اسلامیات

اسلامی تجارت اور ہمارا معاشرہ

اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، اسلام نے اپنے ماننے والوں کی ہر راہ اور ہر گام پر رہنمائی کی ہے، زندگی کا کوئی ایک پہلو باقی نہیں چھوڑا جس پر قانونی روشنی نہ ڈالی ہو، ماں کی آغوش سے شہر خموشاں کو، کوچ کرنے تک، ایک انسان کو جتنے مسائل کی ضرورت ہے، اسلام نے ان تمام مسائل پر سیر حاصل بحث کی ہے، ہر انسان کو بحیثیت مسلمان ہونے کے بنیادی طور پر دو قسم کے مسائل سے سابقہ پڑتاہے، پہلا حقوق الله، دوسرا حقوق العباد، حقوق اللہ میں نماز، روزہ، زکوۃ، حج، کے مسائل ہیں، حقوق العباد میں، وراثت،تجارت، اور دیگر بہت سے معاملات ہیں، جیسے والدین کا حق، اولاد کا حق، خاندان و رشتہ داروں کا حق، پڑوسی کا حق، اور عام مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق، ان سب میں ایک اہم شعبہ ہے تجارت کا، جو آج ہمارا موضوع سخن ہے؛
تجارت دنیا کی ریڑ کی ہڈی ہے، اگر تجارت نہ ہو، تو دنیا کا چلنا ممکن نہیں، الا یہ کہ خالق کائنات کوئی اور سبیل پیدا کردیں، جب تجارت زندگی کا اتنا اہم حصہ ہے، تو اسلامی قانون اس سے نظر کیونکر چرا سکتاتھا، لہذا اسلام نے اور ہمارے اسلامی قانون دانوں یعنی فقہاۓکرام نے، تجارت کو اسلامی قانون میں ایک مکمل شعبہ، کی حیثیت دی، حدیث کی شاید ہی کوئی ایسی کتاب ہو جسمیں "کتاب البیوع” نہ ہو، اسی طرح چاروں فقہ میں فقہ کی کوئی ایسی کتاب دنیا میں موجود ہی نہیں جسمیں "کتاب البیوع” نہ ہو، اسلامی قانون دانوں نے تجارت پر ایسی ایسی بحث اور ایسے ایسے باریک سے باریک تر نکات بیان کئے ہیں، کہ قیامت تک آنے والے تجارتی مسائل ان نکات کی روشنی میں حل کئے جاسکتے ہیں، امریکہ اور یورپ کی کوئی یونیورسٹی معیشت پر ایسا شعبہ نہیں قائم کی ہوگی جسمیں تجارت پر اتنی مفصل بحث پڑھائی جاتی ہو، جو آج مدارس اسلامیہ کی درسگاہوں میں پڑھائی جاتی ہے؛
مگر اس روشن اور مثل جہاں تاب کے چمکتی ہوئی حقیقت کے، اہل اسلام دیگر قوموں کے مقابلے میں آج تجارت کے باب میں طفل مکتب نظر آتے ہیں، جنکو آسمان سے قانون ملا، وہ در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں، اور جنھوں نے اپنی شریعت خود اپنے ہاتھوں سے گڑھ رکھی ہے، وہ آج بلندی کے چوتھے آسمان پر جلوہ گر نظر آتے ہیں، آخر اسکی کیا وجہ ہے؟ مسلمان تجارت میں پیچھے کیوں ہیں؟ اسکی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہےکہ ہم نے اسلامی تجارت چھوڑکر، مغربی یا دیگر قوموں کی طرز تجارت اختیار کرلی ہے، اور اگر اس وجہ کو ذرا مفصل کیا جاۓ، تو اسکے چار حصے یعنی چار وجہیں نظر آتی ہیں؛
پہلی وجہ، اسلامی ممالک کا تجارت اسلامی کے قوانین پر عمل نہ کرنا، اسلئے کہ تجارت کےطریق ملک کی حکومت طے کرتی ہے، لہذا اسلامی ممالک کا فرض تھا کہ وہ اسلامی قوانین پر عمل در آمد کرواتے اور اسے فروغ دیتے، مگر سوۓ قسمت سے آج ایسا نہیں ہورہاہے، شاید ہی دنیا کا کوئی مسلمان ملک ہوگا، جو اس قانون کا پاس و لحاظ رکھتاہو؛
