہ کے بارے میں فکرمند ہے – چاہے وہ اساتذہ، طالب علم، یا انتظامی عملہ ہو‘‘۔ ناصری نے کہا کہ تمام مالی نقصانات کی وجہ سے نجی یونیورسٹیوں کے مالکان نے طالبان کے ایک سینیرعہدہ دارمولوی عبدالکبیراور یونین کو بتایا کہ اگر فیصلہ واپس نہیں لیا گیا توان کے پاس تعلیمی اداروں کوبند کرنے اور اپنی سرمایہ کاری بیرون ملک منتقل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ انھوں نے بندش کے لیے کسی ٹائم فریم کی نشان دہی نہیں کی۔ زیادہ تر یونیورسٹیاں اس وقت موسم سرما کی تعطیلات کی وجہ سے بندہیں۔ خواتین کی جامعات کی تعلیم پرپابندی کے چند روز بعد ایک اورسرکاری حکم نامہ جاری کیا گیا جس میں افغان خواتین سے کہا گیا کہ وہ بین الاقوامی اور ملکی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز)میں کام بند کردیں۔طالبان نے مبیّنہ طور پریہ حکم اس لیے جاری کیاکہ خواتین نے اسلامی حجاب یا حجاب صحیح طریقے سے نہیں پہنا ہوا تھا۔اس پابندی کے خلاف بھی شدید رد عمل کا اظہارکیا گیا ہے۔ بدھ کے روز اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ خواتین عملہ کی کمی کی وجہ سے افغانستان میں اس کے کچھ "وقتی اہم” پروگرام عارضی طور پربندکردیے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے اس بات پر زور دیا کہ اس کے عملہ میں شامل خواتین عملہ ملک میں انسانی ہمدردی کے ردعمل کی کلید ہیں۔ان کی ایسی آبادی تک رسائی ہوسکتی ہے جہاں مرد نہیں جاسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ نے خبردار کیا کہ خواتین پر انسانی ہمدردی کے کاموں پر پابندی عاید کرنے سے تمام افغانوں کے لیے فوری طور پر جان لیوا نتائج برآمد ہوں گے کیونکہ جنگ زدہ افغانستان میں لاکھوں خواتین اوربچوں سمیت 2کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ افراد کو زندہ رہنے کے لیے انسانی امداد کی اشد ضرورت ہے جبکہ ملک اس وقت قحط سالی، معاشی انحطاط، غربت اور شدید سردی کے خطرے سے دوچار ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×