دوسری وجہ، علماء کا تجارت اسلامی کے مسائل نہ بیان کرنا، یہ ایک تلخ حقیقت ہے، ہم تسلیم کریں اور یا نہ کریں، بیان کا یہ مطلب نہیں کہ فقہ کےموضوع پر بےشمار کتابیں تصنیف کردی گئیں، اور مدارس اسلامیہ کے حوالہ کردیاگیا، یہ ایک بڑی ذمہ داری تھی، جسے ہمارے فقہاء نے بخوبی انجام دیا، اب ہماری یہ ذمہ داری تھی، کہ ہم ان مسائل کو پڑھ لینے اور سمجھ لینے کے بعد دوسروں تک پہنچاتے، مگر آج ہمارا مولوی، دورہ حدیث سے پہلے جو ہدایہ بند کرتاہے، تو شاید ہی کبھی اسے دوبارہ اٹھانےکی زحمت گوارا کرتا ہو، الا ماشاء اللّه، ہمارے برصغیر یعنی پاک و ہند میں اور سارے عالم اسلام میں بھی، یہ روایت خدا جانے کہاں سے چلی آئی ہےکہ عوام میں فقط فضائل بیان کئےجائیں، مسائل سے حتی الامکان اجتناب کیا جاۓ، چنانچہ ہم اپنی چوبیس سالہ زندگی میں نہ جانے کتنے ہی جلسوں میں شرکت کی لیکن آج تک کسی مقرر کی زبانی مسائل سننےکا اتفاق نہیں ہوا، اور ہوا بھی تو بس ضمنی اور روایتی قسم کا، وہ بھی خال خال، نماز، جہاد، اور وطنیت، پر دھواں دار تقاریر ہوتی ہیں اور ہوتی رہی ہیں، لیکن نہ جانے کیوں مسائل سے پرہیز ہے؟ یہ معمہ آج تک کم از کم ہماری سمجھ میں تو نہیں آیا، اسکا خمیازہ ہے، کہ اگر کسی عام مسلمان سے پوچھ لیا جاۓ کہ نماز کے شرائط اور فرائض کیا ہیں، تو اکثر کا جواب نا میں ہوگا، بحیثیت مسلمان کے اسکا فرض ضرور تھا کہ وہ ان مسائل ضروریہ سے واقف ہوتا، مگر سوال یہ ہےکہ ہمارے جلسوں اور ہماری مجلسوں کا پھل کہاں جارہاہے؟ آخر ہمارے ان سالانہ کی عظیم الشان کانفرنسوں سے کیا حاصل ہورہاہے؟ ہم نے کبھی غور کیا؟ اگر نہیں تو کیوں؟
تیسری وجہ، ہم عام مسلمانوں کا اسلامی تجارت کے قوانین نہ معلوم کرنا، اور جہالت کی وجہ سے حرام خوری، اور سود وغیرہ کا بے دریغ استعمال کرنا، ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے اس دور میں ہمارے بوڑھوں اور نوجوان کو یہ بھی معلوم ہوتا ہےکہ کس ایکٹر کی شادی ہونے والی ہےاور کونسا ایکٹر باپ بننے والا ہے، لیکن اپنے ہی دین کا قانون اپنی ہی شریعت کی خبر نہیں! اسے بےحسی اور بے اعتنائی، اور کاہلی کی انتہا نہ کہا جاۓ تو کیا کہا جاۓ؟ جبکہ تجارت اسلامی کیا ہےاور کیوں ہے؟ یہ معلوم کرنا خود اسکا اپنا دینی فریضہ ہے، اور ایسی ضرورت ہےجس پر آخرت تو بعد میں پہلے اسی دنیا کی کامیابی موقوف ہے، لیکن ہم نے اس سے بے اعتنائی برت کر، آخرت تو خراب کی ہے سو کی ہے، یہ دنیا بھی ہمارے دست رس سے سرکتی جارہی ہے؛
چوتھی وجہ، اپنے معاشرے میں اسلامی تجارت، کو فروغ نہ دیناہے، اسلامی قانون بحیثیت ملکی نظام، قائم کرنا، اگرچہ اسلامی حکوت کی ذمہ داری ہے، لیکن غیر اسلامی ممالک میں بھی اگر چاہاجاۓتو عمل کیا جاسکتا ہے، جیسے، سود سے پرہیز کرنا، چوری اور غصب سے اجتناب کرنا، لین دین میں وعدہ خلافی نہ کرنا، معلامت کو ہر طرح کے جھوٹ اور ہر قسم کے ہیر پھیر سے پاک رکھنا، جب بھی بیچنا سچ  بول کر بیچنا، جب بھی خریدنا حتی الامکان نقد خریدنا، ورنہ جلد از جلد دام چکانےکی کوشش کرنا، یہ سب کچھ ہر مسلم معاشرے میں بآسانی رواج دیا جاسکتا ہے، کیا ہمارا معاشرہ مذکورہ خوبیوں سے خالی، اور مذکورہ برائیوں سے بھرا ہوا نہیں ہے؟
اب یہاں سے تجارت، کے چند بنیادی مسائل، کچھ فضائل اور خرید و فروخت کے ضروری قواعد بیان کئے جاتے ہیں، جنکا جاننا ہر مسلمان کےلئے ضروری ہے؛
تجارت کا معنی
تجارت اور خرید و فروخت کو لغت میں بیع کرنا کہتے ہیں، بیع کی تعریف کی جاتی ہے” اخراج الشئ عن المک بمال و ادخال الشئ فی المک بمال” یعنی مال کے عوض کسی چیز کا اپنی ملکیت سے نکلنا، اور مال کے بدلے کسی چیز کا ملکیت میں دال ہونا، یعنی لفظ بیع، بیچنے اور خریدنے دونوں معنوں میں بولا جاتا ہے، اور شریعت کی اصطلاح میں بیع کہتےہیں، "مبادلۃ المال بالمال باتراضی بطریق التجارۃ” یعنی باہمی رضا مندی کے ساتھ تجارت کے طریقہ پر مال کو مال کے بدلہ میں لینا؛ ارشاد خداوندی ہے: ” احل الله البیع وحرم الربوا” کہ اللہ نے بیع یعنی تجارت کو حلال کیا ہے، اور  سود کو حرام کیا ہے؛ امام ترمذی نے ابوسعید خدریؓ کی یہ روایت ذکر کی ہے آنحضرتﷺ نے فرمایا: سچا اور امانت دار تاجر، قیامت کے روز نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کےساتھ ہوگا؛ تاریخ بتلاتی ہےکہ آنحضرتﷺ نے اعلان نبوت سے قبل کئی سال تک تجارت کی ہے، اکابر صحابہؓ میں صدیق اکبرؓ کپڑے کی، فاروق اعظمؓ نے غلہ کی، عثمان غنیؓ نے کپڑے اور کھجور کی، حضرت عباسؓ نے عطر کی، عبدالرحمن ابن عوفؓ نے گھی اور پنیر کی، تجارت کی ہے، اور دیگر صحابہؓ، تابعین، تبع تابعین، محدثین، بھی تجارت کیا کرتےتھے، ملا علی قاری نے شرح نقایہ میں لکھا ہےکہ علماۓ احناف نے فرمایا کہ جہاد کے بعد سب سے بہتر کمائی تجارت ہے، پھر زراعت، پھر صنعت ہے؛
بیع کے ارکان
بیع کے دو رکن ہیں، ایک ایجاب، دوسرا قبول، ایجاب وہ کلام ہے جو پہلےبولاجاۓ، چاہے بائع یعنی بیچنے والے کی طرف سے ہو یا مشتری یعنی خریدنے والے کی طرف سے ہو، اور دوسرا کلام قبول ہے؛
بیع کے جواز کی شرطیں
بیع کے جائز ہونے کے لئے دو شرطیں ہیں، دونوں کا عاقل ہونا، اور مبیع کا مال متقوم اور مقدورالتسلیم ہونا؛
                   بیع کی قسمیں
بیع یعنی خریدو فروخت میں بنیادی طورپر تین چیزیں ہوتی ہیں پہلی چیز، عقد بیع، یعنی خریدوفروخت کا معاملہ کہ ایک شخص کوئی چیز فروخت کرتا ہے اور دوسرا اسے خریدتا ہے، دوسری چیز، مبیع، یعنی وہ چیز جس کو فروخت کیا جاتا ہے اور تیسری چیز، ثمن یعنی قیمت ان تینوں کے اعتبار سے فقہی طور پر بیع کی کچھ قسمیں ہیں۔ چنانچہ نفس معاملہ اور اس کے حکم کہ بیع صحیح ہوئی یا نہیں؟ کے اعتبار سے بیع کی چار قسمیں ہیں
1نافذ 2موقوف 3فاسد 4باطل
بیع نافذ، اس بیع کو کہتے ہیں کہ طرفین میں مال ہو یعنی بیچنے والے کے پاس مبیع ہو اور خریدار کے پاس ثمن یعنی قیمت ہو اور عاقدین یعنی بیچنے والا اور خریدار دونوں عاقل ہوں نیز وہ دونوں بیع یا تو اصالۃ کریں یا وکالۃ اور دلالۃ جس بیع میں یہ تینوں چیزیں پائی جائیں گی وہ بیع بالکل صحیح اور نافذ ہو گی؛
2بیع موقوف، اس بیع کو کہتے ہیں جس میں کوئی شخص کسی دوسرے کی چیز کو اس کی اجازت یا ولایت کے بغیر فروخت کرے، اس بیع کا حکم یہ ہے کہ جب تک کہ اصل مالک کی اجازت و رضا مندی حاصل نہ ہو جائے یہ بیع صحیح نہیں ہوتی، اجازت کے بعد صحیح ہو جاتی؛
3ہے بیع فاسد، وہ بیع ہے جو معاملہ کے اعتبار سے تو درست ہو مگر کسی خاص وجہ سے درست نہ ہو، جیسے ایک شخص نے کسی سے درخت پر لگے کچے پھلوں کی بیع کی اور یہ شرط لگائی کہ اسکے پکنے کےبعد توڑونگا، تو یہ شرط لگانا بیع کو فاسد کردے گا؛
4بیع باطل، اس بیع کو کہتے ہیں جو کو کسی صورت میں درست نہ ہو، مثلا،کسی معدوم چیز کی بیع کرنا، فاسد اور باطل میں فرق یہ ہےکہ مبیع یا ثمن اصلا تو موجود ہوں، مگر وصفا، موجود نہ ہوں، اور بیع باطل یہ ہےکہ مبیع یا ثمن نہ اصلا موجود ہو، نہ وصفا؛
مبیع یعنی فروخت کی جانے والی چیز کے اعتبار سے بھی بیع کی چار قسمیں ہیں۔
1بیع مطلق یعنی بیع العین بالثمن
یہ ہےکہ ایک شخص کوئی چیز مثلا ایک کیلو آٹادے،اور دوسرا شخص اسکے بدلے، بیس روپیہ نقد دے؛
2 بیع مقایضہ، یعنی بیع العین بالعین
یہ ہےکہ ایک شخص کسی کو کپڑا یا کوئی اور چیز دے، دوسرا شخص اسے بدلےمیں غلہ یا کوئی دوسری چیز دے؛
3بیع صرف یعنی بیع الثمن بال ثمن
یہ ہےکہ ایک شخص کسی کو دس روپیے کا نوٹ دے، بدلے میں وہ اسے ایک ایک روپیہ کا سکہ دے، یا کوئی کسی کو ایک دینار یا ڈالر دے، بدلے میں وہ اسے روپیہ دے؛
4بیع سلم، یعنی بیع الدین بالعین؛
یہ ہے کہ بیچنے والا خریدار سے کسی چیز کی قیمت پہلے لے لے اور یہ طے ہو جائے کہ خریدار یہ چیز اتنی مدت مثلاً ایک دو مہینے کے بعد لے لے گا؛
ثمن یعنی قیمت کے اعتبار سے بھی بیع کی چار قسمیں ہیں؛
1بیع مرابحہ، یعنی جتنے کا خریدا ہےاس سے زائد کا پیچنا؛
2بیع تولیہ، یہ ہےکہ بغیر کسی نفع کے بیچنا یعنی جتنے کا خریدا ہے اسی دام میں بیچنا؛
3بیع وضعیہ، یعنی خریدی ہوئی قیمت سے کم میں بیچنا؛
4بیع مساومہ، یعنی ایسی قیمت پر بیچنا جس پر دونوں رضا مند ہوجائیں؛
یہ تمام بیع کی قسمیں ہیں، انکےضمن میں ہر ایک کے الگ الگ تفصیلات ہیں، جنکو بوقت ضرورت معلوم کرنا، اور ان مذکورہ اقسام کو ہر وقت ذہن میں رکھنا ہر خرید و فروخت کرنے والے مسلمان کےلئے ضروری ہے، ہم جب شرعی قوانین پر عمل کرتے ہوۓ تجارت کریں گے، دو اسکے بہت سے فوائد حاصل ہونگے، مثلا، شریعت پر عمل کا ثواب، تجارت میں خیروبرکت، اور معاشرے میں پھیلی ہوئی چوری اور ڈکیتی سے نجات، اللہ ہم سب کو دین و شریعت کی صحیح سمجھ اور اس پر عمل کرنے کی توفیق مرحمت فرماۓ؛

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×